Tadabbur-e-Quran - Al-Anfaal : 5
كَمَاۤ اَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِنْۢ بَیْتِكَ بِالْحَقِّ١۪ وَ اِنَّ فَرِیْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ لَكٰرِهُوْنَۙ
كَمَآ : جیسا کہ اَخْرَجَكَ : آپ کو نکالا رَبُّكَ : آپ کا رب مِنْ : سے بَيْتِكَ : آپ کا گھر بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ وَاِنَّ : اور بیشک فَرِيْقًا : ایک جماعت مِّنَ : سے (کا) الْمُؤْمِنِيْنَ : اہل ایمان لَكٰرِهُوْنَ : ناخوش
اسی طرح کی بات اس وقت ظاہو ہوئی جب تمہارے رب نے ایک مقصد کے ساتھ تم کو گھر سے نکلنے کا حکم دیا اور مسلمانوں میں سے ایک گروہ کو یہ بات ناگوار تھی
كَمَآ اَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِنْۢ بَيْتِكَ بِالْحَقِّ ۠ وَاِنَّ فَرِيْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ لَكٰرِهُوْنَ۔ کَمَا کے مواقع استعمال : کَما عربی زبان میں کذالک، کدابک، اور کما، بسا اوقات واقعہ کی مماثلت واقعہ سے ظاہر کرنے کے لیے بھی آتے ہیں۔ ایسی صورت میں متعین الفاظ کے اندر ان کا مشبہ اور مشبہ بہ نہیں ہوتا بلکہ بحیثیت مجموعی واقعہ کے اندر ہوتا ہے۔ کذلک بقرہ کی آیت 143 میں اسی نوعیت سے آیا ہے۔ امرؤالقیس اپنے مشہور قصیدہ میں پہلے اپنی ایک سرگزشت عشق بیان کی اس کے بعد کدابک من ام الحویرث قبلھا، کہہ کر اپنی اسی طرح کی دوسری سرگزشتوں کا ذکر شروع کردیا کہ اسی طرح کا ماجرا اس کو فلاں اور فلاں کے ساتھ بھی پیش آچکا ہے۔ بقرہ آیت 151 سے اوپر تحویل قبلہ کا ذکر ہوا پھر بدوں کسی تقریب و تمہید کے ارشاد کما ارسلنا فیکم رسولا منکم، یہ بھی اسی طرح کا اسلوب بیان ہے یعنی تمہارے قبلہ کو اہل کتاب سے الگ کر کے خدا نے تم کو ایک علیحدہ امت کی حیثیت سے ممتاز کردیا۔ اسی طرح کا کَمَا یہ زیر بحث آیت میں بھی ہے۔ اوپر جیسا کہ مذکورہ ہوا، ان کمزور قسم کے مسلمانوں کے رویہ پر یہ گرفت فرمائی ہے جو بدر میں حاصل شدہ مال غنیمت کی تقسیم پر معترض ہوئے تھے۔ جب ان کی یہ کمزور زیر بحث آگئی تو تعلیم و تربیت کا تقاضا یہ ہوا کہ ان لوگوں کی ایک اور کمزوری کی طرف بھی توجہ دلا دی جائے جو اس سے پہلے ان سے اس وقت ظاہر ہوئی جب آنحضرت ﷺ نے مدینہ سے بدر کے لیے نکلنے کا ارادہ فرمایا ہے۔ گویا اس وقت تو ان کی غلطی نظر انداز فرما دی گئی کہ حکمت کا تقاضا یہی تھا لیکن جب اسی طرح کی غلطی ان سے پھر صادر ہوئی تو اس پر گرفت فرمائی گئی اور ساتھ ہی سابق غلطی کی طرف بھی اشارہ فرما دیا گیا کہ لوگ متنبہ ہوجائیں کہ یہ بیماری کہاں سے چلی ہے اور اگر اس کی اصلاح نہ ہوئی تو کہاں تک پہنچ سکتی ہے۔ بدر کے لیے مسلمانوں کا نکلنا ایمائے الٰہی سے ہوا۔ اَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِنْۢ بَيْتِكَ بِالْحَقِّ۔ اَخْرَجَكَ رَبُّكَ کے الفاظ اس امر پر نہایت واضح دلیل ہیں کہ بدر کے لیے آنحضرت ﷺ کا نکلنا اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوا تھا۔ آگے آیت 42۔ 43 میں یہ اشارہ موجود ہے کہ آپ ﷺ کو رویا میں شام کی طرف سے قافلہ قریش کی واپسی اور مکہ کی طرف سے فوج قریش کی آمد کا مشاہدہ کرا دیا گیا تھا اور حملہ آور فوج کی حقیقت بھی واضح کردی گئی تھی کہ معنوی اعتبار سے وہ کچھ زیادہ وزنی نہیں ہوگی بلکہ مسلمانوں سے مغلوب ہوجائے گی۔ بلکہ روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسی رویا میں حضور کو قریش کے خاص خاص لیڈروں کے قتل ہونے کی جگہیں بھی دکھا دی گئیں اور اسی روای کی ہدایت کے بموجب نبی ﷺ نکلے اس وجہ سے اس کو اخرجک ربک من بیتک کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ آگے آیت 42 سے یہ بات بھی واضح ہوگی کہ اسی خدائی رہنمائی کی برکت تھی کہ مسلمان بالکل ٹھیک اس وقت قریش کی فوج کے مقابلہ کے لیے بدر کے مقام پر پہنچ گئے جب کہ وادی کے ایک سرے پر ان کی فوج تھی اور نیچے سے قافلہ گزر رہا تھا۔ بدر کے لیے نکلنے کا اصل مقصد : بالحق یعنی اللہ تعالیٰ نے نکلنے کا یہ حکم ایک مقصد حق کے لیے دیا تھا۔ اس مقصد حق کی وضاحت آگے یوں فرما دی ہے۔ يُرِيْدُ اللّٰهُ اَنْ يُّحِقَّ الْحَقَّ بِكَلِمٰتِهٖ وَيَقْطَعَ دَابِرَ الْكٰفِرِيْنَ (اللہ تعالیٰ اپنے حکموں سے یہ چاہتا ہے کہ حق کا بول بالا کرے اور کافروں کی جڑ کاٹ دے) لِيُحِقَّ الْحَقَّ وَيُبْطِلَ الْبَاطِلَ وَلَوْ كَرِهَ الْمُجْرِمُوْنَ (تاکہ حق کا بول بالا کرے اور باطل کو نابود کرے مجرموں کے علی الرغم) اس سے معلوم ہوا کہ آنحضرت ﷺ کا نکلنا ابتدا ہی سے اللہ تعالیٰ کے حکم کے تحت ایک مقصد حق کے لیے تھا اور وہ مقصد حق یہ تھا کہ دین کا بول بالا ہو اور کفر کی جڑ کٹے۔ ظاہر ہے کہ کفر کی جڑ کٹ سکتی تھی تو قریش کی ہزیمت سے کٹ سکتی تھی نہ کہ ان کے کسی تجارتی قافل کو لوٹ لینے سے اس وجہ سے سیرت و مغازی کی کتابوں کی وہ روایت قرآن کے الفاظ کے صریحاً خلاف ہے جس میں یہ بیات ہوا ہے کہ نعوذباللہ آنحضرت ﷺ قریش کے اس تجارتی قافلے پر حملہ کرنا چاہتے تھے جو ابو سفیان کی سر کردگی میں شام سے واپس آ رہا تھا۔ مسلمانوں کے اندر کے ایک کمزور گرہ کی طرف اشارہ : وَاِنَّ فَرِيْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ لَكٰرِهُوْنَ۔ فَرِيْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ سے کمزور قسم کے مسلمانوں کی وہ ٹولی مراد ہے جس کا کردار ابتدائے سورة ہی سے زیر بحث ہے اور جس نے مال غنیمت سے متعلق بعد میں وہ سو الا بھی اٹھائے جن پر اوپر کی آیات میں تبصرہ ہوا ہے۔ فریقا کے لفظ سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ ان لوگوں کی تعداد کچھ زیادہ نہیں تھی، بس ایک مختصر سی جماعت تھی۔ ان لوگوں نے جب یہ سنا ہوگا کہ کفار کی دو جماعتیں آرہی ہیں جن میں سے ایک سے مقابلہ درپیش ہے تو یہ بات تو وہ فوراً تاڑ گئے ہوں گے کہ یہ مقابلہ بہرحال فوج سے ہونا ہے نہ کہ تجارتی قافلہ سے اس وجہ سے ان لوگوں پر دہشت طاری ہوئی اور یہ دہشت ان کے اس ضعف اعتماد کا نتیجہ تھی جس کی طرف اوپر آیت 2 میں اشارہ ہوا ہے۔
Top