بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Asrar-ut-Tanzil - Al-Baqara : 1
الٓمّٓۚ
الم : الف لام میم
الٓمٓ
اسرار ومعارف الم ذلک الکتاب لاریب فیہ الم حروف مقطعات ہیں جو اکثر مذکور ہوئے ہیں جن پر ایمان لانا ضروری ہے اور معانی میں الجھنا غیر ضروری۔ انھا سرابین اللہ رسولہ۔ یہ اللہ اور اس کے رسول کے درمیان راز ہیں مومن کو معنی جانے بغیر بھی ان کا فائدہ مل جاتا ہے ۔ یہ ایسی کتاب ہے جس میں ادنیٰ درجے کے شبہ کی بھی گنجائش نہیں یعنی ، اس کتاب سے جو جواب دعا ہے استفادہ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اے مخاطب ! تو اس کے کسی مضمون یا کسی خبر کو جو گذشتہ یا آئندہ کے بارے ہو یا کسی بھی بیان میں ادنیٰ سا شبہ بھی نہ رکھے کہ واقعتا کسی شبہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ اکثر کتابیں جو ایسے مضامین پر مشتمل ہوں اور ماورا الطبیعاتی یا ایسے حقائق پر مبنی ہوں جو حواس کے ادراک سے بالا تر ہوں تو خود ان کے مصنفین کو بھی یقین کامل حاصل نہیں ہوتا کہ ساری بات کی بنیاد گمان پر ہوتی ہے مگر اس کتاب کا نازل کرنے والا اللہ ہے جس کا علم قدیم ہے ازلی اور ابدی ہے کامل ومکمل ہے۔ لہٰذا اس کی بیان کردہ حقیقتیں شک وشبہ کی رسائی سے بہت بالا تر ہیں پھر اس رفع شک کے لئے اللہ کریم نے ان تمام واسطوں اور ذریعوں کی صداقت وامانت کی گواہی دی ہے جو انسانوں تک اس کے پہنچنے کا سبب ہیں۔ خالق کا کلام بندے تک پہنچنے کے ذرائع : سب سے پہلا واسطہ اور سبب وہ فرشتہ ہے جو رسول اللہ ﷺ تک اس کے پہنچانے کا ذریعہ ہے اللہ کریم نے فرمایا ذی قوۃ عندذی العرش مکین مطاع ثم امین کہ وہ بہت طاقتور اللہ کے نزدیک بہت معزز اور تمام فرشتوں کا سردار اور بہت امانت دار ہے ایسا طاقتور کہ کوئی بھی اپنی طاقت کے ساتھ اس سے وحی چین نہیں سکتا یا جبراً اس کو اس بات پر مجبور نہیں کرسکتا کہ اس میں کسی طرح کی آمیزش کرے اور اگرچہ فرشتے نوری مخلوق ہیں مگر ان فرشتوں کا سردار اور عنداللہ بہت معزز اور بزرگی کا حامل ہے پھر ایسا امانت دار کہ جس کی دیانت امانت پر اللہ خود گواہ ہے یعنی اللہ کی کتاب کو اللہ کے رسول ﷺ تک پہنچانے کا ذریعہ ایک ایسا فرشتہ ہے جو انتہائی قوی ، معزز اور امین ہے۔ دوسرا واسطہ اللہ سے مخلوق تک اللہ کا رسول ﷺ ہے جو صدق مجسم ہے جن کی صداقت پر نہ صرف قرآن گواہ ہے بلکہ جس کی امانت پر اس کے بدترین دشمن یعنی کفار مکہ بھی گواہ ہیں جو اسے ” صادق وامین “ کے نام سے پکارتے ہیں اور جس کی بےداغ زندگی اس کی نبوت پر بہت بڑی شہادت ہے۔ جہاں معجزات قاہرہ اور دلائل باہرہ اس کی نبوت کا ثبوت میں وہاں اس کی قبل بعثت کی زندگی میں اتنی طبیب و طاہر اور پاک وصاف ہے کہ کبھی کسی بھی طرح کا جھوٹ یا غلط بیانی نہیں پائی جاسکتی بلکہ اس حیات مبارکہ کو سب دلائل نبوت پر ایک تفوق حاصل ہے اور حضور ﷺ فرماتے ہیں بعثت فیکم عمراً من قبلہ یعنی میں نے تمہارے درمیان ایک حیات بسر کی ہے کہ تم مجھ پر غلط بیانی کا الزام لگا سکتے ہو ؟ حتیٰ کہ اس حیات طیبہ کی اللہ تعالیٰ نے قسم کھائی ہے لعرک یعنی تیری زندگی کی قسم ! تیری زندگی گواہ ہے۔ سبحان اللہ ! اور فرمایا وانک لعلی خلق عظیم ، تیرے اخلاق ان بلندیوں کو چھو رہے ہیں جو بشر کی رسائی کی حد ہے تو گویا اللہ سچا ہے اس کا پیغام لانے والا فرشتہ شک سے بالا تر اور اس کا رسول ﷺ صادق ومصدق ، یہ ساری بنیاد راستی سچائی اور حق ہے لاریب فیہ ہے مگر کیا کیا جائے کہ ساری مخلوق کو یہ واسطہ بھی براہ راست نصیب نہیں بلکہ رسول اللہ ﷺ اور امت درمیان ایک پورے طبقہ کا واسطہ ہے جنہوں نے رسول اللہ ﷺ سے براہ راست کلام باری کو سنا ، سمجھا سیکھا اور ساری خدائی تک پہنچایا۔ عدالت صحابہ ؓ کا ثبوت : اگر خدانخواستہ یہ واسطہ اور ذریعہ ہی مجروح قرار پائے تو پھر ثابت نہ ہوسکے گا۔ نیز فرشتہ اور رسول اللہ ﷺ پر کسی کو حملہ کرنے کی جرات کم ہوگی مگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین ، چونکہ وہ درجہ معصومیت نہیں رکھتے تو معترضین کیو ہاں حملہ کرنا زیادہ آسان ہوگا اور اگر کوئی اعتراض نہ بھی کرے مگر واقعتا وہ لوگ غلط بیان کر جائیں تو کیا ہو۔ یہی کہ دین کی ساری عمارت مشکوک قرار پائے تو اللہ پاک نے سب سے زیادہ احوال ان حضرات کے ارشاد فرمائے قرآن کریم کی جگہ جگہ ان کی مدح سے مزین فرمایا۔ یہاں تک ان کا ایمان مثالی ایمان فان امنوا بمثل ما امنتم فقہ اھتدوا اور ان کے قلوب مثالی قلوب یعنی اولئک الذین امتحن اللہ قلو بھم لاتقویٰ اور ان کی صداقت مثالی صداقت یعنی اولئک ھم الصائقون۔ اور ان کی زندگی قابل اتباع اور واجب الاتباع قرار دے دی والذین اتبعو ھم باحسان۔ یہ نہ صرف ان کے حالات کا مشاہد قرار دیا بلکہ فرمایا میرے علم ازل میں یہ بات موجود تھی اور میں نے ان کو پیدائش سے بیشتر تورات واناجیل میں ان کے اوصاف ارشاد فرمادیئے تھے کہ یہ میری مثالی مخلوق ہوگی اور انبیاء کے بعد ان کی مثل نہ چشم فلک ان سے پلے پائے گی نہ بعد میں دیکھ سکے گی اور واقعی یہ ضروری تھا کہ قیامت تک باقی رہنے والے دین کو رسول ﷺ سے لے کر اقوام عالم بلکہ ساری انسانیت کہ پہنچانے والے لوگ ایسے ہی مثالی کردار کے حامل ہوتے جن کی ہر کوشش دین کے لئے اور ہر محنت دین کی خاطر ہو اور حق تو یہ کہ نہ صرف مکہ ومدینہ منورہ کی زندگی میں روم وایران کی جنگوں اور قیصروکسریٰ کے مقابلے میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے دین کی حفاظت کا حق ادا فرمایا بلکہ آج بھی ان کی ذوات مقدسہ اس بارگاہ کی پہردار ہیں اور آج بھی اگر ان کو ہٹا دیا جائے تو دین مخلوق تک پہنچ ہی نہیں سکتا۔ وہ لسان نبوت ہیں ترجمان نبوت میں۔ انہوں نے قرآن کو براہ راست حضور اکرم ﷺ سے سنا ، سیکھا ، سمجھا اور پھر آپ کے سامنے اس پر عمل کرکے اپنے عمل کی صحت کی سند حاصل کی۔ صدیاں بیت گئیں کفر کے ظلمت کدے سے اٹھنے والی ہر لہر ان ہی سے جاٹکرائی مگر ہمیشہ کی طرح اپنا پاش پاش سرے کر پھر اسی اندھیروں میں گم ہوگئی بلکہ بعض نادان ودوستوں نے بھی ان مقدس بستیوں پر مقدمہ چلانا چاہا ذرا غور تو فرمائیں کہ طبری اور کلبی گواہ ہیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین معاذ اللہ ملزم اور آج کے محققین منصف ، سبحان اللہ ! پنجابی کی ایک مثال ہے ” ذات دی کوڑ کرلی ، شتیراں نوں جھپے “ مگر اس سب کے باوجود ان کی شان ویسی کی ویسی ہے بےداغ ہے کہ خود قرآن کریم کی لازوال شہادتیں کسی کا کچھ بس نہیں چلنے دیتیں۔ جب یہاں تک بات درست ہوگئی تو اب بیشک ثابت ہوا لاریب فیہ۔ عظمت صحابہ پر یہ لاریب گواہ ہے اور اس بات کا واضح ثبوت کہ مقام صحابیت خودایک خصوصیت کا حامل ہے جو بجز صحبت رسول نصیب نہیں ہوسکتی۔ یہ کہنا کہ الصحابہ کلم عدول کا کلیہ صرف ہکام دین پہنچانے کی حد تک درست ہے ذاتی زندگی میں ان کا صالح ہونا اس سے ثابت نہیں۔ یہ ایسی بات ہے جسے عقل تسلیم نہیں کرتی کہ ایک شخص بیک وقت بدکار بھی ہو اور راست باز بھی۔ پھر راست باز بھی ایسا کہ اللہ کا آخری کلام ، اللہ کی مخلوق تک پہنچانے کا سبب اور ذمہ دار قرار پائے۔ معترضین کو حضرت ماعزؓ کی حکایت بطور ثبوت مل گئی مگر کاش اسے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر تنقید کی بجائے ان کی مثال کو توبہ کے حوالے سے مدح صحابہ میں بیان کیا جاتا جو اس کا اصلی مقام تھا۔ اور ایسے واقعات کی فہرست میں بھی تریسٹھ برسوں میں صرف دو واقعات ملتے ہیں لہٰذا دین اور حقانیت دین کے زندہ ثبوت یہی معزز مقدس اور بزرگ ہستیاں ہیں۔ ھدی للمتقین ، یہ رہبری کرتا ہے ان لوگوں کی جو متقی ہوں ہدایت رہنمائی کے معنوں میں ساری انسانیت کے لئے ہے دعوت الی الحق تو سب کے لئے ہے مگر رہبری صرف ایسے لوگوں کے لئے جو اپنے میں اس کے ساتھ چلنے کی استقامت پیدا کرلیں۔ یہ قوت ہے تقویٰ ۔ جس کا اردو ترجمہ ” ڈر “ لکھا ہوتا ہے۔ مگر یہ لفظ یہاں اس کی مراد بیان کرنے سے قاصر ہے اس کا اصل مقصد ایک خاص ڈر ہے جو کسی محبوب ہستی کی ناراضگی کا ڈر ہو۔ جو کسی کے روٹھ جانے کا اندیشہ ہو ، جو ہر حال میں کسی پر نثار ہونے کی تمنا ہو۔ یہ وہ جذبہ ہے جو تمام خواہشات اور ارادوں کو تمام آرا۔ اور مشوروں کو صرف اس وجہ سے روک دے کہ ایسا کرنے سے میرا رب مجھ سے خفا نہ ہوجائے اور اگر بتقضائے بشریت غلطی صادر ہو بھی جائے تو احساس گناہ دل میں کانٹے کی طرح چبھتا اور توبہ پر مجبور کردیتا ہو یہ تقویٰ ہے۔ ولم یصروا علی مافعلوا حصول تقویٰ کے لئے کون سا راستہ ہے اور متقیوں میں کیا اوصاف پائے جاتے ہیں ؟
Top