Ruh-ul-Quran - Al-Qasas : 56
اِنَّكَ لَا تَهْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ١ۚ وَ هُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِیْنَ
اِنَّكَ : بیشک تم لَا تَهْدِيْ : ہدایت نہیں دے سکتے مَنْ اَحْبَبْتَ : جس کو تم چاہو وَلٰكِنَّ اللّٰهَ : اور لیکن (بلکہ) اللہ يَهْدِيْ : ہدایت دیتا ہے مَنْ يَّشَآءُ : جس کو وہ چاہتا ہے وَهُوَ : اور وہ اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے بِالْمُهْتَدِيْنَ : ہدایت پانے والوں کو
اے پیغمبر ! آپ جسے چاہیں اسے ہدایت نہیں دے سکتے بلکہ اللہ ہی جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور وہی ہدایت پانے والوں کو خوب جانتا ہے
اِنَّـکَ لاَ تَھْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰـکِنَّ اللّٰہَ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآئُ ج وَھُوَ اَعْلَمُ بِالْمُھْتَدِیْنَ ۔ (القصص : 56) (اے پیغمبر ! آپ جسے چاہیں اسے ہدایت نہیں دے سکتے بلکہ اللہ ہی جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور وہی ہدایت پانے والوں کو خوب جانتا ہے۔ ) آنحضرت ﷺ کو تسلی گزشتہ آیات کی تشریح میں ہم عرض کرچکے ہیں کہ یہودونصاریٰ میں سے جن مخلص لوگوں نے ناموافق حالات کے باوجود اسلام قبول کیا اور اس کی صداقت کی بلندبانگ شہادت دی۔ قرآن کریم نے ان کی تعریف و تحسین فرمائی ہے۔ اور مفسرین نے اس حوالے سے حبشہ سے آئے ہوئے وفد کی قبولیتِ اسلام کی جو تفصیل بیان کی ہے ہم نے اس کا بھی ذکر کیا ہے۔ لیکن ان کی قبولیتِ اسلام سے نصیحت حاصل کرنے کی بجائے جس طرح اشرافِ قریش نے نامناسب رد عمل کا اظہار کیا، یقینا آنحضرت ﷺ کو اس سے دکھ ہوا ہوگا اور آپ ﷺ کے دل میں بار بار یہ خیال آیا ہوگا کہ دوسرے ملکوں سے آئے ہوئے لوگ جس صداقت کو نہایت بےتابی اور اشتیاق سے قبول کررہے ہیں وہ اس بات کی شہادت ہے کہ یہ پڑھے لکھے لوگ قرآن کریم کی حقیقت کو پاچکے ہیں اور ان کی کتابوں نے نبی آخرالزمان کے بارے میں جو پیشگوئیاں کی تھیں ان پر یقین رکھتے ہیں۔ کاش ! اشرافِ قریش بھی اس حقیقت کو سمجھتے اور دولت ایمان سے مالامال ہوجاتے۔ لیکن یہ ایسے بدنصیب لوگ ہیں کہ اس حقیقت کو قبول کرنے کی بجائے شب و روز اس کا راستہ روکنے میں لگے ہوئے ہیں۔ پیش نظر آیت کریمہ میں آنحضرت ﷺ کے اسی تأثر کے پیش نظر آپ ﷺ کو تسلی دی گئی ہے اور قریش کے ایمان نہ لانے سے آپ ﷺ کو جو صدمہ ہوا اس کی شدت کو کم کرنے کی سعی فرمائی گئی ہے۔ یاد رہے کہ عربی زبان میں ہدایت کا لفظ مختلف مفاہیم میں استعمال ہوتا ہے اور ہم مختلف مواقع پر اس کا تذکرہ بھی کرچکے ہیں۔ تفصیل میں جائے بغیر اتنا جان لینا ضروری ہے کہ ہدایت کا ایک معنی اراء الطریق یعنی راستہ دکھانا ہے۔ اور دوسرا معنی ایصال الی المطلوب یعنی منزل پر پہنچا دینا ہے۔ پہلے معنی کے اعتبار سے آنحضرت ﷺ یقینا ھادی ہیں۔ اور دوسرے معنی کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ ہدایت دینے والا ہے۔ اس لحاظ سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس آیت میں جس ہدایت کا انکار کیا جارہا ہے وہ دوسرے معنی یعنی ہدایت یافتہ بنا دینے کے مفہوم میں ہے۔ اور یہ بات بلاشک و شبہ کہی جاسکتی ہے کہ آنحضرت ﷺ ہر شخص کی ہدایت کے لیے جتنا شدید جذبہ اپنے اندر رکھتے تھے اس کا تقاضا تو یہ تھا کہ آپ ﷺ کے ہم عصروں میں سے کوئی شخص ہدایت سے محروم نہ رہتا۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ ایک بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے کہ آنحضرت ﷺ کی تمام تبلیغی کاوشیں ان بدنصیبوں کا نصیب نہ بدل سکیں۔ اور جہاں تک راستہ دکھانے کا تعلق ہے آنحضرت ﷺ نے اس میں کبھی بال برابر بھی کوتاہی نہیں کی۔ آپ ﷺ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ جو لوگ ہدایت قبول نہیں کرنا چاہتے، آپ ﷺ ان لوگوں کے پیچھے زیادہ ہلکان نہ ہوں۔ آپ ﷺ کا کام پیغامِ حق پہنچا دینا ہے، لیکن جسے آپ ﷺ چاہیں اسے ہدایت یافتہ بنادینا نہ یہ آپ ﷺ کے فرائض میں شامل ہے اور نہ یہ آپ کے اختیار میں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی خوب جانتا ہے کہ کون ہدایت پانے کا اہل ہے اور کون نہیں۔ صحیحین کی روایت ہے کہ یہ آیت نبی کریم ﷺ کے چچا حضرت ابوطالب کے معاملہ میں نازل ہوئی ہے۔ ان کا جب آخری وقت آیا تو آنحضرت ﷺ نے بڑی دل سوزی سے کوشش کی کہ وہ کلمہ لا الہ الا اللہ پر ایمان لے آئیں مگر انھوں نے ملت عبدالمطلب پر جان دینے کا اظہار کیا۔ آنحضرت ﷺ کو اس پر شدید صدمہ ہوا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ یاد رہے کہ محدثین اور مفسرین جب کسی آیت کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ یہ فلاں کے بارے میں نازل ہوئی تو عموماً اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ آیت فلاں واقعہ پر چسپاں ہوتی ہے اور اس آیت کے مضمون کی صداقت اس واقعہ سے ظاہر ہوتی ہے۔ اس لیے یہ بات ضروری نہیں کہ یہ آیت حضرت ابوطالب کے بارے میں نازل ہوئی ہو بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس آیت میں جو کچھ فرمایا گیا ہے اس کی صداقت حضرت ابوطالب کے ایمان نہ لانے سے ظاہر ہوتی ہے۔ کیونکہ یوں تو کسی شخص کے بھی ایمان نہ لانے سے حضور ﷺ کو دکھ ہوتا تھا لیکن سب سے بڑھ کر اگر کسی شخص کا کفر پر خاتمہ آنحضرت ﷺ پر شاق گزرا ہے تو وہ جنابِ ابوطالب تھے۔ کیونکہ ذاتی محبت اور تعلق کی بناء پر آپ ﷺ ان کی ہدایت کے شدید آرزومند تھے۔ سلف صالحین کا طرزعمل یہ رہا ہے کہ وہ حضرت ابوطالب کے ایمان نہ لانے کے واقعہ کو بغیر کسی وجہ کے بیان کرنا مناسب نہ سمجھتے تھے۔ اور جب کبھی اس کا تذکرہ ہوتا تو اس پر نہایت تأسف اور رنج کا اظہار کرتے۔ امت کو ہمیشہ یہی طرزعمل اختیار کرنا چاہیے۔ کیونکہ ان کا ایمان نہ لانا اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تابع ہے۔ لیکن آنحضرت ﷺ کو اس پر جو دکھ ہوا ہمارے لیے اس کا احترام لازم ہے۔
Top