Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-Anfaal : 5
كَمَاۤ اَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِنْۢ بَیْتِكَ بِالْحَقِّ١۪ وَ اِنَّ فَرِیْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ لَكٰرِهُوْنَۙ
كَمَآ
: جیسا کہ
اَخْرَجَكَ
: آپ کو نکالا
رَبُّكَ
: آپ کا رب
مِنْ
: سے
بَيْتِكَ
: آپ کا گھر
بِالْحَقِّ
: حق کے ساتھ
وَاِنَّ
: اور بیشک
فَرِيْقًا
: ایک جماعت
مِّنَ
: سے (کا)
الْمُؤْمِنِيْنَ
: اہل ایمان
لَكٰرِهُوْنَ
: ناخوش
جس طرح کہ نکالا تجھ کو تیرے پروردگار نے تیرے گھر سے حق کے ساتھ اور بیشک ایک گروہ ایمان والوں میں سے اس کو ناپسند کرتا تھا
ربط آیات : اس سورة کی پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی جماعت کے نظم وضبط کا قانون بیان فرمایا۔ پھر کامل الایمان لوگوں کی پانچ صفات کا ذکر کیا اور آخر میں ان انعامات کا ذکر کیا جو ان کو ملنے والے ہیں۔ یہ تین انعامات درجات کی بلندی ، گناہوں کی معافی اور باعزت روزی ہیں آج کا درس بھی اسی آیت کے ساتھ مربوط ہے کہ یہ انعامات اسی طرح ۔۔ یقینی ہیں جس طرح اے پیغمبر ! آپ کو آپ کے پروردگار نے مدینے سے نکال کر فتح سے ہمکنار کیا یعنی جنگِ بدر میں کامیابی عطا فرمائی۔ ” کما “ بطور تشبیہ آج کا درس لفظ کما سے شروع ہو رہا ہے جس کا معنی ” جس طرح “ ہے مفسرین کرام نے اس کی بہت سے توجیہات کی ہیں۔ بعض فرماتے ہیں کہ یہاں پر یہ لفظ تشبیہ کے طور پر آیا ہے۔ یاد کرو کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جنگ بدر کے لیے بےسروسامانی کی حالت میں نکالا تھا پھر فتح سے ہمکنار کیا ، جس طرح یہ بات برحق ہے ، اسی طرح مال غنیمت کی تقسیم بھی اللہ کے حکم کے مطابق آپ کے ذمے حق ہے پہلے درس میں بیان ہوچکا ہے کہ غزوہ بدر میں حاصل ہونے والے مال غنیمت کی تقسیم کی متعلق بعض مسلمانوں میں اختلاف رائے پیدا ہوگیا تھا۔ نوجوان مجاہد اس پر اپنا حق جتاتے تھے اور عمر رسیدہ غازیاں اپنا حق فائق سمجھتے تھے اور پھر دونوں فریق اپنی اپنی مرضی کی تقسیم چاہتے تھے ، پھر اللہ نے یہ فیصلہ نازل کیا کہ مال غنیمت پر کسی کا حق نہیں ہے بلکہ یہ تو اللہ کا حق ہے جس نے اسباب پیدا فرما کر تمہیں فتح دلائی اور مال دیا ، اب اس مال کی تقسیم بھی اللہ ہی کا حق ہے جو اپنے نبی کی معرفت اسے حق کے ساتھ تقسیم کر دیگا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے جنگ بدر کے لیے روانگی کے وقت سے تشبیہ دی ہے کہ جب تمہیں مدینہ طیبہ سے اس مہم پر تمہارے گھروں سے نکالا تو اس وقت بھی اہل ایمان کے دو گروہ بن گئے تھے جن میں سے ایک گروہ بےسروسامانی کی حالت میں جنگ کو ناپسند کرتا تھا مگر اللہ تعالیٰ کا فیصلہ یہ تھا کہ مسلمانوں کو اس بےسروسامانی کی حالت مٰبن ہی دشمن پر غالب کرتا ہے ، چناچہ اللہ نے اپنا وعدہ پورا کردیا ، مسلمانوں کو فتح عطا کی اور مال غنیمت بھی دلایا۔ اسی طرح اللہ نے فرمایا کہ مال غنیمت کے معاملہ میں امض کما امرک اللہ جس طرح اللہ نے آپ کو حکم دیا ہے اس کے مطابق چل پڑیں اور تقسیم کردیں اس میں کسی فریق کی پسند یا ناپسند کا خیال نہ کریں اس طرح گویا گھر سے نکلنے کو مال غنیمت کے ساتھ تشبیہ ہوگئی۔ ” کما “ بطور علت : بعض فرماتے ہیں کہ یہاں پر کما بطور سبب یا علت کے آیا ہے ۔ اور وہ اس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ مال غنیمت کے معاملہ میں اللہ تعالیٰ کا فیصلہ اور حکم ہی جاری ہونا بہتر اور اس کی حکمت کے مطابق ہے کیونکہ آپ کو گھر سے نکالنا ہی مال غنیمت کے حصول کا ذریعہ بنا۔ جب مسلمان مدینہ طیبہ سے نکلے تھے تو اس وقت تو جنگ کے ارادے سے نہیں نکلے تھے بلکہ بعد میں حالات کے تقاضے کے مطابق اہل ایمان کو کفار کے بالمقابل صف آراء ہونا پڑا۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے اسباب پیدا فرمائے ۔ آپ کو میدانِ جنگ میں لا کھڑا کیا اور پھر مال غنیمت بھی دیا تو اب تقسیم بھی اسی کے حکم کے مطابق کریں اور ولوگوں کی ذاتی آراء کی پروا نہ کریں کیونکہ تمہارا گھروں سے نکالنا ہی تو مال غنیمت کا سبب بنا حالانکہ تم میں سے ایک گروہ لڑائی پر آمادہ ہی نہیں تھا۔ غزوہ بدر کا پس منظر : ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” کما اخرجک ربک من بیتک بالحق “ جس طرح نکالا آپ کے پروردگار نے آپ کو آپ کے گھر سے حق کے ساتھ یہاں پر مفسرین نے بہت سی باتیں بیان کی ہیں ، مگر واضح بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اہل ایمان کو گھروں سے نکالنا ، دشمنوں سے ٹکرانا اور پھر فتح دلانا اس کی تدبیر اور مصلحت کے مطابق تھا اس واقعہ کے پس منظر یہ ہے کہ مکی زندگی میں حضور ﷺ اور صحابہ کرام ؓ کفار کے ہاتھوں بڑی تکالیف اٹھاتے تھے چونکہ اس وقت ابھی تک تنظیم نہیں تھی اس لیے جہاد کا حکم بھی نہیں تھا اور اللہ کا حکم یہی تھا کہ اپنے ہاتھوں کو روکے رکھو پھر جب مدنی زندگی میں آکر مسلمانوں نے قوت جمع کرلی تو اللہ تعالیٰ نے جہاد کی اجازت دے دی پھر نہ صرف اپنا دفاع کرنے کا حکم ہوا بلکہ آگے بڑھ کر دشمن پر کاری ضرب لگانے کی بھی اجازت مل گئی غزوہ بدر کا واقعہ 17 رمضان المبارک 2 ھ بمطابق مارچ 624 ئ میں پیش آیا اس واقعے سے پہلے بھی کفار کے ساتھ چند ایک معمولی جھڑپیں ہوچکی تھیں جن میں سے امام بخاری نے ذات العشیرہ کے غزوہ کا ذکر بھی کیا ہے مگر سب سے پہلے بڑا معرکہ بدر میں ہی پیش آیا۔ اہل اسلام کی مدینہ میں ہجرت کے بعد بھی مشرکین مکہ کی اسلام دشمنی میں کمی نہ آئی تھی بلکہ وہ مسلمانوں کو زک پہنچانے کے لیے ہمیشہ موقی کی تلاش میں رہتے تھے۔ اس سے پہلے جب کچھ مسلمان حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے تو اس موقع پر بھی کفار نے آپنے آدمی شاہ حبشہ کے پاس بھیج کر اسے بدظن کرنے کی کوشش کی تھی ، تحفے تحائف بھی بھیجے مگر ان کی دال نہ گلی اسی طرح وہ اہل مدینہ کو بھی ہراساں کرتے رہتے تھے کہ تم نے مسلمانوں کو پناہ دی ہے لہٰذا ہم مسلمانوں کے ساتھ تمہیں بھی نیست ونابود کردیں گے۔ کفار مکہ نے یہودیوں کے ساتھ مل کر بھی مسلمانوں کے خلاف کئی ایک سازشیں کیں مگر کامیاب نہ ہو سکے بہر حال مشرکین اہل ِ اسلام کو مدینہ میں سکون وچین کی زندگی نہیں بسر کرنے دیتے تھے بلکہ ہر وقت ڈراتے دھمکاتے رہتے تھے۔ مشرکین کا تجارتی قافلہ : ان حالات میں مسلمان بھی اپنے دفاع اور کفار پر ضرب لگانے کے منصوبے بناتے رہتے تھے مکہ کے تاجر پیشہ لوگوں کا معمول تھا کہ وہ سردی کے موسم میں یمن جیسے گرم علاقے کی طرف تجارت کے لیے جاتے تھے اور گرمیوں میں شام و فلسطین جیسے سرد علاقوں کا سفر اختیار کرتے تھے اس دوران مشرکین مکہ نے پچاس ہزار دینار کے تجارتی سامان کے ساتھ اپنا ایک قافلہ شام کی طرف روانہ کیا یہ قافلہ ڈیڑھ سو اونٹوں پر مشتمل تھا جس نگرانی کے لیے ابو سفیان اور عمرو ابن العاص کی نگرانی میں چالیس آدمی ہمراہ تھے قافلہ روانہ کرتے وقت مشرکین نے یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ اس قافلے کا سارا منافع مسلمانوں کے خلاف تیاری پر خرچ کیا جائے گا۔ جب یہ قافلہ شام سے واپس مکہ کی طرف آرہا تھا تو اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی اس کی خبر حضور ﷺ کو دی دی۔ آپ نے مدینے کے مسلمانوں کو جمع کیا اور اس خبر سے باخبر کیا اور یہ بھی بتایا کہ اس قافلے کا سارا منافع تمہارے خلاف استعمال ہونے والا ہے ، لہٰذا یہ طے پایا کہ اس قافلے کا تعاقب کیا جائے اور پیشتر اس کے کہ یہ مکہ پہنچ کر ہمارے خلاف استعمال ہو ، اسے راستے ہی میں پکڑ لیا جائے ، چونکہ اس موقع پر کفار کے ساتھ کسی جنگ کا پروگرام نہیں تھا لہٰذا مسلمان سامانِ حرب کے بغیر ہی قافلے کے تعاقب میں نکل کھڑے ہوئے ، اس مہم میں سب کا شریک ہونا بھی ضروری نہیں تھا لہٰذا جتنے آدمی بھی جاسکے روانہ ہوگئے ، اس کے لیے زور نہ دیا گیا۔ ادھر قافلے والے بھی چوکنا تھے۔ انہوں نے بھی جاسوس چھوڑ رکھے تھے۔ ان کو اطلاع مل گئی کہ مسلمان ان کے قافلہ پر حملہ آور ہونے والے ہیں چناچہ ابو سفیان نے ایک تیز رفتار اونٹنی سوار مدد کے لیے مکہ بھیجا اس نے عربوں کے دستور کے مطابق اونٹنی کے ناک کان کاٹ دیئے ، کجاوہ الٹا رکھ دیا اور اپنے کپرے آگے پیچھے سے پھاڑ دیئے وہ لوگ سخت خطرے کے وقت ایسے ہی کیا کرتے تھے۔ چناچہ ابو سفیان کا قاصد جب اس حال مکہ پہنچا تو وہاں ہلچل مچ گئی ابو جہل نے خانہ کعبہ کی چھت پر چڑھ کر اعلان کیا کہ مسلمان تمہارے تجارتی قافلے کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں لہٰذا اس کی مدد کے لیے تیار ہو جائو۔ اس طرح مسلمانوں سے مقابلے اور قافلے کی مدد کے لیے مکہ میں زور وشور سے تیاری شروع ہوگئی عاتکہ کا خواب : حضورع کی چار پھوپھیاں تھیں ان میں سے حضرت صفیہ ؓ تو بالیقین ایمان لے آئیں مگر دو کفر کی حالت میں ہی مریں عاتکہ کے متعلق دونوں قسم کی روایات ہیں مگر زیادہ امکان یہی ہے کہ وہ بھی ایمان لے آئی تھیں جن دنوں مکہ میں مسلمانوں کے خلاف غم وغصہ کی آگ بھڑک رہی تھی ، عاتکہ نے خواب دیکھا کہ ایک فرشتہ آسمان سے اترا ہے اس نے پہاڑ سے ایک پتھر لے کر اس طریقے سے مارا ہے کہ وہ ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا اور مکہ کے ہر گھر میں ایک ایک ٹکڑا گرا ہے اس نے یہ خواب اپنے بھائی عباس ؓ کے سامنے بیان کیا جنہوں نے آگے دوسروں کو بتایا تو اس خواب کا عام چرچا ہوگیا اس پر ابو جہل کو بڑا غصہ آیا کہنے لگا پہلے اس خاندان کے مرد نبوت کا دعوی کرتے تھے اب عورتیں بھی مدعی بن رہی ہیں یہ سب فضول ہے کسی وہم میں مبتلا نہ ہو مسلمانوں کے خلاف نکل کھڑے ہو اس طرح اس نے اپنے آدمیوں کو زبردستی ساتھ ملا لیا۔ اسلامی لشکر کی روانگی : ادھر اللہ کا نبی 313 یا 319 کی جمعیت کے ساتھ تجارتی قافلے کے تعاقب میں نکلا جب وادی ذفران میں پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے حضور ﷺ کو حالات سے باخبر کردیا ۔ قافلے والوں کو مسلمانوں کی تیاری کی خبر پہنچ چکی تھی ، انہوں نے معروف راستہ چھوڑ کر ساحل سمندر کا راستہ اختیار کرلیا جو کہ اگرچہ قدرے دراز تھا مگر نسبتا محفوظ تھا۔ ادھر ابو جہل بھی مشرکین مکہ کے لشکر کے ساتھ نکلا اس کا مقصد تو تجارتی قافلے کی حفاظت تھا مگر جب وہ بدر کے مقام پر پہنچے تو مسلمانوں کی جماعت وادی زفران میں پہنچ چکی تھی جب مسلمانوں کو خبر ملی کہ قافلہ ساحل سمندر کی طرف ہوگیا ہے اور ابو جہل مکہ سے کمک لے کر چل نکلا ہے تو حضور ﷺ نے اس مقام پر صحابہ کرام ؓ سے آئندہ پروگرام کے لیے مشورہ فرمایا اور ساتھ ہی اہل اسلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر دے دی کہ دو باتوں میں سے ایک ضرور تمہیں حاصل ہوگی یا تو قافلہ تمہارے ہاتھ آئے گا یا تمہیں میدانِ جنگ میں فتح حاصل ہوگی اس موقع پر حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور حضرت عمررض تو حضور ﷺ کے ہر حکم پر لبیک کہنے کو تیار تھے مگر انصار صحابہ کرام ؓ کی رائے کچھ مختلف تھی وہ جنگ کے ارادے سے تو نکلے نہیں تھے آدمی بھی تھوڑے تھے اور اسلحہ بھی ہمراہ نہ تھا ، لہٰذا ان کی رائے یہ تھی جنگ کا خطرہ مول نہ لیا جائے اور اس کی بجائے تجارتی قافلے پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کی جائے کیونکہ اس کی حفاظت کے لیے چالیس آدمی تھے جنہیں آسانی کے ساتھ مغلوب کیا جاسکتا ہے۔ مشورہ اور حتمی فیصلہ : بہرحال جب حضور ﷺ نے صحابہ ؓ سے مشورہ طلب کیا تو بعض نے تصدیق کی اور بعض خاموش رہے آپ باربار فرماتے تھے کہ اس معاملہ میں مشورہ دو اسی موقع پر حضرت مقداد بن عمرو ؓ جو مہاجرین میں سے تھے کھڑے ہوئے اور عرض کیا ، حضور ﷺ ! آپ جس طرح حکم دیں گے ہم کر گزریں گے آپ کے ایک اشارے پر ہم خشکی اور سمندر میں ہر جگہ جانے کو تیار ہیں اور ہر مشکل سے مشکل مقام میں گھس جائیں گے ہم حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھیوں کی طرح آپ سے یہ نہیں کہیں گے (آیت) ” فاذھب انت وربک فقاتلا انا ھھنا قٰعدون “ (المائدہ) یعنی تم اور تمہارا خدا جا کر لڑو۔ ہم تو یہیں بیٹھیں گے ہم تو اپنی جان پر کھیل جائیں گے آپ نے اس پیش کش کی ستائش فرمائی۔ اس کے بعد پھر فرمایا ، لوگو ! مشورہ دو آپ کا روائے سخن انصارِ مدینہ کی طرف تھا ، اس پر حضرت سعد بن معاذ ؓ اور بعض دوسرے صحابہ ؓ نے تقاریر کیں اور عرض کیا ، حضور ﷺ ! ہم آپ کے ہر حکم پر سر تسلیم خم کریں گے آپ کے اشارے پر ہم عدن ابین تک جانے کو تیار ہیں جو کہ مکہ سے بہت دور ہے حضور ﷺ انصارِ مدینہ کی طرف سے بھی مطمئن ہوگئے اور اس پر خوشی کا اظہار کیا۔ اور فرمایا سیروا علی برکۃ اللہ چلو اللہ کی برکت سے یعنی بدر کی طرف چلو جہاں ابو جہل اپنے لشکر کے ساتھ پہنچ چکا تھا اسی سورة میں ساری تفصیلات آ رہی ہیں کہ مشرکین نے بدر کے مقام پر پہنچ کر اچھی جگہ پر پہلے ہی قبضہ کرلیا تھا ، تا ہم بڑے گھمسان کا معرکہ ہوا اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو نصرت عطا کی ، پوری دنیا میں مسلمانوں کی دھاک بیٹھ گئی اور اس طرح اہل ایمان کا غلبہ شروع ہوگیا۔ یہاں پر اللہ تعالیٰ نے اسی واقعہ کو بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا اس کی تدبیر اور مشیت میں کافروں کو مغلوب کرنا تھا حالانکہ (آیت) وان فریقا من المومنین لکرھون اہل ایمان میں سے ایک گروہ اس کو ناپسند کرتا تھا۔ وہ کہتے تھے کہ بےسروسامانی کی حالت میں جنگ کیسے کرسکیں گے بعض کہتے تھے کہ جنگ کی بجائے قافلے کا تعاقب کرنا چاہیے (آیت) یجادلونک فی الحق وہ حق بات میں آپ سے جھگرا کرتے ہیں (آیت) بعد ما تبین اس کے بعد کہ بات واضح ہوچکی ہے (آیت) کانما یساقون الی الموت گویا کہ وہ چلائے جا رہے اس موت کی طرف (آیت) وھم ینظرون اور وہ دیکھ رہے ہیں مطلب یہ کہ ان پر یہ بات واضح کردی گئی تھے کہ دونوں میں سے ایک فائدہ ضرور تم کو حاصل ہوگا یا تو قافلہ ہاتھ آئے گا یا جنگ میں فتح ہوگی اس کے باوجود انہیں میدان جنگ کی طرف جاتے ہوئے موت نظر آرہی تھی۔ اللہ کا وعدہ : فرمایا (آیت) واذ یعدکم اللہ اس وقت کو یاد کرو جب اللہ تعالیٰ نے تمہارے ساتھ وعدہ کیا تھا (آیت) احدی الطائفتین انھا لکم کہ دو گروہوں میں سے ایک ضرور تمہارا ہے یعنی تجارتی مال ملے گا یا فتح حاصل ہوگی ۔ فرمایا اس کے باوجود ( آیت) وتودون ان غیر ذات الشوکۃ تکون لکم تم پسند کرتے تھے کہ ایسی چیز حاسل ہو جس میں کانٹا نہ لگے۔ یعنی تمہیں قافلے کا مال مل جائے اور جنگ کی مشقت نہ برداشت کرنی پڑے ( آیت) ویرید اللہ ان یحق الحق بکلمٰتہ اور اللہ تعالیٰ چاہتا تھا کہ اپنے کلمات یعنی ارشادات کے ساتھ حق کو ثابت کر دے ( آیت) ویقطع دابر الکفرین اور کافروں کی جڑ کاٹ کے رکھ دے۔ حق و باطل کا فیصلہ : یہ اس لیے ( آیت) لیحق الحق ویبطل الباطل تا کہ ثابت کر دے حق کو یعنی ایمان اور توحید کا غلبہ ہوجائے اور کفر اور شرک کا باطل عقیدہ مغلوب ہوجائے اللہ تعالیٰ اسے ذلیل و خوار کر دے۔ ( آیت) ولو کرہ المجرمون اگرچہ یہ بات مجرموں اور گنہگاروں کو ناگوار ہی گزرے مگر اللہ کہ مشیت میں یہی ہے کہ کفر وشرک کا قلع قمع ہو اور اسلام کا بول بالا ہو اس کے بعد بدر میں پیش آنے والے جستہ جستہ واقعات کا ذکر اور فتح اسلام کا بیان آئے گا اللہ تعالیٰ نے وہ اصول بھی بیان کردیے ہیں جو جنگ کی صورت میں قابل عمل ہوتے ہیں اس دوران اللہ تعالیٰ نے جس طریقے سے اہل ایمان کی مدد فرمائی اس کا ذکر بھی آئے گا۔
Top