بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Baghwi - Al-Baqara : 1
الٓمّٓۚ
الم : الف لام میم
الم
تفسیر : حروف مقطعات کی بحث : (1) ” الم “ علامہ شعبی (رح) اور ایک جماعت کا قول ہے کہ الم اور بقیہ حروف ھجاء (مقطعات) جو سورتوں کے آغاز میں ہیں ۔ متشابہ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کے ساتھ مخصوص فرما دیا ہے اور یہ حروف قرآن کریم کا (خصوصی) راز ہیں ، ہم ان حروف کے ظاہر پر ایمان لاتے ہیں اور اس کے اندرونی علم کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کرتے ہیں ، ان حروف کے ذکر کرنے کا فائدہ ان پر ایمان لانے کی طلب ہے ۔ حضرت سیدنا ابوبکر الصدیق فرماتے ہیں ہر کتاب میں ایک خاص راز ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جو راز رکھا ہے وہ سورتوں کے آغاز میں آنے والے حروف ہیں ۔ حضرت سیدنا علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ ہر کتاب کے کچھ منتخبات ہوتے ہیں اور اس کتاب (قرآن کریم) کے منتخبات حروف تہجی ہیں (یعنی حروف مقطعات) حضرت داؤد بن ابی ہند (رح) فرماتے ہیں میں علامہ شعبی (رح) سے سورتوں کے آغاز (یعنی حروف مقطعات) سے متعلق پوچھتا تھا آپس آپ نے فرمایا کہ ہر کتاب کے لیے خاص بھید ہوتا ہے اور قرآن کریم کا بھید یہ سورتوں کے آغاز والے حروف ہیں ، پس ان کو چھوڑ دیجئے (یعنی ان کے بارے میں سوال نہ کیجئے) اور اس کے ماسوی سے متعلق سوال کیجئے ۔ ایک جماعت کا کہنا ہے کہ ان (حروف تہجی) کا معنی معلوم ہے ، پس کہا گیا ہے ہر وہ حرف جس سے (سورۃ کا) آغاز ہے وہ اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے جیسے حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ ” کھیعص “ کے متعلق فرماتے ہیں ۔ کاف کاف سے ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ کافی ہیں ھاء ھاد سے ہے یعنی اللہ تعالیٰ ہدایت دینے والا ہے اور یا حکیم سے ہے کہ اللہ تعالیٰ حکمتوں والا ہے اور عین علیم سے ہے یعنی وہ ذات باری تعالیٰ جاننے والی ہے اور صاد صادق سے ہے کہ رب ذوالجلال کی ذات سچی ہے اور ” المص “ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ (ملخص ہے) ” انا اللہ الملک الصادق “ کہ میں اللہ ، سچا بادشاہ ہوں ، حضرت ربیع بن انس ” الم “ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ الف اسم اللہ کا مفتاح ہے یعنی آغاز ہے اور لام نام خداوندی لطیف کا آغاز ہے اور میم نام الہی مجید کی ابتداء ہے ۔ محمد بن کعب ؓ فرماتے ہیں ” الالف الا اللہ “ یعنی الف سے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی طرف اشارہ ہے اور لام سے لطف اللہ یعنی اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم مراد ہے ” والمیم ملکہ “ (یعنی اللہ تعالیٰ کے ملک و اقتدار کی طرف میم اشارہ کر رہا ہے) حضرت سعید بن جبیر (رح) نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی کہ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں ” الم “ کا معنی ہے ” انا اللہ اعلم “ کہ میں اللہ ہوں جو جانتا ہوں اور ” المص “ کا معنی ہے ’ انا اللہ اعلم وافصل “ یعنی میں اللہ ہوں جو جانتا ہوں اور خوب کھول کر بیان کرتاہوں اور ” الر “ کا معنی انا اللہ اری میں اللہ ہوں دیکھتا ہوں۔ ” المر “ کا معنی ہے ” انا اللہ اعلم واری “ کہ میں اللہ ہوں جانتا ہوں اور دیکھتا ہوں۔ حضرت زجاج فرماتے ہیں یہ (توجیہات) خوب ہیں کیونکہ اہل عرب کلمہ کا ایک حرف بول کر کل کلمہ مراد لیا کرتے ہیں ، جیسا کہ ان کا کہنا ہے ” قلت لھا قفی فقالت لی قاف “ یعنی میں نے اس سے کہا ٹھہر جا پس وہ بولی قاف (یہاں قاف سے مراد پورا کلمہ ” قفت “ ہے یعنی جواب میں اس نے کہا میں ٹھہر گئی ۔ حضرت سعید بن جبیر (رح) فرماتے ہیں یہ حروف اللہ تعالیٰ کے نام ہیں ، اجزاء شدہ اگر لوگوں کو ان حروف کے حسن ترکیب کا علم ہوجاتا تو اللہ تعالیٰ کے اسم اعظم کو جان لیتے ، (اے مخاطب) کیا تو دیکھتا نہیں کہ تو جب ” الر۔۔۔۔۔ حم ۔۔۔۔ ن “ بولے تو الرحمن بن جائے گا اسی طرح بقیہ حروف مگر یہ کہ ہم سب کو جوڑ نہیں سکتے حضرت قتادہ ؓ فرماتے ہیں یہ حروف قرآن پاک کے نام ہیں ۔ حضرت مجاہد (رح) اور ابن زید (رح) فرماتے ہیں یہ سورتوں کے نام ہیں اس کا بیان یوں کہ کہنے والا جب کہے میں نے ” المص “ پڑھی تو سننے والا خوب جان جاتا ہے کہ اس نے وہ سورة پڑھی جس کا آغاز ” المص “ سے ہو رہا ہے ، حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا گیا ہے کہ یہ حروف قسمیں ہیں۔ حضرت اخفش فرماتے ہیں کہ ان حروف کے شرف اور فضیلت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کی قسمیں اٹھائیں کیونکہ یہ حروف (آسمانی) نازل ہونے والی کتابوں کے (مبانی) یعنی بنیادی حروف ہیں (جن سے ان کتابوں کا کلام مرکب ہے) اور اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنی کے مبادی یعنی ابتدائی حروف ہیں ۔
Top