Mafhoom-ul-Quran - Al-Anfaal : 5
كَمَاۤ اَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِنْۢ بَیْتِكَ بِالْحَقِّ١۪ وَ اِنَّ فَرِیْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ لَكٰرِهُوْنَۙ
كَمَآ : جیسا کہ اَخْرَجَكَ : آپ کو نکالا رَبُّكَ : آپ کا رب مِنْ : سے بَيْتِكَ : آپ کا گھر بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ وَاِنَّ : اور بیشک فَرِيْقًا : ایک جماعت مِّنَ : سے (کا) الْمُؤْمِنِيْنَ : اہل ایمان لَكٰرِهُوْنَ : ناخوش
(ان لوگوں کو اپنے گھروں سے اسی طرح نکلنا چاہیے تھا) جس طرح آپ کے رب نے آپ کو تدبیر کے ساتھ آپ کے گھر سے نکالا اور اس وقت مومنوں کی ایک جماعت ناخوش تھی۔
جنگ کے ابتدائی اسباب تشریح : ان آیات کے حوالے سے جنگ کے ابتدائی مراحل کا ذکر اسباب کے ساتھ کردینا ضروری ہے۔ ہوا اس طرح کہ جب سے نبی اکرم ﷺ ہجرت کرکے مدینہ آئے تھے کفار کو ان کی یکجہتی اور مضبوطی بری طرح کھٹک رہی تھی۔ اسی بات کے پیش نظر کہ مسلمان کہیں ایک مضبوط طاقت نہ بن جائیں اہل مکہ اکثر ان کو تنگ کرتے رہتے اسی کوشش میں کرزبن جابر کی سر کردگی میں مدینہ کے قریب چرنے والے مویشیوں کو لوٹا گیا۔ غرض ہر وقت اسی کوشش میں رہتے کہ کسی طرح مسلمانوں کو تہس نہس کردیا جائے۔ نبی اکرم ﷺ نے بھی کچھ نہ کچھ تدابیر کر رکھی تھیں کیونکہ یہ فیصلہ کن مرحلہ تھا اور کفر و اسلام کی بقاء و ترقی کا پہلا ایسا معرکہ تھا کہ جو بھی جیت گیا وہ چھا جائے گا۔ انہی حالات میں یہ واقعہ پیش آیا۔ سن 2 ہجری کی بات ہے کہ ابو سفیان ایک بہت بڑا تجارتی قافلہ لیکر شام سے مکہ واپس آرہا تھا۔ اس تجارتی قافلے کے محافظ چالیس پچاس آدمی تھے، ایک ہزار بار بردار اونٹوں پر مشتمل تھا اور تقریباً پچاس ہزار دینار کا مال لے کر مکہ جارہا تھا۔ ابوسفیان کو خطرہ محسوس ہوا کہیں مسلمان ان پر حملہ نہ کردیں اور ان کے محافظ بھی کم تھے، لہٰذا اس نے جیسے ہی قافلہ حدود حجاز میں داخل ہوا ایک ہوشیار آدمی ضمضم بن عمرو کو مکہ روانہ کردیا یہ پیغام دے کر کہ حفاظت کے لیے آجاؤ ہمیں مسلمانوں سے خطرہ ہے۔ اس پر مکہ کے ایک ہزار جوان پوری طرح مسلح ہو کر مدینہ کی طرف چل پڑے، ان میں 600 زرہ پوش اور سو گھڑ سوار تھے۔ اب ایک طرف تجارتی قافلہ تھا اور دوسری طرف بڑا جنگی لشکر۔ ان کا مقابلہ اگر اس وقت مسلمان نہ کرتے تو پھر پورے عرب میں ان کو کہیں پناہ نہ ملتی، لہٰذا نبی اکرم ﷺ نے مسلمانوں سے رائے لی تو اس پر مہاجرین میں سے مقداد بن اسود ؓ نے کہا کہ ” ہم بنی اسرائیل کی طرح آپ کو اکیلا لڑنے کے لیے ہرگز نہ کہیں گے۔ “ پھر انصار میں سے سعدبن عبادہ ؓ نے عرض کی کہ ” اللہ کی قسم ہم میں سے کوئی بھی یہ گوارا نہ کرے گا کہ آپ اکیلے جا کر لڑیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو ہم سے وہ سب کچھ دکھا دے گا جس سے آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوجائیں گی۔ “ اس کے بعد کفار سے مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اور رسول اللہ ﷺ نے انتہائی خوشی سے فرمایا کہ ” اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ فرمایا ہے کہ ان دونوں جماعتوں میں سے ایک جماعت پر ہمارا غلبہ ہوگا۔ دونوں جماعتوں سے مراد، ایک ابوسفیان کا تجارتی قافلہ اور دوسرا مکہ سے آنے والا لشکر ہے۔ پھر فرمایا کہ اللہ کی قسم میں گویا اپنی آنکھوں سے مشرکین کی قتل گاہ کو دیکھ رہا ہوں۔ “ (تفسیر ابن کثیر، مظہری) آیت کے آخر میں کچھ ناراضگی کا اظہار ان الفاظ میں کیا گیا کہ گویا ان لوگوں کو زبردستی موت کی طرف لے جایا جا رہا ہے۔ یہ اس لیے کہا گیا۔ کیونکہ بظاہر مسلمان انتہائی کم تعداد میں تھے اور پھر لڑائی کے سامان سے بھی محروم تھے کیونکہ مسلمان تعداد میں صرف 313 تھے، دو گھوڑے، ستر اونٹ اور 60 زرہیں تھیں۔ صحابہ کا اس بےسروسامانی کی حالت میں نکلنا انکی طبعیتوں کے لیے ایسے ناگوار تھا جیسے وہ موت کی طرف دھکیلے جارہے ہوں، مگر کیونکہ نبی ﷺ کا حکم اور حق کے لیے لڑائی تھی اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ۔ اس لیے تمام صحابہ کرام بخوشی بلکہ بلند ترین جذبات کے ساتھ دشمن کے مقابلہ میں نکل کھڑے ہوئے۔ آگے دیکھیے اللہ کی قدرتیں۔
Top