Baseerat-e-Quran - Al-Anfaal : 5
كَمَاۤ اَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِنْۢ بَیْتِكَ بِالْحَقِّ١۪ وَ اِنَّ فَرِیْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ لَكٰرِهُوْنَۙ
كَمَآ : جیسا کہ اَخْرَجَكَ : آپ کو نکالا رَبُّكَ : آپ کا رب مِنْ : سے بَيْتِكَ : آپ کا گھر بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ وَاِنَّ : اور بیشک فَرِيْقًا : ایک جماعت مِّنَ : سے (کا) الْمُؤْمِنِيْنَ : اہل ایمان لَكٰرِهُوْنَ : ناخوش
(اے نبی ﷺ جیسا کہ آپ کے پروردگار نے آپ کو آپ سے گھر سے حق کے ساتھ (بدر کی طرف) روانہ کیا۔ بیشک اہل ایمان میں سے ایک جماعت اس کو گراں سمجھ رہی تھی۔
لغات القرآن۔ اخرج۔ نکالا۔ بیت۔ گھر۔ لکرھون۔ البتہ برا سمجھنے والے ہیں۔ ناگوار محسوس کرنے والے ہیں۔ یجادلون۔ وہ جھگڑتے ہیں۔ تبین۔ کھل گیا۔ کھل چکا۔ واضح ہوگیا۔ کانما۔ جیسے۔ گویا کہ وہ۔ یساقون۔ وہ ہانکے جا رہے ہیں۔ ینظرون۔ وہ دیکھ رہے ہیں۔ یعد۔ وہ عدد کرتا ہے۔ احدی۔ کوئی ایک۔ الطائفین۔ دو جماعتیں۔ تو دون۔ تم پسند کرتے ہو۔ غیر ذات الشوکۃ۔ کانٹانہ لگے۔ ان یحق۔ یہ کہ وہ ثابت کردے۔ یقطع۔ وہ کاٹتا ہے۔ دابر۔ (دبر) ۔ جڑ ۔ بنیاد۔ یبطل۔ وہ باطل کرتا ہے۔ مٹاتا ہے۔ کرہ۔ برا لگا۔ تشریح : درحقیقت غزوہ بدر ہر اعتبار سے اس قدر فیصلہ کن تاریخی واقعہ ہے جس نے کفار مکہ کو نہ صرف ذلت آمیز شکست سے دوچار کردیا تھا بلکہ غیر متوقع حالات نے ان کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی دوسری طرف صورت حال یہ تھی کہ یہ غزوہ 17 /رمضان المبارک کو ہوا۔ یہ مسلمانوں کا پہلا رمضان تھا اور اس سے پہلے باقاعدہ جنگ بھی نہ ہوئی تھی اس لئے یہ بہت ہی نازک وقت تھا مسلمانوں کا فقر و فاقہ، وطن سے بےوطنی، بےسروسامانی ، ایک ہزار فوج سے مقابلہ اور وہ بھی مدینہ منورہ سے باہر کافی دور۔ ایک طرف ابو سفیان کی قیادت میں مدینہ سے گزرنے والا وہ قافلہ تھا جو مکہ والوں کی دولت سے مالا مال تھا۔ دوسری طرف مکہ سے آنے والا وہ لشکر تھا جو انتقام اور اپنی طاقت و قوت پر نازل کرتا ہوا بڑھا چلا آ رہا تھا۔ اللہ نے فرمادیا تھا کہ ان دونوں میں سے جس طرف بھی قدم بڑھائے جائیں گے فتح و کامرانی مسلمانوں کا مقدر ہوگی۔ لیکن اس کا فیصلہ کیسے ہوگا خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے اپنے جاں نثار صحابہ کرام ؓ سے مشورہ کیا۔ یہ ایک فطری بات ہے کہ جب بھی کسی بات میں بالخصوص نازک حالات میں مشورہ کیا جاتا ہے تو رائے کا اختلاف ضرور ہوا کرتا ہے اور مشورہ کی جان بھی یہی ہوتی ہے کہ ہر شخس کو اپنی بات کہنے کی آزادی حاصل ہو۔ چناچہ صحابہ کرام ؓ نے بھی پورے خلوس اور آزادی سے اپنی اپنی رائے پیش کی۔ ان صحابہ کرام ؓ میں جہاں وہ اولو العزم لوگ تھے جنہوں نے بےخوف و خطر اس آگے میں کودنے کا فیصلہ کرلیا تھا وہیں وہ حضرات بھی تھے جو کسی انجانے خوف سے پریشان تھے اور آسان راستہ کی طرف مائل تھے مسلسل پریشانیوں کی وجہ سے وہ اس طرف مائل تھے کہ سب سے پہلے ابو سفیان کے قافلے کو ٹھکانے لگا دیا جائے اور پھر کفار مکہ سے مقابلہ کیا جائے یا کوئی ایسا راستہ تلاش کرلیا جائے جس میں کانٹا بھی نہ لگے اور مسئلہ بھی حل ہوجائے۔ یہ تو مشورے کا ایک اختلافی انداز تھا لیکن جب نبی کریم ﷺ نے مال و دولت سے لدے ہوئے قافلہ کو چھوڑ کر کفار مکہ سے لشکر کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا تو پھر کسی نے اختلاف نہیں کیا بلکہ عظیم ایثار و قربانی کا وہ عمل پیش کیا جس پر کائنات کا ذرہ ذرہ فخر کرتا رہے گا۔ جس سے کفار کی کمر بھی ٹوت گئی اور ساری دنیا کے سامنے حق حق بن کرچمک اٹھا اور باطل باطل ہوکر رہ گیا اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں ارشاد فرمایا۔ اللہ نے فرمایا کہ اس نے اپنے نبی ﷺ کو اسی حق و صداقت کی سربلندی کے لئے اپنے گھر سے نکلوایا اور میدان جنگ میں پہنچایا تاکہ حق کا بول بالا ہو۔ یہ بات اگرچہ کچھ لوگوں کو گراں تھی اور وہ ایسا مجھ رہے تھے کہ جیسے جانتے بوجھتے وہ موت کے منہ میں دھیکلے جا رہے ہوں حالانکہ اللہ نے اپنے نبی ﷺ سے اس بات کا وعدہ کرلیا تھا کہ آج یہ جاں نثار جس طرف بھی قدم بڑھائیں گے فتح و کامرانی ان کے قدم چومے گی لیکن اللہ کی مرضی یہ تھی کہ اہل ایمان لشکر کفار سے مقابلہ کرکے اپنا ایثار و قربانی پیش کریں تاکہ کفر کو بنیادوں سے اکھاڑ پھینکا جائے اور حق و صدات کی شمع کو اس طرح روشن کردیا جائے کہ سچ سچ بن کر جگمگا اٹھے اور جھوٹ باطل ہو کر رہ جائے خواہ یہ واقعہ کسی کو کتنا بھی ناگوار کیوں نہ ہو۔
Top