بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 1
الٓمّٓۚ
الم : الف لام میم
الم
سورة البقرہ
نام اور تعداد آیات
اس سورت کا نام سورة بقرہ ہے اور اسی نام سے حدیث اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے جس روایت میں سورة بقرہ کہنے کو منع کیا ہے وہ صحیح نہیں (ابن کثیر) تعداد آیات دو سو چھیاسی ہے اور کلمات چھ ہزار دو سو اکیس اور حروف پچیس ہزار پانسو ہیں (ابن کثیر)
زمانہ نزول
یہ سورت مدنی ہے، یعنی ہجرت مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی اگرچہ اس کی بعض آیات مکہ مکرمہ میں حج کے وقت نازل ہوئی ہیں مگر وہ بھی باصطلاح مفسرین مدنی کہلاتی ہیں،
سورة بقرہ قرآن کریم کی سب سے بڑی سورت اور مدینہ طیبہ میں سب سے پہلے اس کا نزول شروع ہوا اور مختلف زمانوں میں مختلف آیتیں نازل ہوتی رہیں یہاں تک کہ ربا یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں وہ آنحضرت ﷺ کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں اور اس کی ایک آیت واتَّقُوْا يَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِيْهِ اِلَى اللّٰهِ (281: 2) تو قرآن کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ھ ذی الحجہ کو منیٰ کے مقام پر نازل ہوئی جبکہ آنحضرت ﷺ حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے (قرطبی) اور اس کے اسّی نوّے دن کے بعد آنحضرت ﷺ کی وفات ہوئی اور وحی الہی کا سلسلہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوگیا،
فضائل سورة بقرہ
یہ قرآن کریم کی سب سے بڑی سورت اور بہت سے احکام پر مشتمل ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ سورة ٔ بقرہ کو پڑھا کرو کیونکہ اس کا پڑھنا برکت ہے، اور اس کا چھوڑنا حسرت اور بدنصیبی ہے، اور اہل باطل اس پر قابو نہیں پاسکتے،
قرطبی نے حضرت معاویہ سے نقل کیا ہے کہ اس جگہ اہل باطل سے مراد جادوگر ہیں مراد یہ ہے کہ اس سورت کے پڑھنے والے پر کسی کا جادو نہ چلے گا (قرطبی از مسلم بروایت ابوامامہ باہلی)
اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جس گھر میں سورة بقرہ پڑھی جائے شیطان وہاں سے بھاگ جاتا ہے (ابن کثیر از حاکم)
اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا سورة بقرہ سنام القرآن اور ذروۃ القرآن ہے سنام اور ذروہ ہر چیز کے اعلیٰ و افضل حصہ کو کہا جاتا ہے، اس کی ہر آیت کے نزول کے وقت اسی فرشتے اس کے جلو میں نازل ہوئے ہیں، (ابن کثیر از مسند احمد) اور حضرت ابوہریرہ کی ایک حدیث میں ہے کہ اس سورت میں ایک آیۃ ایسی ہے جو تمام آیات قرآن میں اشرف و افضل ہے اور وہ آیت الکرسی ہے (ابن کثیر از ترمذی)
حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا کہ سورة بقرہ کی دس آیتیں ایسی ہیں کہ اگر کوئی شخص ان کو رات میں پڑھ لے تو اس رات کو جن شیطان گھر میں داخل نہ ہوگا اور اس کو اور اس کے اہل عیال کو اس رات میں کوئی آفت، بیماری رنج وغم وغیرہ ناگوار چیز پیش نہ آئے گی اور اگر یہ آیتیں کسی مجنون پر پڑھی جائیں تو اس کو افاقہ ہوجائے وہ دس آیتیں یہ ہیں چار آیتیں شروع سورة بقرہ کی پھر تین آیتیں درمیانی یعنی آیۃ الکرسی اور اس کے بعد کی دو آیتیں، پھر آخر سورة بقرہ کی تین آیتیں۔
احکام و مسائل
مضامین و مسائل کے اعتبار سے بھی سورة بقرہ کو ایک خاص امتیاز حاصل ہے ابن عربی فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ سورة بقرہ میں ایک ہزار امر اور ایک ہزار نہی اور ایک ہزار حکمتیں ایک ہزار خبر اور قصص ہیں (قرطبی وابن کثیر) یہی وجہ ہے کہ حضرت فاروق اعظم نے جب سورة بقرہ کو تفسیر کے ساتھ پڑھا تو اس کی تعلیم میں بارہ سال خرچ ہوئے اور حضرت عبداللہ بن عمر نے یہ سورت آ ٹھ سال میں پڑھی (قرطبی) سورة فاتحہ درحقیقت پورے قرآن کا خلاصہ ہے اس کے بنیادی مضامین تین ہیں اوّل اللہ تعالیٰ کی ربوبیت، یعنی پروردگار عالم ہونے کا بیان دوسرے اس کا مستحق عبادت ہونا اور اس کے سوا کسی کا لائق عبادت نہ ہونا تیسرے طلب ہدایت سورة فاتحہ کا آخری مضمون صراط مستقیم کی ہدایت طلب کرنا ہے اور درحقیقت پورا قرآن اس کے جواب میں ہے کہ جو شخص صراط مستقیم چاہتا ہے قرآن ہی میں ملے گا،
اسی لئے فاتحہ کے بعد پہلی سورت سورة بقرہ رکھی گئی اور اس کو ذلک الکتٰب سے شروع کرکے اس طرف اشارہ کردیا گیا کہ جس صراط مستقیم کو تم ڈھونڈہتے ہو وہ یہ کتاب ہے،
اس کے بعد اس سورت میں اول ایمان کے بنیادی اصول توحید، رسالت، آخرت اجمالی طور پر اور آخر سورت میں ایمان مفصل بیان فرمایا گیا ہے اور درمیان میں ہر شعبہ زندگی، عبادات، معاملات، معاشرت، اخلاق، اصلاح، ظاہر و باطن کے متعلق ہدایات کے بنیادی اصول اور ان کے ساتھ بہت سی جزئیات بیان ہوئی ہیں،
خلاصہ تفسیر،
یہ کتاب ایسی ہے جس میں کوئی شبہ نہیں (یعنی قرآن کے منجانب اللہ ہونے میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں اگرچہ کوئی نافہم اس میں شبہ رکھتا ہو کیونکہ یقینی بات کسی کے شبہ کرنے میں بھی حقیقت میں یقینی ہی رہتی ہے) راہ بتلانے والی ہے خدا سے ڈرنے والوں کو جو یقین لاتے ہیں چھپی ہوئی چیزوں پر (یعنی جو چیزیں ان کے حواس وعقل سے پوشیدہ ہیں صرف اللہ و رسول کے فرمانے سے ان کو صحیح مان لیتے ہیں) اور قائم رکھتے ہیں نماز کو (قائم رکھنا یہ ہے کہ اس کو اس پابندی کے ساتھ اس کے وقت میں پورے شرائط وارکان کے ساتھ ادا کریں) اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں (یعنی نیک کاموں میں) اور وہ لوگ ایسے ہیں کہ یقین رکھتے ہیں اس کتاب پر بھی جو آپ کی طرف اتاری گئی ہے اور ان کتابوں پر بھی جو آپ سے پہلے اتاری جاچکی ہیں (مطلب یہ ہے کہ ان کا ایمان قرآن پر بھی ہے اور پہلی کتابوں پر بھی اور ایمان سچا سمجھنے کو کہتے ہیں عمل کرنا دوسری بات ہے جتنی کتابیں اللہ نے پہلے انبیاء پر نازل فرمائی ہیں ان کو سچا سمجھنا فرض اور شرط ایمان ہے یعنی یہ سمجھے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی تھیں وہ صحیح ہیں خود غرض لوگوں نے جو اس میں تبدیل و تحریف کی ہے وہ غلط ہے رہ گیا عمل سو وہ صرف قرآن پر ہوگا پہلی کتابیں سب منسوخ ہوگئیں ان پر عمل جائز نہیں) اور آخرت پر بھی وہ لوگ یقین رکھتے ہیں بس یہ لوگ ہیں ٹھیک راہ پر جو ان کے پروردگار کی طرف سے ملی ہے اور یہ لوگ ہیں پورے کامیاب (یعنی ایسے لوگوں کو دنیا میں تو یہ نعمت ملی کہ راہ حق ملی اور آخرت میں ہر طرح کی کامیابی ان کے لیے ہے) ،
حل لغات
ذٰلِكَ کسی دور کی چیز کی طرف اشارہ کے لئے استعمال ہوتا ہے، رَيْبٌ شک وشبہ، ھُدًى ہدایت سے بنا ہے اور ہدایت کے معنی رہنمائی مُتَّقِيْنَ جن میں صفت تقویٰ ہو، تقویٰ کے لفظی معنی بچنے کے ہیں مراد اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچنا ہے غَيْبِ لفظی معنی ہر وہ چیز جو انسان کی نظر اور دوسرے حواس سماعت وغیرہ سے باہر ہو يـقِيْمُوْنَ اقامت سے بنا ہے جس کے معنی سیدھا کرنے کے ہیں اور نماز کا سیدھا کرنا یہ کہ آداب اور خشوع خضوع کے ساتھ ادا کی جائے رَزَقْنٰھُمْ رزق سے بنا ہے جس کے معنی ہیں روزی اور گذارے کا سامان دینا يُنْفِقُوْنَ انفاق سے بنا ہے خرچ کرنے کے معنی میں آتا ہے اٰخِرَةُ لغت میں مؤ خر اور بعد میں آنے والی چیز کو آخرہ کہا جاتا ہے اس جگہ عالم دنیا کے مقابلے میں عالم آخرت بولا گیا يُوْقِنُوْنَ ایقان سے ہے اور وہ یقین سے بنا ہے اور یقین اس کو کہتے ہیں جس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہ ہو مُفْلِحُوْنَ افلاح سے اور وہ فلاح سے بنا ہے فلاح کے معنی پوری کامیابی۔

معارف و مسائل
حروف مقطعہ جو بہت سی سورتوں کے شروع میں آتے ہیں ان کی تحقیق
بہت سی سورتوں کے شروع میں چند حرفوں سے مرکب ایک کلمہ لایا گیا ہے جیسے الۗمّۗ، حٓمٓ، الۗمٓصٓ وغیرہ ان کو اصطلاح میں حروف مقطعہ کہا جاتا ہے ان میں سے ہر حرف جدا جدا ساکن پڑھا جاتا ہے، الف، لام، میم، حروف مقطعہ جو اوائل سورة میں آئے ہیں ان کے متعلق بعض مفسرین نے فرمایا کہ یہ ان سورتوں کے نام ہیں بعض حضرات نے فرمایا کہ اسماء الہیہ کے رموز ہیں مگر جمہور صحابہ وتابعین اور علماء امت کے نزدیک راجح یہ ہے کہ یہ حروف رموز اور اسرار ہیں جس کا علم سوائے خدا تعالیٰ کے کسی کو نہیں اور ہوسکتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کو اس کا علم بطور ایک راز کے دیا گیا ہو جس کی تبلیغ امت کے لئے روک دی گئی ہو اسی لئے آنحضرت ﷺ سے ان حروف کی تفسیر و تشریح میں کچھ منقول نہیں امام تفسیر قرطبی نے اپنی تفسیر میں اسی کو اختیار فرمایا ہے ان کے بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ ؛
عامر شعبی، سفیان ثوری اور ایک جماعت محدّثین نے فرمایا ہے کہ ہر آسمانی کتاب میں اللہ تعالیٰ کے کچھ خاص رموز و اسرار ہوتے ہیں اسی طرح یہ حروف مقطعہ قرآن میں حق تعالیٰ کا راز ہے اس لئے یہ ان متشابہات میں سے ہیں جن کا علم صرف حق تعالیٰ ہی کو ہے ہمارے لئے ان میں بحث و گفتگو بھی جائز نہیں مگر اس کے باوجود ہمارے فائدے سے خالی نہیں اول تو ان پر ایمان لانا پھر ان کا پڑھنا ہمارے لئے ثواب عظیم ہے دوسرے ان کے پڑھنے کے معنوی فوائد و برکات ہیں جو اگرچہ ہمیں معلوم نہ ہوں مگر غیب سے وہ ہمیں پہنچتے ہیں،
پھر فرمایا
حضرت صدیق اکبر، فاروق اعظم، عثمان غنی، علی مرتضیٰ ، عبداللہ بن مسعود وغیرہ جمہور صحابہ کا ان حروف کے متعلق یہی عقیدہ تھا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے اسرار ہیں، ہمیں ان پر ایمان لانا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے ہیں اور جس طرح آئے ہیں ان کی تلاوت کرنا چاہئے مگر معنی معلوم کرنے کی فکر میں پڑنا درست نہیں،
ابن کثیر نے بھی قرطبی وغیرہ سے نقل کرکے اسی مضمون کو ترجیح دی ہے اور بعض اکابر علماء سے جو ان حروف کے معنی منقول ہیں اس سے صرف تمثیل و تنبیہ اور تسہیل مقصود ہے یہ نہیں کہ امر وحق تعالیٰ یہ ہے اس لئے اس کو بھی غلط کہنا تحقیق علماء کے خلاف ہے،
Top