Maarif-ul-Quran - Al-Qasas : 56
اِنَّكَ لَا تَهْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ١ۚ وَ هُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِیْنَ
اِنَّكَ : بیشک تم لَا تَهْدِيْ : ہدایت نہیں دے سکتے مَنْ اَحْبَبْتَ : جس کو تم چاہو وَلٰكِنَّ اللّٰهَ : اور لیکن (بلکہ) اللہ يَهْدِيْ : ہدایت دیتا ہے مَنْ يَّشَآءُ : جس کو وہ چاہتا ہے وَهُوَ : اور وہ اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے بِالْمُهْتَدِيْنَ : ہدایت پانے والوں کو
تو راہ پر نہیں لاتا جس کو چاہے پر اللہ راہ پر لائے جس کو چاہے اور وہی خوب جانتا ہے جو راہ پر آئیں گے۔
خلاصہ تفسیر
آپ جس کو چاہیں ہدایت نہیں کرسکتے بلکہ اللہ جس کو چاہے ہدایت کردیتا ہے (اور ہدایت کرنے کی قدرت تو کسی کو کیا ہوتی اللہ کے سوا کسی کو اس کا علم تک بھی نہیں کہ کون کون ہدایت پانے والا ہے بلکہ) ہدایت پانے والوں کا علم اسی کو ہے۔

معارف و مسائل
لفظ ہدایت کئی معنوں کے لئے استعمال ہوتا ہے، ایک معنے صرف راستہ دکھا دینے کے ہیں، جس کے لئے ضروری نہیں کہ جس کو راستہ دکھایا گیا وہ منزل مقصود پر پہنچے اور ایک معنی ہدایت کے یہ بھی آتے ہیں کہ کسی کو منزل مقصود پر پہنچا دیا جائے۔ پہلے معنے کے اعتبار سے تو رسول اللہ ﷺ بلکہ تمام انبیاء کا ہادی ہونا اور یہ ہدایت ان کے اختیار میں ہونا ظاہر ہے کیونکہ یہ ہدایت ہی ان کا فرض منصبی ہے اگر اس کی ان کو قدرت نہ ہو تو فریضہ رسالت و نبوت کیسے ادا کریں۔ اس آیت میں جو آپ کا ہدایت پر قادر نہ ہونا بیان فرمایا ہے اس سے مراد دوسرے معنے کی ہدایت ہے، یعنی مقصود پر پہنچا دینا اور مطلب یہ ہے کہ اپنی تبلیغ وتعلیم کے ذریعہ آپ کسی کے دل میں ایمان ڈال دیں اس کو مومن بنادیں یہ آپ کا کام نہیں یہ تو براہ راست حق تعالیٰ کے اختیار میں ہے ہدات کے معنی اور اس کی اقسام کی مکمل تحقیق سورة بقرہ کے شروع میں گزر چکی ہے۔
صحیح مسلم میں ہے کہ یہ آنحضرت ﷺ کے چچا ابو طالب کے بارے میں نازل ہوئی ہے کہ آپ کی بڑی تمنا یہ تھی کہ وہ کس طرح ایمان قبول کرلیں اس پر آنحضرت ﷺ کو یہ بتایا گیا کسی کو مومن بنادینا آپ کی قدرت میں نہیں۔ تفسیر روح المعانی میں ہے کہ ابوطالب کے ایمان و کفر کے معاملے میں بےضرورت گفتگو اور بحث و مباحثہ سے اور ان کو برا کہنے سے اجتناب کرنا چاہئے کہ اس سے آنحضرت ﷺ کی طبعی ایذا کا احتمال ہے۔ واللہ اعلم
Top