Al-Quran-al-Kareem - Al-Qasas : 56
اِنَّكَ لَا تَهْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ١ۚ وَ هُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِیْنَ
اِنَّكَ : بیشک تم لَا تَهْدِيْ : ہدایت نہیں دے سکتے مَنْ اَحْبَبْتَ : جس کو تم چاہو وَلٰكِنَّ اللّٰهَ : اور لیکن (بلکہ) اللہ يَهْدِيْ : ہدایت دیتا ہے مَنْ يَّشَآءُ : جس کو وہ چاہتا ہے وَهُوَ : اور وہ اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے بِالْمُهْتَدِيْنَ : ہدایت پانے والوں کو
بیشک تو ہدایت نہیں دیتا جسے تو دوست رکھے اور لیکن اللہ ہدایت دیتا ہے جسے چاہتا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں کو زیادہ جاننے والا ہے۔
اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ۔۔ : رسول اللہ ﷺ تمام لوگوں کے بیحد خیر خواہ تھے اور ان کے ایمان لانے کی شدید خواہش رکھتے تھے۔ خصوصاً آپ کے دل میں اپنے قرابت داروں کے متعلق صلہ رحمی کے جذبے کی وجہ سے یہ خواہش اور بھی زیادہ تھی۔ اس مقام پر اہل کتاب کے ان لوگوں کا ذکر آیا جو کتاب اللہ کی تلاوت سنتے ہی ایمان لے آئے، تو قدرتی طور پر آپ ﷺ کی طبیعت کا اس بات سے متاثر ہونا لازمی تھا کہ نسبتاً دور والے ایمان لانے میں بازی لے گئے اور میرے قرابت دار حتیٰ کہ عزیز چچا ابو طالب اس نعمت سے محروم رہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو تسلی دی کہ اس معاملے میں آپ کی دعوت یا خیر خواہی میں کوئی کمی نہیں، بلکہ بات یہ ہے کہ ہدایت آپ کے اختیار میں نہیں، اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے اور وہی زیادہ جانتا ہے کہ ہدایت پانے والے کون ہیں، اہل کتاب ہیں یا عرب، اقارب ہیں یا دور کے رشتہ دار۔ (بقاعی) کسی اور کو علم ہی نہیں کہ ہدایت کسے دینی ہے، تو وہ ہدایت کیا دے گا ؟ تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ آیت رسول اللہ ﷺ کے چچا ابو طالب کے بارے میں اتری۔ 3 سعید بن مسیب کے والد بیان کرتے ہیں : (لَمَّا حَضَرَتْ أَبَا طَالِبٍ الْوَفَاۃُ جَاءَ ہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ فَوَجَدَ عِنْدَہُ أَبَا جَہْلٍ وَعَبْدَ اللّٰہِ بْنَ أَبِيْ أُمَیَّۃَ بْنِ الْمُغِیْرَۃِ ، فَقَالَ أَيْ عَمِّ ! قُلْ لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ ، کَلِمَۃً أُحَاجُّ لَکَ بِہَا عِنْدَ اللّٰہِ ، فَقَالَ أَبُوْ جَہْلٍ وَعَبْدُ اللّٰہِ بْنُ أَبِيْ أُمَیَّۃَ أَتَرْغَبُ عَنْ مِلَّۃِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ؟ فَلَمْ یَزَلْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَعْرِضُہَا عَلَیْہِ ، وَیُعِیْدَانِہِ بِتِلْکَ الْمَقَالَۃِ حَتّٰی قَالَ أَبُوْ طَالِبٍ آخِرَ مَا کَلَّمَہُمْ عَلٰی مِلَّۃِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ، وَأَبٰی أَنْ یَّقُوْلَ لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ ، قَالَ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاللّٰہِ ! لَأَسْتَغْفِرَنَّ لَکَ مَا لَمْ أُنْہَ عَنْکَ ، فَأَنْزَلَ اللّٰہُ : (مَا كَان للنَّبِيِّ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ يَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِكِيْنَ وَلَوْ كَانُوْٓا اُولِيْ قُرْبٰى) وَ أَنْزَلَ اللّٰہُ فِيْ أَبِيْ طَالِبٍ ، فَقَالَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ : (اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ) [ بخاري، التفسیر، باب قولہ : (إنک لا تھدی من أحببت۔۔) 4772 ] ”جب ابو طالب کی وفات کا وقت آیا تو رسول اللہ ﷺ اس کے پاس آئے اور اس کے پاس ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ بن مغیرہ کو پایا۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ”اے چچا ! تو ”لا الٰہ الا اللہ“ کہہ دے، یہ ایسا کلمہ ہے جس کے ذریعے سے میں تیرے لیے اللہ کے پاس جھگڑا کروں گا۔“ تو ابو جہل اور عبداللہ بن ابی امیہ نے کہا : ”کیا تو عبدالمطلب کی ملت سے بےرغبتی کرتا ہے۔“ چناچہ رسول اللہ ﷺ اس کے سامنے یہی بات پیش کرتے رہے اور وہ دونوں اپنی وہی بات دہراتے رہے، حتیٰ کہ ابوطالب نے ان سے آخری بات جو کی وہ یہ تھی : ”عبد المطلب کی ملت پر (مر رہا ہوں)۔“ اور اس نے ”لا الٰہ الا اللہ“ کہنے سے انکار کردیا۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”اللہ کی قسم ! میں ہر صورت تیرے لیے استغفار کروں گا، جب تک مجھے منع نہ کردیا گیا۔“ تو اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی : (مَا كَان للنَّبِيِّ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ يَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِكِيْنَ وَلَوْ كَانُوْٓا اُولِيْ قُرْبٰى) [ التوبۃ : 113 ] ”اس نبی اور ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے، کبھی جائز نہیں کہ وہ مشرکوں کے لیے بخشش کی دعا کریں، خواہ وہ قرابت دار ہوں۔“ اور اللہ عزوجل نے ابوطالب کے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی اور رسول اللہ ﷺ کو مخاطب کر کے فرمایا : (اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ) ”بیشک تو ہدایت نہیں دیتا جسے تو دوست رکھے اور لیکن اللہ ہدایت دیتا ہے جسے چاہتا ہے۔“ ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے چچا سے کہا : ”تو ”لا الٰہ الا اللہ“ کہہ دے، میں قیامت کے دن تیرے لیے اس کی شہادت دوں گا۔“ اس نے کہا : ”اگر یہ نہ ہوتا کہ قریش کے لوگ مجھے عار دلائیں گے کہ اسے اس پر (موت کی) گھبراہٹ نے آمادہ کیا تو میں اس کے ساتھ تیری آنکھ ٹھنڈی کردیتا۔“ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : (اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ) [ مسلم، الإیمان، باب الدلیل علٰی صحۃ إسلام۔۔ : 42؍25 ] 3 بعض لوگوں کو اصرار ہے کہ ابوطالب اسلام پر فوت ہوا، ان کا کہنا یہ ہے کہ عبدالمطلب ملت ابراہیم پر تھے اور ”عَلٰی مِلَّۃِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ“ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ”میں ملت ابراہیم پر فوت ہو رہا ہوں“ لہٰذا وہ مسلمان تھا۔ مگر حدیث کے الفاظ ”اور اس نے لا الٰہ الا اللہ کہنے سے انکار کردیا“ کے بعد اس تاویل کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ 3 ابو طالب کو رسول اللہ ﷺ سے بیحد محبت تھی، اس نے ہر طرح سے آپ کی حفاظت اور آپ کا دفاع کیا، مگر اس کی محبت طبعی یعنی قرابت اور نسب کی وجہ سے تھی، ایمانی محبت نہ تھی، اس لیے ہدایت نصیب نہ ہوسکی۔ 3 اگرچہ یہ آیت ابوطالب کے بارے میں اتری مگر اصولی طور پر اس کا حکم عام ہے اور اس میں ہر وہ شخص شامل ہے جس کے متعلق رسول اللہ ﷺ کی خواہش تھی کہ وہ ایمان لے آئے، مگر اس نے کفر پر مرنے کو ترجیح دی۔ مزید دیکھیے سورة توبہ (113)۔ 3 یہاں فرمایا : (اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ) اور دوسری جگہ فرمایا : (وَاِنَّكَ لَـــتَهْدِيْٓ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ) [ الشورٰی : 52 ]”اور بلاشبہ تو یقیناً سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔“ پہلی آیت میں ہدایت سے مراد منزل مقصود پر پہنچا دینا ہے۔ یہ صرف اللہ تعالیٰ کا کام ہے، یہ کسی اور کا کام نہیں۔ دوسری آیت میں ہدایت سے مراد راستہ دکھانا ہے، یہ کام رسول اللہ ﷺ بھی سر انجام دیتے تھے۔
Top