Madarik-ut-Tanzil - Al-Anfaal : 5
كَمَاۤ اَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِنْۢ بَیْتِكَ بِالْحَقِّ١۪ وَ اِنَّ فَرِیْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ لَكٰرِهُوْنَۙ
كَمَآ : جیسا کہ اَخْرَجَكَ : آپ کو نکالا رَبُّكَ : آپ کا رب مِنْ : سے بَيْتِكَ : آپ کا گھر بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ وَاِنَّ : اور بیشک فَرِيْقًا : ایک جماعت مِّنَ : سے (کا) الْمُؤْمِنِيْنَ : اہل ایمان لَكٰرِهُوْنَ : ناخوش
(ان لوگوں کو اپنے گھروں سے اس طرح نکلنا چاہئے تھا) جس طرح تمہارے پروردگار نے تم کو تدبیر کے ساتھ اپنے گھر سے نکالا اور (اس وقت) مومنوں کی ایک جماعت ناخوش تھی۔
آیت 5: کَمَآ اَخْرَجَکَ رَبُّکَ مِنْ 7 بَیْتِکَ (جیسا کہ آپ کے رب نے آپ کو گھر سے روانہ کیا) : کَمَا کا کاف محل نصب میں واقع ہے کیونکہ یہ فعل مقدر کے مصدر کی صفت ہے تقدیرعبارت اس طرح ہے قل الا نفال استقرت للّٰہ والرسول وثبتت مع کر اہتھم ثباتا مثل اخراج ربک ایاک من بیتک و ھم کارھون کہ دیں کہہ غنائم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (ﷺ) کیلئے پختہ ہوچکے اور ان کی ناپسندیدگی کے باوجود ثابت ہوچکے پورے طور پر ثابت ہونا جبکہ آپ کو آپ کے رب نے آپ کے گھر سے نکالا اس حال میں کہ وہ اس کو ناپسند کر رہے تھے۔ مِنْم بَیْتِکَ نمبر 1۔ مدینہ میں حجرات نبوت یا، نمبر 2۔ مدینہ منورہ مراد ہے۔ کیونکہ وہ آپ کا بیت ہجرت و مسکن ہے اور بیتک سے اختصاص اسی طرح ہے جیسا کہ کسی گھر والے کو اس کے گھر سے خاص کیا جائے۔ بِالْحَقِّ (مصلحت کے ساتھ) ایسا نکلنا جو حکمت و صواب پر مبنی تھا۔ وَاِنَّ فَرِیْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ لَکٰرِھُوْنَ (اور مسلمانوں کی ایک جماعت اس کو گراں سمجھتی تھی) : نمبر 1۔ یہ موضع حال میں ہے تقدیر عبارت یہ ہے۔ اَخْرَجَکَ فی حال کر اہتہم آپ کو نکالا ان کی کراہت کی حالت میں اور اس کا واقعہ اس طرح ہے۔ (نمبر 2۔ جملہ مستانفہ ہونا ظاہر ہے کیونکہ مدینہ میں سے نکلنا تو کسی کو ناگوار نہ تھا) اسبابِ بدر : قریش کا ایک قافلہ بہت بڑے تجارتی مال کیساتھ شام سے واپس لوٹ رہا تھا۔ اس کی حفاظت کیلئے چالیس سواروں کا دستہ تھا۔ قافلہ کی قیادت ابوسفیان بن حرب کے ہاتھ میں تھی۔ حضرت جبرئیل ( علیہ السلام) نے نبی اکرم ﷺ کو بتلایا آپ نے صحابہ ؓ کو خبر دی۔ قافلہ میں زرکثیر کی بناء پر قافلے کا سامنا مناسب معلوم ہوا (تاکہ جہادی ضرورتوں میں اس مال کو صرف کیا جاسکے) نیز قافلے کی حفاظت پر معمولی دستہ متعین تھا۔ مسلمانوں کا مدینہ سے خروج : مسلمان جب مدینہ منورہ سے نکلے تو قریش کو اسی وقت اطلاع مل گئی۔ ابوجہل تمام اہل مکہ کو لے کر چڑھ دوڑا۔ یہ کوچ تھا۔ مثال مشہور ہے۔ لا فی العیر ولافی النفیر۔ اس کو بتلایا گیا کہ قافلہ تو طریق ساحل پر بچ نکلا تم لوٹ چلو ! اس نے انکار کردیا۔ وہ اپنے ساتھیوں کو لے کر بدر کی طرف چل دیا۔ بدر ایک پانی کا نام ہے۔ جہاں سال میں ایک مرتبہ بازار لگتا تھا۔ جبرئیل ( علیہ السلام) آئے اور آکر بتلایا یارسول اللہ، اللہ تعالیٰ نے آپ سے دو میں سے ایک گروہ پر کامیابی کا وعدہ فرمایا۔ خواہ قافلہ ہو یا لشکر قریش نبی اکرم ﷺ نے صحابہ کرام سے مشورہ کیا اور فرمایا۔ قافلہ پسند ہے یا لشکر ؟ انہوں نے جواب دیا قافلہ زیادہ پسند ہے بہ نسبت لشکر کا سامنا کرنے کے۔ آپ ﷺ کا چہرہ مبارک بدل گیا۔ پھر آپ نے بات لوٹائی کہ قافلہ تو ساحل بحر پر جا چکا اور یہ ابو جہل آرہا ہے۔ انہوں نے کہا یا رسول اللہ آپ قافلے کا پیچھا کریں۔ دشمن کو چھوڑیں۔ صحابہ ؓ کے بیانات : آپ ﷺ کے غصہ کو دیکھ کر ابوبکر و عمر ؓ کھڑے ہوئے اور بہت خوب بیان کیا پھر سعد بن عبادہ ؓ نے کہا آپ اپنے معاملے کو دیکھ کر کر گزریں اللہ کی قسم۔ اگر آپ عدن ابین تک جائیں تب بھی انصارکا ایک آدمی بھی پیچھے نہ رہے گا۔ پھر مقداد بن عمرو ؓ نے کہا اس پر چلئے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا۔ آپ ہمیں جہاں لے جائیں جانے کو تیار ہیں۔ ہم اس طرح نہ کہیں گے جیسا بنی اسرائیل نے موسیٰ ( علیہ السلام) کو کہا : فَاذْہَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَآ اِنَّا ہٰہُنَا قَاعِدُوْنَ ( المائدہ : 24) بلکہ ہم کہتے ہیں : اذھب انت وربک فقاتلا انا معکما مقاتلون ! آپ اپنے رب کی مدد سے چلئے ہم آپ کے ساتھ ملکر لڑیں گے۔ جب تک ایک پلک جھپکنے والی آنکھ باقی ہے۔ اس پر آپ ﷺ بہت خوش ہوئے۔ حضرت سعد بن معاذ ؓ نے کہا آپ اپنے ارادہ کو کر گزریں مجھے اس ذات کی قسم ہے جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے۔ اگر آپ ہمیں اس سمندر پر لے جائیں اور اس میں آپ داخل ہوجائیں تو ہم بھی آپ کے ساتھ داخل ہوجائیں گے۔ ایک آدمی بھی ہم میں سے پیچھے نہ رہے گا۔ اللہ تعالیٰ کی برکت سے ہمیں لے کر چلیں۔ رسول اللہ ﷺ سعد کے قول سے خوش ہو کر نشاط میں آگئے۔ اور فرمایا اللہ تعالیٰ کی برکت کے ساتھ چلو تم خوش ہوجائو۔ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے ایک گروہ پر غلبہ کا وعدہ فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی قسم گویا اب میں کفار کی قتل گاہوں کو آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں۔ بعض صحابہ کرام ؓ کی طرف سے ناپسندیدگی کی وجہ وَاِنَّ فَرِیْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ لَکٰرِہُوْنَ سے جھگڑا کر رہے تھے تو وہ قافلے کو لشکر پر ترجیح کی بات تھی۔ بَعْدَمَا تَبَیَّنَ رسول اللہ ﷺ کے بتلا دینے کے باوجود کہ ان کو فتح ہوگی۔ جدال : سے مراد ان کا یہ قول ہے کہ ہم لشکر کے لئے تیار ہو کر نہیں نکلے۔ آپ ہمیں بتلا دیتے کہ ہم تیاری کرلیتے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ لڑائی کو ناپسند کرتے تھے۔
Top