Al-Quran-al-Kareem - An-Najm : 33
اَفَرَءَیْتَ الَّذِیْ تَوَلّٰىۙ
اَفَرَءَيْتَ : کیا بھلا دیکھا تم نے الَّذِيْ تَوَلّٰى : اس شخص کو جو منہ موڑ گیا
پھر کیا تو نے دیکھا اسے جس نے منہ موڑ لیا۔
1۔ افرء یت الذی تولی :۔ اس سورت کا مضمون رسالت کا اثبات ، شرک اور بت پرستی کی تردید اور مشرکین مکہ کی مذمت ہے۔ پچھلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنے پاک ہونے کے گمان اور دعویٰ سے منع فرمایا۔ قریش مکہ اپنے بارے میں کئی طرح کے گمان اور دعوے رکھتے تھے ، جنہوں نے انہیں دھوکے میں مبتلا کر رکھا تھا۔ قرآن مجید میں مختلف مقامات پر ان کے وہ گمان ذکر فرمائے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک ابراہیم ؑ کی اولاد ہونے کی وجہ سے اپنی برتری کا گمان تھا ، اللہ تعالیٰ کے تمام لوگوں کو مٹی سے ، پھر ماں کے شکم سے پیدا کرنے کا ذکر فرما کر تقویٰ کو معیار فضیلت قرار دیا۔ ایک کام ان کا یہ تھا کہ انہوں نے عین کعبہ کے اندر ابراہیم ، اسماعیل ؑ اور دوسرے بزرگوں کی صورتیں رکھ کر ان کی عبادت کر کے یہ سمجھ رکھا تھا کہ ہمارے یہ وکیل اور سفارشی بڑے زبردست ہیں کہ وہ اپنے نام لیواؤں کو ، خواہ وہ کچھ بھی کرتے رہیں، اپنے دامن میں پناہ دیں گے۔ (دیکھئے : یونس : 18) ایک گمان ان کا یہ تھا کہ کفر کے باوجود انہیں جس طرح دنیا میں نعمتیں ملی ہوئی ہیں اسی طرح آخرت میں بھی ملیں گی۔ (دیکھئے مریم : 77) اسی طرح وہ دوسروں کو یہ کہہ کر اسلام قبول کرنے سے روکنے تھے کہ تم ہماری راہ پر چلتے رہو، تمہارے گناہ ہم اٹھا لیں گے۔ (دیکھئے عنکبوت : 12) ان سارے دعوؤں اور گمانوں کا نتیجہ یہ تھا کہ آخرت کے عذاب سے بےخوف ہونے کی وجہ سے ان میں دنیا کی شدید ہوس ، بخل اور کمینگی آچکی تھی۔ وہ کچھ خرچ کرتے بھی تھے تو نام و نمود کی خاطر ، وہ بھی بس اتنا کہ نام ہوجائے ، اس سے آگے ان کے ہاتھ کھلنے کے لیے تیار نہیں ہوتے تھے اور اتنا خرچ کر کے بھی وہ اپنی سخاوت اور دریا دلی کی لاف زنی کرتے کہ میں نے یہ کردیا اور وہ کردیا ، جیسا کہ سورة ٔ بلد میں ہے ”یقول اھلکت ما لا لبدا“ (البلد : 6) ”کہتا ہے کہ میں نے ڈھیروں مال برباد کر ڈالا“۔ اپنے آباؤ و اجداد، پیشواؤں ، وکیلوں اور سفارشیوں کے بل بوتے پر یہ کہہ کر گناہ کیے جاتے ہیں کہ ہمارے گناہ وہ اٹھا لیں گے ، جیسے نصرانیوں کا کہنا ہے کہ ہمارے تمام گناہوں کے کفارہ میں مسیح ؑ سولی پر چڑھ گئے ہیں ، ہم ان کے نام لیواء ہیں ، ہمارے سارے گناہ انہوں نے اپنے ذمے لے کر بخشوا لیے ہیں اور جیسا کہ آج کل مسلمانوں میں سے کچھ لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ حسین ؓ نے شہادت پا کر اپنے نام لیواؤں کے سارے گناہ بخشوا لیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں ایسے تمام گمانوں اور دعوؤں کی تردید فرمائی ہے۔ 2۔ واعطی قلیلاً واکذی :”اکدی“ کذیۃ سے ہے جس کا معنی چٹان ہے۔ کوئی شخص کنواں وغیرہ کھودنے لگے اور آگے چٹان یا پتھر آجانے کی وجہ سے کھودنے سے رک جائے تو کہا جاتا ہے :”اکدی الرجل“ یہاں ”الذی“ سے کوئی خاص شخص مراد نہیں ، بلکہ مقصود مشرک آدمی کی نفسیات اور طرز عمل کا تذکرہ ہے کہ یہ لوگ اللہ کی راہ میں دینے کا حوصلہ نہیں رکھتے ، اگر کبھی دیتے بھی ہیں تو نام کے لیے ، وہ بھی تھوڑا سا ، پھر ان کے سامنے کنجوسی کی چٹان آجاتی ہے اور وہ رک جاتے ہیں۔ خصوصاً جب انہیں اس سے شہرت یا دنیوی مفاد حاصل ہوتا دکھائی نہ دیتا ہو۔ فرمایا : کیا تو نے اس شخص کو دیکھا جس نے قبول کرنے سے منہ موڑ لیا کچھ تھوڑا سا مال خرچ کیا اور رک گیا۔ شاہ عبد القادر نے فرمایا :”یعنی تھوڑا سا ایمان لانے لگا ، پھر رک گیا“ (موضح) اس معنی میں مراد وہ مشرک ہیں جنہوں نے کبھی رسول اللہ ﷺ یا قرآن کی تعریف کی ، مگر اس کے بعد ایمان لانے سے رک گئے۔
Top