Urwatul-Wusqaa - Ar-Ra'd : 8
اَللّٰهُ یَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ كُلُّ اُنْثٰى وَ مَا تَغِیْضُ الْاَرْحَامُ وَ مَا تَزْدَادُ١ؕ وَ كُلُّ شَیْءٍ عِنْدَهٗ بِمِقْدَارٍ
اَللّٰهُ : اللہ يَعْلَمُ : جانتا ہے مَا تَحْمِلُ : جو پیٹ میں رکھتی ہے كُلُّ اُنْثٰى : ہر مادہ وَمَا : اور جو تَغِيْضُ : سکڑتا ہے الْاَرْحَامُ : رحم (جمع) وَمَا : اور جو تَزْدَادُ : بڑھتا ہے وَكُلُّ : اور ہر شَيْءٍ : چیز عِنْدَهٗ : اس کے نزدیک بِمِقْدَارٍ : ایک اندازہ سے
اللہ جانتا ہے ہر مادہ کے پیٹ میں کیا ہے (نیک یا بد) اور پیٹ میں کیا کچھ گھٹتا ہے کیا کچھ بڑھتا ہے (اور شکم مادر میں کیا کیا تبدیلیاں ہوتی ہیں) اس کے ہاں ہرچیز کا ایک اندازہ ٹھہرایا ہوا ہے
اللہ ہی جانتا ہے کہ ہر مادہ کے پیٹ میں کیا ہے اور رحم میں کیا کمی یا بیشی ہو سکتی ہے 17 ؎ اللہ ! بس اللہ ہی ہے کہ وہ واجب الوجود ہے لیکن جسم کی کیفیت سے پاک ہے۔ نہ اسکا اول نہ آخر ‘ نہ ظاہر نہ باطن ‘ وہ دیکھتا ہے پر آنکھ نہیں رکھتا ‘ وہ سنتا ہے پر کان نہیں رکھتا ‘ وہ جانتا ہے پر دماغ کا محتاج نہیں۔ وہ نہ ولد ہے اور نہ والد۔ اس کی کوئی احتیاج نہیں پر اس کی سب کو احتیاج ہے اور کوئی نہیں جس کو اس کی احتیاج نہ ہو۔ اس کو ہرچیز کا علم ہے لیکن کسی کے بتانے اور سکھانے سے نہیں اس لئے وہ ” عالم الغیب “ کا لقب پاتا اور اس کے سوا کوئی نہیں جس کو یہ لقب دیا جاسکے۔ اس کے علم سے کوئی بات اور کوئی حالت پوشیدہ نہیں اور اس نے ہر بات کیلئے ایک اندازہ مقرر کردیا ہے اس سے باہر کوئی بات نہیں کی جاسکتی پس وہ سب کی نیتوں اور خیالوں سے بھی باخبر ہے اس نے ہدایت و شقاوت کے معاملہ کیلئے اندازے ٹھہرا دیئے ہیں جو ہدایت پائے گا اس کے مطابق پائے گا جو نہیں پائے گا اس کے مطابق نہیں پائے گا۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ کسی مادہ کے پیٹ میں کیا ہے ؟ کیسا ہے ؟ نر ہے یا مادہ ؟ ایک ہے یا ایک سے زیادہ ؟ اس میں کیا کیا کمی کی گئی ہے اور کیا کیا بیشی ؟ اس کی شکل و صورت ماں کی طرف مائل ہوگی یا باپ کیطرف یا ان سے بالکل مختصف ؟ رنگت میں ‘ ڈیل و ڈول میں ‘ قامت میں ‘ خوب صورتی میں ‘ اخلاق و اعمال میں ‘ عزت و جاہ میں ‘ مال و دولت میں ‘ اخلاق و کردار میں ‘ دیانت و امانت میں اور یہ کہ اس کی زندگی اس کے والدین سے کم ہے یا زیادہ ؟ یہ اور اس طرح کی ساری باتیں جو اس جنین کے متعلق کہی جاسکتی ہیں سب کو وہ جانتا ہے لیکن اس کا قانون فطرت یہ ہے کہ انسنا کے ہاں انسان اور گدھے کے ہاں گدھے کا بچہ ہی پیدا ہوگا شکل و صورت کے لحاظ سے گدھے کے ہاں انسان اور انسان کے ہاں گدھا نہیں پیدا ہوسکتا اور اس طرح قریبالاجناس میں پیوند ہوگا اور بعیدالجنس میں نہیں۔ زیرنظر آیت میں اللہ تعالیٰ کی ایک مخصوص صفت کا بیان ہے کہ وہ ” عالم الغیب “ ہے۔ تمام کائنات و مخلوقات کے ذرہ ذرہ سے واقف اور ہر ذرہ کے بدلتے ہوئے حالات سے باخبر ہے اس کی ذات ہی تخلیق انسانی کے ہر دور اور ہر تغیر اور ہر صفت سے پوری طرح واقف ہونے کا ذکر ہے۔ ” تغیض “ کے معنی کم ہونے اور خشک ہونے کے ہیں اور اس کے مقابلہ میں لفظ ” تزداد “ آیا ہے جس کے معنی زیادتی کے ہیں اس لئے ” تغیض “ کے معنی کمی کے ہوگئے اور مطلب یہ ہوا کہ زخم مادر میں جو کمی بیشی ہوتی ہے وہ سب اس کے علم میں ہے اور اس کے قانون کے مطابق ہے اور پھر جو بات قانون الٰہی میں طے ہوگئی کہ اس حمل کی کم سے کم مدت کیا ہے ؟ اور زیادہ سے زیادہ کیا ؟ وہ تو پہلے ہی طے ہے لیکن ان کے درمیان کونسا حمل کتنا وقت لے گا اس کو بھی وہ جانتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ کوئی چیز ایسی نہیں جس کے علم کی نفی کی جائے کہ یہ علم الٰہی میں نہیں ہے بلکہ ایسا کہنا ‘ سمجھنا ‘ بیان کرنا سب کلمات کفر ہیں۔ ” اس کے ہاں ہرچیز کا ایک اندازہ ٹھہرایا ہوا ہے ؟ “ اور سارے کام میں اس کا کوئی شریک وسہیم نہیں اور نہ ہی اس کو کسی شریک و سہم کی ضرورت ہے۔ ہر کام کے لئے اس کا ایک قانون ہر کت میں ہے اور اس کے مطابق سارے کام چل رہے ہیں اور اس کو ہر ہر حالت کیلئے اہتمام دیکھ بھال نہیں کرنا ہوتا کہ کہیں بھول یا چوک ہوجائے۔ ہاں ! اس کا قانون اتنا مضبوط اور اتنا واضح ہے کہ اس کی خلاف ورزی ممکن نہیں یعنی یہ نہیں ہو سکتا کہ اس قطرہ و بوند کے بغیر ہی وہ شکم مادر میں بچہ کی پرورش شروع کردے کیونکہ وہ اس کے قانون کے یہ خلاف ہے اور قانون کے خلاف وہ کبھی نہیں کرتا اور نہ ہی کسی کو کرنے دیتا ہے کیونکہ وہ سب طاقتوروں سے زیادہ طاقتور ہے اور قانون کی خلاف ورزی کمزوری کی دلیل ہے اس لئے اس کی نسبت اس کی طرف ممتنع ہے۔ ذرا غور کرو کہ جو ذات تم کو اس وقت سے جانتی ہے جب تم ابھی ایک قطرہ آب میں بھی نہ آئے تو اب تمہارا کوئی قول اور تمہارا کوئی ارادہ اس سے پوشیدہ رہ سکتا ہے ؟ یا اگر تم قبروں میں پڑے پڑے خاک ہو جائو اور تمہارے ذروں کو ہوا اڑا لے جائے اور یہ گڑھا تم کو نصیب ہی نہ ہو بلکہ تم کو جلا کر راکھ کردیا جائے اور پھر راکھ کو ہوا میں اڑا دیا جائے تو وہ پھر بھی ہم کو حاضر کردینے پر قادر نہیں ہوگا ؟ کیا عدم سے وجود میں لانا مشکل تھا یا اس کا واپس لانا ؟
Top