Tafseer-Ibne-Abbas - Al-Anfaal : 5
كَمَاۤ اَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِنْۢ بَیْتِكَ بِالْحَقِّ١۪ وَ اِنَّ فَرِیْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ لَكٰرِهُوْنَۙ
كَمَآ : جیسا کہ اَخْرَجَكَ : آپ کو نکالا رَبُّكَ : آپ کا رب مِنْ : سے بَيْتِكَ : آپ کا گھر بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ وَاِنَّ : اور بیشک فَرِيْقًا : ایک جماعت مِّنَ : سے (کا) الْمُؤْمِنِيْنَ : اہل ایمان لَكٰرِهُوْنَ : ناخوش
(ان لوگوں کو اپنے گھروں سے اس طرح نکلنا چاہئے تھا) جس طرح تمہارے پروردگار نے تم کو تدبیر کے ساتھ اپنے گھر سے نکالا اور (اس وقت) مومنوں کی ایک جماعت ناخوش تھی۔
(5۔ 6) یہ امر بھی ایسا ہی ہے جیسا کہ محمد ﷺ آپ کو آپ کے پروردگار نے مدینہ منورہ سے قرآن حکیم کے ساتھ یا جنگ کے ارادہ سے (بدر کی طرف) روانہ کیا اور ایک جماعت لڑائی کو شاق اور ناگوار سمجھ رہی تھی اور اس کے باوجود کہ ان پر یہ بات واضح ہوچکی تھی کہ آپ بغیر حکم خداوندی کے کوئی کام نہیں کرتے، وہ آپ سے جنگ کے بارے میں بطور مشورہ جھگڑ رہے تھے۔ شان نزول : (آیت) ”کما اخرجک ربک من“۔ (الخ) ابن ابی حاتم ؒ اور ابن مردویہ ؒ نے حضرت ابو ایوب انصاری ؓ سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ ہم مدینہ منور میں تھے ہمیں اطلاع ملی کہ ابوسفیان کا قافلہ آرہا ہے، رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کیا ارادہ ہے، ممکن ہے اللہ تعالیٰ ہمیں غنیمت عنایت فرمائے، چناچہ ہم نکلے اور ایک یا دو دن چلے کہ ابوجہل لشکر لے کر بدر میں آگیا آپ نے ارشاد فرمایا تم لوگوں کی کیا رائے ہے، ہم نے عرض کیا اس قوم سے قتال کی تو ہماری اندر طاقت نہیں، ہم تو صرف قافلہ کی نیت سے آئے تھے، اس پر حضرت مقداد ؓ نے فرمایا : ایسا مت کہو، جیسا کہ حضرت موسیٰ ؑ کی قوم نے کہا تھا کہ ”تم اور تمہارا اللہ جاکر لڑو“۔ ہم یہیں بیٹھے ہیں۔“۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری، اور ابن جریر ؒ نے حضرت ابن عباس ؓ سے اسی طرح روایت کیا ہے۔
Top