بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Jawahir-ul-Quran - Al-Baqara : 1
الٓمّٓۚ
الم : الف لام میم
1 المّ2
2 ۔ یہ حروف مقطعات میں سے ہیں جو قرآن مجید کی انیس سورتوں کی ابتداء میں آئے ہیں۔ مفسرین کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے ان حروف کے ان سورتوں کی ابتداء میں ذکر کرنے کی حکمتیں، ان کے ظاہری معانی اور ان کی تمثیلات بیان فرمائی ہیں۔ مفسرین کرام نے جو کچھ بیان کیا ہے اسے ان حروف مقطعات کے حقیقی معانی اور مرادات الٰہی تو نہیں کہا جاسکتا زیادہ سے زیادہ انہیں فوائد سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ یہ حروف بےمعنی اور مہمل نہیں ہیں ان سے مراد خداوندی متعین ضرور ہیں لیکن اس کا بھید اللہ کے سوا کسی کو نہیں۔ ہذا علم مستور وسر محجوب استاثر اللہ تبارک وتعالیٰ بہ (تفسیر کبیر ص 227 ج 1، روح المعانی بمعناہ ص 82 ج 3) خلفائے راشدین اور حضرت ابن مسعود ؓ سے یہی منقول ہے۔ اسی طرح عامر شعبی، سفیان ثوری، ربیع بن خثیم، ابن حبان اور ابوبکر انباری رحمہم اللہ تعالیٰ بھی اسی کے قائل ہیں (قرطبی ص 154 ج 1، ابن کثیر ص 36 ج 1 بیضاوی ص 6) حضرت صدیق اکبر ؓ سے منقول ہے۔ لکل کتاب سر وسر القرآن اوائل السور (روح المعانی ص 100 ج 1 تفسیر کبیر ص 227 ج 1) یعنی ہر کتاب کا ایک بھید ہوتا ہے اور قرآن کا بھید سورتوں کے ابتدائی حصے یعنی حروف مقطعات ہیں۔ امام شعبی فرماتے ہیں۔ سر اللہ تعالیٰ فلا تطلبوہ (روح المعانی ص 100 ج 1، تفسیر کبیر ص 224 ج 1) یعنی یہ حروف مقطعات اللہ تعالیٰ کا بھید ہیں ان کے پیچھے مت پڑو۔ سورتوں کی ابتداء میں ان حروف کے ذکر کرنے میں جو حکمتیں مفسرین کرام نے بیان کی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ اعمالِ شرعیہ کی دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ جن کی حکمت اور علت ہماری سمجھ میں آسکے، جیسے نماز، روزہ اور زکوۃ۔ یہ بات بخوبی سمجھ میں آسکتی ہے کہ نماز میں قیام اور رکوع و سجود وغیرہ کے ذریعے اپنے مالک اور آقا کے سامنے انتہائی عاجزی اور بےچارگی کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔ روزہ سے شہواتِ نفسانیہ کو کمزور کر کے روحانی پاکیزگی حاصل کی جاتی ہے۔ بھوک کے تجربہ سے غریبوں اور بھوکوں کے ساتھ ہمدردی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور زکوۃ کے ذریعے ضرورت سے زائد دولت سوسائٹی کے معذور اور محتاج طبقہ میں تقسیم کر کے ان کی ضروریات کو پورا کیا جاتا ہے۔ دوسری قسم ان اعمال کی ہے جن کی حکمت اور علت ہماری سمجھ سے بالا تر ہے مگر ہم ایسے اعمال بجا لانے کے مکلف ہیں جیسا کہ افعالِ حج ہیں۔ مثلاً صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا (دوڑنا) طواف میں رمل کرنا (کندھوں کو ہلا ہلا کر چلنا) اور جمرات پر سنگریزے پھینکنا۔ کمال انقیاد اور تسلیم اسی کا نام ہے کہ احکم الحاکمین کے ہر حکم کی تعمیل کی جائے خواہ اس کی علت سمجھ میں آئے یا نہ آئے بلکہ اطاعت کرنے کے لیے علت دریافت کرنا بےادبی میں داخل ہے۔ اعمالِ شرعیہ کی طرح اقوال کی بھی دو قسمیں ہیں ایک تو وہ ہیں جن کا مفہوم ہماری سمجھ میں آسکتا ہے۔ ایسے اقوال کے پڑھنے، ان کے معانی میں غور وفکر کرنے اور ان کے مطابق عمل کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اور کچھ اقوال ایسے ہیں جن کا مفہوم ہماری عقل وفہم سے ماوراء ہے مگر ہمیں ان کے بھی ماننے اور پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے (تفسیر کبیر، تفصیل ص 231 ج 1) سورة آل عمران کی اس آیت کا یہی مطلب ہے۔ ھُوَ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتٰبَ مِنْهُ اٰيٰتٌ مُّحْكَمٰتٌ ھُنَّ اُمُّ الْكِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِهٰتٌ ۭ فَاَمَّا الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاۗءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاۗءَ تَاْوِيْلِهٖ څ وَمَا يَعْلَمُ تَاْوِيْلَهٗٓ اِلَّا اللّٰهُ ڤ وَالرّٰسِخُوْنَ فِي الْعِلْمِ يَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِهٖ ۙ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا ۚ وَمَا يَذَّكَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبَابِ (ترجمہ) وہ ایسا ہے جس نے تم پر کتاب نازل کی جس کا ایک حصہ وہ آیتیں ہیں جو محکم ہیں (یعنی ان کا مطلب واضح اور ظاہر ہے) یہی آیتیں (اس) کتاب کا اصلی مدار ہیں۔ اور اس میں کچھ آیتیں ایسی ہیں جن کی مراد مشتبہ ہے تو جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہیں وہ (دین میں) شورش ڈھونڈنے اور اس کا مطلب تلاش کرنے کی غرض سے اسی کے پیچھے ہولیتے ہیں جس کی مراد مشتبہ ہے حالانکہ اس کا مطلب بجز اللہ تعالیٰ کے اور کوئی نہیں جانتا۔ جو لوگ علم (دین) میں پختہ کار ہیں وہ یوں کہتے ہیں کہ ہم اس پر (اجمالاً ) یقین رکھتے ہیں کہ یہ سب ہمارے پروردگار کی طرف سے ہیں اور نصیحت صرف وہی لوگ قبول کرتے ہیں جو اہل عقل ہیں :۔ اس آیت سے صاف معلوم ہوگیا کہ قرآن مجید کی آیتیں دو قسم کی ہیں۔ ایک محکمات یعنی وہ جن کا مطلب معلوم اور مراد متعین ہے۔ ان کا حکم یہ ہے کہ ان کے مطابق عمل کرنا واجب ہے۔ دوسری متشابہات یعنی وہ جن کی مراد مشتبہ ہے۔ اللہ کے سوا ان کی صحیح مراد کسی کو معلوم نہیں۔ علمائے ربانیین کا متشابہات کے متعلق یہ عقیدہ ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے ہیں لیکن ان کا اصل مقصد خدا تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ متشابہات کی دو قسمیں ہیں۔ قسم اول حروف مقطعات جو بعض سورتوں کی ابتداء میں آئے ہیں۔ جیسے۔ الم۔ الرا۔ المرا۔ طہ حم۔ وغیرہ (ابن کثیر ص 345 ج 1، روح المعانی ص 82 ج 3، خازن ومعالم ص 22 ج 1 ص 269 ج 1، قرطبی ص 154 ج 1) اور قسم دوم وہ الفاظ ہیں جن کے ظاہری اور لغوی معانی تو معلوم ہوں لیکن ان کی اصل مراد سوا اللہ کے کسی کو معلوم نہ ہو جیسے اللہ کی طرف یَدٌ (ہاتھ) وَجْہٌ (چہرہ) وغیرہ کی اضافت جیسے فَاَيْنَـمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِاور يَدُ اللّٰهِ فَوْقَ اَيْدِيْهِمْ ۔ (اس سورۃ کا تعارف پڑھنے کے لئے جواہرالقرآن کتابی نسخہ ملاحضہ فرمائیں۔ طوالت کے باعث اسے یہاں نقل نہیں کیا جا رہا۔)
Top