Tafseer-e-Haqqani - An-Najm : 33
اَفَرَءَیْتَ الَّذِیْ تَوَلّٰىۙ
اَفَرَءَيْتَ : کیا بھلا دیکھا تم نے الَّذِيْ تَوَلّٰى : اس شخص کو جو منہ موڑ گیا
بھلا آپ نے اس شخص کو بھی دیکھا جس نے منہ پھیرلیا
ترکیب :۔ اعندہ : الجملۃ المفعول الثانی لرایت بمعنی اخبرت۔ ان لا تزر : ان مخفۃ وضمیر الشان، اسمھا محذوف ای انہ لا تزر والجملۃ المنفیۃ فی محل الجر علی انھا بدل مما فی صحف موسی۔ تفسیر :۔ نیکوں کا بیان کر کے ان مقابلے میں بعض بدوں کا حال بیان فرماتا ہے کہ ایسے بھی بدکار ہوتے ہیں۔ فقال : افرایت الذی تولی۔ کہ اے محمد ! تو نے ایسے لوگ بھی دیکھے کہ جو ہماری یاد سے منہ پھیرتے ہیں اور کچھ تھوڑسا سا دے کر دل کو سکیڑ لیتے ہیں کیا ان کو علم غیب ہے کہ یہ مال ان کے پاس ہمیشہ رہے گا اور ان کو کسی سے حاجت نہیں ہوگی۔ قرآن مجید میں ان طریقوں سے انسانی طبائع کے جزر و مد اور اخیر و شر میں اس کے جذبات بتلائے جاتے ہیں اس میں تعمیم ہے جس کا ایسا حال ہوا اور یہی تعمیم منصب وعظ کے لیے مناسب ہے مگر اس کی تعمیم میں کہیں کسی شخص خاص کی طرف بھی اشارہ ہوتا ہے جس کو بطور نمونہ کے پیش کیا ہے۔ اس لیے مفسرین کہتے ہیں اس الذی سے ولید بن مغیرہ کی طرف اشارہ ہوتا ہے جو اسلام لا کر خیرات کرنے لگا تھا۔ پھر کسی کے عار دلانے سے پھر گیا اور ہاتھ روک لیا۔ اب اس کو پہلے انبیاء کے صحیفوں یعنی کتابوں کے مضامین یاد دلا کر سمجھایا جاتا ہے۔ فقال : ام لم ینبا بما فی صحف موسی۔ وابراھیم کہ موسیٰ اور ابراہیم وفا دار بندے کے صحیفوں میں کیا لکھا ہوا تھا۔ معلوم نہیں ؟ صحف موسیٰ توریت یا اور ان کی بعض مفقود شدہ کتابیں۔ اسی طرح ابراہیم (علیہ السلام) پر بھی کچھ صحیفے نازل ہوئے تھے، جواب بالکل مفقود ہیں۔ ان صحیفوں کی پہلی بات :۔ الا تزر کہ کوئی کسی کا بوجھ یعنی گناہ نہیں اٹھائے گا۔ یعنی کرے کوئی بھرے کوئی۔ کسی کے گناہ میں قیامت کو دوسرا نہیں پکڑا جائے گا۔ اس کے کہنے سے کہ تو گناہ کرلے اور تیرا گناہ مجھ پر، یہ بری نہ ہوگا۔ و ان لیس الخ۔ انسان کو اپنی کمائی یعنی اعمال کا پھل ملتا ہے کرایہ کے لوگوں کے اعمال اس کو نفع نہ دیں گے یعنی گناہ سے ڈرنا چاہیے اور نیکی میں آپ کو کوشش کرنی چاہیے۔ 1؎ اس سے یہ غرض نہیں کہ ایماندار کو اس کے ایمان کی برکت اور اس کی کوشش سے اس کو آخرت میں کسی کی شفاعت سے نفع نہ ہوگا یا اس کے لیے کسی کی دعا فائدہ مند ہوگی یا مرنے کے بعد کسی کے لیے صدقات و اعمال صالحہ کی برکت سے جو اس کے لیے دعا و صلہ ہے نفع نہ ہوگا جیسا کہ معتزلہ اور دیگر لوگوں نے سمجھ لیا ہے۔ 3 ۔ و ان سعیہ الخ۔ انسان کی کوشش رائیگاں نہ جائے گی۔ اگر یہ خود اس کے رائگاں کرنے کا کام نہ کرے گا ورنہ عمل حبط بھی ہوجاتے ہیں۔ 4 ۔ اس کو اپنے اعمال کا پورا بدلہ ملے گا۔ 5 ۔ خدا کے پاس ہر ایک کو جانا ہے۔ 6 ۔ یہ کہ خوشی و غم خدا ہی کی طرف سے ہے۔ 7 ۔ مارنا جلانا بھی اسی کے ہاتھ ہے۔ 8 ۔ نر و مادہ اسی نے بنائے ہیں قطرہ منی سے۔ 9 ۔ وہی مارنے کے بعد بار دیگر حشر میں زندہ کرے گا۔ 10 ۔ وہی فراغ دستی و تنگ دستی دیتا ہے۔ 11 ۔ یہ نہ ستاروں کی تاثیر ہے نہ اور کوئی تدبیر کس لیے کہ وہ شعری 2؎ یعنی ستاروں کا بھی مالک ہے۔ 12 ۔ اور یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ دنیا میں اعمال بد کا ثمرہ نہیں ملتا کس لیے کہ اس نے قوم عاد 3؎ وثمود اور نوح کی قوم کو غارت کردیا کسی کو باقی نہ چھوڑا کیوں کہ وہ ظالم اور سرکش تھے۔ یہ بارہ باتیں ہوئیں جو اس کی سعادت کے لیے نہایت نافع ہیں۔ توحید و توکل و اعتقاد صحیح اور نیکی میں کوشش کرنے اور بدی سے بچنے کی بابت اور برے اعمال کے بد نتیجے کے پیش آنے بابت۔ انہ، انہ کو جمہور نے بالفتح پڑھا ہے سب کا عطف لفظ ما پر ہے جس سے لازم ہوگا کہ سب موسیٰ اور ابراہیم کے صحیفوں کی باتیں ہیں۔ ؎1 عیسائیوں کے عقیدہ کفار نے ان دونوں باتوں سے ان کو غافل کردیا اور انسان کو بےقید بنا دیا۔ 1؎ شعری ایک ستارہ ہے جو گرمی کے موسم میں جوزا کے بعد نکلتا ہے۔ یہ دو ہیں ایک نہایت روشن ہے اس کو عبور کہتے ہیں۔ دوسرا اس سے کم اس کو غمیصا کہتے ہیں۔ بہت لوگ ان کو پوجتے تھے من جملہ ان کے عرب میں جس نے اس کی پستش اول اختیار کی وہ آنحضرت ﷺ کے ننھیال میں سے ایک شخص ابن ابی کبشہ نامی تھا۔ اور ستارے عرض میں آسمان کو قطع کرتے ہیں مگر یہ طول میں۔ اس لیے سب کے خلاف اس نے یہ بات نکالی تھی اس لیے اوب سفیان مخالفت عرب کی وجہ سے آنحضرت صلی کو ابن ابی کبشہ کہا کرتا تھا۔
Top