Tadabbur-e-Quran - An-Najm : 33
اَفَرَءَیْتَ الَّذِیْ تَوَلّٰىۙ
اَفَرَءَيْتَ : کیا بھلا دیکھا تم نے الَّذِيْ تَوَلّٰى : اس شخص کو جو منہ موڑ گیا
بھلا اس کو دیکھا جس نے اعراض کیا ،
(افرء یت الذی تولی واعطی قلیلاً والدی اعندہ علم الغیب فھویری (33، 35) (مفت کی جنت کے خواب دیکھنے والوں کی تمثیل)۔ یہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے کردار کو ممثل کر کے پیش کیا ہے جو اس کی راہ میں دینے دلانے کا تو کوئی حوصلہ نہیں رکھتے اور کبھی کچھ دیتے بھی ہیں تو بس چھدا اتارنے کے لیے لیکن اپنے لیے اس کے ہاں بڑے اونچے اونچے مرتبوں کے مدعی ہیں۔ فرمایا کہ کیا ان کے پاس علم غیب کی دوربین ہے کہ وہ اس کی مدد سے ان مراتب و مقامات کو دیکھ رہے ہیں جو ان کے لیے محفوظ ہیں۔ الذی سے ہمارے مفسرین نے عام طور پر قریش کے ایک سردار ولید بن مغیرہ کو مراد لیا ہے۔ اس سے متعلق ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ اس نے اسلام قبول کرنے کا ارادہ کرلیا تھا لیکن اس کے ایک ساتھی کو جب اس کے ارادے کی اصلاح ہوئی تو اس نے اس سے کہا کہ اگر تم آخرت کے ڈر سے اسلام لانا چاہتے ہو تو اس سے بےفکر ہو۔ اگر تم مجھے اتنی رقم دے دو تو آخرت کے خطرے سے تم کو بچانے کا ذمہ دار میں ہوں۔ ولید نے اس کی اطمینان دہانی کے بعد اسلام لانے کا ارادہ ترک کردیا اور اس کو مطلوبہ رقم دینے کا وعدہ کرلیا لیکن بعد میں اس کو تھوڑی سی رقم دے کر باقی دینے سے مکر گیا۔ یہ واقعہ اگرچہ تمام مفسرین نے بیان کیا ہے لیکن اول تو روایت ہی کے اعتبار سے اس کا کوئی درجہ نہیں۔ دوسرے یہ کہ اگر یہ واقعہ صحیح بھی ہے تو اس کا تعلق کسی پہلو سے بھی ان آیات سے سمجھ میں نہیں آیا۔ تھوڑی دیر کے لیے فرض کرلیجئے کہ ولید نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا تو کیا قرآن نے یہاں اس بات پر اس کو ملامت کی ہے کہ اس نے اپنا وعدہ کیوں نہیں پورا کیا ! اصل یہ ہے کہ الذی چونکہ عام طور پر معرفہ کے لیے آتا ہے اس وجہ سے ہمارے مفسرین جہاں کہیں الذی یا التی دیکھ پاتے ہیں تو ان کی تلاش کسی خاص شخص کی ہوتی ہے جس سے اس کو منطبق کرسکیں۔ اس کوشش میں انہیں لازماً کوئی نہ کوئی واقعہ بھی بنانا پڑتا ہے، خواہ وہ کتنا ہی بےتکا اور کلام کے موقع و محل سے کتنا ہی بےجوڑ ہو۔ ہم اس کتاب میں جگہ جگہ مثالیں پیش کرتے آ رہے ہیں (الذی یا التی) ہر جگہ کسی خاص مرد یا کسی معین عورت ہی کے لیے نہیں آتے بلکہ بعض مواقع میں یہ تمثیل کے لیے بھی آتے ہیں یعنی مقصود تو کسی گروہ یا جماعت کے مجموعی کردار کو پیش کرنا ہوتا ہے لیکن وہ پیش اس طرح کیا جاتا ہے کہ گویا لوگوں کے سامنے اس کو ایک خاص شکل میں مشکل کردیا گیا۔ ہم پچھلی مثالوں میں سے یہاں ایک مثال کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں۔ سورة نحل آیت 92 میں یہود کو تنبیہ فرمائی گئی ہے۔ (ولا تکونو اکالتی نقضت عزلھا من بعد قوۃ انکاثا) کہ اس بڑھیا کی مانند نہ بن جائو جس نے اپنا سارا کا تابنا، اچھی طرح محکم کرنے کے بعد، ادھیڑ کے رکھ دیا۔ یہاں دیکھ لیجئے التی آیا ہے لیکن اس سے کوئی معین بڑھیا مراد نہیں ہے کہ اس کا نام خاندان محلہ کا سراغ لگایا جائے اور اس بات کی تحقیق کی جائے کہ وہ کس طرح کا تتی اور کیوں اپنے کا تے ہوئے کو ادھیڑتی تھی۔ یہ ساری کاوشیں وغیرہ ضروری ہیں اس لیے کہ یہاں اشارہ کسی معین بڑھیا کی طرف نہیں بلکہ ایک تمثیلی کردار کی طرف ہے۔ اسی طرح یہاں ان مشرکین کے سامنے جو اللہ کی راہ میں کچھ دینے دلانے کا حوصلہ تو نہیں رکھتے تھے لیکن اپنے فرضی معبودوں کی شفاعت اور اپنے خاندانی شرف کے زعم میں مدعی تھے کہ جس طرح دنیا میں وہ عالی مقام ہیں اسی طرح آخرت میں بھی، اگر وہ ہوئی ان کے لیے مراتب عالیہ ہیں، ایک کردار تمثیل کی صورت میں رکھا گیا ہے جس کی صورت میں رکھا گیا ہے جس کے آئینہ میں ولید بن مغیرہ بھی اپنی شکل دیکھ سکتا تھا ابو لہب بھی دیکھ سکتا تھا اور قریش کے وہ سارے اغنیاء و بخلاء بھی دیکھ سکتے تھے جو پیغمبر ﷺ کی دعوت انفاق سن کر تو منہ پھیر لیتے لیکن مدعی تھے کہ جنت کی کنجیاں ان کے قبضہ میں ہیں۔ اسلوب کلام یہاں طنز و تحقیر کا ہے۔ یعنی ذرا ان بوالفضولوی کو تو دیکھو جو خدا کی راہ میں کچھ خرچ کرنے سے تو جی چراتے ہیں، شرما شرمی میں کبھی کچھ دیتے بھی ہیں تو محض چھدا اتارنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن مدعی اپنے لیے اونچے اونچے درجوں کے ہیں، گویا ان کے لیے جنت میں جو سامان عیش نہیا ہے اسکو غیب کی عینک سے یہیں سے بیٹھے بٹھائے دیکھ رہے ہیں۔ (بخیلوں کی عام روش)۔ (الدی، الدی العافر) سے نکلا ہوا محاورہ ہے۔ (الدی العافر) کا مفہوم یہ ہے کہ کھودنے والے کے آگے کھدائی کے وقت کوئی ایسی چٹان آگئی جس کو توڑنا اس کے لیے دشوار ہوگیا۔ یہ بخیلوں کی عام روش بیان ہوئی ہے کہ اگر مارے باندھے کبھی کچھ خرچ کرتے بھی ہیں تو تھوڑا سا خرچ کرتے ہیں ان پر بخل کا ایسا دورہ پڑتا ہے کہ ان کی مٹھیاں بھینچ جاتی ہیں اور اگر کوئی ان کو اکسانے کی کوشش کرے تو وہ اس کا منہ نوچنے کو دوڑتے ہیں کہ کہاں تک خرچ کیے جائوں ! چلو ہٹو، میں تو ڈھیروں مال لٹا چکا ہوں۔ (یقول اھلکت مالا لبدا (البلد : 6) والی آیت میں انہی بخیلوں کی تصویر ہے۔
Top