Tafseer-e-Saadi - Al-Qasas : 56
اِنَّكَ لَا تَهْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ١ۚ وَ هُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِیْنَ
اِنَّكَ : بیشک تم لَا تَهْدِيْ : ہدایت نہیں دے سکتے مَنْ اَحْبَبْتَ : جس کو تم چاہو وَلٰكِنَّ اللّٰهَ : اور لیکن (بلکہ) اللہ يَهْدِيْ : ہدایت دیتا ہے مَنْ يَّشَآءُ : جس کو وہ چاہتا ہے وَهُوَ : اور وہ اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے بِالْمُهْتَدِيْنَ : ہدایت پانے والوں کو
(اے محمد) تم جس کو دوست رکھتے ہو اسے ہدایت نہیں کرسکتے بلکہ خدا ہی جس کو چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں کو خوب جانتا ہے
آیت 56 اللہ تبارک و تعالیٰ رسول مصطفیٰ ﷺ کو آگاہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ آپ۔۔۔ اور آپ کے علاوہ لوگ بدرجہ اولیٰ ۔۔۔ کسی کو ہدایت دینے کا کوئی اختیار نہیں رکھتے خواہ وہ آپ کو کتنا ہی زیادہ محبوب کیوں نہ ہو، کیونکہ یہ ایسا معاملہ ہے جو مخلوق کے اختیار میں نہیں۔ ہدایت کی توفیق اور قلب میں ایمان جاگزیں کرنا اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے وہ جسے چاہتا ہے ہدایت سے سرفراز کرتا ہے اور وہ خوب جانتا ہے کہ کون ہدایت کا اہل ہے پس اسے ہدایت عطا کردیتا ہے اور کون ہدایت عطا کئے جانے کا اہل نہیں پس اسے اس کی گمراہی میں سرگرداں چھوڑ دیتا ہے۔ رہا اللہ تعالیٰ کے ارشاد : (وانک لتھدی الی صراط مستقیم) (الشوریٰ : 23/25) ” اور بلاشبہ آپ صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کر رہے ہیں “ میں رسول اللہ ﷺ کے لئے ہدایت کا اثبات، تو یہ ہدایت بیان و ارشاد ہے۔ رسول اللہ ﷺ صرابط مستقیم کو واضح کرتے ہیں لوگوں کو اس پر چلنے کی ترغیب دیتے ہیں اور لوگوں کو اس پر گامزن کرنے کی بھرپور جدوجہد کرتے ہیں۔ رہی یہ بات کہ آیا آپ دلوں میں ایمان پیدا کرنے پر قادر ہیں اور فعل کی توفیق عطا کرسکتے ہیں۔۔۔ تو حاشا و کلا ! ایسا ہرگز نہیں۔۔۔ لہذا اگر آپ اس پر قادر ہوتے تو آپ اس شخص کو ضرور ہدایت سے سرفراز فرماتے، جس نے آپ پر احسان فرمایا تھا، جس نے آپ کو اپنی قوم سے بچایا اور آپ کی مدد کی۔۔۔ یعنی آپ کا چچا ابو طالب۔۔۔ مگر آپ نے ابو طالب کو دین کی دعوت دی اور کامل خیر خواہی کے ساتھ اس پر احسان کیا اور یہ اس احسان سے بہت زیادہ ہے جو آپ کے چچا نے آپ کے ساتھ کیا مگر حقیقت یہ ہے کہ ہدایت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ قریش میں سے اہل تکذیب اور دیگر اہل مکہ رسول اللہ ﷺ سے کہا کرتے تھے : (ان نتبع الھدی معک نتخطف من ارضنا) ” اگر ہم تمہارے ساتھ ہدایت کی پیروی کریں تو ہم اپنے ملک سے اچک لئے جائیں “۔ یعنی ہمیں قتل کرکے، قیدی بناکر اور ہمارا مال و متاع لوٹ کر زمین سے اچک لیا جائے گا کیونکہ لوگ آپ سے عداوت رکھتے ہیں اور آپ کی مخالفت کرتے ہیں، لہٰذا اگر ہم نے آپ کی اتباع کی تو ہمیں تمام لوگوں کی دشمنی کا سامنا کرنا پڑے گا اور ہم لوگوں کی دشمنی مول نہیں لے سکتے۔ ان کا یہ کلام اللہ تعالیٰ کے بارے میں ان کے سوئظن پر دلالت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے دین کو فتح و نصرت سے نوازے گا نہ اپنے کلمہ کو بلند کرے گا، بلکہ اس کے برعکس وہ لوگوں کو اپنے دین کے حاملین پر غالب کرے گا جو انہیں بدترین عذاب میں مبتلا کریں گے اور وہ سمجھتے تھے کہ باطل حق پر غالب آجائے گا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کی حالت بیان کرتے اور لوگوں کی بجائے ان کے اختصاص کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : (اولم نمکن لھم حرما امنا یجبی الیہ ثمرت کل شی رزقا من لدنا) ” کیا ہم نے پرامن حرم کو ان کا جائے قیام نہیں بنایا جہاں ہماری طرف سے رزق کے طور پر ہر طرح کے پھل کھچے چلے آتے ہیں ؟ “ یعنی کیا ہم نے انہیں حرم میں اصحاب اختیار نہیں بنایا جہاں نہایت کثرت سے لوگ پے در پے آتے ہیں اور زائرین اس کی زیارت کا قصد کرتے ہیں۔ قریب والے اور بعید والے سب لوگ اس کا احترام کرتے ہیں۔ حرم کے رہنے والوں کو خوف زدہ نہیں کیا جاتا اور لوگ انہیں کم یا زیادہ کوئی نقصان نہیں پہنچاتے۔ حالانکہ ان کے اردگرد ہر جگہ خوف میں گھری ہوئی ہی اور وہ ان کے رہنے والے محفوظ ہیں نہ مامون۔ اس لئے انہیں اپنے رب کی حمد وثناء بیان کرنی چاہیے کہ اس نے انہیں کامل امن سے نوازا جو دوسروں کو میسر نہیں، انہیں اس رزق کثیر پر اپنے رب کا شکر ادا کرنا چاہیے جو ہر طرف سے پھلوں، کھانوں اور دیگر سازوسامان کی صورت میں ان کے پاس پہنچاتا ہے جس سے یہ متمتع ہوتے ہیں اور انہیں فراخی اور کشادگی حاصل ہوتی ہے۔ انہیں چاہیے کہ وہ اس رسول کریم ﷺ کی اتباع کریں تاکہ انہیں ام تام اور فراخی سے نوازا جائے۔ وہ رسول اللہ ﷺ کی تکذیب اور اللہ تعالیٰ کی نعمت پر اترانے سے بچیں ورنہ ان کا امن خوف سے، ان کی عزت ذلت سے اور ان کی دولت مندی فقر سے بدل جائے گی۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے گزشتہ قوموں کو ان کی بداعمالیوں کی جو سزا دی ہے ان کو بھی اس سزا سے ڈرایا ہے، چناچہ فرمایا : (وکم اہلکنا من قریۃ بطرت معیشتھا) ” اور کتنی ہی بستیوں کو ہم نے تباہ و برباد کردیا جو اپنی معیشت پر اترایا کرتی تھیں “ یعنی یہ بستیاں اپنی معیشت پر فخر کرتی تھیں اور غفلت میں مبتلا تھیں اور ان کے رہائشی اللہ تعالیٰ کے رسول پر ایمان لانے کی بجائے اپنی خوشحالی میں مشغول رہے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو ہلاک کر ڈالا، ان سے نعمت چھین لی اور ان پر عذاب نازل کیا (فتلک مسکنھم لم تسکن من بعدھم الاقلیلا) یعنی ان پر لگاتار ہلاکت نازل ہونے، ان کے جان و مال کے تلف ہونے اور ان کے بعد ان کی بستیوں کے اجڑ جانے کے بعد وہ کبھی آباد نہ ہوئیں۔ (وکنا نحن الورثنین) ” اور ہم ہی ان کے وارث ہوئے “۔ یعنی ہم بندوں کے وارث ہیں، ہم انہیں موت دیں گے اور وہ تمام نعمتیں ہماری طرف لوٹ ائیں گی جو ہم نے ان کو عطا کی تھیں پھر ہم ان کو واپس اپنی طرف لوٹائیں گے اور ان کو ان کے اعمال کی جزا و سزادیں گے۔ یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی حکمت اور رحمت ہے کہ وہ قوموں پر ان کے مجرو کفر کی بناء پر، ان پر حجت قائم کرنے اور ان کی طرف رسول مبعوث کرنے سے قبل، عذاب نازل نہیں کرتا۔ بنا بریں فرمایا : (ومان کان ربک مھلک القری) ” اور تمہارا رب بستیوں کو ہلاک نہیں کیا کرتا۔ “ یعنی ان کے کفر اور ظلم کی بناء پر (حتی یبعث فی امھا) ” جب تک ان کے برے شہر میں نہ بھیج لے۔ “ یعنی اس بستی اور شہر میں، جہاں سے وہ گزرتے ہیں، جہاں وہ آتے جاتے رہتے ہیں، ان بستیوں کے اردگرد پھرتے رہتے ہیں اور ان سے ان کی خبریں اور واقعات مخفی نہیں رہتے ہیں۔ (رسولاً یتلوا علیھم ایتنا) ” رسول جو ان پر ہماری آیتیں پڑھتا “۔ جو اس وحی کی صحت پر دلالت کرتیں جسے رسول لے کر آیا اور اس کی دعوت کی تصدیق کرتی تھیں اور اللہ کا رسول ان کے قریب اور دور سب کو اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچاتا تھا۔ اس کے برعکس دور دراز بستیوں اور زمین کے دور دراز گوشوں میں، رسولوں کا مبعوث ہونا ان پر مخفی رہ سکتا ہے، مگر بڑے بڑے شہروں میں ان اخبار و واقعات کا شائع ہونا زیادہ یقینی ہے اور غالب حالات میں شہروں کے باشندوں میں دوسروں کی نسبت جفا کم ہوتی ہے۔ (وما کنا مھل کی القری الا و اھلھا ظلمون) ” اور ہم بستیوں کو ہلاک نہیں کیا کرتے مگر اسی وقت جب کہ وہاں کے باشندے ظالم ہوں “۔ یعنی انہوں نے کفر اور معاصی کا ارتکاب کرکے ظلم کیا اور سزا کے مستحق ٹھہرے۔ حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کو اس کے ظلم کی بناء پر اور اس پر حجت قائم کرنے کے بعد ہی عذاب دیتا ہے۔
Top