Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Anfaal : 5
كَمَاۤ اَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِنْۢ بَیْتِكَ بِالْحَقِّ١۪ وَ اِنَّ فَرِیْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ لَكٰرِهُوْنَۙ
كَمَآ : جیسا کہ اَخْرَجَكَ : آپ کو نکالا رَبُّكَ : آپ کا رب مِنْ : سے بَيْتِكَ : آپ کا گھر بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ وَاِنَّ : اور بیشک فَرِيْقًا : ایک جماعت مِّنَ : سے (کا) الْمُؤْمِنِيْنَ : اہل ایمان لَكٰرِهُوْنَ : ناخوش
(ان لوگوں کو اپنے گھروں سے اس طرح نکلنا چاہئے تھا) جس طرح تمہارے پروردگار نے تم کو تدبیر کے ساتھ اپنے گھر سے نکالا اور (اس وقت) مومنوں کی ایک جماعت ناخوش تھی۔
5۔ معتبر سند سے تفسیر ابن جریر میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے اور تفسیر ابن ابی حاتم اور تفسیر ابن مردویہ میں حضرت ابوایوب انصاری ؓ سے جو شان نزول اس آیت کی بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ ابوسفیان کی شام سے مال لے کر راستہ میں ہونے کی خبر سن کر جب مدینہ سے حضرت ﷺ نکلے اور ہزار آدمیوں کی جمعیت سے قریش ابوسفیان کی مدد کو آگئے تو اکثر مسلمانوں نے آنحضرت سے یہ عرض کیا کہ ہم تو فقط ابوسفیان کا قافلہ لوٹنے کی نیت سے مدینہ سے نکلے تھے لڑائی کے لئے حسب دل خواہ اس وقت ہم میں طاقت نہیں ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی حاصل معنے آیت کے یہ ہیں کہ جس طرح لڑائی کے ختم ہونے کے بعد تم نے غنیمت کے مال میں جھگڑا کیا اور اللہ تعالیٰ نے حق حق اس کا فیصلہ کردیا اسی طرح لڑائی سے پہلے بھی تم نے لڑائی کے چھیڑنے اور نہ چھیڑنے میں جھگڑا کیا تھا اور فقط شام کے ملک سے ابوسفیان کے ساتھ جو قافلہ آرہا تھا اسی کا لوٹ لینا تمہارا مقصود تھا مگر اللہ تعالیٰ نے تدبیر سے تم کو لوٹ کا مال بھی دلوا دیا اور جس ارادہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو مدینہ سے اس کی طرف نکالا تھا وہ ارادہ بھی پورا کردیا کہ کافروں کا زیر اور تم کو فتح مند کردیا اس تقریر سے معلوم ہوگیا کہ آیت میں گھر سے نکالنے کا مقصد مدینہ سے بدر کی طرف کا سفر ہے ہجرت کے معنے جو بعضے مفسروں نے کئے ہیں وہ معنے مضمون آیت سے بعید ہیں اسی واسطے اکثر مفسروں نے آیت کی یہی تفسیر بیان کی ہے کہ گھر سے مطلب یہاں مدینہ کا گھر ہے مکہ کا نہیں ہے صحیح مسلم کے حوالہ سے انس ؓ بن مالک کی حدیث اوپر گذرچ کی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ بدر کی لڑائی سے ایک رات پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ ﷺ کو یہ جتلا دیا تھا کہ اس لڑائی میں مشرکین مکہ میں سے بڑے بڑے سرکش لوگ مارے جاویں گے بلکہ ان لوگوں کی لاشوں کے پڑے رہنے کے مقامات بھی اللہ کے رسول ﷺ کو بتلائے تھے۔ آیت ٹکڑے اور حدیث کے ملانے سے یہ مطلب قرار پاتا ہے کہ وہ درست کام یہ تھا کہ اس لڑائی میں آخر کو اسلام کا غلبہ ہوگا اور مخالفوں کے بڑے بڑے سرکش لوگ اس لڑائی میں مارے جاویں گے اس لئے مسلمانوں کی ایک جماعت کا اس لڑائی پر رضا مند نہ ہونا مرضی الہی کی برخلاف ہے۔ یہ جماعت انصار میں کے کچھ لوگوں کی تھی ان لوگوں کو لڑائی کے شروع ہوجانے میں جو تامل تھا اس قصہ کا حاصل یہ ہے کہ ابوسفیان نے بہت سا مال تجارت کا شام کے ملک سے خریدا تھا اور پھر تیس آدمیوں کا قافلہ وہ مال لے کر مکہ کو جارہا تھا آنحضرت ﷺ نے جب یہ خبر سنی تو آپ نے مسلمانوں کو اس قافلے کے لوٹنے پر آمادہ کیا اور اسی رادہ سے کچھ اوپر تین سوآدمیوں کو ساتھ لے کر مدینہ سے آپ باہر نکلے۔ ابوسفیان نے جب یہ خبر سنی تو مکہ کو جلدی سے ایک قاصد روانہ کیا اور قریش کو اس حال کی اطلاع دے کر اپنے قافلہ کی مدد چاہی۔ مکہ سے قریش میں کے ہزار آدمی مقام بدر تک ابوسفیان کی مدد کو آگئے اب ابوسفیان کا قافلہ تو سمندر کے کنارہ کے راستہ سے مکہ کو چلا گیا اور مسلمانوں کا تھوڑی سی فوج کو ہزار آدمیوں کی فوج سے لڑائی شروع کرنے کی نوبت آئی اسی لڑائی کے شروع کرنے میں انصار کے بعضے لوگوں نے وہ عذر کیا جس کا ذکر آیت کے آگے کے ٹکڑے کی تفسیر میں آتا ہے :۔
Top