بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Haqqani - Al-Baqara : 1
الٓمّٓۚ
الم : الف لام میم
شروع ہے اللہ کے نام سے جو نہایت رحم والا بڑا مہربان ہے۔
سورة بقرہ یہ سورة 1 ؎ مدنی ہے یعنی مدینہ منورہ میں نازل ہوئی ہے اس کی دو سو ستاسی آیتیں ہیں اور چھ ہزار اکیس کلمات اور پانچ سو پچیس ہزار حروف اور چالیس رکوع ہیں۔ قرآن مجید کی سب سورتوں سے یہ سورة بڑی ہے اور جس قدر احکام شرعیہ اس سے مستفاد ہیں اور کسی سے نہیں۔ اس میں ایک آیت مداہنہ ہے کہ جو سب آیتوں سے بڑی ہے اور بہت سے عمدہ مضامین اور طرح طرح کی ہدایت افزا باتیں ہیں مگر چونکہ گائے کے ذبح 2 ؎ کرنے کا جو بنی اسرائیل میں واقع ہوا ہے ایک عجیب اور بہت سے مقاصد ضروریہ کی طرف اشارہ کرنے والا قصہ مذکور ہے اس لیے اس کا نام سورة بقرہ 3 ؎ ہوا اور تسمیہ میں کوئی نہ کوئی مخصوص بات ملحوظ ہونی چاہیے۔ یہ نام 4 ؎ اس کا آنحضرت ﷺ کے عہد میں مشہور 1 ؎ بعض روایتوں سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ سورة بقرہ آخر کی تین آیتیں معراج کی شب میں اس وقت اتری تھیں جب کہ آنحضرت ﷺ مقام سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچ گئے تھے چناچہ صحیح مسلم میں عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ جس کا ملخص یہ ہے کہ جب آنحضرت ﷺ معراج کی رات میں سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچے جو چھٹے آسمان پر ہے تو اس وقت وہاں پر آپ کو تین چیزیں دی گئیں پانچ نمازیں اور سورة بقرہ کی آخر کی آیتیں اور یہ حکم کہ ان کی امت میں جو مشرک نہیں اس کے گناہ بخشے جائیں گے چونکہ معراج بالاتفاق مکہ میں ہوئی تھی اس لیے یہ آیتیں مکی سمجھی جائیں گی۔ 2 ؎ بقر اور بقرہ گائے بیل مذکر مؤنث دونوں پر اطلاق کیے جاتے ہیں یہ بقرہ کی ت تانیث کے لیے بلکہ جنس کے لیے جیسا تمر اور تمرۃ میں ہے۔ 3 ؎ منجملہ مقاصد ضروریہ کے خدائے تعالیٰ کے وجود کا اثبات ہے سو وہ بھی اس قصہ سے بخوبی سمجھ میں آسکتا ہے۔ کس لیے کہ اس مقتول کا زندہ ہونا کہ جس پر اس گائے کا گوشت رکھ دیا تھا، خدائے قادر کے وجود پر دلالت صحیحہ ہے کہ جس نے اس کو دوبارہ خلاف عادت جان بخشی ازان جملہ نبوت ہے سو وہ بھی اس سے صاف ظاہر ہے کہ جس نبی کے کہنے سے گائے کا گوشت رکھتے ہی مردہ زندہ ہوگیا یہ اس کا بڑا معجزہ ہے جو اس کی نبوت پر دلالت کرتا ہے اور جب موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت ثابت ہوئی تو ان سے اگلے نبیوں کی نبوت کہ جن کی تصدیق حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کی اور آیندہ نبیوں کی نبوت کہ جن کی پیشین گوئی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کی بخوبی ثابت ہوئی۔ ازان جملہ انبیاء کے کہنے پر بےچون و چرا عمل کرنا چاہیے ورنہ مصیبت پیش آتی ہے سو وہ بھی اس قصہ سے بخوبی ثابت ہے کہ بنی اسرائیل نے حجتیں کر کے کیسی مصیبت اٹھائی اور رسوائی پائی ازان جملہ خوف خدا ہے اور وہ یہ کہ کوئی گناہ خدا سے مخفی نہیں رہتا سو وہ بھی اس قصہ سے ظاہر ہے کہ مقتول دوبارہ زندہ ہو کر بولا اور اس نے راز مخفی کھولا۔ 12 منہ 4 ؎ نیچر مفسر اپنی تفسیر کے صفحہ 12 میں کہتے ہیں قولہ : یہ سورة انہی انتیس سورتوں میں ہے جن کو خدا نے ان کے نام سے موسوم کیا ہے۔ یہ حروف مقطعات ان سورتوں کے نام ہیں جن کے ابتدا میں آئے ہیں۔ اقول : اگر یہ نام خدا کے مقرر کے ہوئے ہوتے تو ضرور تھا کہ صحابہ میں اور آنحضرت ﷺ کے سامنے شہرت پاتے اور ان کے اور نام نہ رکھے جاتے حالانکہ کسی حدیث سے کیا بلکہ ضعیف سے بھی ہمیں یہ نہ معلوم ہوا کہ الٓم اس سورة کا نام خدا نے مقرر کیا ہے بلکہ سب سلف سے خلف تک اس کو سورة بقر کہتے چلے آئے ہیں۔ دوم اگر الٓم اس سورة کا نام ہو تو اور سورتوں کا بھی (کہ جن کے اول میں یہ حروف آئے ہیں) یہی نام ہو۔ پس اشتراک لازم آئے جو تعین اسماء کی غرض کو منافی ہے اور جو پیشتر وضع اول کو بھول جانے سے واقع ہوتا ہے اور خدا بھول سے پاک ہے۔ سوم خود مفسر صاحب سورة بقر سورة عنکبوت۔ سورة روم سورة لقمان سورة سجدہ نام لیتے ہیں۔ الغرض یہ قول علوم اسلام سے ناواقفیت پر دلالت کرتا ہے۔ 12 منہ ہوگیا تھا جیسا کہ احادیث صحاح ستہ سے معلوم ہوتا ہے۔ اس سورة کو سورة الحمد سے یہ مناسبت ہے کہ سورة الحمد میں چونکہ ہدایت کے متعلق جمیع مضامین ایک ایسی خوبی کے ساتھ مذکور ہوئے ہیں جس کے اثر سے دل بیمار اور روح مریض کو شفائِ ابدی حاصل ہوتی ہے اور اسی لیے اس سورة کا نام سورة شافیہ یا شفاء قرن اول میں شہرت پا چکا تھا اور شفائِ قلب کے بعد حیات روحانی اور زندگی جاودانی ایک ضروری بات ہے اس لیے ضرور ہوا کہ اس سورة کے بعد وہ سورة ہو کہ جس میں (بضمن تفصیل اجمال) وہ باتیں ہوں کہ جو حیات اور ہمیشہ کی زندگانی سے علاقہ رکھتی ہوں۔ یہ بات سورة بقرہ میں موجود ہے کیونکہ اس سورت کے کل چالیس رکوع ہیں ان میں سے کوئی رکوع بھی ایسا نہیں کہ جس میں حیات کا مضمون نہ ہو۔ اول و دوم رکوع میں یہ بیان ہے کہ یہ قرآن ان لوگوں کے لیے ہدایت ہے کہ جو خدا سے ڈرتے اور نیک کام کرتے ہیں (یعنی جن کو صلاحیت ازلی اور استعداد ایمانی نصیب ہے) نہ ان کے لیے کہ جو کافر و منافق یعنی ازلی کور باطن ہیں۔ سو یہ صاف طور پر اس بات کا بیان ہے کہ جنہوں نے بموجب صلاحیت ذاتی سعادت ایمان پائی ‘ حیات جاودانی پائی اور جو اس سے محروم رہے انہوں نے حیات ابدی نہ پائی۔ تیسرے رکوع میں خدائے تعالیٰ کی (کہ جس نے آسمان اور زمین کو بنایا اور دنیا کی تمام نعمتوں کو مباح فرمایا) عبادت کا حکم ہے جو حیات ابدی کا باعث ہے۔ چوتھے میں حضرت آدم (علیہ السلام) کا پیدا کرنا اور اس کو حیات بخش کر ملائکہ پر تفضیل دینا اور اس کے مدعی کو حیات ابدی سے محروم کردینا مذکور ہے۔ جس میں یہ اشارہ ہے کہ نافرمانی حیات ابدی سے محروم کرتی ہے اور اس میں قیام حیات دنیوی کی طرف بھی اشارہ ہے کہ جو حیات اخرویہ کا نمونہ اور وسیلہ ہے۔ اول تو کُنْتُمْ اَمْوَاتاً فَاحْیَاکُمْ میں زندہ ہونا بتلا دیا پھر تمام نوع انسانی کی زندگی اور ابوالنوع حضرت آدم (علیہ السلام) کا حال بیان کردیا۔ وَاِذْ قَالَ رَبُّکَ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضْ خَلِیْفَۃً ۔ اس کے بعد اس نوع کے ایک بڑے خاندان کی حیات کا ذکر پانچویں رکوع میں یا بنی اسرائیل سے شروع کیا جس میں صدہا انبیا پیدا ہوئے اور تقریباً نصف بنی آدم اب تک اسی خاندان کے بزرگوں کے معتقد ہیں اس کے بعد (9) رکوع تک اس خاندان کے حالات عبرت خیز بیان کئے اور من وسلویٰ اور قلزم سے پار اتارنا اور فرعون کو کہ جو اس خاندان کی حیات کا دشمن تھا ہلاک کرنا اور تورات کا عطا ہونا اور دیگر امور کہ جو حیات سے متعلق ہیں اور پھر جہلا کا گوسالہ پرستی کرکے حیات ابدی سے محروم ہونا اور پھر ان حیات دنیویہ میں مال و جان خرچ کرکے حیات ابدی خریدنا بتانا اور بنی اسرائیل کے گناہوں پر عذاب بھیج کر حیات ابدی پر متنبہ کرنا اور گائے ذبح کرکے ایک شخص مردہ کو اس کے گوشت سے حیات دینا ذکر کیا۔ (10) رکوع میں بنی اسرائیل سے یہ عہد لینا مذکور ہے کہ خاص اللہ کی عبادت کریں گے۔ ماں باپ ‘ یتیموں اور مسکینوں سے نیک سلوک کریں گے، نماز پڑھیں گے، زکوٰۃ دیں گے، اچھی بات کہیں گے، خونریزی نہ کریں گے، کسی کو جلاوطن نہ کریں گے۔ یہ وہ عہد ہے کہ جو اس کو پورا کرے حیات ابدی پاوے، دنیا کی زندگی کا بھی مزہ اٹھاوے۔ (11) رکوع میں موسیٰ کو کتاب دینا اور ان کے بعد نبی پے در پے بھیجنا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی روح القدس سے مدد کرنا وغیرہ وہ امور بیان ہیں کہ جو حیات ابدی کے لیے ضرور اور نافع ہیں۔ (12) رکوع میں اور اس کے بعد قُلْ مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِّــجْبْرْیْلَ الخ اس بات کا بیان ہے کہ جبرئیل اور جو لوگ حیات ابدی اور وحی کا واسطہ ہیں ان سے بغض رکھنا جیسا کہ بعض یہود رکھتے تھے۔ حیات ابدی سے محروم ہونا ہے اس کے بعد (14) رکوع تک یہود کی اور بہت سی لغو حرکات بیان فرمائیں کہ جو حیات ابدی سے محروم اور بےنصیب کردیتی ہیں۔ (15) رکوع یا بنی اسرائیل سے لے کر ایک اور اعلٰی خاندان اعنی حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے حالات اور ان کی ذریت میں نبی آخر الزماں ﷺ برپا کرنے کا ذکر ہے کہ جو تمام عالم کی حیات ابدی کا ذریعہ ہے اور کعبہ جو اس کی تجلیات کا مظہر ہے اس کی بنیاد قائم کرنا مذکور ہے۔ (16) رکوع میں وَمَنْ یَّرْغَبُ عَنْ مِّلَّۃَ اِبْرَاھِیْمَ سے لے کر آخر تک حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور یعقوب (علیہ السلام) کا اسلام لانا اور اسلام کے لیے اپنی اولاد کو وصیت کرنا اور ابراہیم (علیہ السلام) کی ملت پر قائم رہنا اور بلاتفریق تمام انبیا (علیہم السلام) پر ایمان لانا وہ وہ باتیں مذکور ہیں کہ جو حیات جاودانی کے لیے اصل الاصول ہیں پھر (18) رکوع میں کعبہ کی تحویل پر جو کچھ احمقوں کے بیجا اعتراضات تھے ان کا جواب اور اس بات کا اظہار ہے کہ مقصود ہر طرف خدا ہے اور اس کی یاد اور عبادت اور محبت حیات ابدی کا باعث ہے اور یہ مقام متبرک محض امتحان طاعت کے لیے مقرر ہوا ہے۔ (19) رکوع میں اور اس کے بعد صبر اور نماز گزاری کا ذکر ہے اور یہ کہ جو لوگ خدا کی راہ میں مرگئے ان کو حیات ابدی نصیب ہوگئی اور حج اور عمرہ وغیرہ وہ ریاضتیں بیان فرمائیں کہ جن سے روح زندہ ہوتی ہے۔ (20) رکوع میں خدائے تعالیٰ کی صفات و آیات اور اس بات کا ذکر ہے کہ خدا سے نہایت درجہ کی محبت رکھنی چاہیے اور دیگر امور مذکور ہیں کہ جو حیات ابدی کے متعلق ہیں۔ (21) میں زمین کی پاک چیزوں کا استعمال کرنا اور ناپاک چیزوں سے پرہیز کرنا اور شیطان کے رستہ پر نہ چلنا اور خدا کا شکر کرنا اور سور اور مردار وغیرہ ان گندہ چیزوں سے دور رہنا مذکور ہے کہ جن کا اثر زہر کی مانند قوائے ملکوتیہ پر دوڑ کر حیات جاودانی میں خلل انداز ہوتا ہے اور دیگر امور متعلق بحیات ابدی ہیں۔ (22) میں یہ بیان ہے کہ رسمی باتوں پر سعادت اور نیکی کا مدار نہیں بلکہ دراصل جو سعادت کہ باعث حیات روح ہے وہ اللہ اور انبیاء اور ملائکہ پر ایمان لا کر صدقہ و خیرات و نماز ادا کرنا وغیرہ امور (23) میں روزہ کی فضیلت اور اس کے احکام اور اعتکاف وغیرہ وہ باتیں ہیں کہ جن کا اثر روح پر پہنچتا ہے اور حیات اخرویہ کے لیے کارآمد ہیں۔ (24) میں حج کے احکام اور خدا کی راہ میں مال صرف کرنے کی تاکید اور لوگوں سے نیکی سے پیش آنا مذکور ہے کہ جو حیات دنیا کے لیے ضرور اور دوسرے جہان کے لیے نافع ہے۔ (25) میں احکامِ حج اور دعا اور تکبیر مذکور ہے کہ جن کا پرتو روح کو تازہ کرتا ہے اور تمام لوگوں کو اس بات کی تاکید ہے کہ احکامِ الٰہی کی پابندی کریں تاکہ خرابی نہ پیش آوے اور روح امراض میں گرفتار نہ ہوجاوے۔ (26) میں اس بات کا اظہار ہے کہ خدا کے دشمنوں اور باغیوں سے اس کی فوج بن کر لڑنا اور زمین کو ان کے شر سے پاک کرنا اور دین کو زندہ کرنا کہ جس کو جہاد کہتے ہیں دنیا و آخرت کی زندگانی کا سبب ہے کیونکہ جب دشمنان دین غالب ہوجاویں گے تو اپنا غلام اور سواری کا جانور بنا کر کام لیں گے اور دین سے بھی بےبہرہ کردیں گے اور نہ ترقی دینی کبھی نصیب ہوگی نہ دنیاوی اور اس کی شرح اور فوائد دیگر آیات و احادیث میں بکثرت ہیں اور حکمائے امت نے یہ بات بدلائلِ عقلیہ بھی ثابت کردی ہے اور تجربہ اس کا شاہد ہے۔ (27) میں شراب اور جوئے کی ممانعت ہے کہ جو دنیا و دین کی خرابیوں کا باعث اور تلخی زندگی کا وسیلہ ہے اور یتیموں اور بیکسوں کی خبر داری کرنا ہے جو ان کی بھی حیات کا باعث ہے۔ (28) میں خانہ داری اور زندگی کے متعلق احکام حیض و ایلاء و عدت و حرمت و اخفائے حمل وغیرہ وہ باتیں مذکور ہیں کہ جو حیات دنیا و اخروی کے لیے اصل الاصول ہیں۔ (29) میں بھی طلاق و عدت و رجعت وغیرہ باہمی معاملات کے متعلق وہ احکام ہیں کہ جو زندگی کو تازہ کرتے ہیں۔ (30) میں بھی طلاق و حلالہ و رضاعت و نقفہ و مرضعہ و مقدار عدت وفات وغیرہا وہ احکام ہیں کہ جن کے بغیر معاشرت کا انتظام اور حیات کا لطف نہیں یہ بیان (32) رکوع اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارْھِمْ تک ہے پھر اس رکوع میں جبکہ باہمی معاملات (پرورش اولاد وغیرہ امور) سے فراغت ہوچکی تو مبدئِ غیب سے بلا اسباب ظاہرہ زندگی عطا ہونا بیان کیا کہ اس کی قیومیت اور قدرت پر کامل یقین ہوجائے۔ اس میں صدہا بنی اسرائیل کا ایک نبی کی دعا سے زندہ ہونا مذکور ہے پھر (33) میں طالوت کا جالوت کو قتل کرنا اور بنی اسرائیل کی برباد شدہ سلطنت وقوۃ کا حضرت دائود (علیہ السلام) کے عہد میں دوبارہ زندہ ہونا اور تابوت سکینہ کا پھر ہاتھ آنا کہ جو خدا کی قبولیت اور قدرت کی بڑی دلیل ہے۔ (34) میں آیت الکرسی ہے کہ جس میں خدائے تعالیٰ کا حی وقیوم ہونا اور بہت سے صفات مذکور ہیں اور یہ کہ حیات ابدی کے لیے یعنی اسلام کے قبول کرنے میں کسی پر زبردستی نہیں کیونکہ اس کے دلائل اور خوبیاں واضح ہیں۔ (35) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو چار جانوروں کو زندہ کرکے دکھانا اور مرنے کے بعد زندہ ہونے کا کامل وثوق دلانا ہے اور عزیر (علیہ السلام) کو جو بیت المقدس کے آباد ہونے میں تعجب تھا ایک عرصہ تک مردہ رکھ کر زندہ کرنا اور خدائے تعالیٰ کے حی وقیوم ہونے پر وثوق دلانا مذکور ہے پھر رکوع (39) تک صدقہ اور خیرات اور پرہیز گاری اور سود کی حرمت اور دیگر احکام شہادت وغیرہا مذکور ہیں کہ جو دنیا و دین کی زندگی کے لیے نہایت کارآمد ہیں اور (40) رکوع میں تو لِلّٰہِ مَا فِی السَّمَوَاتِ وَالْاَرْضْ سے لے کر اخیر سورة تک وہ باتیں مذکور ہیں کہ جو مردہ دل کو حیات جاودانی بخشتی ہیں ان رکوعات اور پھر ان کی آیات کو جو کچھ باہم ارتباط اور سلسلہ بندی ہے وہ بیان سے باہر ہے کسی قدر ہم بھی بیان کریں گے انشاء اللہ۔ اس سورة کو سورة الحمد سے یہ بھی ربط ہے : کہ اس سورة میں الحمد کے جمیع مضامین کی تشریح ہے چناچہ (3) رکوع میں آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا اور زمین اناج و پھل پھول بیشمار ان چیزوں کا پیدا کرنا مذکور ہے کہ جن سے خدائے تعالیٰ کی پرورش اور تمام عالم کی تربیت معلوم ہوتی ہے۔ پھر اسی طرح حضرت آدم (علیہ السلام) کو پیدا کرکے جنت میں رکھنا اور ملائکہ سے سجدہ کروانا اور پھر اس کی اولاد میں سے بنی اسرائیل کو برگزیدہ کرنا اور ان کو ہر طرح کی نعمتیں عطا فرمانا : یٰبَنِی اِسْرَآئِیْلَ اذْکُرُوْا نِعْمَتِیْ اور پھر بنی اسماعیل میں نبی پیدا کرنا اور کعبہ کو حرمت و عزت بخشنا اور وہاں کے رہنے والوں کے لیے رزق رسانی اور دانہ پانی کا وعدہ کرنا اور بنی اسرائیل کی سلطنت باز رفتہ کو دائود (علیہ السلام) کے عہد میں پھر واپس دینا اور حضرت عزیر (علیہ السلام) اور دیگر بنی اسرائیل کو زندہ کرنا اور موسیٰ (علیہ السلام) کو تورات عطا کرنا وغیرہ جو عمدہ مضامین اس سورة میں مذکور ہیں وہ سب بترتیب الحمد للہ رب العالمین کی شرح ہے اور اسی طرح من وسلویٰ بنی اسرائیل کو عطا فرمانا اور دن میں ابر کا سایہ کرنا اور فرعون سے نجات دینا وغیرہ امور جو اس قسم کے اس سورة میں مذکور ہیں سب الرحمن الرحیم کی شرح ہیں اور پھر گائے کا ذبح کرنا اور اس کا گوشت مقتول کی لاش پر رکھنا اور اس کا جی اٹھ کر اپنے قاتل کا نام لینا اور قاتل کا سزا پانا اور اسی طرح بنی اسرائیل کو (گوسالہ پرستی کی سزا میں) خودکشی کا حکم دینا اور ایسی سخت توبہ مقرر کرنا اور بنی اسرائیل کی نافرمانیوں پر طرح طرح کی سزائیں دینا اور کافروں اور مشرکوں اور منافقوں کا گھر جہنم میں بنانا وغیرہ اس قسم کے مضامین جو اس سورة میں مذکور ہیں سب مالک یوم الدین کی تفسیر ہے اور روزہ اور نماز اور حج و زکوٰۃ و جہاد اور ذکر الٰہی اور تکبیر و تحلیل جو کچھ مختلف رکوعوں میں وارد ہے اور ان کے احکام مذکور ہیں اور جہاں کہیں خاص خدائے تعالیٰ سے محبت اشد کرنے کا حکم ہے اور شرک و بت پرستی کی ممانعت ہے سب ایاک نعبد وایاک نستعین کی تفصیل ہے اور قرآن کا متقیوں کے لیے ہدایت ہونا اور احکام طلاق و نکاح وغیرہ وصلہ رحمی اور والدین اوراقارب اور ہمسایہ سے نیکی کرنا۔ حرم اور اشہر حرم کی حرمت کرنا جو کچھ اس قسم سے اس میں مذکور ہے سب اھدنا الصراط المستقیم کی تفسیر ہے اور جو کچھ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت یعقوب اور دیگر انبیاء (علیہم السلام) اور ان کے پیرو وں کے اقوال اور ان کے احوال اور ان پر انعامِ الٰہی نازل ہونا اس سورة میں مذکور ہے سب صراط الذین انعمت علیہم کی تفسیر ہے اور فرعون کا غرق ہونا اور اس کی بداطواری اور اس کا ملک و مال برباد ہونا اور نمرود کا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے مناظرہ کرنا اور یہود پر ان کی بدکاری سے مصیبت نازل ہونا اور جو کچھ اس قسم کا مضمون ہے سب غیر المغضوب علیہم ولا الضالین کی پوری شرح ہے چونکہ یہ سورة بیشمار علوم کا سرچشمہ ہے اس لیے اس کے فضائل : بھی بہت ہیں چناچہ صحیح مسلم میں انس ؓ سے روایت ہے کہ ہم میں سے جو شخص سورة بقرہ اور آل عمران جانتا تھا اس کی بڑی عزت و عظمت ہوتی تھی اور مسند امام احمد وغیرہ کتب حدیث میں ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا ہے کہ سورة بقرہ بمنزلہ کوہان قرآن کے ہے اور بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے کہ اسیدبن حضیر ؓ رات کو سورة بقرہ پڑھ رہے تھے اور ان کا گھوڑا ان کے پاس بندھا ہوا تھا کہ یکایک ان کا گھوڑا چونکا۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے پڑھنا بند کیا، گھوڑا پھر ٹھہر گیا، پھر جب میں نے پڑھنا شروع کیا پھر اسی طرح گھوڑا بد کا، تین بار یہ بات پیش آئی اور میرا بیٹا یحییٰ قریب سوتا تھا مجھے ڈر ہوا کہ گھوڑا اسے نہ کچل ڈالے پھر جب میں نے اوپر کو دیکھا تو ایک نورانی سا بادل دکھائی دیا کہ جس میں مشعلیں سی روشن تھیں پھر میں اس کے دیکھنے کے لیے باہر نکلا صبح کو یہ ماجرا میں نے نبی ﷺ سے بیان کیا۔ آپ نے فرمایا ملائکہ تھے جو تیری آواز سن کر آئے تھے اگر تو صبح تک پڑھے جاتا تو وہ بھی صبح تک موجود رہتے اور سب کو نظر آتے۔ اے ابن حضیر ! اس کو پڑھا کر اے ابن حضیر ! اس کو پڑھا کر۔ مسلم نے ابی امامہ ؓ سے روایت کی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ قرآن پڑھا کرو کیونکہ یہ قیامت کو اپنے پڑھنے والوں کی شفاعت کرے گا۔ زہراوین 1 ؎ سورة بقرہ و آل عمران پڑھا کرو کیونکہ قیامت کو یہ اپنے پڑھنے والوں کے لیے (بادل کی طرح ہو کر) شفاعت کو آویں گے۔ سورة بقرہ پڑھا کرو کیونکہ اس کے پڑھنے میں برکت اور ترک کرنے میں حسرت ہے اور فریبی لوگ اس کے مقابلہ کی طاقت نہیں رکھتے۔ اس سورة کی برکت و آثار جو کچھ بزرگان دین کے تجربہ میں بارہا آئے ہیں بیشمار ہیں۔ ازان جملہ یہ کہ جس رات یہ سورة پڑھی جائے یا جس گھر میں پڑھی جائے وہاں شیطان کا گزر نہیں ہوتا جو لوگ حس باطن رکھتے ہیں وہ اس امر کی بخوبی تصدیق کرتے ہیں۔ ازان جملہ یہ کہ بیمار کے روبرو یہ سورة پڑھی جائے اور ایک مقدار معلوم چاول پکا کر دہی اور کھانڈ ڈال کر کسی مسکین کو کھلایا جاوے دفع مرض بالخصوص چیچک کے لیے مفید ہے، فقیر کے تجربہ میں بھی آیا ہے۔ شان نزول : جب مکہ اور اس کے گردونواح میں دین اسلام کی روشنی پھیلی تو وہاں کے بت پرستوں کے زور و ظلم سے نبی ﷺ اور صحابہ ؓ حکمت الٰہی کے موافق مدینہ میں (کہ جو مکہ سے شمال کی طرف چودہ منزل کے فاصلہ پر ہے) تشریف لائے اس شہر میں اور اس کے اطراف میں عرصہ دراز سے اہل کتاب رہتے تھے اور اس وقت عیسائیوں اور یہود کے تعصبات اور گمراہیوں اور توہمات و خیالات مشائخ کی بےجا پابندیوں نے اس ذرا سے نور کو بھی جو مدت سے ٹمٹما رہا تھا، بجھا دیا تھا۔ ایسی حالت میں جو یکایک ان پر آفتاب اسلام نے طلوع کیا اور نبی (علیہ السلام) کی وہ باتیں کہ جو روح کو زندہ کرنے والی ہیں ان کے کان میں پڑیں تو باستثنائِ چند دیندار اکثر کو پابند رسوم و تعصب بیجا نے باوجود دل میں مقر ہونے کے اسلام اور قرآن کے مقابلہ پر آمادہ کیا، جیسا کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کے مقابلہ میں آمادہ کیا تھا۔ یہ فریق علم و دانش میں وہاں کے عربوں کے نزدیک مسلم تھا، اس لیے ان کی نکتہ چینیوں پر وہ زیادہ کان رکھنے لگے اور چراغ اسلام کو بجھانے میں جہال عرب کو ان یہود و نصاریٰ سے ایک مدد مل گئی اور دو فریق مقابلہ میں کھڑے ہوگئے اور مدینہ کے رؤساء میں سے عبداللہ بن ابی بن سلول وغیرہ (وہ لوگ کہ جن کو حسد ریاست اور حبِّ مال و جاہ نے اندھاکر دیا تھا اور کسی مصلحت دنیویہ سے وہ اسلام میں نامزد ہوتے تھے اور درپردہ سخت دشمن تھے) ان کے ساتھ مل گئے۔ اس تیسرے فریق منافقین سے اور بھی ان کی ہمت بندھ گئی۔ ان تینوں فریق کی کج بحثیوں کی اصلاح اور ان کے شکوک و شبہات کا ابطال اور ہر طرح کا وعظ و پند حکمت الٰہی کے نزدیک ضرور ہوا۔ پس اس لیے مدینہ میں جاتے ہی یہ سورة بقرہ نازل ہونی شروع ہوئی کہ جس میں ان سب لوگوں کی اصلاح و درستی خدا تعالیٰ نے اپنے کلام مقدس میں ملحوظ رکھی ہے یہ تمام سورة کا اجمالی سبب نزول ہے۔ اس اجمالی کے سوا خاص خاص باتیں بھی سبب نزول ہیں کہ جن کو ہم آگے چل کر حسب موقع بیان کریں گے، مگر ناظر کو لازم ہے کہ اس اجمالی سبب نزول کو ملحوظ رکھے تاکہ اس سورة کے مطالب اس کے دل پر نقش ہوجائیں۔
Top