Baseerat-e-Quran - An-Najm : 33
اَفَرَءَیْتَ الَّذِیْ تَوَلّٰىۙ
اَفَرَءَيْتَ : کیا بھلا دیکھا تم نے الَّذِيْ تَوَلّٰى : اس شخص کو جو منہ موڑ گیا
(اے نبی ﷺ آپ نے اس شخص کو دیکھا جس نے (دین حق سے) منہ پھیرا
لغات القرآن آیت نمبر 33 تا 62 اکدی وہ رک گیا۔ لم ینبئا مطلع نہیں کیا گیا۔ وزراخری دو سے کا بوجھ۔ سعی اس نے کوشش کی۔ جدوجہ دیک۔ سوف یری بہت جلد وہ دیکھ لے گا۔ اضحک اس نے ہنسایا۔ ابکی اس نے رلایا۔ اقنی مال دار کیا۔ الموتفکۃ اوندھی کی گئیں (بستیاں) عشی اوپر سے گرا تتماری تو شک کرے گا۔ ۔ ازقت الازقۃ آنے والی گھڑی قریب آگئی۔ سامدون کھیلنے والے اعبدوا تم بندگی کرو۔ تشریح : آیت نمبر 33 تا 62 سورۃ النجم کی یہ اٹھارہ آیات جن پر اس سورت کو ختم کیا گیا ہے ان کا خلاصہ یہ ہے کہ بعض لوگ وہ ہوتے ہیں جو حق و صداقت کی روشنی کو دیکھ کر اس کی طرف آن ی کی کوشش کرتے ہیں لیکن جب ان پر دنیا کے مفادات کا غلبہ ہوتا ہے تو وہ پھر سے ان ہی اندھیروں کی طرف پلٹ جاتے ہیں جہاں انہیں کچھ نظر نہیں آتا۔ اللہ تعالیٰ نے صاف صاف ارشاد فرما دیا ہے کہ ہر شخص اپنے کئے ہوئے ہر عمل کا پوری طرح ذمہ داری ہے۔ وہ اس دنیا میں رہ کر جو کچھ کرے گا اس کا اچھا یا برا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور اس کے ایک ایک عمل کی جانچ پڑتال کی جائے گی ” جیسا کرے گا ویسا بھرے گا “ کوئی شخص اپنے عمل کے انجام سے نہ تو بچ سکتا ہے اور نہ کوئی دوسرا شخص اس کو بچا سکتا ہے۔ اللہ کے تمام پیغمبر اسی تعلیم کو لے کر آتے رہے اور پوری یکسانیت اور ہم آہنگی کے ساتھ ایک ہی بات کو کہتے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے ہی لوگوں کے لئے نبی کریم ﷺ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اے نبی ﷺ ! کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جس نے دین کی سچائی کو دیکھنے کے باوجود اس سے منہ پھیرلیا، دل چاہا کچھ دے دیا دل نہ چاہا تو اس کو روک لیا۔ فرمایا کہ وہ شخص جو اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ وہ جو کچھ کرتا ہے کوئی اس کو دیکھنے، سننے والا نہیں ہے اور اس کی بیٹھے بٹھائے یوں ہی نجات ہوجائے گی کیا اس نے پردہ غیب میں جھانک کر دیکھ لیا ہے جسے دیکھ کر وہ اس قدر مطمئن اور خوش ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کیا اس کو حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ کی تعلیمات نہیں پہنچیں جن میں صاف صاف فرما دیا گیا ہے کہ 1- کوئی شخص کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا یعنی اگر کوئی شخص گناہوں کے بوجھ سے لدا ہوا ہے۔ گناہوں کے بوجھ سے تنگ آ کر وہ کسی سے کہے کہ میرا بوجھ بھی تم اٹھا لو تو کسی کی مجال نہ ہوگی کہ اس کا بوجھ اٹھا لے۔ 2- انسان کو صرف وہی ملتا ہے جس کی اس نے سعی ، جدوجہد اور بھاگ دوڑ کی ہے۔ یعنی اس نے جو بویا ہے وہی کاٹے گا یہ نہیں ہوگا کہ کانٹے بونے کے بعد وہ پھولوں کی سیج پر آرام کرے گا بلکہ اس آخرت کی ہمیشہ کی زندگی میں اسے انہیں کانٹوں پر بسر کرنا ہوگا۔ اس کے ایک ایک عمل کی جانچ پڑتال کے بعد اس کے حق میں فیصلہ کیا جائے گا۔ 3- فرمایا کہ بیشک انسان اپنی جدوجہد کو بہت جلد (اپنی آنکھوں سے) دیکھ لے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی انسان یہ نہ سمجھے کہ وہ جو کچھ کر رہا ہے اس کو دیھنے والا کوئی نہیں ہے بلکہ انسان کے ہر عمل اور زبان سے نکلے ہوئے ایک ایک لظ کا ریکارڈ موجود ہے جو اس کو پیش کیا جائے گا اور اگر وہ اس کا انکار کرے گا تو اس کے بدن کا ہر عضو کے گناہوں کی شہادت و گواہی پیش کرے گا۔ فرمایا کہ وہی ایک اللہ ہے جو انسان کو رلاتا ہے وہی اس کو ہنساتا بھی ہے۔ اسی کے ہاتھ میں زندگی ہے، وہی موت دیتا ہے، اسی نے نر اور مادہ کو ایک حقیر نطفہ کے ذریعہ پیدائش کا ذریعہ بنایا ہے۔ وہی دوسری زندگی عطا کرتا ہے وہی مال اور جائیداد دیتا ہے ، وہی شعری (ستارہ جس کی کفار عبادت کرتے اور ہر اچھائی اور برائی کا سبب سمجھتے تھے) کا پروردگار رہے۔ اسی اللہ نے عاد اولیٰ (یعنی قدیم عاد جن کی طرف حضرت ہود کو بھیجا گیا تھا) ان کے برے اعمال کے سبب ہلاک اور برباد کیا۔ اسی نے ثمود جیسی ترقی یافتہ قوم کو اس طرح صفحہ ہستی سے مٹا دیا کہ ان میں سے کسی کو باقی نہیں چھوڑا۔ اسی نے قوم نوح کے ظالم و جابر اور سرکش لوگوں کو پانی میں غرق کردیا۔ اسی نے قوم لوط کی بستیوں کو اٹھا کر زمین پر دے مارا۔ ان پر بارش کی طرح پتھر برسائے گئیا ور پھر ان بستیوں پر سمندر کا پانی اس طرح چھا گیا کہ آج بھی وہ بستیاں سمندر کی تہہ میں عبرت کا نشان بنی ہوئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اے مخاطب تو اللہ کی کس کس نعمت میں شک و شبہ کرتا رہے گا۔ فرمایا کہ جس طرح اللہ نے اپنے بہت سے پیغمبر بھیجے اور وہ اپنی قوم کو ان کے برے انجام سے ڈرانے کے لئے آتے رہے جب انکار کرنے والے سمجھانے کے باوجود اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو ان پر اللہ کا عذاب نازل ہو کر ہا اور وہ اپنے برے انجام سے نہ بچ سکے اسی طرح اب اللہ نے اپنے آخری نبی اور رسول کو بھیجا ہے جن کے بعد قیامت کا ہولناک دن تو ہے جو کسی طرح ٹلنے والا نہیں ہے لیکن ان کے بعد نہ تو کوئی نبی ہے اور نہ رسول اور نہ کوئی نئی کتاب لہٰذا اس میں تعجب کرنے کے بجائے اس کو مان لینے ہی میں عافیت ہے۔ یہ مذاق اڑانے یا ہنسنے کی چیز نہیں ہے بلکہ اپنا تکبر اور غرور چھوڑ کر اپنے برے اعمال پر رونے کا مقام ہے۔ لہٰذا اس قرآن کریم کو مان کر صرف اسی ایک اللہ کی بندگی اور عبادت کی جائے اور اسی کے سامنے سجدہ کیا جائے۔ اس سورت کو آیت سجدہ پر ختم کیا گیا ہے۔ سورة النجم وہ پہلی سورت ہے جسے نبی کریم ﷺ نے کفار مکہ کے اس مجمع میں تلاوت فرمایا جہاں اہل ایمان کے علاوہ کفار و مشرکین بھی موجود تھے۔ اس آیت سجدہ کے آتے ہی آپ نے اور اہل ایمان نے اللہ کو سجدہ کیا۔ حیرت اور تعجب کی بات ہے کہ کفار و مشرکین ان آیات کی کیفیات میں اس طرح گم ہوگئے تھے کہ جیسے ہی آپ نے سجدہ کیا تو کفار و مشرکین بھی سجدہ میں گر پڑے۔ زیر مطالعہ آیات کا ایک مفہوم تو وہ ہے جو ابھی بیان کیا گیا ہے لیکن بعض مفسرین نے ان آیات کے پس منظر میں ولید ابن مغیرہ کا واقعہ نقل کیا ہے۔ ولید قریشی سردار تھا اس نے نبی کریم ﷺ کے دین کو قبول کرنے کا ارادہ کرلیا تھا۔ جب اس کے کسی مشرک دوست کو اس بات کا علم ہوا تو اس نے کہا کہ تم اپنے باپ دادا کے دین کو نہ چھوڑو۔ اگر تمہیں یہ ڈر ہے کہ تم آخرت میں عذاب میں مبتلا کئے جائو گے تو مجھے اتنی اتنی رقم دے دو میں تمہارے بدلہ میں وہاں عذاب بھگت لوں گا اور تمہاری جان چھوٹ جائے گی۔ ولید اس بات کو مان گیا اور اس نے جو رقم دینے کا وعدہ کیا تھا اس میں سے کچھ رقم تو دیدی باقی گول کر گیا۔ ممکن ہے ولید کی فطری کنجوسی آڑے آگئی ہو اور سا نے بقیہ رقم دینے سے انکار کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ شاید ولید جیسے لوگوں کو حضرت ابراہیم جیسے دین کے وفادار شخص جنہوں نے اپنی پوری زنگدی اسی وفا کی نظر کردی اور حضرت موسیٰ جنہوں نے حق و صداقت کے لئے فرعون جیسے متکبر اور ظالم، طاقت ور سے ٹ کرلی تھی واقعات نہیں پہنچے ؟ کیونکہ ان کے صحیفوں میں یہ بات صاف صاف لکھ دی گئی ہے کہ کوئی آدمی دوسرے کے (گناہوں کا) بوجھ نہ اٹھائے گا۔ انسان کو صرف وہی ملے گا جس کی اس نے (اپنے اعمال کے ذریعہ) جدوجہد کی ہے اور انسان کی ہر کوشش اور جدوجہد اللہ کے ریکارڈ پر موجود ہے وہ اس کو آدمی کے سامنے رکھ دے گا ۔ فرمایا کہ اسی نے قوم عاد، قوم ثمود، قوم نوح، قوم فرعون اور قوم لوط کی مسلسل نافرمانیوں اور انبیاء کرام کی بات نہ ماننے کی وجہ سے اس قدر شدید عذاب میں مبتلا کیا کہ آج ان کی زندگیاں قصے کہانیاں بن کر رہ گئی ہیں۔ فرمایا کہ ان تمام کفار و مشرکین کے لئے یہ ایک آخری موقع ہے کہ اللہ کے رسول کی اطاعت و فرماں برداری کر کے اپنی آخرت بنا لی جائے۔ اگر یہ موقع ہاتھ سے نکل گیا تو پھر دوسرا کوئی ایسا موقع نہ ملے گا جب ان جیسے لوگوں کی اصلاح ہو سکے۔ خلاصہ یہ ہے کہ مذکورہ آیات اکا ایک تو عام مفہوم ہے جس کو بیان کیا گیا ہے اور دوسرا مفہوم وہ بھی ہو سکتا ہے جو ایک خاص شخص (ولید بن مغیرہ) سے متعلق ہے۔ بہرحال عام مفہوم ہو یا شخص واحد سے متعلق دونوں کا مقصد ایک ہی ہے کہ اب ساری دنیا کے لوگوں کے لئے یہ ایک آخری موقع ہے کہ سرکار دو عالم ﷺ کے دامن رحمت سے وابستگی اختیار کرلی جائے۔ اسی میں ساری انسانیت کا فائدہ ہے۔ اگر آپ ﷺ کی تعلیمات کو نظر انداز کیا گیا تو موجودہ دنیا ہزاروں ترقیات کے بعد پھر اللہ کے عذاب سے دو چار ہو سکتی ہے۔ واخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین
Top