بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 1
الٓمّٓۚ
الم : الف لام میم
الف۔ لا ... م می ... م
الف۔ لا ... م می ...(1) م۔ 1 حروفِ مقطعات : 1: قرآن کریم میں انتیس سورتیں ہیں جن کی ابتداء حروف مقطعات سے ہوتی ہے وہ سورتیں درج ذیل ہیں : (1) البقرہ ، 2 (2) آل عمران 3 ، (3) الاعراف 7 ، (4) یونس 10 ، (5) ہود 11 ، (6) یوسف 12 ، (7) الرعد 13 ، (8) ابراہیم 14 ، (9) الحجر 15 ، (10) مریم 19 ، (11) طہٰ 20 ، (12) الشعرا 26 ، (13) النمل 27 ، (14) القصص 28 ، (15) العنکبوت 29 ، (16) الروم 30 ، (17) لقمان 31 ، (18) السجدہ 32 ، (19) یٰسین 36 ، (20) ص 35 ، (21) المؤمن 40 ، (22) حم السجدہ 41 ، (23) الشوری 42 ، (24) الزخرف 43 ، (25) الدخان 44 ، (26) الجاثیہ 45 ، (27) الاحقاف 46 ، (28) ق 50 ، (29) القلم 68 ۔ ان سورتوں میں جو حروف استعمال کئے گئے ہیں ان کا رسم خط اس طرح کا ہے : ا لٓمّٓ، ا لٓرٰ ، حٰمٓ عٓسٓقٓ ، ا لٓمّٓصٓ ، ا لٓمّٓرٰ ، كٓهٰیٰعٓصٓ ، طٰسٓمّٓ، طٰسٓ ، حٰمٓ ، طٰہٰ ، یٰسٓ ، قٓ ، صٓ ، نٓ. اس رسم خط میں جو حروف ہجاء استعمال ہوئے ہیں وہ درج ذیل ہیں : الف حاء راء سین صاد طا عین قاف کاف لام میم نون ہاء یاء ا ح ر س ص ط ع ق ک ل م ن ہ ی جو کُل چودہ حروف ہیں۔ مفسرین کرام نے ان حروف کے متعلق مختلف خیالات کا اظہار کیا ہے۔ کچھ لوگوں کی رائے یہ ہے کہ اللہ کے بہت سے اسرار و رموز ہیں جن کی اطلاع کسی انسان کو نہیں دی گئی۔ یہ حروف بھی ان میں شامل ہیں۔ بعض یہ کہتے ہیں کہ ان کے معانی رسول اللہ ﷺ کو معلوم ہیں کیونکہ یہ اللہ اور سول کے اسرار و خفایا ہیں لیکن رسول اللہ ﷺ کے سوا کسی کو بھی معلوم نہیں۔ بعض نے ان کو متشابہات میں شمار کیا ہے اور یہ کہا ہے کہ ان میں گفتگو کرنا جرم عظیم ہے لیکن ایسے بھی ہیں جنہوں نے ان کے مخصوص معانی تحریر کئے ہیں اور یہ اختلاف صحابہ کرام ؓ سے شروع ہو کر آج تک بدستور چلا آرہا ہے جس سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اس میں اس طرح کی گفتگو کرنے کی گنجائش باقی تھی لہٰذا کسی گروہ کو مطعون کرنے کی ضرورت تھی نہ ہے بلکہ اس میں وسعت یہ ہے کہ کتاب و سنت اور حالات زمانہ نزول قرآن کی رعایت سے اب بھی کوئی نظریہ بیان کیا جاسکتا ہے۔ لہٰذا ہم عرض کرنا چاہتے ہیں کہ یہ بات واضح ہے کہ قرآن کریم کا نزول اس لئے ہوا ہے کہ دنیا کی ضلالت و گمراہی دور ہو اور علم حق و عمل صالح کی قاہرانہ قوت نافذ ہو۔ اگر ہم تھوڑی دیر کے لئے اس امر کو تسلیم کرلیں کہ قرآن کریم کا ایک حصہ اگرچہ وہ بہت ہی کم ہو ایسا بھی ہے جس کے مطالب کوئی فرد بشر نہیں جانتا تو دوسرے الفاظ میں اس کے یہ معنی ہوں گے کہ قرآن کریم کا کوئی ایک جزو ایسا ہے جس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ اس لئے یہ بیکار ہے حالانکہ قرآن کریم اپنی نسبت اس امر کا اعلان کرتا ہے کہ وہ ” ہدی للناس “ ہے ، ” برہان “ ہے ، ” بصائر “ ہے ، ” نور “ ہے ، ” بصیرت “ ہے اور یہ کہ وہ ” العلم “ ہے اور دنیا کے پاس اس کے سوا جو کچھ ہے وہ ظن ہے تخمین ہے اٹکل کی باتیں اور قیاسات ہیں لہٰذا یہ ایک لمحہ کے لئے بھی تسلیم نہیں کیا جاسکتا کہ حروف مقطعات کا علم کسی کو نہیں دیا گیا بلکہ اس کے برعکس یہ کہا جاسکتا ہے کہ حروف مقطعات وہ حروف ہیں جن کو زمانہ نزول کے امی اور ناخواندہ لوگ بھی اچھی طرح سمجھتے تھے۔ اس بات کو اس سے بھی تقویت ملتی ہے کہ اب بھی کلام جاہلیت کے جو نمونے محفوظ ہیں ان میں اس کی مثالیں ہمیں دستیاب ہیں۔ جیسے ^فقلت لھا قفی فقالت لی ق میں نے اس سانڈنی سوار عورت سے کہا کہ ٹھہر جا اس نے کہا قاف (وقفت) یعنی میں ٹھہر گئی۔ اس طرح کی مثالوں سے ہمیں یہ یقیناً معلوم ہوجاتا ہے کہ عرب میں حروف مقطعات کا استعمال عام طور پر ہوتا تھا ، اور عرب کے لوگ اس سے اجنبی نہ تھے اگر یہ کوئی جدت طرازی ہوتی تو ضرور تھا کہ سب سے پہلے وہی لوگ اس کی مخالفت کرتے کیونکہ ان سے بڑھ کر قرآن کا دشمن اور کون ہوسکتا تھا ؟ تاریخ میں ایک واقعہ بھی ایسا نہیں پیش کیا جاسکتا جس سے اس امر کی تائید ہوسکے کہ کسی عرب نے اس وقت اعتراض کیا ہو۔ لہٰذا ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ : الم ھذا و مثلہ من حروف الھجاءنی اوائل لسور لیست بایت متشابھات ولا باسماء ولا افعال عند النحاۃ واھل التصریف انماھی حروف تنبیہ واستفتاح تنبہ السامع والمخاطب علی ما بعدھا من الکلام وقعت فی اولہ ومدت صوتًا۔ ا لٓمّٓ، اور اسی طرح کے دوسرے حروف ہجاء یعنی حروف مقطعات جو کئی ایک سورتوں کے شروع میں آئے ہیں یہ نہ تو آیات متشابہات ہیں اور نہ ہی اسماء و افعال بلکہ یہ وہ حروف ہیں جو اہل زبان کے نزدیک سامع اور مخاطب کو متوجہ کرنے کے لئے بولے جاتے ہیں تاکہ سامع آنے والی باتوں اور احکام کو اچھی طرح سمجھ کر سُن لیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان حروف کو لمبا لمبا کر کے ادا کیا جاتا ہے۔ قارئین سے التماس ہے کہ ان سورتوں کا بغور مطالعہ کریں جن کے شروع میں یہ حروف مقطعات بولے گئے ہیں تو آپ یقیناً ان میں ایسے احکام اور اسی طرح کے مضامین پائیں گے جن کے بیان کرنے سے پہلے واقعی سامعین کو متوجہ اور متنبہ کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ فافھم و تتدبر
Top