Anwar-ul-Bayan - An-Najm : 33
اَفَرَءَیْتَ الَّذِیْ تَوَلّٰىۙ
اَفَرَءَيْتَ : کیا بھلا دیکھا تم نے الَّذِيْ تَوَلّٰى : اس شخص کو جو منہ موڑ گیا
اے مخاطب کیا تو نے اسے دیکھا جس نے روگردانی کی
کافر دھوکہ میں ہیں کہ قیامت کے دن کسی کا کام یا عمل کام آجائے گا روح المعانی صفحہ 65: ج 27 میں حضرت مجاہد تابعی (رح) سے نقل کیا ہے کہ ولید بن مغیرہ نے رسول اللہ ﷺ کی قرات سنی تو متاثر ہوا اور اسلام کے قریب ہوگیا رسول اللہ ﷺ کو بھی اس کے اسلام کے قبول کرنے کی امید بندھ گئی پھر اسے مشرکین میں سے ایک شخص نے ملامت کی اور کہا کیا تو اپنے باپ دادوں کے دین سے ہٹ رہا ہے تو سمجھتا ہے کہ محمد ﷺ کا دین قبول نہ کیا تو موت کے بعد عذاب میں مبتلا ہوگا ایسا کر تو اپنے دین پر واپس آجا اور تجھے جو عذاب کا ڈر ہے تیری طرف سے برداشت کرلوں گا مگر یوں ہی مفت میں نہیں شرط یہ ہے کہ تو مجھے اتنا مال دیدے۔ ولید اس پر راضی ہوگیا اور جو کچھ تھوڑابہت ارادہ اسلام قبول کرنے کا کرلیا تھا اس سے باز آگیا اور جس شخص نے اس سے یہ بات کہی تھی اسے کچھ مال دیدیا ابھی اتنا مال نہیں دیا تھا جتنے مال کی بات ہوئی تھی کہ کنجوسی سوار ہوگئی اور باقی مال جس کا وعدہ کیا تھا وہ روک لیا، اللہ تعالیٰ شانہٗ نے آیات کریمہ نازل فرمائیں۔ ﴿اَفَرَءَيْتَ الَّذِيْ تَوَلّٰىۙ0033﴾ (اے مخاطب کیا تو نے اسے دیکھا جس نے روگردانی کی) ﴿ وَ اَعْطٰى قَلِيْلًا وَّ اَكْدٰى0034﴾ (اور تھوڑا مال دیا اور بند کردیا) ﴿ اَعِنْدَهٗ عِلْمُ الْغَيْبِ فَهُوَ يَرٰى 0035﴾ (کیا اس کے پاس علم غیب ہے کہ وہ دیکھ رہا ہے) یعنی اس کو کیسے پتہ چلا کہ قیامت کے دن کوئی شخص کسی کا عذاب اپنے سر لے سکتا ہے اور کافروں نے جو کفر اور شرک کا جرم کیا ہے اس کے بجائے دوسرے شخص کو عذاب دے دے گا ان کے پاس علم غیب تو ہے نہیں پھر قیامت کے دن کے فیصلہ کا انہیں کیسے علم ہوا ؟ نہ انہیں علم غیب ہے نہ وہاں ایسا ہونے والا ہے اپنے پاس سے باتیں بناتے ہیں اور یوں سمجھتے ہیں کہ ہم جس طرح چاہیں گے اس طرح ہوجائے گا۔ (العیاذ باللہ) ﴿اَمْ لَمْ يُنَبَّاْ بِمَا فِيْ صُحُفِ مُوْسٰىۙ0036 وَ اِبْرٰهِيْمَ الَّذِيْ وَفّٰۤىۙ0037 اَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰىۙ0038 وَ اَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى ۙ0039 وَ اَنَّ سَعْيَهٗ سَوْفَ يُرٰى۪0040 ثُمَّ يُجْزٰىهُ الْجَزَآءَ الْاَوْفٰى ۙ0041 ﴾ (کیا اسے ان مضامین کی خبر نہیں دی گئی جو موسیٰ کے صحیفوں میں ہیں اور جو ابراہیم کے صحیفوں میں ہیں جس نے پوری بجا آوری کردی کہ کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا اور یہ کہ انسان کے لیے نہیں ہے مگر وہی جو کچھ اس نے کمایا اور یہ کہ اسی کی سعی عنقریب دیکھ لی جائے گی پھر اسے پورا پورا بدلہ دیا جائے گا) مشرکین مکہ حضرت اسماعیل بن ابراہیم (علیہما السلام) کی اولاد تھے اور مدینہ منورہ میں جو یہودی تھے وہ اپنے کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت پر بتاتے تھے دونوں قوموں نے رسول اللہ ﷺ سے جھگڑا کیا لہٰذا ان دونوں حضرات کے صحیفوں کا تذکرہ فرمایا کہ ان کے صحیفوں میں تو یہ لکھا ہے کہ ہر شخص اپنا بوجھ خود اٹھائے گا دوسرا کوئی شخص کسی کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا ہر شخص کو اپنے ایمان اور کفر کی جزا سزا ملے گی۔ کوئی شخص کسی دوسرے کی طرف سے عذاب بھگتنے کو تیار نہ ہوگا ﴿وَ مَا هُمْ بِحٰمِلِيْنَ مِنْ خَطٰيٰهُمْ مِّنْ شَيْءٍ ﴾ اور نہ اللہ تعالیٰ کے قانون میں یہ بات ہے کہ کسی ایک شخص کو دوسرے شخص کے بدلہ عذاب دیدیا جائے جو شخص جیسا کرے گا ویسا بھرے گا، مومن ایمان کا پھل پائے گا اور کافر کو کفر کی سزا ملے گی، ہر شخص کی محنت اور سعی سامنے آجائے گی لہٰذا اس بل بوتہ پر کفر پر جما رہنا کہ میں دنیا میں کسی کو مال دے دیتا ہوں وہ میری طرف سے عذاب بھگت لے گا یا کسی سے یوں کہہ دینا کہ میں تیری طرف سے عذاب بھگت لوں گا قانون الٰہی کے خلاف ہے، دنیا میں بیٹھ کر باتیں بنالینے اور خود ہی فیصلے کرلینے سے عذاب آخرت سے چھٹکارا نہ ہوگا۔ اس مضمون کی تفصیل کے لیے سورة النحل رکوع 3 اور سورة العنکبوت رکوع 1 کی تفسیر کی مراجعت کرلی جائے۔ یہ جو فرمایا ہے ﴿ وَ اَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى ۙ0039 ی﴾ (کہ ہر شخص کو وہی ملے گا جس کی اس نے کوشش کی) اس پر جو یہ اشکال ہوتا ہے کہ پھر ایصال ثواب کا کوئی فائدہ نہ رہا کیونکہ جو شخص عمل کرتا ہے آیت کریمہ کی رو سے اس کا ثواب صرف اسی کو پہنچنا چاہے نہ کہ کسی دوسرے شخص کو۔ اس اشکال کو حل کرنے کے لیے بعض اکابر نے فرمایا ہے کہ آیت کریمہ میں جو ﴿ اِلَّا مَا سَعٰى ﴾ فرمایا ہے اس سے ایمان مراد ہے اور مطلب یہ ہے کہ ہر شخص کو اپنے ہی ایمان کا ثواب ملے گا اس بات کو سامنے رکھ کر ایصال ثواب کا اشکال ختم ہوجاتا ہے کیونکہ کسی شخص کا ایمان کسی ایسے شخص کو فائدہ نہیں دے سکتا جو کافر ہو اور کافر کو ایصال کرنے سے بھی ثواب نہیں پہنچتا۔ ذریت کو جو آباء کے ایمان کا ثواب پہنچے گا (جس کا سورة طور میں ذکر ہے اور حضرت ابن عباس ؓ کی توجیہہ میں آرہا ہے) اس میں ﴿ اتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُمْ ﴾ کے ساتھ بایمان بھی مذکورہ ہے۔ بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ آیت کا مفہوم عام نہیں ہے بلکہ عام مخصوص منہ البعض ہے کیونکہ احادیث شریفہ میں حج بدل کرنے کا ذکر ہے اور حج بدل دوسرے شخص کا عمل ہے پھر بھی اس کا حج ادا ہوجاوے گا جس کی طرف سے حج ادا کیا ہے اور بعض احادیث میں (جو سند کے اعتبار سے صحیح ہیں) دوسرے کی طرف سے صدقہ کرنے کا ذکر بھی ملتا ہے۔ اگر کوئی شخص ذکر یا تلاوت کا ثواب پہنچائے جبکہ ذکر و تلاوت محض اللہ کی رضا کے لیے ہو کسی طرح کا پڑھنے والے کو مالی لالچ نہ ہو تو اس میں ائمہ کرام علیہم الرحمہ کا اختلاف ہے حضرت حنفیہ اور حنابلہ کے نزدیک بدنی عبادات کا ثواب بھی پہنچتا ہے اور حضرت شوافع اور مالکیہ کے نزدیک نہیں پہنچتا، جن حضرات کے نزدیک ثواب پہنچتا ہے وہ حج بدل اور صدقات پر قیاس کرتے ہیں اور اس بارے میں حضرت ابوہریرہ ؓ کا ارشاد بھی مروی ہے : فقد روی ابوداوٗد بسندہ عن ابی ھریرة ؓ قال من یضمن لی منکم ان یضمن لی فی مسجد العشار رکعتین او اربعا ویقول ھذا لابی ہریرہ سمعت خلیلی ابا القاسم ﷺ یقول ان اللہ یبعث من مسجد العشار یوم القیامة شھداء لا یقوم مع شھداء بدر غیر ھم قال ابوداوٗد ھذا المسجد ممایلی النھرـ (ای القرات صفحہ 236 ج 2) قال فی الدر المختار الاصل ان کل من اتی بعبادة مالہ جعل ثوابھا لغیرہ وان نواھا عندالفعل لنفسہ لظاھر الادلة واما قولہ تعالیٰ (وان لیس للانسان الاماسعی) ای الا اذا وھبہ لہ (انتھی) قال الشامی فی ردالمحتار (قولہ لہ جعلی ثوابھا لغیرہ) خلافا للمعتزلة فی کل العبادات والمالک والشافعی فی العبادات البدنیة المحضة کالصلوٰة والتلاوة فلا یقولان بوصولھا بخلاف غیرھا کالصدقة والحج، ولیس الخلاف فی ان لہ ذلک اولا کما ھو ظاھر اللفظ بل فی انہ یجعل بالجعل اولا بل یلغو جعلہ افادہ فی الفتح ای الخلاف فی وصول الثواب وعدمہ (قولہ لغیرہ) ای من الاحیاء والاموات (بحر عن البدائع) (صفحہ 236: ج 2) وقد اطال الکلام فی ذلک الحافظ ابن تیمیة فی فتاواہ (صفحہ 306 الی صفحہ 324: ج 24) وقال یصل الی المیت قرأة اھلہ تسبیحھم وتکبیر ھم وسائر ذکر ھم للہ تعالیٰ واجاب عن استدلال المانعین وصول الثواب بآیة سورة النجم ثم اطال الکلام فی ذلک صاحبہ ابن القیم فی کتاب الروح (من صفحہ 156 الی صفحہ 192) والیک ماذکر فی فتاوی الحافظ ابن تیمیة فی آخر البحث، وسئل ھل القرأة تصل الی المیت من الولد اولا ؟ علی مذھب الشافعی ـ فاجاب : اماوصول ثواب العبادات البدنیة : کالقرأة، والصلاة، والصوم ـ فھذھب احمد، وابی حنیفة، وطائفة من اصحاب مالک، والشافعی، الی انھا تصل، وذھب اکثر اصحاب مالک، والشافعی، الی انھالاتصل، واللّٰہ اعلم وسئل : عن قرأة اھل المیت تصل الیہ ؟ والتسبیح والتحمید، والتھلیل والتکبیر، اذا اھداہ الی المیت یصل الیہ ثوابھا ام لا ؟ فاجاب : یصل الی المیت قراة اھلہ، وتسبیحھم، وتکبیر ھم، وسائر ذکر ھم اللہ، اذا اھدوہ الی المیت، وصل الیہ، واللہ اعلم (صفحہ 324: ج 24) وقال ابن القیم فی آخر البحث (صفحہ 192) وسرا المسالة ان الثواب ملک للعامل فاذا تبرع بہ واھداہ الی اخیہ المسلم او صلہ اللہ الیہ، فما الذی خص من ھذا ثواب قرأة القرآن وحجر علی العبدان یوصلہ الی اخیہ وھذا عمل الناس حتی المنکرین فی سائر الاعصار والامصار من غیر نکیر من العلماء حضرت ابن عباس ؓ سے منقول ہے کہ آیت کریمہ کا عموم منسوخ ہے کیونکہ دوسری آیت میں ﴿ وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ اتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُمْ بِاِيْمَانٍ اَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ ﴾ فرمایا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آباء کے ایمان کا ان کی ذریت کو بھی فائدہ پہنچے گا۔ صاحب روح المعانی نے لکھا ہے کہ والئی خراساں نے حضرت حسین بن الفضل سے دریافت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک طرف ﴿وَ اللّٰهُ يُضٰعِفُ لِمَنْ يَّشَآءُ﴾ فرمایا ہے اور دوسری طرف ﴿ وَ اَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى ۙ0039﴾ فرمایا ہے دونوں میں تطبیق کی کیا صورت ہے حضرت حسین بن الفضل نے فرمایا کہ سورة نجم کی آیت میں عدل الٰہی کا تذکرہ ہے کہ جو بھی کوئی اچھا عمل کرے اسے بقدر عمل ضروری اجر ملے گا اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ اس کا استحقاق ہے اس کے اجر کو ضائع نہیں فرمائے گا اور ﴿وَ اللّٰهُ يُضٰعِفُ لِمَنْ يَّشَآءُ﴾ میں فصل کا بیان ہے وہ جسے جتنا چاہے زیادہ سے زیادہ دیدے اسے اختیار ہے۔ والئی خراساں کو یہ جواب پسند آیا اور حضرت حسین بن الفضل کا سر چوم لیا صاحب روح المعانی نے بھی اس جواب کو پسند کیا پھر فرمایا ہے کہ حضرت ابن عطیہ سے بھی اسی طرح منقول ہے۔ علامہ قرطبی لکھتے ہیں کہ یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ ﴿ وَ اَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى ۙ0039﴾ صرف گناہ کے ساتھ مخصوص ہے نیکی کا ثواب تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے خوب بڑھا چڑھا کردیا جائے گا جس کی تفصیلات حدیثوں میں آئی ہیں اور قرآن مجید میں جو ﴿وَ اللّٰهُ يُضٰعِفُ لِمَنْ يَّشَآءُ﴾ اعمال صالحہ سے متعلق ہے جو شخص گناہ کرے گا اسکا گناہ اتنا ہی لکھاجائے گا جتنا اس نے کیا ہے اور اسی پر مواخذہ ہوگا گناہ بڑھا کر نہیں لکھا جاتا۔ (وہذاتوجیہ حسن) ۔ صاحب معالم التنزیل نے حضرت عکرمہ ؓ سے ایک جواب یوں نقل کیا ہے سورة النجم کی آیت حضرت ابراہیم اور موسیٰ ( علیہ السلام) کی قوم کے بارے میں ہے کیونکہ یہ مضمون بھی ان حضرات کے صحیفوں میں ہے ان کی قوموں کو صرف اپنے ہی کیے ہوئے عمل کا فائدہ پہنچتا تھا۔ رسول اللہ ﷺ کی امت پر اللہ تعالیٰ نے یہ فضل بھی فرمایا کہ کوئی دوسرا مسلمان ثواب پہنچانا چاہے تو وہ بھی اسے پہنچ جائے گا۔ لیکن اس میں یہ اشکال ہوتا ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنے لیے اور اپنے والدین کے لیے اور مومنین کے لیے جو ان کے گھر میں داخل ہوں مغفرت کی دعا کی جیسا کہ سورة نوح کی آخری آیت میں مذکور ہے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے بھائی کے لیے اور اپنی قوم کے لیے مغفرت کی دعا کی جو سورة اعراف رکوع 18 میں مذکور ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امم سابقہ میں ایک دوسرے کے لیے دعاء قبول ہوتی تھی (ہاں اگر دعائے مغفرت کو مستثنیٰ کیا جائے تو یہ دوسری بات ہے) ۔ یہ جو حدیث شریف میں فرمایا ہے کہ جب انسان مرجاتا ہے تو اس کا عمل ختم ہوجاتا ہے اور تین چیزوں کا ثواب جاری رہتا ہے (1) صدقہ جاریہ (2) وہ علم جس سے نفع حاصل کیا جاتا ہو (3) وہ صالح اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی ہو۔ (اور بعض روایات میں سات چیزوں کا ذکر ہے) ان کا ثواب پہنچنے سے کوئی اشکال نہیں ہوتا کیونکہ یہ مرنے والے کے اپنے کیے ہوئے کام ہیں، اولاد صالح جو دعاء کرتی ہے اس میں والد کا بڑا دخل ہے کیونکہ اسی کی کوششوں سے اولاد نیک بنی اور دعاء کرنے کے لائق ہوئی۔
Top