Baseerat-e-Quran - Ar-Ra'd : 8
اَللّٰهُ یَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ كُلُّ اُنْثٰى وَ مَا تَغِیْضُ الْاَرْحَامُ وَ مَا تَزْدَادُ١ؕ وَ كُلُّ شَیْءٍ عِنْدَهٗ بِمِقْدَارٍ
اَللّٰهُ : اللہ يَعْلَمُ : جانتا ہے مَا تَحْمِلُ : جو پیٹ میں رکھتی ہے كُلُّ اُنْثٰى : ہر مادہ وَمَا : اور جو تَغِيْضُ : سکڑتا ہے الْاَرْحَامُ : رحم (جمع) وَمَا : اور جو تَزْدَادُ : بڑھتا ہے وَكُلُّ : اور ہر شَيْءٍ : چیز عِنْدَهٗ : اس کے نزدیک بِمِقْدَارٍ : ایک اندازہ سے
اللہ اس حمل سے واقف ہے جو رحم میں ہوتا ہے اور جو کچھ رحم میں سکڑتا اور بڑھتا ہے اور اس کے ہاں ہر چیز ایک مقدار کے مطابق ہے
لغات القرآن : آیت نمبر 8 تا 11 یعلم وہ جانتا ہے تحمل اٹھاتی ہے انثی مادہ، عورت تغیض کمی ہوتی ہے تزداد اضافہ ہوتا ہے کل شیء ہر چیز بمقدار اندازے سے الکبیر بڑا بزرگ المتعال برتر۔ زیادہ اونچا سواء یکساں اسر جس نے چھپایا جھر جس نے کھل کر کیا۔ زور سے کیا مستخف اسم فاعل سارب چلنے والا معقبت (مقبت) ایک کے پیچھے دوسرے کا آنا۔ پہرے دار یحفظون حفاظت کرتے ہیں لایغیر وہ تبدیل نہیں کرتا حتی یغیروا جب تک وہ نہ بدلیں لامرد نہیں ہٹانے والا۔ نہیں ٹلانے والا وال حمایتی۔ مددگار تشریح : آیت نمبر 8 تا 11 اللہ تعالیٰ کا علم کتنا وسیع ہے ؟ اس کا انتظام کتنا حسین ہے ؟ اس کی قدرت کائنات کی ہر چیز پر کس طرح محیط ہے ؟ انسان اگر ذرا بھی غور کرلے تو اس کو ذرہ ذرہ میں یہ سچائی جھلکتی نظر آجائے گی کہ اللہ کا علم اس کا انتظام اور قدرت کائنات کے ذرے ذرے پر محیط ہے۔ ماں کے پیٹ میں جس بچے نے اللہ کی قدرت سے وجود اختیار کیا ہے اس کا پوری طرح اللہ کو علم ہے۔ انسانوں کی بنائی ہوئی مشینیں یہ تو معلوم کرسکتی ہیں کہ ماں کے پیٹ میں لڑکا ہے یا لڑکی ہے یا اس کی کیا پوزیشن ہے لیکن دنیا کی کوئی الٹرا ساؤنڈ مشین یہ نہیں بتا سکتی کہ یہ انسانی بچہ جو اس دنیا میں قدم رکھا رہا ہے وہ خوبصورت ہے یا بدصورت۔ وہ کب تک زندہ رہے گا اور کب اس کی موت آجائے گی۔ وہ بچہ والدین کا فرماں بردار ہوگا۔ یا نافرمان، ایمان پر قائم رہے گا یا کفر پر مرے گا، وہ دنیا میں کیسا مقام حاصل کرے گا ان تمام باتوں کا علم اللہ کو ہے وہ ان تمام باتوں کو اچھی طرح جانتا ہے۔ صحیح بخاری میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ تم میں سے ہر ایک کی پیدائش چالیس دن تک اس کی ماں کے پیٹ میں جمع ہوتی رہتی ہے چالیس دن کے بعد وہ جما ہوا خون بن جاتا ہے۔ پھر چالیس دن میں گوشت کالوتھڑا بن جاتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ بھیجتا ہے جسے چار باتوں کے لکھنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ 1) رزق کتنا ملے گا ؟ 2) عمر کتنی ہوگی ؟ 3) نیک ہوگا۔ ؟ 4) یا برا آدمی ہوگا۔ ؟ غرضیکہ اللہ تعالیٰ کو اس بچے کی ایک ایک کیفیت کا پوری طرح علم ہوتا ہے اس سے کوئی بات چھی ہوئی نہیں ہے۔ فرمایا کہ وہ اللہ انسان کے دل کی ہر بات کو جانتا ہے وہ انسان اس کی ساری دنیا سے چھپا لے لیکن دلی جذبہ بھی اللہ سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اللہ نے ہر انسان پر ان فرشتوں کو بٹھا رکھا ہے جو اس کی ایک ایک بات کو ریکارڈ کر رہے ہیں۔ یہ فرشتے تھکتے نہیں ہیں بلکہ اس نے اپنی قدرت سے ایسا انتظام کر رکھا ہے کہ صبح کے فرشتے اور ہوتے ہیں اور شام اور رات کے فرشتے دوسرے ہوتے ہیں وہ ہر اچھی یا بری بات کو لکھتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا یہ باطنی نظام ہے۔ جو کسی کو ظاہری آنکھوں سے نظر نہیں آتا۔ لیکن اس سچائی سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس پوری کائنات کا پورا نظام اسی طرح چل رہا ہے جس طرح اس کائنات کا مالک اس کو چلا رہا ہے۔ وہ اس کائنات کو چلانے میں کسی کا محتاج نہیں ہے۔ یہ اسی کی قدرت ہے کہ وہ دو متضاد چیزوں کو ایک جگہ رکھ کر ان کی پرورش کر رہا ہے یہ کسی انسان کے بس کی بات نہ تھی۔ آخر میں ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس علم و معلومات کے باوجود کسی کا ہاتھ پکڑ کر اس کو راہ ہدایت نہیں دکھاتا بلکہ اللہ نے جو نظام بنایا ہے اس پر غور کرنے والے جب اپنے اندر تبدیلیاں پیدا کرتے ہیں تب اللہ کی توفیق ان کے ساتھ ہوتی ہے لیکن اللہ کسی شخص شیا قوم کے حالات کو اس وقت تک تبدیل نہیں کرتا جب تک وہ خود اپنے اندر انقلابی تبدیلیاں پیدا نہیں کرلیتے۔ اللہ اپنے بندوں پر کرم ہی کرم فرماتا ہے لیکن اگر وہ کسی کو کسی طرح کا نقصان پہنچائے یا اس پر عذاب نازل کرے تو ساری دنیا مل کر بھی اس کو اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکتی۔ اس کی مدد کے لئے کوئی بھی نہیں آسکتا۔ خلاصہ یہ ہے کہ اس کائنات میں اللہ ہی کی ذات کو تمام کمالات حاصل ہیں اور اس کو ہر طرح کا علم ہے جو لوگ اپنے اندر تبدیلیاں پیدا کر کے اللہ کو راضی کرلیتے ہیں وہی خوش نصیب ہیں اور جو لوگ اس سعادت سے محروم رہتے ہیں وہ اللہ کے عذاب کو دعوت دیتے ہیں اور پھر کسی طرح اس سے چھٹکارا حاصل نہیں کرسکتے۔
Top