Baseerat-e-Quran - Al-Qasas : 56
اِنَّكَ لَا تَهْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ١ۚ وَ هُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِیْنَ
اِنَّكَ : بیشک تم لَا تَهْدِيْ : ہدایت نہیں دے سکتے مَنْ اَحْبَبْتَ : جس کو تم چاہو وَلٰكِنَّ اللّٰهَ : اور لیکن (بلکہ) اللہ يَهْدِيْ : ہدایت دیتا ہے مَنْ يَّشَآءُ : جس کو وہ چاہتا ہے وَهُوَ : اور وہ اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے بِالْمُهْتَدِيْنَ : ہدایت پانے والوں کو
(اے نبی ﷺ بیشک آپ جسے (ہدایت دینا) چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے بلکہ اللہ جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور وہ ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو ہدایت پانے والے ہیں۔
لغات القرآن آیت نمبر 56 تا 61 ) ۔ لا تھدی (تو ہدایت نہیں دیتا ) ۔ احببت (تو نے چاہا۔ تو نے پسند کیا ) ۔ نتخطف (ہم اچک لئے جائیں گے ) ۔ لم نمکن (ہم نے ٹھکانا نہیں دیا ) ۔ یجبی (کھنچے آتے ہیں ) ۔ ثمرات (ثمرۃ) (پھل، پھول، سبزہ۔ سبزی ) ۔ لدنا (ہمارے پاس ) ۔ بطرت (اترائی ۔ (ناز کیا) ۔ معیشتہ (زندگی گذارنا) ۔ لم تسکن (آباد نہ ہوئے) ۔ یبعث (وہ بھیجتا ہے۔ اٹھاتا ہے) ۔ لا قیہ (اس کو پانے والا ) ۔ متعنا (ہم نے سامان دیا ) ۔ المحضرین (حاضر کئے گئے) ۔ تشریح : آیت نمبر (56 تا 61 ) ۔ ” سورة القصص کی گذشتہ آیات کی تشریح میں اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ ملک حبش سے بیس آدمیوں کی ایک جماعت دین اسلام، نبی کریم ﷺ کی سیرت و کردار اور اس ابھرتی ہوئی تحریک کا جائزہ لینے مکہ مکرمہ آئی ان لوگوں کا تعلق نصاری اہل کتاب سے تھا۔ جب انہوں نے اس حق و صداقت کا اچھی طرح جائزہ لے لیا تو دین اسلام اور نبی کریم ﷺ کی سیرت و کردار سے اس قدر متاثر ہوئے کہ ابوجہل جیسے لوگوں کے طعنوں اور اعتراضات کے باوجود ایمان کے نور سے ان کے دل روشن ومنور ہوگئے۔ اور انہوں نے اللہ کے ایک ہونے پر ایمان لا کر نبی کریم ﷺ کے دامن رسالت سے وابستگی اختیار کرلی۔ قریش کے ظلم و ستم اور ان کی پھیلائی ہوئی دہشت میں جہاں کفار مکہ اس واقعہ سے ہل کر وہ گئے وہیں اہل ایمان کو بھی ایک نیا حوصلہ مل گیا۔ تمام اہل ایمان اور نبی کریم ﷺ اس واقعہ سے بہت خوش بھی تھے لیکن اس بات سے رنجیدہ اور غم گین رہا کرتے تھے کہ باہر کے لوگ تو دین اسلام کی سچائیوں کو قبول کرنے کے لئے کھنچے چلے آ رہے ہیں۔ لیکن مکہ مکرمہ کے وہ لوگ جن کے سامنے آپ ﷺ کو پوری زندگی ایک کھلی کتاب کی طرح تھی وہ ایمان کی روشنی اور دولت سے محروم ہیں۔ آپ کو اس بات کا بھی افسوس تھا کہ آپ ﷺ کے سگے چچا ابو طالب جو آپ ﷺ کو بےانتہا چاہتے تھے اور ہر آڑے وقت میں آپ کے لئے ڈھال بن جاتے تھے جب آپ ﷺ نے ان کی وفات کے وقت کہا کہ اے چچا آپ صرف ایک مرتبہ زبان سے ” لا الہ الا اللہ “ کہہ لیجئے۔ میں آپ کے لئے دعائے مغفرت کروں گا۔ حضرت ابو طالب شاید اس کلمہ کو پڑھنا چاہتے تھے مگر ابو جہل، عتبہ اور ولید کے غیرت دلانے سے وہ اس سے رک جاتے تھے اور اسی حالت میں حضرت ابو طالب دنیا سے رخصت ہوگئے۔ یہ اور اسی طرح کے بہت سے واقعات سے آپ بہت رنجیدہ رہتے تھے۔ دوسری طرف آپ ﷺ کی دلی تمنا، خواہش اور جدوجہد یہ تھی کہ دنیا کا ہر آدمی دین اسلام کی سچائیوں کو قبول کرلے۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے ان آیات کو نازل کر کے نبی کریم ﷺ اور آپ کے جاں نثار صحابہ کرام ؓ کو تسلی دیتے ہوئے چند بنیادی اصول ارشاد فرمائے ہیں۔ فرمایا گیا کہ اے نبی ﷺ ! آپ اللہ کے دین کو پھیلانے اور ہر شخص کے کانوں تک اس کا پیغام پہنچانے کی مسلمل جدوجہد اور کوششیں کرتے رہیں اور اس جدوجہد میں کمی نہ کریں۔ لیکن کسی کو ہدایت دینا یا نہ دینا یہ اللہ کے اختیار میں ہے۔ اسے معلوم ہے کہ کس کے مقدر میں سیدھا راستہ اختیار کرنا ہے اور کون اس نعمت سے محروم رہے گا۔ کس کو توفیق دی جائے گی اور کون کفر و شرک کی نحوست کو اپنے گلے میں ڈال کر اللہ کے سامنے ایک مجرم کی حیثیت سے حاضر ہوگا ۔ اللہ تعالیٰ نے مزید تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ کفار مکہ کے ایمان لانے میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ خوف، اندیشہ اور ڈر ہے کہ اگر انہوں نے ایمان کا راستہ اختیار کرلیا تو سارا عرب ان کا دشمن بن جائے گا۔ وہ اپنے پاؤں پر کھڑے رہنے کے قابل نہ رہیں گے اور ان کو نکال باہر کیا جائے گا ان کو ہر وقت یہ فکر کھائے جاتی تھی کہ ایمان لانے کے بعد ان کا، ان کے بال نچوں کا ، گھر بار، جائیداد ، مکانات اور دھن دولت کا کیا ہوگا ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس بدامنی اور بےسکونی کے دور میں جب کہ ہر طرف لوٹ مار، قتل و غارت گری اور بےرحمی کا بازار گرم ہے کس نے اس مقام یعنی بیت اللہ اور حرم محترم کو امن و سلامتی کا گہوارہ بنا رکھا ہے۔ ہر طرح کا رزق ان کی طرف کھنچا چلا آرہا ہے۔ سیکڑوں سال سے یہ شہر دنیا بھر کا مرکز بنا ہوا ہے۔ عرب کا بچہ بچہ اس جگہ کو احترام کی نظر سے دیکھتا ہے اور دنیا بھر سے لوگ اس کی طرف کھنچے چلے آرہے ہیں۔ ان سب چیزوں میں سوائے اللہ کے اور کس کی تدبیر اور کوشش کو دخل ہے۔ یہ سب کچھ بیت اللہ شریف اور حرم محترم کی برکتیں ہیں۔ ان آیات میں اس طرف بھی اشارہ کردیا گیا ہے کہ بیت اللہ اور حرم کی برکتوں سے اگر مکی کے سب لوگوں کو امن و سلامتی اور احترام کا درجہ حاصل ہے۔ اگر وہ اس کے مالک پر ایمان لے آئیں تو کیا اللہ ان کو دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دے گا اور ان کی بھر پور مدد کرے گا۔ یقینا اللہ تو اپنے بندوں کی معمولی معمولی باتوں کی بھی قدر کرتا ہے۔ فرمایا کہ اس سطحی قوم کی سوچ سے انہیں آگے بڑھ کر اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ اگر انہوں نے اپنی روش زندگی کو تبدیل نہ کیا اور اسی طرح وہ لوگ اللہ کی نافرمانیوں میں لگے رہے تو پھر اللہ کا وہ فیصلہ آنے میں دیر نہین لگے گی جس سے قومیں تباہ و برباد ہوجایا کرتی ہین۔ فرمایا کہ مکہ والوں نے کبھی اس بات پر غور کیا ہے کہ یہ دھن، دولت اور دنیا کے بےپناہ اسباب تو قوم عاد، قوم ثمود جیسی عظیم اور ترقی یافتہ قوموں کے پاس بھی تھے۔ لیکن جب انہوں نے اللہ کی نافرمانیوں اور کفر و شرک کی انتہا کردی تو کیا ان کی دھن، دولت، بلند وبالا بلڈنگیں، تہذیب و تمدن ان کے کام آسکا ؟ آج ان عظیم قوموں کے خوبصورت محلات خاک کا ڈھیر بن چکے ہیہں۔ ان کے آبادشہروں کے کھنڈرات اس قدر ویران اور غیر آباد ہوچکے ہیں کہ دن کی روشنی مین بھی جاتے ہوئے خوف محسوس ہوتا ہے۔ اگر وہ اللہ کی فرماں برداری کرتے تو دنیا کے یہ سارے اسباب ان کے لئے قوت و طاقت بن جاتے اور آخرت میں نجات مل جاتی۔ اللہ کسی پر ظلم و زیادتی نہیں کرتا بلکہ لوگ جب خود ہی اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارلیں تو یہ ان کا اپنا قصور ہوا کرتا ہے۔ فرمایا کی اللہ کا دستور یہ ہے کہ وہ کسی قوم اور ان کی بستیوں کو اس وقت تک تباہ نہیں کرتا جب تک اس قوم کو ان کے برے انجام سے ڈرانے والے رسولوں کو نہیں بھیج دیتا۔ لیکن جب وہ قوم اللہ کے رسولوں کی نافرمانی کرتی ہے اور اپنی ضد اور ہٹ دھرمی اور ظلم و زیادتی پر جم جاتی ہے تو پھر قوم کو اور ان کی ترقیات کو جڑ اور بنیاد سے کھو کر پھینک دیا جاتا ہے۔ کفار مکہ سے کہا جارہا ہے کہ اللہ نے اپنی رحمت خاص سے اپنے آخری نبی اور آخری رسول حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو بھیج دیا ہے۔ ان کی فرماں برداری ہی میں ان کی نجات ہے لیکن اگر انہوں نے گذشتہ قوموں کی طرح نافرمانی کا راستہ اختیار کیا تو ان کی دنیا اور آخرت خراب ہو کر وہ جائے گی اور قیامت تک ان کو اور ان کی نسلوں کو ہدایت دینے والا کوئی نبی اور رسول نہ آئے گا۔ آخر میں فرمایا کہ اصل چیز فکر آخرت ہے کیونکہ وہم زندگی حقیقی اور مستقل زندگی ہے۔ یہ دنیا اور اس کے مال اسباب، دھن دولت اور مکان و جائیداد، بیوی بچے اور رشتہ داراسی وقت تک کام دیتے ہیں جب تک اس دنیا میں وہ سانس لیتا ہے لیکن جیسے ہی موت آتی ہے تو انسان کے ساتھ سوائے اس کے نیک اور بہتر اعمال کے اور کوئی چیز نہیں جاتی۔ ہر شخص خالی ہاتھ اور مال و اسباب کو اسی دنیا میں چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔ فرمایا کہ ہر شخص کو اپنی آخرت کی فکر کرنا چاہیے کیونکہ وہاں کوئی کسی کا بوجھ نہ اٹھائے گا۔ جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہی خیر ہے اور باقی ہر چیز کو فنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات کے آخر مین فرمایا کہ ایک وہ شخص ہے جس نے ہماری اطاعت کی اور وہ ہمارے انعام و کرم کا مستحق بن گیا، جس کی نجات کا اللہ نے وعدہ فرمالیا ہے۔ دوسرا وہ شخص ہے جسے اللہ نے دنیاوی زندگی کا کچھ سامان برتنے اور استعمال کرنے کے لئے دیا ہے اور وہ قیامت کے دن اپنی نافرمانیوں کے سبب اللہ کے سامنے ایک مجرم کی حیثیت سے حاضر ہوگا ۔ کیا یہ دونوں شخص برابر ہو سکتے ہیں ؟ کیا ان دونوں کا انجام ایک جیسا ہوگا ؟ ہر انسان کا ضمیر بکاراٹھے گا کہ نہیں۔ اللہ کے انعام وکرم کا مستحق تو وہی ہو سکتا ہے جو اللہ کی اور اس کے رسول کی اطاعت و فرماں برداری کر کے اپنی نجات کا سامان کر گا۔
Top