Tafheem-ul-Quran - Al-Qasas : 56
اِنَّكَ لَا تَهْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ١ۚ وَ هُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِیْنَ
اِنَّكَ : بیشک تم لَا تَهْدِيْ : ہدایت نہیں دے سکتے مَنْ اَحْبَبْتَ : جس کو تم چاہو وَلٰكِنَّ اللّٰهَ : اور لیکن (بلکہ) اللہ يَهْدِيْ : ہدایت دیتا ہے مَنْ يَّشَآءُ : جس کو وہ چاہتا ہے وَهُوَ : اور وہ اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے بِالْمُهْتَدِيْنَ : ہدایت پانے والوں کو
اے نبیؐ ، تم جسے چاہو اُسے ہدایت نہیں دے سکتے، مگر اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور وہ اُن لوگوں کو خُوب جانتا ہے جو ہدایت قبول کرنے والے ہیں۔79
سورة القصص 79 سیاق کلام سے ظاہر ہے کہ حبشی عیسائیوں کے ایمان و اسلام کا ذکر کرنے کے بعد نبی ﷺ کو مخاطب کر کے یہ فقرہ ارشاد فرمانے سے مقصود دراصل کفار مکہ کو شرم دلانا تھا۔ کہنا یہ تھا کہ بدنصیبو، ماتم کرو اپنی حالت پر کہ دوسرے کہاں کہاں سے آکر اس نعمت سے مستفید ہورہے ہیں اور تم اس چشمہ فیض سے جو تمہارے اپنے گھر میں بہہ رہا ہے محروم رہے جاتے ہو، لیکن کہا گیا ہے اس انداز سے کہ اے محمد ﷺ ، تم چاہتے ہو کہ میری قوم کے لوگ، میرے بھائی بند، میرے عزیز و اقارب، اس آب حیات سے بہرہ مند ہوں، لیکن تمہارے چاہنے سے کیا ہوتا ہے، ہدایت تو اللہ کے اختیار میں ہے، وہ اس نعمت سے انہی لوگوں کو فیض یاب کرتا ہے جن میں وہ قبول ہدایت کی آمادگی پاتا ہے، تمہارے رشتہ داروں میں اگر یہ جوہر موجود نہ ہو تو انہیں یہ فیض کیسے نصیب ہوسکتا ہے۔ صحیحین کی روایت ہے کہ یہ آیت نبی ﷺ کے چچا ابو طالب کے معاملہ میں نازل ہوئی ہے، ان کا جب آخرت وقت آیا تو حضور نے اپنی حد تک انتہائی کوشش کی کہ وہ کلمہ لا الہ لا اللہ پر ایمان لے آئیں تاکہ ان کا خاتمہ بالخیر ہو، مگر انہوں نے ملت عبدالمطلب پر ہی جان دینے کو ترجیح دی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا انک لا تھدی من احببت۔ لیکن محدثین و مفسرین کا یہ طریقہ معلوم و معروف ہے کہ ایک آیت عہد نبوی کے جس معاملہ پر چسپاں ہوتی ہے اسے وہ آیت کی شان نزول کے طور پر بیان کرتے ہیں۔ اس لیے اس روایت اور اسی مضمون کی ان دوسری روایات سے جو ترمذی اور مسند احمد وغیرہ میں حضرات ابوہریرہ، ابن عباس، ابن عمر ؓ ، وغیرہم سے مروی ہیں۔ لازما یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ سورة قصس کی یہ آیت ابو طالب کی وفات کے وقت نازل ہوئی تھی، بلکہ ان سے صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت کے مضمون کی صداقت سب سے زیادہ اس موقع پر ظاہر ہوئی، اگرچہ حضور کی دلی خواہش تو ہر بندہ خدا کو راہ راست پر لانے کی تھی، لیکن سب سے بڑھ کر اگر کسی شخص کا کفر پر خاتمہ حضور کو شاق ہوسکتا تھا اور ذاتی محبت وتعلق کی بنا پر سب سے زیادہ کسی شخص کی ہدایت کے آپ آرزو مند ہوسکتے تھے تو وہ ابو طالب تھے، لیکن جب ان کو بھی ہدایت دینے پر آپ قادر نہ ہوئے تو یہ بات بالکل ظاہر ہوگئی کہ کسی کو ہدایت بخشنا اور کسی کو اس سے محروم رکھنا نبی کے بس کی بات نہیں ہے، یہ معاملہ بالکل اللہ کے ہاتھ میں اور اللہ کے ہاں سے یہ دولت کسی رشتہ داری و برادری کی بنا پر نہیں بلکہ آدمی کی قبولیت و استعداد اور مخلصانہ صداقت پسندی کی بنا پر عطا ہوتی ہے۔
Top