Asrar-ut-Tanzil - Ar-Ra'd : 8
اَللّٰهُ یَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ كُلُّ اُنْثٰى وَ مَا تَغِیْضُ الْاَرْحَامُ وَ مَا تَزْدَادُ١ؕ وَ كُلُّ شَیْءٍ عِنْدَهٗ بِمِقْدَارٍ
اَللّٰهُ : اللہ يَعْلَمُ : جانتا ہے مَا تَحْمِلُ : جو پیٹ میں رکھتی ہے كُلُّ اُنْثٰى : ہر مادہ وَمَا : اور جو تَغِيْضُ : سکڑتا ہے الْاَرْحَامُ : رحم (جمع) وَمَا : اور جو تَزْدَادُ : بڑھتا ہے وَكُلُّ : اور ہر شَيْءٍ : چیز عِنْدَهٗ : اس کے نزدیک بِمِقْدَارٍ : ایک اندازہ سے
اللہ کی خبر رہتی ہے جو کسی عورت کو حمل رہتا ہے اور جو کچھ (ماں کے) پیٹ کے اندر کمی اور بیشی ہوتی ہے اور ہر شے اس کے نزدیک ایک اندازے سے (مقرر) ہے
رکوع نمبر 2 : اسرارومعارف : اللہ جل جلالہ انسانی ضروریات سے پوری طرح واقف ہے اس کا علم تو اس قدر وسیع ہے کہ نہ صرف دنیا میں بلکہ ماؤں کے پیٹوں میں قرار پکڑنے والے حمل اور اس کی ہر ہر لمحہ کی گھٹنی بڑھتی اور تبدیل ہوتی ہوئی صورت کو جانتا ہے اور آج تک طب اور جدید سائنس نے بھی اپنی پوری قوت صرف کرکے اگر اندازہ لگا بھی لیا کہ حمل سے بچی پیدا ہوگی یا بچہ تو ان کا یہ علم بھی محض ایک اندازہ ہوتا ہے یقینی نہیں ہوتا اور صرف یہ اندازہ کو لینا ہی تو کافی نہیں اس کا رنگ ، قد کاٹھ ، صحت ، عرم اور عملی استعداد یا دنیا میں زندگی کی کن منازل سے گذرے گا ، غرض ہر پیدا ہونے واے انسان کے کوائف کی ایک بہت لمبی فہرست ہے جسے جاننا صرف اللہ کا خاصہ ہے ، علاوہ ازیں استقرار حمل سے لے کر پیدا ہونے تک ہر قطرے اور ہر ذرے میں ہونے والی کمی بیشی کو ہر آن جانتا ہے بلکہ ہر کام اس کے مقرر کردہ اندازے اور ٹائم ٹیبل کے مطابق اس کے حکم سے ہوتا ہے کہ ہر ہر کام کا وقت مقدار اور سب کچھ طریق کار اس نے متعین فرما دیا ہوا ہے ۔ اللہ کا علم محیط ہے اور وہ غیب اور پوشیدہ کو بھی ایسے ہی جانتا ہے جیسے ظاہر کو جانتا ہے اور اس کی شان انسان کی فکر تک سے بلند ہے مگر انسان اس کی بڑائی کا اقرار کرنے کے باوجود پھر اس کے لیے ایسی صفات مان لیتے ہیں جو محض عام انسانی اوصاف ہوتے ہیں جیسے یہود ونصاری نے اس کے لیے اوصاف ماننا شروع کردیتے ہیں جو صرف اللہ جل جلالہ کو سزاوار ہیں تو وہ اتنا عظیم ہے اپنی ذات کے اعتبار سے بھی اور اپنی صفات کے اعتبار سے بھی کہ فکر انسانی کی وہاں تک رسائی ہی نہیں اور بغیر اپنے عجز کے اقرار کے انسان کے پاس کوئی چارہ نہیں ۔ فلہذا کوئی تم میں سے چھپ کر اور نہایت رازداری سے بات کرے یا کھلے بندوں اعلان کرتا پھرے اللہ جل جلالہ ہر حال میں جانتا ہے کوئی راتوں کو چھپ کر چلتا ہے یا کام کرتا ہے یا دن کے اجالے میں قدم اٹھاتا ہے اللہ کے لیے دونوں برابر ہیں اور انہیں ایک طرح سے جانتا ہے نہ صرف وہ خود جانتا ہے بلکہ انسان کے ہر حال میں انسان کی نگہداشت کرنے والے فرشتے تک انسان کے ساتھ ہوتے ہیں جو اس کے آگے پیچھے ہر طرف اس کی حفاظت کرتے ہیں اور اللہ کریم کے حکم سے ہی ان کی ذمہ داری ہے ، نطفے سے سے انسانی بدن کی تعمیر اس کی پیدائش پھر اسے رزق پہنچانا بلکہ اس کے پیٹ میں پہنچانا اس کے وجود کا حصہ بنانا اسی طرح اس کے ہر قول وفعل کو لکھ کر محفوظ کرنا پھر مختلف حادثات سے اس کی حفاظت کرنا جو اس کی اپنی کوتاہیوں کے باعث اسے گھیرے رہتے ہیں ، اور بیماریوں سے اس کی حفاظت کرنا یہ سب ان کی ذمہ داری ہے اور جب وہ ساتھ رہتے ہیں تو انسان کے بارے ذرہ ذرہ بات تو اللہ جل جلالہ کی ایک مخلوق یعنی فرشتہ کے علم میں بھی ہے ، خود اللہ جل جلالہ کا علم تو بہت بلند ہے اور اس کا علم وسیع تر ہے ایسے ہی حوادثات سے حفاظت پر بھی فرشتے متعین ہیں ، لہذا جب کسی کو بیماری میں مبتلا کرنا یا کسی حادثے سے دو چار کرنا مقصود ہوتا ہے جو خود اس کی کسی کوتاہی کا نتیجہ ہو یا اللہ جل جلالہ کی طرف سے اسے کسی امر میں مبتلا کرکے اجر دینا مقصود ہو تو فرشتوں کی حفاظت اس سے ہٹا دی جاتی ہے ۔ ّ (جنات سے نجات کا حیلہ) روایات میں ہے کہ اگر یہ فرشتوں کی حفاظت حاصل نہ ہوتی تو صرف جنات ہی انسان کا جینا دوبھر کردیتے ، لہذا جن لوگوں کو جنات کی طرف سے اذیت ملتی ہے تو گویا ان سے کسی حد تک حفاظت الہیہ ہٹا لی جاتی ہے جس کا سب سے موثر علاج توبہ ہے یعنی دوسرے علاج کے ساتھ ایک بہت موثر حیلہ توبہ ہے ایسے ہی یہ فرشتے شیطان کی دعوت کے مقابلے میں گناہوں سے بچانے کا اہتمام بھی کرتے ہیں اور انسان کے دل میں گناہ سے نفرت اور نیکی سے رغبت کا داعیہ پیدا کرتے رہتے ہیں اور بدکار ان کا ہاتھ جھٹک کر ہی برائی کرتا ہے اللہ ایسا کریم ہے اپنے اس حفاظتی نظام سے کبھی کسی قوم کو یا جماعت کو مجرم نہیں فرماتا جب تک کہ خود انسان اپنے اختیار سے اس کی حفاظت کو جھٹک نہیں دیتا اور اپنے آپ کو اس کی نافرمانی کے راستے پر گامزن نہیں کردیتا ، پھر جب انسان یہی طے کرلیتا ہے تو اللہ جل جلالہ بھی اسے اپنی حفاظت سے محروم فرما کر اسے مصیبتوں کے سپرد فرما دیتے ہیں اور وہ مبتلائے گناہ ہو کر بالآخر اللہ جل جلالہ کے عذٓب میں مبتلا ہوجاتا ہے اور جب اللہ جل جلالہ کسی سے اپنی حفاظت ہٹالیں اور اسے عذاب میں مبتلا کردیں ، تو پھر عذاب الہی کے مقابلے میں اس کا کوئی مددگار بھی نہیں ہوتا نہ کوئی انسان ان کے کام آسکتا ہے اور نہ فرشتے ہی کچھ مدد کر پاتے ہیں ۔ وہ ہی قادرمطلق ہے کہ بادلوں میں پانی کے ساتھ آگ کو یعنی بجلی کو جمع فرما دیا جو چمک چمک کر تمہیں بارش کی امید دلاتی ہے تو ساتھ بجلی گرنے اور تباہی کا خطرہ بھی نظر آتا ہے اور وہ ایسا قادر ہے کہ پانی کا بہت بڑا ذخیرہ بادل میں بھر کر ہوا پر چلا دیتا ہے بجلی کی کڑک بھی اسی کی تسبیح بیان کرتی ہے اور اسی کی عظمت کا اقرار کر رہی ہوتی ہے اور تمام فرشتے بھی اس کی عظمت کے سامنے لرزاں وترساں رہتے ہیں وہ جہاں چاہے بادلوں سے ہر شے کو سیراب کر دے اور جہاں چاہتا ہے بجلی گرا کر تباہ برباد بھی کر دتیا ہے ، یہ سب انسان کی نگاہ کے سامنے ہے اس کے باوجود ان بدنصیبوں کو اس کی عظمت وکبریائی میں شبہ ہے اور اس شان میں جھگڑتے ہیں ، حالانکہ ایسا کرنا بہت بڑی گستاخی ہے اور اس کی گرفت اور عذاب جو گستاخی پہ واقعہ ہوتا ہے بہت سخت ہے ، ضرورت کے وقت یا مدد کے لیے یا عبادات میں پکارنا اللہ جل جلالہ ہی کو سزاوار ہے اور یہی حق ہے کہ کسی کو پکار سننا یا اس کی حاجت پوری کرنا یہ اللہ جل جلالہ ہی کا کام ہے ، جو لوگ اللہ جل جلالہ کو چھوڑ کر غیر اللہ کو پکارتے ہیں ، دیوی دیوتاؤں کو یا غیبی طاقتوں کو یا فرشتوں اور اللہ جل جلالہ کے بندوں کو تو وہ سخت غلطی کے مرکتب ہوتے ہیں اس لیے کہ اللہ جل جلالہ کے سوا جو کوئی بھی ہے وہ مخلوق ہے اور خود اپنی ذات کے لیے بھی اور اپنی ضروریات کے لیے بھی اللہ جل جلالہ کا محتاج ہے لہذا وہ کسی دوسرے کی پکار پر لبیک نہیں کہہ سکتا اس کی مثال تو ایسے ہے جیسے کوئی دریا کی طرف ہاتھ پھیلا دے اور پکارے کہ میری پیاس بجھا دو تو اور میرے منہ تک اپنا پانی پہنچاؤ تو دریا کبھی ایسا نہ کرسکے گا خواہ وہ پانی سے لبالب بھرا ہو ، اس لیے کہ اس طرح پکار اور دعا پر حاجت روائی کرنا اس کا منصب نہیں وہ خود مخلوق ہے اور اپنی ذمہ داری کی حد تک خدمت پر مامور ہاں اللہ جل جلالہ کے بتائے ہوئے قاعدے ہی سے پیاس بجھائی جاسکتی ہے ایسے ہی کفار کے اعمال اور ان کی عبادات و مناجات سب بیکار جاتے ہیں کہ وہ سب کام اپنی پسند سے کرتے ہیں اللہ جل جلالہ کے ارشاد کردہ دین کی پیروی نہیں کرتے اور جو کچھ اپنی پسند سے یا انسانوں کی تجویز کردہ رسومات کے مطابق کرتے ہیں وہ کبھی شرف قبولیت نہیں پاتا ۔ ہر چیز اللہ جل جلالہ کے سامنے سربسجود ہے اپنی پسند سے اطاعت کرے یا نہ بھی کرنا چاہے تو اس کے پاس اطاعت کے سوا چارہ نہیں ، پیدا ہونے اور مرنے میں قد کاٹھ یا رنگ روپ میں صحت وبیماری میں غرض کہ ہر حال میں اسی کے حکم کے تابع ہیں اور اس قدر مکمل اطاعت کرتے ہیں جیسے سربسجود ہوں سب چیزوں کا سایہ ہی دیکھ لو کہ صبح شام انہیں کے قدموں میں لوٹ کر اس بات پر گواہی دیتا ہے کہ تمہاری کوئی حیثیت نہیں اور ساری عظمت صرف اللہ جل جلالہ کے لیے جو سارے جہانوں کا خالق ومالک ہے ۔ ان سے فرمائیے کہ کون بنانے اور قائم رکھنے والا ہے آسمان کا اور سب زمینوں کا کہ آسمانی مخلوق تو خود آسمان پر قیام کرنے کے لیے اس کی محتاج ہے اور زمینوں کے باسیوں کی پناہ گاہ خود زمینیں ہی ہیں تو لامحالہ یہ ان کو سنبھالنے کی اہلیت تو نہیں رکھتے تو انہیں بتائیے کہ صرف اللہ جل جلالہ ہے جو آسمان اور زمینوں سب کا بنانے والا بھی ہے اور سب کو قائم رکھنے والا بھی پھر اتنی بڑی شان والے مالک کو چھوڑ کر تم مخلوق کا آسرا پکڑتے ہو اور مخلوق سے اپنی حاجت برآری کی تمنا رکھتے ہو حالانکہ مخلوق تو خود اپنے بھلے برے اور نفع نقصان پر بھی اختیار نہیں رکھتی ایسا کرنا تو گویا بالکل اندھا پن ہے اور اندھے کبھی آنکھوں والوں کے برابر نہیں ہو سکتے یا ظلمت کبھی نور کا مقابلہ نہیں کرسکتی کہ معرفت الہی نور ہے اور اس کی عظمت سے بیگانہ پن ظلمت آخر کیوں یہ لوگ اس مصیبت میں مبتلا ہوتے ہیں اور غیر اللہ کو اپنی امیدوں کا مرکز کیوں بناتے ہیں کیا نہوں نے بھی کچھ تخلیق کیا ہے کوئی مخلوق پیدا کی ہے کہ انہیں دھوکا لگ رہا ہے اور ان سے بھی امید لگائے بیٹھے ہیں ہرگز نہیں بلکہ فرما دیجئے کہ وہ تو خود مخلوق ہیں اور صرف اللہ جل جلالہ ہر شے کا خالق ہے اور وہ اپنی ذات اور اپنی صفات میں یکتا ہے اکیلا ہے اور بہت بڑی قدرت و طاقت کا مالک ہے ،۔ اسی کی قدرت کاملہ سے بارش کا نزول ہوتا ہے اور ندی نالے لبالب بھر کر بہنے لگتے ہیں ان کی روانی میں خس و خاشاک بھی شامل ہوجاتا ہے اور پانی کا جھاگ بھی یا جیسے زیور بنانے کے لیے دھاتوں کو پگھلاتے ہو تو ان پر میل کچیل جھاگ کی صورت میں جم جاتا ہے ، اللہ جل جلالہ حق و باطل کی یہی مثال ارشاد فرماتے ہیں کہ باطل خس و خاشاک اور جھاگ کی مانند ہے جیسے حالات کے طوفان جنم دیتے ہیں مگر بہت جلدی مٹ جاتا ہے اور ختم ہوجاتا ہے لیکن حق اس پانی کی مانند ہے جو سطح زمین پر ٹھہر کر مخلوق کو سیراب کرتا ہے یا زمین کے اندر جذب ہو کر اسے سرسبزی وشادابی عطا کرتا ہے یا جیسے دھات کا جھاگ ختم ہوجاتا ہے اور صاف ستھری دھات باقی رہتی ہے جس سے خوبصورت زیور بنائے جاتے ہیں جو مخلوق کا حسن بڑھاتے ہیں اللہ جل جلالہ اسی طرح مثالوں سے بات کو واضح فرما دیتے ہیں کہ کوئی بھی ذی شعور خس و خاشاک اور جھاگ کو پانی کے مقابل یا جھاگ کو دھات کے عوض پسند نہیں کرتا تو پھر حق کو چھوڑ کر باطل کو اختیار کرنا کہاں کی عقلمندی ہے ۔ ہر طرح کی بہتری صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو اپنے پروردگار کی عظمت کا اقرار کرتے ہیں اور اس کا حکم مانتے ہیں جن بدنصیبوں نے اس کی اطاعت سے منہ موڑا اور اس کی ذات یا صفات میں کسی دوسرے کو شریک ٹھہرایا اگرچہ انہیں جو کچھ دنیا میں ہے سب مل جائے ، بلکہ مال اور بھی مل جائے اور انجام کار وہ یہ سب کچھ دے کر جان چھڑانا چاہئیں تو ایسا نہ ہو سکے گا دنیا کا سب مال کسی ایک انسان کو ملنا محال ہے اگر ایسا ہو بھی بلکہ اسے دوگنا کردیا جائے تو بھی اللہ جل جلالہ کی نافرمانی کے بدلے بہت مہنگا سودا ہے اور لوگ دنیا ہی کی طلب میں اللہ جل جلالہ کی نافرمانی کرتے بھی ہیں مگر یوم حساب بہت سخت ہو اور ایسے لوگوں سے بہت شدت سے باز پرس ہوگی جس کے نتیجے میں ان کا ٹھکانہ دوزخ ہوگا جو بہت ہی برا اور تکلیف دہ ٹھکانہ ہے جہاں کبھی کوئی لمحہ آرام کا سوچا بھی نہیں جاسکتا ۔
Top