Ruh-ul-Quran - An-Najm : 33
اَفَرَءَیْتَ الَّذِیْ تَوَلّٰىۙ
اَفَرَءَيْتَ : کیا بھلا دیکھا تم نے الَّذِيْ تَوَلّٰى : اس شخص کو جو منہ موڑ گیا
اے پیغمبر ! کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جو پشت پھیر گیا
اَفَرَئَ یْتَ الَّذِیْ تَوَلّٰی۔ وَاَعْطٰی قَلِیْلاً وَّاَکْدٰی۔ اَعِنْدَہٗ عِلْمُ الْغَیْبِ فَھُوَ یَرٰی۔ (النجم : 33 تا 35) (اے پیغمبر ! کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جو پشت پھیر گیا۔ اور تھوڑا دے کر رک گیا۔ کیا اس کے پاس غیب کا علم ہے، کہ وہ حقیقت کو دیکھ رہا ہے۔ ) قریش کے سرداروں کی فکری نارسائیاں اسلام نے ایمان لانے والوں میں جو خصائل و فضائل پیدا کیے ہیں ان کا ذکر کرنے کے بعد یہود اور قریش کے بڑے بڑے لوگوں کی فکری نارسائیوں اور عملی بےہودگیوں کا ذکر فرمایا گیا ہے تاکہ ہر عقل رکھنے والا شخص اندازہ کرسکے کہ اسلام اپنے اندر کیا فکری اور عملی تبدیلی کا پیغام لے کر آیا ہے جس کے نتیجے میں جو لوگ تیار ہوتے ہیں ان میں وہ فضائل پیدا ہوجاتے ہیں جن کا ذکر گزشتہ آیت کریمہ میں کیا گیا ہے۔ اور جو لوگ اس سے دور رہتے ہیں اور اپنی مالی برتری اور معاشرتی تفوق کے پیدا کردہ استکبار کے نتیجے میں جن گمراہیوں اور کمزوزریوں کا شکار ہیں انھیں ممثل شکل میں بیان فرمایا گیا ہے۔ ابن جریر طبری کی روایت کے مطابق اس سے مراد ولید بن مغیرہ ہے جو قریش کے بڑے سرداروں میں سے ایک تھا۔ یہ شخص کسی حد تک نبی کریم ﷺ کی دعوت سے متأثر ہوا اور قبولیتِ ایمان کی طرف قدم بڑھایا۔ لیکن جب اس کے ایک مشرک دوست کو علم ہوا کہ وہ مسلمان ہونے کا ارادہ کررہا ہے تو اس نے آکر اس سے بات کی۔ اسے اندازہ ہوا کہ ولید عذاب آخرت کے خوف میں مبتلا ہو کر یہ اقدام کرنا چاہتا ہے۔ تو اس نے اس سے کہا کہ تم اگر اتنی رقم مجھے دینے کا وعدہ کرو تو میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ اگر آخرت ہوئی تو میں تمہارے حصے کا عذاب اپنے اوپر لے لوں گا اور تمہیں کوئی گزند نہیں پہنچنے دوں گا۔ ولید نے اس کی بات مان لی اور ایمان کی طرف بڑھتے ہوئے قدم رک گئے اور اس کی محرومی گہری ہوگئی۔ مگر اس کے بعد اس نے اپنے مشرک دوست سے کیا ہوا وعدہ بھی پورا نہ کیا۔ کچھ رقم دی پھر ہاتھ روک لیا۔ اس میں بتانا یہ ہے کہ ایسے بڑے بڑے سرداروں کی فکری نارسائیوں کا یہ عالم تھا کہ نہ وہ آخرت کی حقیقت کو جانتے تھے اور نہ جزاء و سزا کے صحیح تصور سے آگاہ تھے۔ اور دوسری طرف حال ان کا یہ تھا کہ ایفائے عہد میں انتہائی کچے، اور مالی معاملات میں نہایت ناقص۔ نہ وعدہ پورا کرنا جانتے تھے اور نہ مالی معاملات میں پورا اترتے تھے۔ بعض اہل علم کا خیال یہ ہے کہ اولاً تو یہ روایت ہی روایت و درایت کے معیار پر پوری نہیں اترتی۔ لیکن اگر اسے صحیح بھی مان لیا جائے تو اس بات کی کوئی صراحت نہیں کہ ان آیات میں اسی واقعہ کا حوالہ ہے۔ غلط فہمی کی بنیاد یہ ہے کہ پہلی آیت میں شخص معہود کے تذکرے کے لیے اَلَّذِیْ کا لفظ آیا ہے۔ اور یہ عام طور پر معرفہ ہونے کی وجہ سے کسی خاص شخص کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں کوئی خاص شخص مراد ہے اور جب اس کو تلاش کرنے کے لیے نکلے تو اس روایت پر ان کی نظر پڑگئی اور انھوں نے اس سے مراد ولید بن مغیرہ کو لے لیا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اَلَّذِیْیا اَلَّتِیْکسی خاص مرد یا کسی خاص عورت ہی کے لیے نہیں آتے بلکہ بعض مواقع میں تمثیل کے لیے آتے ہیں۔ اور مقصود اس سے کسی گروہ یا جماعت کے مجموعی کردار کو پیش کرنا ہوتا ہے۔ اور قرآن کریم میں جابجا اس کی مثالیں موجود ہیں۔ پیش نظر آیت کریمہ میں بھی قریش اور یہود کے مجموعی کردار کو ایک تمثیل کی شکل میں بیان کیا گیا ہے۔ اَکْدٰییہ اکدی الحافر سے نکلا ہوا محارہ ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ کھودنے والے کے آگے کھدائی کے وقت کوئی ایسی چٹان آگئی جس کا توڑنا اس کے لیے دشوار ہوگیا۔ اس کا استعمال ایسے بخیلوں کے لیے کیا جاتا ہے، کہ اولاً تو یہ غریبوں پر خرچ کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے اور مارے باندھے کبھی کچھ خرچ کرتے بھی ہیں تو فوراً اندر کا بخل ان کا ہاتھ روک دیتا ہے۔ اور اندیشہ ہائے دوردراز کا شکار ہو کر پیسے پر سانپ بن کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اس لفظ سے قریش اور یہود کے بڑے بڑے سرداروں کے بخل کی تصویر کھینچنا مقصود ہے۔
Top