Mafhoom-ul-Quran - An-Najm : 33
اَفَرَءَیْتَ الَّذِیْ تَوَلّٰىۙ
اَفَرَءَيْتَ : کیا بھلا دیکھا تم نے الَّذِيْ تَوَلّٰى : اس شخص کو جو منہ موڑ گیا
بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے منہ پھیرلیا
کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا تشریح : یہاں شروع میں اس شخص کی طرف اشارہ ہے جو قریش کے بڑے سرداروں میں سے تھا یعنی ولید بن مغیرہ ؓ ۔ ابن جریر طبری کی روایت ہے کہ ' یہ شخص پہلے رسول اللہ کی دعوت قبول کرنے پر آمادہ ہوگیا تھا مگر اس کے ایک مشرک دوست نے کہا کہ اپنے آبائی مذہب کو مت چھوڑو اگر تمہیں عذاب آخرت کا ڈ ر ہے تو مجھے اتنی رقم دے دو میں ذمہ لیتا ہوں کہ وہاں تمہارے حصہ کا عذاب میں بھگت لوں گا۔ ولید نے یہ بات مان لی اور اللہ کی راہ پر آتے آتے اس سے پھر گیا مگر جو رقم اس نے دینی طے کی تھی وہ بھی بس تھوڑی سی دی اور باقی روک لی۔ (از تفہیم القرآن جلد پنجم صفحہ 214) اس قصہ کے بیان کرنے کا مطلب یہ ہے کہ کفار کس قدر جاہل تھے۔ یہ بھی تو ان کی جہالت ہی تھی کہ بتوں وغیرہ کو پوجتے اور آخرت کے حساب کتاب کے بارے میں بھی وہ بالکل غلط عقیدہ رکھتے تھے۔ پھر رب ذوالجلال ان لوگوں کی عقلوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ کہ ان سے پہلے بڑے بر گزیدہ پیغمبر اور ان کی کتابیں گزر چکی ہیں۔ جن میں یہی سبق دیا گیا ہے اور اب قرآن پاک میں بھی یہی سبق دیا گیا تھا کہ ' کوئی شخص دوسرے کے گناہ کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔ اور یہ کہ اس کی کوشش دیکھی جائے گی۔ پھر اس کو اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ اور یہ کہ تمہارے رب کے پاس پہنچنا ہے۔ (38 تا 42) تو وہ لوگ جو ان تمام باتوں سے لاپرواہی برتتے ہیں اور الٹی سیدھی باتیں کرتے ہیں گویا وہ لوگ غیب کا علم جانتے ہیں۔ حالانکہ غیب کی ان خبروں سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو پہلے سے آگاہ کر رہا ہے تاکہ اللہ کے احکامات کی پیروی کر کے آخرت میں نجات پائیں۔ صاف الفاظ میں اللہ تعالیٰ کہہ رہے ہیں۔ پھر اس کا پورا پورا بدلہ ملنا ہے۔ (آیت 41)
Top