بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 1
الٓمّٓۚ
الم : الف لام میم
الم
سورة کے موضوع اور نام سے پہلے قرآن کریم کی سورتوں سے متعلق چند بنیادی باتوں کا ذکر ضروری ہے ، اس کے بعد سورة بقرہ کے نام کے بارے میں کچھ بیان ہوگا۔ سورۃ اور آیت : لفظ سورة س کے ساتھ آیا ہے۔ اور اس کا معنی ہے قطعۃ من الایات یعنی آیتوں پر مشتمل ایک ٹکڑا یا حصہ۔ گویا چند یا زیادہ آیتیں مل کر ایک ٹکڑا بن جائے تو اسے سورة کہا جاتا ہے۔ کسی سورة کیلئے کم از کم تین آیات کا ہونا ضروری ہے۔ چناچہ سورة عصر ، سورة کوثر اور سورة نصر تین تین آیات پر مشتمل ہیں۔ سورة بقرہ سب سے لمبی سورة ہے۔ اور اسکی دو سو چھیاسی آیات ہیں۔ سورة کے ہر ٹکڑے کو آیت کہتے ہیں۔ جس طرح سورتیں چھوٹی بڑی ہوتی ہیں۔ اسی طرح آیتیں بھی چھوٹی بڑی ہوتی ہیں۔ چھوٹی سے چھوٹی آیت ایک لفظ کی بھی ہو سکتی ہے جیسے الم یا حم۔ اور ایک حرف بھی ایک آیت ہو سکتا ہے۔ جیسا قۤ۔ نۤ وغیرہ اور بعض آیات اتنی لمبی ہوتی ہیں کہ پورے ایک رکوع پر مشتمل ہوتی ہیں۔ جیسے سورة مزمل کے دوسرے رکوع والی آیت ہے۔ آیت کے مختلف معانی : آیت کا معنی علامت اور اس کا دوسرا معنی دلیل ہے۔ قرآن کریم میں آیت کا لفظ ان دونوں معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ مثلاً سورة بقرہ میں زمین و آسمان کی پیدائش ، دن رات کے اختلاف ، پانی میں چلنے والی کشتی ، بارش اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والے پھلوں وغیرہ کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا : لایت لقوم یعقلون۔ اس میں عقلمندوں کیلئے قدرت کی نشانیاں یا علامات ہیں۔ سورة روم میں فرمایا ومن ایتہ ان خلق لکم من انفسکم ازواجا یہ بات اللہ تعالیٰ کے دلائل قدرت میں سے ہے کہ اس سے تمہارے نفسوں میں سے تمہارے لیے جوڑے پیدا کیے۔ قرآن میں آیت کا لفظ عبرت کے معنوں میں بھی آتا ہے جیسا کہ سورة سجدہ میں فرمایا کیا یہ بات لوگوں کو ہدایت نہیں کرتی کہ “ کم اھلکت من قبلھم من القرون ” ہم نے اس سے پہلے کتنی ہی قوموں کو ہلاک کردیا “ یمشون فی مسکنھم ” جو اپنے مکانوں میں چلتے پھرتے تھے۔ “ ان فی ذلک لایت ” اس میں درس عبرت ہے۔ اسی طرح آیت کو معجزے کے طور پر بھی پیش کیا گیا ہے۔ بہت سے انبیاء (علیہم السلام) نے معجزات پیش کئے جن کا مطالبہ قوم کے لوگ کرتے تھے سورة رعد میں دو مقامات پر آیا ہے “ ویقول الذین کفروا لولا انزل علیہ ایۃ من ربہ ” کفار کہتے ہیں کہ اس کے رب کی طرف سے اس پر کوئی معجزہ کیوں نہیں نازل ہوتا گویا آیت کا معنی معجزہ بھی ہوتا ہے۔ آیت کا معنی حکم بھی آتا ہے جیسے “ یتلوا علیہم ایتہ ” پیغمبر ﷺ کے احکام پڑھ کر سناتا ہے ۔ یا جیسا کہ سورة عنکبوت میں فرمایا “ وما یجحد بایتنا الا الکفرون ” اور ہمارے احکام سے کافر ہی انکار کرتے ہیں۔ تاہم ان تمام تر معانی کے باوجود جب آیت کا لفظ سورة کے ساتھ بولا جاتا ہے تو اس کا معنی سورة کا ایک حصہ یا جزو ہوتا ہے۔ کیونکہ بہت سی آیات مل کر سورة ترتیب پاتی ہے سورتوں اور آیتوں کی ترتیب : جیسا کہ ابتداء میں عرض کیا گیا تھا ، قرآن پاک کی کل ایک سو چودہ سورتیں ہیں۔ سب سے پہلی سورة فاتحہ ہے۔ دوسرے نمبر پر سورة بقرہ ہے پھر ال عمران اور سورة نساء ہے یہ ترتیب اجتہادی نہیں بلکہ توفیقی ہے۔ یعنی یہ ترتیب صحابہ کرام ؓ کی دی ہوئی نہیں ہے بلکہ یہ حضور ﷺ کی مقرر کردہ ترتیب ہے (1 ۔ تفسیر اتقان فی علوم القرآن للسیوطی ج 1 ، ص 62 مطبوعہ سہیل اکیڈمی لاہور) ۔ اسی طرح ہو سورة میں آیات کی جو ترتیب ہے۔ مثلا پہلے “ الحمد للہ رب العالمین ” اس کے بعد “ الرحمن الرحیم ” اور پھر “ ملک یوم الدین ” یہ ترتیب بھی توفیقی ہے (2 ۔ تفسیر اتقان ج 1 ، ص 60) ۔ حضور ﷺ نے فرمایا (3 ۔ ترمذی ج 1 ، ص 440) “ ضعوا ھذہ الایۃ فی السورۃ التی یذکر فیھا کذا وکذا ” یعنی اس آیت کو فلاں مقام پر رکھ دو ، تو صحابہ کرام ؓ نے آپ کے فرمان کے مطابق آیات کو ترتیب دے لیا ۔ انہوں نے اپنی طرف سے آگے پیچھے نہیں کیا بلکہ حضور نبی کریم ﷺ کے فرمان کی تعمیل کی ۔ احادیث میں صاف طور پر آتا ہے (4 ۔ ترمذی ص 440 ، تفسیر اتقان ج 1 ص 60 ، مسند احمد ، مستدرک حاکم ج 2 ، ص 230) کہ جب کوئی آیت نازل ہوتی تو حضور ﷺ ارشاد فرماتے ، اسے فلاں مقام پر رکھ دو ۔ تو صحابہ کرام ؓ ویسے ہی کرتے البتہ سورتوں کی ترتیب کے متعلق کچھ اختلاف پایا جاتا ہے بعض مفسرین محققین فرماتے ہیں (5 ۔ روح المعانی ج 1 ، ص 62) کہ سورتوں کی ترتیب حضور ﷺ کا قطعی فرمان نہیں ہے تا ہم جمہور کہتے ہیں کہ سورتوں (6 ۔ روح المعانی ج 1 ، ص 62) کی ترتیب بھی حضور ﷺ کے ارشاد کے مطابق ہی ہے۔ صحابہ کرام ؓ کے فرمان کے مطابق ہی موجودہ ترتیب کو قائم کیا ۔ سورتوں کے اقسام بلحاظ طوالت : قرآن پاک کی پہلی سات سورتوں یعنی سورة بقرہ سے لے کر سورة یونس تک کو سبع طوال یعنی سات لمبی سورتیں کہا جاتا ہے۔ اسکے بعد چودھویں پارے میں سورة نحل تک کو مثانی یعنی طوال کے بعد دوسرے نمبر والی سورتیں کہا جاتا ہے۔ اسکے بعد حجرات تک کی سورتوں کی مئین کہا جاتا ہے۔ مئین سے مراد وہ سورتیں ہیں جو کم و بیش ایک سو آیات پر مشتمل ہوں اس کے بعد والناس تک سورتیں مفصلات کہلاتی ہیں آگے مفصلات کے بھی تین گروپ ہیں حجرات سے لیکر سورة بروج تک کو جو ال مفصل ، بروج سے لے کر سورة بینہ تک بوساطہ مفصل اور پھر آخر تک کو قصار مفصل کہا جاتا ہے۔ قصار کا معنی چھوٹی سورتیں ہے۔ وجہ تسمیہ : قرآن کریم کی مختلف سورتوں کے ناموں کی مختلف وجوہات ہیں بعض سورتوں کے نام ان کے ابتدائی حروف میں قۤ، صۤ، طہٰ ، یسۤ وغیرہ بعض سورتوں کے اسماء ان کے پہلی آیت کے کسی لفظ پر رکھے گئے ہیں۔ جیسے سورة کوثر کا نام اس کی پہلی آیت “ انا اعطینک الکوثر ” سے لیا گیا ہے۔ کسی سورة کا نام اس سورة میں مذکور و مشہور واقعہ سے ماخوذ ہے۔ جیسے بقرہ کہ اس میں گائے کا واقعہ بیان ہوا ہے۔ اسی طرح اسراء میں معراج کا واقع آیا ہے۔ سورة اعراف میں اعراف کا واقعہ ہے۔ جو کہ ایک جگہ کا نام ہے۔ سورة ال عمران کا نام بھی واقعہ ال عمران کی وجہ سے ہے۔ سورة یونس کا نام یونس اس لئے ہے کہ اس میں حضرت یونس (علیہ السلام) کا ذکر ہے۔ مکی اور مدنی سورتیں : زمانہ نزول کے لحاظ سے سورتوں کی دو قسمیں ہیں۔ یعنی مکی اور مدنی سورتیں جو سورتیں ہجرت سے پہلے نازل ہوئیں وہ مکی کہلاتی ہیں ۔ خواہ وہ مکہ معظمہ میں قیام کے دوران نازل ہوئیں یا طائف میں یا کسی اور سفر کے دوران ۔ مدنی سورتیں وہ ہیں جو ہجرت مدینہ کے بعد نازل ہوئیں۔ ہجرت کے بعد جو بھی سورتیں نازل ہوئیں۔ خواہ وہ قیام مدینہ کے دوران یا تبوک یا خیبر یا کسی اور مقام پر وہ سب مدنی سورتیں کہلاتی ہیں (1 ۔ تفسیر اتقان ج 1 ، ص 9) ۔ علامہ جلال الدین سیوطی (رح) نے زمان و مکان کے لحاظ سے کئی قسمیں بیان کی ہیں (2 ۔ تفسیر اتقان ج 1 ، ص 18 تا ج 1 ، ص 22) ۔ مثلاً جو سورة حصہ یعنی اقامت کی حالت میں نازل ہوئی۔ وہ حضرمی کہلاتی ہے۔ اور جو سفر کی حالت میں اتری اس کو سفری سورة کہتے ہیں۔ اس طرح رات کے وقت نازل ہونے والی سورة لیلی اور دن کے وقت اترنے والی نہاری کہلاتی ہے ۔ بعض سورتیں دفعتہً یعنی یکدم نازل ہوئی ہیں۔ ان کو دفعی سورتیں کہتے ہیں اور بعض سورتیں تدریجی کہلاتی ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ تدریجاً نازل ہوئی ہیں ۔ کبھی چند آیتیں نازل ہوگئیں ۔ پھر درمیان میں وقفہ آگیا پھر کچھ نازل ہوگئیں۔ یہ تدرب کی سورتیں ہیں۔ بعض سورتیں ایسی ہیں جو کہلاتی تو مدنی ہیں ، مگر ان کے کچھ حصے مکی دور میں نازل ہوئے مثلاً یہی سورة بقرہ مدنی سورة ہے ۔ مگر “ امن الرسول ” سے لے کر آخر تک کی آیتیں مکی زندگی کا حصہ ہیں ۔ مشہور روایت میں آتا ہے (1 ۔ مسلم ج 1 ، ص 97) کہ معراج کے دوران حضور ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تین تحفے دیے گئے ہیں۔ یعنی پانچ نمازیں۔ سورة بقرہ کی آخری آیتیں اور ان لوگوں کے لیے خوشخبری جو شرک میں ملوث نہیں ہوں گے۔ ظاہر ہے کہ آپ کا معراج مکی زندگی میں ہو لہٰذا یہ آخری مکی زندگی کی ہیں۔ اگرچہ سورة بقرہ مدنی سورة ہے۔ ترتیب تلاوت کی حکمت : مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ ترتیب نزول کا تقاضا تو یہ تھا کہ پہلے مکی سورتیں آتیں اور اس کے بعد مدنی سورتوں کا بیان کرتا۔ مگر ایسا نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ بیان فرماتے ہیں کہ قرآن حکیم تمام نوع انسانی کے لئے نازل ہوا ہے۔ اور مختلف انسانوں کے مزاج مختلف ہوتے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے انسانی مزاج کو پیش نظر رکھتے ہوئے پہلے وہ سورتیں رکھیں ہیں جو جامع اور مانع ہیں اور ان میں ہر قسم کے احکام پائے جاتے ہیں۔ اور یہ عام طور پر مدنی سورتیں ہیں ۔ مکی سورتوں میں زیادہ تر بنیادی عقائد کا ذکر ہے۔ ان میں ہر قسم کے احکام نہیں پائے جاتے۔ تو گویا پہلے مدنی اور لمبی سورتوں کو لانے میں حکمت یہ ہے کہ لوگ ہر قسم کے احکام سے مانوس ہوجائیں۔ فضیلت سورة : حدیث پاک میں سورة بقرہ کے بہت سے فضائل بیان ہوئے ہیں۔ ترمذی شریف ( 2 ۔ ترمذی ص 408) کی روایت میں بنی (علیہ السلام) کا فرمان ہے۔ “ لا تجعلوا بیوتکم مقابر میں اپنے گھروں کو قبروں کی طرح سنسان نہ بنا لو۔ بلکہ وہاں نمازیں بھی پڑھا کرو۔ نیز یہ بھی فرمایا “ وان البیت الذی تقرء البقرۃ فیہ لا یدخلہ الشیطن “ یعنی جس گھر میں سورة بقرہ کی تلاوت ہوتی ہو۔ وہاں شیطان داخل نہیں ہوتا ، مسلم شریف ( 3 ۔ مسلم ج 1 ، ص 270) کی روایت میں اس طرح آتا ہے “ یوتی بالقراف یوم القیمۃ واھلہ الذین کانوا یعلمون بہ تقدمہ سورة البقرۃ وال عمران ” یعنی قیامت کے روز قرآن پاک اور اس کے ابل کو لایا جائے گا۔ ان کے آگے آگے سورة بقرہ اور سورة ال عمران ہوگی ۔ یہاں پر یہ بات یاد رہے کہ اہل قرآن سے مراد وہ لوگ ہیں جو قرآن پاک پر عمل کرتے ہیں۔ آج کل تو چکڑالوی اور پرویزی وغیرہ اہل قرآن کہلاتے ہیں۔ حالانکہ یہ لوگ گمراہ اور منکرین قرآن ہیں ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ آتے ہیں (1 ۔ مسند احمد ج 5 ، ص 248 ، دارمی ج 2 ، ص 224) “ تعلموا سورة البقرۃ فان اخذھا برکۃ ” یعنی سورة بقرہ سیکھو ، کیونکہ اس کا سیکھنا باعث برکت ہے۔ “ رترکھا حسرۃ ” اور اس کا ترک کرنا باعث حسرت ہوگا۔ نیز فرمایا (2 ۔ مستدرک ج 1 ، ص 289 ، ترمذی ص 408) “ لکل شیء سنام وسنام القران سورة البقرۃ ” ہر چیز کی ایک کوہان یا بلندی ہوتی ہے ۔ اور قرآن کی کوہان سورة بقرہ ہے یر یعنی یہ سورة قرآن پاک میں اس طرح نمایاں ہے جس طرح اونٹ کی پشت پر کوہان نمایاں ہوتی ہے۔ فرمایا (3 ۔ ترمذی ص 408 ، مستدرک حاکم ج 2 ص 279) سورة بقرہ میں ایک ایسی آیت ہے “ ھی سیدۃ ای القران ایۃ الکرسی ” یہ قرآن پاک کی تمام آیتوں کی سردار ہے۔ یعنی آیتہ الکرسی ۔ گویا سب سے بڑی اور سب سے فضیلت والی آیت اسی سورة میں ہے۔ ایک اور روایت میں آتا ہے (4 ۔ تفسیر دار منثور ج 1 ص 20 ، بکولہ دخمیی) کہ سورة بقرہ فسطاط القران یعنی قرآن کا خیمہ ہے ، جس میں ہر چیز آجاتی ہے۔ فرمایا (5 ۔ مسلم ج 1 ، ص 270 ، تفسیر دار منثورج 1 ، ص 18 ، مستدرک حاکم ج 2 ص 287) اقراء والزھرا دین البقرۃ وال عمران دو روشن سورتیں پڑھو۔ یعنی سورة بقرہ اور سورة ال عمران۔ یہ قیامت کے روز اس طرح آئیں گی ، جس طرح دو بادل ہوتے ہیں۔ اور ان کے درمیان بڑی چمک ہوگی یہ سائبان کی طرح اوپر آئیں گی۔ مسند احمد کی روایت میں حضور ﷺ کا ارشاد ہے (6 ۔ مسند احمد ج 8 ، ص 26) البقرۃ سنام القران سورة بقرہ قران کریم کی کوہان ہے۔ اس کی ہر آیت کے ساتھ اسی۔ اسی فرشتے اترتے رہے ہیں۔ یعنی ہر آیت کے نزول کے وقت ملائکہ کا نزول ہوتا تھا۔ فرمایا اس کی آیت “ اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم ” کو اللہ تعالیٰ نے عرش کے نیچے سے نکال کر سورة میں شامل کیا ہے اسی آیت الکرسی میں اللہ تعالیٰ کا اسم اعظم بھی ہے۔ مضامین سورة : اس آیت مبارکہ میں مختصر طور پر بہت سے مضامین آجاتے ہیں ۔ مثلاً اس میں اللہ تعالیٰ نے مضامین سورة نے منعم علیہم لوگوں کے بکثرت اوصاف بیان فرمائے ہیں۔ اور ان کے نتائج سے آگاہ کیا ہے اسی طرح گمراہ لوگوں کے اوصاف اور ان کی نشانیاں بیان کی ہیں۔ جن سے وہ پہچانے جاتے ہیں اس سورة مبارکہ میں توحید باری تعالیٰ اور رسالت کا ذکر دلائل عقلیہ اور نقلیہ کے ساتھ آیا ہے ختم نبوت کا بیان ہے۔ اور وحی کی ضرورت کو وضح کیا گیا ہے۔ انسان کے مکلف ہونے کا بیان ہے۔ اور پھر وحی الٰہی کی احتیاج کا ذکر ہے۔ کیونکہ اس کے بغیر انسان اپنے تمام تر مسائل کو حل نہیں کرسکتے۔ انہیں زندگی کے ہر موڑ پر وحی الٰہی کی دستگیری کی ضرورت ہے۔ اس سورة میں عبرت حاصل کرنے کے لئے مختلف ذرائع کو بیان کیا گیا ہے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق اور ان کے فضایل کا ذکر ہے۔ بنی اسرائیل کے اسلاف پر اللہ تعالیٰ کے انعامات کا بیان ہے۔ اور موجودہ بنی اسرائیل کی خباثتوں ، شرارتوں ، ان کے عناد اور ضد کا ذکر ہے۔ اس سورة میں ملت ابراہیمی کا ذکر ہے۔ بیت اللہ شریف کے کعبہ ہونے کا ذکر ہے۔ تہذیب ، اخلاق اور تعلیم کے ارکان ، تدبیر منزل اور سیاست مدن کا ذکر ہے غیر اللہ کی نذر و نیاز کی ممانعت کی گئی ہے۔ اس میں قوانین مملکت اور خلافت کبریٰ کے اصول بیان کئے گئے ہیں کہ امیر کیسا ہونا چاہئے اور فوج کے لیے کیا قوانین ضروری ہیں۔ اس سورة مبارکہ میں اولیاء اللہ اور اولیاء الشیطان کی پہچان کرائی گئی ہے۔ سخاوت کی ترغیب دی گئی ہے۔ بخل کی مذمت بیان ہوئی ہے۔ سود کی حرمت اور تجارت کے قوانین کا بیان ہے جملہ عبادات نماز ، روزہ ، حج ، زکوۃ وغیرہ کے مسائل ہیں۔ معاشرتی امور سے متعلق نکاح ، طلاق ، قسم ، ایلا وغیرہ کے احکام ہیں دیوانی اور فوجداری مقدمات کا بیان ہے۔ عقربات میں قصاص اور دیت کے احکام ہیں۔ اصلاح معاشرہ ، جہاد اور نفاق فی سبیل اللہ ، غرض اس سورة مبارکہ میں سینکڑوں ، ہزاروں مضامین بیان ہوئے ہیں۔ نام اور کوائف : اس سورة کا نام سورة بقرہ رکھا گیا ہے۔ بقرہ عام طور پر گائے کے لئے بولا جاتا ہے تاہم عربی زبان میں یہ لفظ گائے اور بیل دونوں کے لیے مشترک ہے۔ اگر وضاحت کرنی ضروری ہو تو بیل کے لیے ثور کا لفظ بھی بولا جاتا ہے۔ بہرحال اس سورة مبارکہ میں جس بقرہ کا ذکر ہے کہ وہ نر ہو یا مادہ ہو۔ قرآن پاک کے الفاظ و حروف کے اعداد و شمار جمع کرنے والے لوگوں (1 ۔ تفسیر اتقان ج 1 ، ص 68 ، تفسیر عزیزی فارسی ج 1 ، ص 59) کے مطابق اس سورة کی دو سو چھیاسی یا دو سو ستاسی آیتیں اور چالیس رکوع ہیں۔ اس میں چھ ہزار دو سو اکیس کلمات اور پچیس ہزار پچیس حروف ہیں۔ سورۃ فاتحہ اور سورة بقرہ میں ربط : سورة فاتحہ کے پہلے حصے میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا ہے۔ دوسرے حصے میں بندے کی طرف سے اس بات کا اقرار ہے کہ وہ صرف اسی کا عبادت گزار ہے۔ اور اسی کی اعانت کا طالب ہے۔ تیسرے حصے میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اھدنا الصراط المستقیم اے پروردگار ! ہمیں سیدھے راستے کی طرف راہنمائی فرما۔ چناچہ اس دعا کے جواب میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ جس ہدایت اور راہنمائی کی تمہیں ضرورت ہے “ ذلک الکتب لا ریب فیہ ” یہ کتاب ہے جو مرکز و منبع ہدایت ہے۔ اس کو مضبوطی کے ساتھ پکڑ لو سورة اور سورة بقرہ میں یہ ربط ہے۔ مہمات دین : قرآن پاک میں بیان کردہ واقعات عام طور پر کئی سورتوں میں آئے ہیں۔ مثلاً فرعون کا واقعہ قرآن پاک میں تقریبا پچاس مرتبہ بیان ہوا ہے۔ اسی طرح حضرت یونس (علیہ السلام) کا واقعہ ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے واقعات مختلف مقامات پر بیان ہوئے ہیں تاہم یہ گائے کا واقعہ صرف سورة بقرہ ہی میں بیان ہوا ہے۔ قرآن پاک کے کسی دوسرے مقام پر اس واقعہ کا کوئی حصہ نہیں آیا۔ شاہ عبد العزیز محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں (2 ۔ تفسیر عزیزی پارہ 1 ، ص 60) کہ اس واقعہ میں دین کے تمام مہمات یعنی اہم باتیں سمجھا دی گئیں ہیں۔ معرفت الٰہی : اس واقعہ کی اہم ترین بات اللہ وحدہ لاشریک کی پہچان اور شناخت ہے۔ جب بنی اسرائیل کا ایک آدمی قتل ہوگیا ، تو انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) سے اس سلسلہ میں دریافت کیا۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ گائے ذبح کرو اور اس کے گوشت کا ایک ٹکڑا مردے کے جسم پر مارو تو وہ خود بخود بتائے گا کہ اس کا قاتل کون ہے۔ بنی اسرائیل نے ایسا ہی کیا تو مردہ زندہ ہوگیا۔ اور اس نے اپنے قاتل کی نشاندہی کردی۔ اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ مردہ گوشت لگانے کی وجہ سے زندہ ہوگیا تھا یا خود بخود ہی کھڑا ہوگیا تھا۔ اگر خود زندہ ہوگیا۔ تو دوسرے سینکڑوں ہزاروں مردے خودبخود کیوں نہیں زندہ ہوجاتے۔ اور اگر وہ مردہ گائے کا گوشت لگانے کی وجہ سے زندہ ہوا تو گائیں بھی بیشمار ذبح ہوتی ہیں۔ مردوں کو زندہ کرنے کا یہ آسان نسخہ ہے۔ ہر مردے کو زندہ کرنے کے لئے ایسا کیا جاسکتا ہے مگر ایسا نہیں ہوتا۔ معلوم ہوا کہ بنی اسرائیل کا وہ مردہ نہ تو خود بخود زندہ ہوگیا اور نہ ہی محض گائے کا گوشت لگانے سے۔ بلکہ وہ تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے زندہ ہوا۔ جو صانع اور قادر مطلق ہے لہٰذا اللہ رب العزت کی سب سے بڑی پہچان یہی ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی قدرت سمجھ میں آتی ہے۔ اور یہ سورة مبارکہ کی سب سے اہم بات ہے۔ ثبوت نبوت : اس سورة میں دوسری اہم بات نبوت کا ثبوت ہے ۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے قاتل کا پتا لگانے کے لئے جو طریقہ بتایا ، وہ کامیاب ہوا۔ لہٰذا موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت ثابت ہوگئی جب ایک نبی کی نبوت ثابت ہوگئی ۔ تو تمام انبیاء (علیہم السلام) کی نبوت کا یقین ہوگیا۔ نیز یہاں پر یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ نبی کی بات کو بغیر تفتیش کے تسلیم کرلینا چاہئے۔ اس میں حیل و حجت نہیں کرنی چاہئے۔ بنی اسرائیل نے موسیٰ (علیہ السلام) کے بتائے گئے طریقے میں چھان بین شروع کردی۔ کہ جس گائے کو ذبح کرنے کے لیے کہا گیا ہے وہ کیسی ہونی چاہئے اور اس کا رنگ کیسا ہونا چاہئے ، وغیرہ وغیرہ ۔ اگر وہ لوگ اپنے نبی کے حکم کے مطابق فوراً عمل کرتے ہوئے گائے ذبح کردیتے ، تو مسئلہ فوراً حل ہوجاتا۔ انہوں نے اپنے اوپر جس قدر سختی کی ، اسی قدر قیدیں بڑھتی چلی گئیں ۔ استقامت کی ضرورت : اس واقعہ میں تیسری اہم چیز استقامت ہے۔ انسان کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنے عقیدے عمل اور اخلاق پر قائم رہے۔ اگر استقامت میں لغزش آجائے گی۔ تو کئی قسم کے فساد پیدا ہوجائیں گے ۔ بنی اسرائیل کے آدمی کے قاتل نے اس جرم کا ارتکاب اس لیے کیا تھا تاکہ مقتول کو راستے سے ہٹا کر چچا کا سارا مال حاصل کرلے۔ گویا اس نے استقامت کو چھوڑ دیا ، تو اللہ تعالیٰ نے اسے ذلیل و رسوا کردیا۔ معلوم ہوا کہ استقامت بڑی چیز ہے اس کو چھوڑنے سے ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مجاہدہ : اس واقعہ کی چوتھی بات مجاہدہ کی ضرورت ہے۔ دین اور ایمان کے راستے میں کوشش اور جدوجہد کرنا بڑا مشکل کام ہے۔ جوانی کے عالم میں انسان کی عقل مغلوب ہوتی ہے۔ انسان پر خواہشات کا غلبہ ہوتا ہے۔ اس لیے اس عمر میں اکثر لوگ مجاہدہ میں ناکام رہتے ہیں جب انسان پر بڑھاپا آجاتا ہے ۔ تو ظاہری قوی کمزور ہوجاتے ہیں۔ اور دوسری طرف جہالت انسان کے قلب و ذہن میں پختہ ہوچکی ہوتی ہے لہٰذا اس عمر میں بھی انسان مجاہدہ سے محروم رہ جاتا ہے۔ حالانکہ اس کی بڑی اہمیت اور بہت زیادہ ضرورت ہے۔ معاد : اس واقعہ کی پانچویں اہم چیز معاد یعنی حیات بعد الممات کا ثابت ہے۔ یہ پورا واقعہ ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا “ کذلک یحی اللہ الموتی ” یعنی جس طرح اس مردے کو اللہ تعالیٰ نے زندہ کردیا ، اسی طرح معاد میں سب کو دوبارہ زندہ کر دے گا یہ تمام دین کے بنیادی اور اہم اصول ہیں۔ باقی چیزیں ان کے ضمن میں آتی ہیں اس ایک واقعہ میں خدا تعالیٰ نے دین کے بنیادی مسائل اور معارف سمجھائے ہیں۔ اس لیے اس سورة کا نام سورة بقرہ رکھا گیا ہے۔ اس درس میں سورة بقرہ کے فضائل اور اس کے مجموعی مضامین کا مختصراً بیان ہوا۔ آئندہ درس میں انشاء اللہ الم کے متعلق بیان کیا جائے گا ۔ محکمات ، متشابہات ، مقطعات : گذشتہ درس میں سورة بقرہ کی فضیلت ، اس کے نام اور اس کے موضوعات کا اجمالی تذکرہ ہوا تھا۔ اس درس میں حروف مقطعات میں سے الف ، لام ، میم کے متعلق بیان ہوگا۔ اصولی طور پر یہ بات معلوم کر لینی چاہئے ۔ کہ قرآن کریم میں تین قسم کی آیات ہیں پہلی قسم کی آیات محکمات ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ ایسی آیات کے الفاظ بھی معلوم ہیں اور ان کا مطلب اور مراد بھی معلوم ہے۔ گویا یہ آیات بالکل واضح ہیں۔ قرآن پاک کی اکثر آیتیں محکمات ہیں۔ آیات کی دوسری قسم متشابہات ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے الفاظ کا معنی تو معلوم ہے۔ مگر ان کی حقیقت پوشیدہ ہے۔ مثلاً آیت کریمہ “ الرحمن علی العرش استوی ” میں رحمن ، عرش اور استویٰ کے معانی معلوم ہیں ۔ مگر اس کی حقیقت انسانی ذہن میں نہیں آسکتی۔ وہ غامض اور دقیق ہے۔ گویا معنی تو معلوم ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ عرش پر جلوہ گر ہے۔ مگر جلوہ گر ہونے کی کیفیت ذہن انسانی کے بس کی بات نہیں۔ ایسی آیات متشابہات کہلاتی ہیں۔ تیسری قسم کی آیات مقطعات کہلاتی ہیں ۔ یہ مفرد حروف ہیں جو قرآن پاک کی انتیس سورتوں کے ابتداء میں آتے ہیں سورة بقرہ بھی انہیں میں سے ہے۔ جو المۤ سے شروع ہوتی ہے۔ دوسرے مقامات پر نۤ، صۤ، قۤ، الرٰ ، یسۤ، طٰسمۤ وغیرہ کے حروف آتے ہیں۔ مقطعات کا مطلب یہ ہے کہ نہ ان کا معنی واضح ہے۔ اور نہ ان کی مراد معلوم ہے۔ احکام خداوندی اور ان کی حکمتیں : تاہم ہر قسم کی آیات کے احکام پر ایمان لانا ضروری ہے۔ خواہ ان احکام کی حکمتیں واضح ہوں یا غیر واضح۔ مثلاً نماز پڑھنے میں حکمت یہ ہے کہ انسان اپنے معبود کے سامنے تواضع کرتا ہے۔ اور اپنے منعم کا شکریہ ادا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی عاجزی کا اظہار کرتا ہے۔ جو کہ عبدیت کا تقاضا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور مناجات پیش کرنے کی حکمت بالکل واضح ہے۔ اسی طرح روزہ کا مقصد نفس کو دبانا شہوت کو مغلوب کرنا ہے۔ تاکہ انسان میں تقویٰ کی روح پیدا ہو سکے۔ بھوک اور پیاس سے خواہشات نفسانی پر غلبہ حاصل کیا جاتا ہے۔ یہ بھی واضح حکمت ہے۔ زکوٰۃ کے متعلق شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں (1 ۔ حجۃ اللہ البالغہ ، ج 1 ، ص 73 ، 74) ۔ کہ اس میں دو بڑی حکمتیں ہیں پہلی یہ کہ مساکین کی حاجت پوری کی جاتی ہے تاکہ کوئی غریب بھوکا پیاسا نہ رہے۔ اور دوسری یہ کہ انسان بخل کے مادہ سے پاک ہوتا ہے۔ جو شخص اپنے مال سے زکوٰۃ نکالتا رہے گا اس میں بخل کی بجائے سخاوت کا مادہ پیدا ہوگا۔ لہٰذا زکوٰۃ کی حکمت بھی واضح ہے۔ اب بعض احکام ایسے ہیں ، جن کی حکمتیں بڑی گہری ہیں۔ اور ہر آدمی انہیں نہیں سمجھ سکتا۔ مثلاً حج کے ارکان منجملہ ان کے بیت اللہ شریف کا طواف۔ منیٰ اور فرعات کا وقوف ہے۔ جمرات کی رمی ہے۔ ان احکام کئ حکمتیں غامض اور دقیق ہیں مگر ان پر ایمان لانا اور اس کے مطابق عمل کرنا ہر مکلف کے لیے لازم ہے۔ اور جن احکام کی حکمت واضح نہیں۔ ان کے متعلق زیادہ کرید نہیں کرنا چاہئے ۔ بلکہ ان احکام کی ہر حالت میں تعمیل کرنی چاہئے۔ خواہ وہ احکام آیات محکمات کے ہوں یا آیات متشابہات کے ہوں۔ حروف مقطعات پر مفسرین کے مباحث : اسی طرح حروف مقطعات کے بارے میں بھی زیادہ کرید کرنے کا حکم نہیں ہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں (2 ۔ ) کہ صحابہ کرام ؓ میں سے کوئی بھی ایسا معلوم نہیں ہوا جس نے حروف مقطعات کی کرید کی ہو۔ جس طرح حضور ﷺ نے فرمایا صحابہ ؓ نے تسلیم کرلیا ۔ مگر بعض ذہن تحقیق پسند ہوتے ہیں۔ وہ معاملہ کی تہ تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ ان کے ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جن حروف کے معانی ہی معلوم نہیں ان کے نازل کرنے کا کیا فائدہ ہے۔ چناچہ صحابہ کرام ؓ کے دور میں بھی بعض عجمی ذہن کے لوگ تھے۔ جو ان کے متعلق سوال کرتے تھے۔ حضرت علی ؓ کے دور خلافت میں بھی بعض لوگوں نے ان الفاظ کے معانی پوچھے بعض نے حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے المۤ کا مطلب دریافت کیا۔ تو انہوں نے تقریب ذہن یعنی ذہن کو قرآن کریم کے قریب کرنے کے لئے کچھ معانی بتا دیے۔ اس کے بعد دوسرے مفسرین کرام نے بھی اپنے اپنے ذوق کے مطابق ان الفاظ کے معانی بیان فرمائے مگر ان میں سے کوئی بھی قطعی نہیں ہے۔ محض احتمال اور ظن غالب سے کچھ معانی بیان کردیے ہیں۔ تاکہ ذہن قرآن پاک سے مانوس رہے۔ چناچہ اس سلسلہ میں بعض صحابہ کرام اور سلف صالحین کے اقوال ملتے ہیں حضرت صدیق اکبر ؓ : حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا قول ہے (1 ۔ تفسیر عزیزی فارسی پ 1 ، ص 72 ، تفسیر کبیر ج 2 ص 3) لکل کتاب سو یعنی ہر کتاب میں کوئی نہ کوئی راز کی بات ہوتی ہے۔ یعنی ہر کتاب کی ہر چیز واضح نہیں ہوتی بلکہ اس میں کوئی نہ کوئی چیز پوشیدہ بھی ہوتی ہے۔ جو عام انسانوں کی سمجھ سے بالا ہوتی ہے چناچہ آپ فرماتے ہیں وسر القرآن اوآسل السور یعنی قرآن پاس کے اسرار اس کی ابتدا میں حروف مقطعات ہیں۔ حضرت علی المرتضیٰ ؓ : حضرت علی کر ما اللہ وجہہ سے منقول ہے (2 ۔ تفسیر کبیر ج 2 ، ص 3 ، تفسیر عزیزی پ 1 ، ص 74) کہ لکل کتاب صفوۃ یعنی ہر کتاب میں کوئی نہ کوئی چھانٹی ہوئی یا منتخب بات ہوتی ہے۔ اور قرآن کریم میں ایسی بات حروف تہجی المۤ وغیرہ ہیں جنہیں ہر آدمی کا سمجھنا ضروری نہیں۔ حضرت امام شعبی (رح) : امام عامر بن شرجیل المعروف شعبی (رح) نے پانچ سو صحابہ کرام ؓ کی زیارت کی ہے۔ اور ان سے علم حاصل کیا ہے۔ آپ امام ابوحنیفہ (رح) کے استاذ ہیں جب آپ سے حروف مقطعات کا مطلب پوچھا گیا تو فرمایا (3 ۔ تفسیر عزیزی پ 1 ص 75 ، تفسیر کبیر ج 2 ص 3) سر اللہ فلا قطلبوا یہ اللہ کے راز ہیں ان کے پیچھے مت پڑو۔ ہو سکتا ہے تم انہیں سمجھنے میں ناکام رہو اور کسی غلط چیز میں مبتلا ہوجاؤ۔ لہٰذا تم انہیں صرف پڑھ لیا کرو۔ حضرت ابن مسعود ؓ : حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں (4 ۔ تفسیر کبیر ج 2 ص 2) کہ اللہ تعالیٰ قرآن پاک کے ہر حروف کی تلاوت پر دس نیکیاں عطا فرماتے ہیں جو مومن ان حروف کو پڑھے گا اسے تیس نیکیاں حاصل ہوں گی یہی بہت بڑی غنیمت ہے۔ لہٰذا ان کے معانی تلاش کرنے میں کوشش نہ کرو۔ حضرت امام رازی (رح) : امام رازی (رح) چھٹی اور ساتویں صدی ہجری کے بڑے عظیم مفسر قرآن گزرے ہیں جس طرح تیسری صدی میں امام ابن جریر طبری (رح) اور چوتھی صدی میں ابوبکر جصاص (رح) ہوئے ہیں اسی طرح آپ کا مقام تھا ابوبکر جصاص (رح) حنفی تھے ۔ اور امام رازی (رح) شافعی تھے۔ امام ابن جریر (رح) خود مجتہد صاحب مذہب تھے۔ اور کسی کے مقلد نہیں تھے۔ ابوبکر جصاص (رح) نے صرف احکام کی تفسیر کی ہے۔ یعنی قرآن پاک کی صرف ان آیات کی تفسیر لکھی ہے ، جن میں احکام بیان ہوئے ہیں۔ البتہ امام رازی (رح) نے چھبیسویں پارے تک مکمل تفسیر کی ہے۔ اس کے بعد آپ وفات پاگئے۔ چناچہ بقیہ تفسیر آپ کے نہایت قابل شاگردوں نے کی ۔ اس تفسیر کی آخری دو جلدیں امام رازی (رح) کی اپنی تالیف نہیں بلکہ آپ کے تلامذہ کی ہے ۔ ان آخری جلدوں کا مقابلہ پہلی جلدوں کے ساتھ کرتے ہیں تو کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ شرف عطا فرمایا۔ حروف مقطعات کے متعلق امام رازی (رح) کا قول یہ ہے (1 ۔ تفسیر کبیر ج 2 ص 2) کہ المۤ سورة بقرہ کا دوسرا نام ہے۔ ایک نام بقرہ ہے اور دوسرا المۤ ہے۔ مقطعات اسمائے الٰہی ہیں : بعض فرماتے ہیں (2 ۔ تفسیر کبیر ج 2 ص 6) کہ المۤ اور دیگر حروف مقطعات کھیعصۤ، حٰمۤ ، عسقۤ وغیرہ اللہ تعالیٰ کے اسمائے پاک ہیں۔ امام رازی ؓ نے ایک روایت ذکر کی ہے (3 ۔ تفسیر کبیر ج 2 ص 5) کہ اللہ تعالیٰ کے چھ ہزار نام ہیں۔ اس نے اپنے تمام نام آسمانی کتابوں میں نازل فرمائے ہیں۔ سوائے ایک کے جو اس نے مخصوص کرلیا ہے۔ اور کسی کو نہیں بتایا۔ تو وہ فرماتے ہیں کہ المۤ بھی اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ جیسا کہ حٰمۤ کے متعلق امام ابن کثیر (رح) نے لکھا ہے (4 ۔ تفسیر ابن کثیر ج 4 ص 69) تذ کرنی حم والرمح شلجواب وہ حمۤ کا واسطہ دے کر کہتا ہے کہ لڑائی چھوڑ دو ۔ فہلا تلا حٰمۤ التقدھ۔ اس کے جواب میں کہتا ہے ، کہ اب جب کہ نیزے کھٹک رہے ہیں ۔ اب واسطہ پیش کرتا ہے۔ حٰمۤ کا واسطہ پہلے کیوں نہ دیا۔ کہ ہم لڑائی شروع نہ کرتے۔ اب ہم لڑائی نہیں چھوڑ سکتے۔ اس مقولہ سے ثابت ہوتا ہے۔ کہ حٰمۤ جو حروف مقطعات میں سے ہے یہ اللہ کا نام ہے۔ بعض اس کی توجیہہ یوں کرتے ہیں (1 ۔ تفسیر جریہ طبری ج 1 ص 87 ، تفسیر کبیر ج 3 ص 5) کہ حروف مقطعات اللہ کا پورا نام نہیں بلکہ بعض اسماء کی طرف اشارات ہیں مثلاً الف کا اشارہ اس کے ذاتی نام اللہ کی طرف ہے۔ اس سے مراد رحمن ہے۔ اور اسی طرح کۤ کا اشارہ کوفی کی طرف ہے لۤ کا اشارہ اسم لطیف کی طرف ہے۔ اور ھۤ سے مراد مالک اور اسم مجید ہے۔ مقطعات اسمائے قرآنی ہیں : بعض علمائے کرام فرماتے ہیں (2 ۔ تفسیر طبری ج 1 ص 87 ، تفسیر کبیر ج 2 ص 6) کہ حروف مقطعات قرآن پاک کے نام ہیں جیسے حٰمۤ ، یٰسۤ المۤ وغیرہ حضرت امام شاہ ولی اللہ دہلوی (رح) نے اپنی کتب الفوز الکبیر ، خیر کثیر اور ہوامع میں حروف مقطعات پر بحث کی ہے وہ فرماتے ہیں (3 ۔ الفوذ الکبیر ص 108 ، مطبوعہ لاہور) کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے کشفی طور پر یہ فہم دیا ہے کہ جس سورة کی ابتداء میں یہ حروف آتے ہیں اس سورة کا خلاصہ اور عنوان ان حروف میں مذکور ہے۔ ان حروف سے سورة کے مضامین کا اندازہ ہوتا ہے ۔ یہ الفاظ ایسے ہی ہیں۔ جیسے کسی شخص کے لیے مفتی ، قاضی ، امیر سلطان یا حاکم وغیرہ کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں یا اس طرح سمجھ لیں۔ جیسے تعلیمی ڈگری بی اے۔ ایم اے۔ پی ایچ ڈی ذی لٹ (ڈاکٹر آف لٹریچر) وغیرہ کے الفاظ ہوتے ہیں انہی سے کسی کی شخصیت کی علمی قابلیت کا پتہ چلتا ہے۔ بالکل اسی طرح حروف مقطعات کے ذریعے کسی سورة کا خلاصہ یا اس کی سرخی بیان کی جاتی ہے۔ مقطعات بحیثیت چلینج : امام مبرد تیسری صدی کے بڑے صرفی ، نحوی اور لغت و ادب کے امام تھے۔ آپ کی مشہور کتاب “ کامل ” ہے ، وہ فرماتے ہیں (4 ۔ تفسیر کبیر ج 2 ص 6) کہ “ ان فصیح وبلیغ حروف مقطعات میں چلینج ہے کہ اے دنیا والو ! یہ اللہ تعالیٰ کا نازل کردہ کلام ہے تم بھی اس جیسا کلام بنا کر لاؤ ۔ اللہ تعالیٰ نے انہی حروف میں قرآن پاک نازل کیا ہے۔ اگر تم اس کی صداقت کو تسلیم نہیں کرتے۔ “ فالوا بسورۃ من مثلہ ” تو اس جیسی ایک سورة ہی بنا کر لاؤ اگر تم بھی ایسا کرسکو تو مان لیں گے کہ قرآن بھی خدا تعالیٰ کا نازل کیا ہوا نہیں ہے۔ عربی زبان بڑی فصیح وبلیغ زبان ہے۔ نزول قرآن سے تقریباً ڈیڑھ ہزار سال پہلے عربی زبان کی ترقی شروع ہوئی اور اس عرصہ میں اپنے کمال تک پہنچ گئی تھی۔ چناچہ عرب لوگ اس زبان کے ماہر سمجھے جاتے تھے۔ اسی لیے وہ غیر عربوں کو عجمی یعنی گونگے کہتے تھے۔ عربی زبان کا شعر و ادب کا ذخیرہ کمال درجے کا ہے۔ ہمارے درسوں میں پڑھایا جاتا ہے ۔ تو اس ترقی یافتہ زبان میں اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک نازل فرمایا ہے “ قرءنا عربیا لعلکم تعقلون ” عربوں کو اللہ تعالیٰ نے دنیا کا امام اور استاذ بنایا تھا۔ انہی اہل زبان کے سامنے المۤ ، کھیعصۤ کا چلینج پیش کیا گیا کہ اگر کوئی ہے تو اس جیسا کلام بنا کر لائے۔ مگر کوئی بھی اہل زبان اس چیلنج کا جواب نہ دے سکا۔ امام اخفش (رح) کی رائے : امام اخفش (رح) اور مفسر تفسیر خازن (رح) کہتے ہیں (1 ۔ تفسیر کبیر ج 2 ص 7 ، تفسیر خازن ج 1 ص 66) کہ ہو سکتا ہے کہ حروف مقطعات قسم کے معنوں میں استعمال ہوتے ہوں۔ بعض فرماتے ہیں (2 ۔ تفسیر طبری ج 1 ص 89 ۔ تفسیر کبیر ج 2 ، ص 7) کہ ان حروف کو قرآن کے انقطاع کے لیے لایا گیا ہے ۔ مثلاً سورة فاتحہ “ غیر المغضوب علیہم ولا الضالین ” پر ختم ہوئی تو دوسرا کلام شروع کرنے کے لیے المۤ لایا گیا۔ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کا قول : حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کے زمانے میں ہی بحث و تمحیص کرنے والے لوگ پیدا ہوگئے تھے جو اس قسم کے معاملات میں تحقیق کرتے تھے۔ چناچہ آپ سے المۤ کا معنی دریافت کیا گیا۔ تو فرمایا (3 ۔ تفسیر طبری ج 1 ، ص 88) اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔ “ انا اللہ اعلم ” یعنی میں تمہارا اللہ سب سے زیادہ جاننے والا ہوں ۔ گویا اَ سے مراد انا ل سے مراد اللہ اور م سے مراد اعلم ہے۔ اسی طرح المصۤ سے مراد انا اللہ افصل ہے۔ یعنی میں تمہارا اللہ ہوں ، جو تمہارے لیے ہر چیز تفصیل سے بیان کرتا ہوں۔ الٰرۤ کا مطلب ہے انا اللہ اریٰ میں تمہارا اللہ ہوں جو تمہاری ہر بات کو دیکھتا ہوں۔ امام ماوردی (رح) کی تحقیق : امام ماوردی (رح) صاحب احکام الشلطانیہ اپنے زمانے کے بہت بڑے محقق ہوئے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں (1 ۔ تفسیر کبیر ج 1 ، ص 7) کہ المۤ کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے ۔ الم بکم اور اس کی تفصیل ہے نزل علیکم الکتاب یعنی اللہ تعالیٰ نے تم پر کتاب نازل کی ہے۔ بعض علماء کرام فرماتے ہیں (2 ۔ ) ۔ المۤ کا معنی اول لازم للمؤمنین ذلک الکتب یعنی ایمانداروں کے لیے اولین ضروری چیز یہ کتاب ہے۔ اس کے اندر غورو فکر کرنا چاہئے ۔ کیونکہ ہدایت کا منبع و مرکز یہی کتاب ہے۔ بعض فرماتے ہیں (3 ۔ تفسیر کبیر ج 2 ، ص 6) کہ ا سے مراد اللہ ہے۔ ل سے مراد جبرائیل (علیہ السلام) ہے اور م سے مراد محمد (ﷺ) یعنی اللہ تعالیٰ کے یہ کتاب جبرائیل (علیہ السلام) کے توسط سے حضرت محمد ﷺ پر نازل فرمائی ۔ شیخ ابن عربی کا قول : شیخ ابن عربی (رح) اس کا معنی یہ کرتے ہیں (4 ۔ احکام القرآن شیخ ابن عربی ج 1 ، ص 9) کہ کل وجود خداوند تعالیٰ ہے۔ جبرائیل (علیہ السلام) درمیان میں ایک واسطہ ہے۔ جو اللہ سے فیض لے کر ادھر پہنچاتا ہے اور آخر الوجود حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ ہیں۔ ان تک فیض پہنچانے کا واسطہ جبرائیل (علیہ السلام) ہیں۔ بعض فرمائے ہیں (5 ۔ ) کہ الم میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ “ الحمدللہ ” سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے انسانیت کی تکمیل کے لئے “ ذلک الکتب لاریب فیہ ” اس عظیم کتاب کو نازل فرمایا۔ بعض فرماتے ہیں (1 ۔ تفسیر در منثور ج 1 ، ص 22 ۔ بیضاوی ج 1 ، ص 9) کہ قرآن کریم کے ہر ہر لفظ کی تلاوت کی جانی چاہئے تاکہ برکت اور ثواب حاصل ہو۔ خواہ اس کا مطلب سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔ تاہم ثواب تو ہر ایماندار کو حاصل ہوگا۔ نزول مقطعات معجزہ سرور کائنات ﷺ : بعض فرماتے ہیں (2 ۔ تفسیر مظہری ج 1 ، ص 13 ۔ تفسیر عزیزی فارسی پ 1 ، ص 77) کہ حروف مقطعات کو نازل کرکے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کا ایک معجزہ ظاہر فرمایا ہے ۔ حضور ﷺ تو امی ہیں آپ نے کوئی نوشت وخواند نہیں کی جب تک کوئی تعلیم حاصل نہ کرسکے۔ ایک امی حروف تہجی کیسے پڑھ سکتا ہے۔ مگر پیغمبر آخر الزمان (علیہ السلام) کے امی ہونے کے باوجود ان الفاظ کا پڑھنا ایک غیر معمولی معجزہ تھا۔ حالانکہ نہ آپ نے کسی مکتب میں داخلہ لیا۔ اور نہ کسی استاذ سے پڑھا ۔ لہٰذا اس معجزے کے اظہار کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ حروف مقطعات نازل فرمائے ۔ امام بیضاوی (رح) ساتویں صدی کے عظیم مفسر ہوئے ہیں۔ مختصر تفسیروں میں امام صاحب (رح) کی تفسیر سب سے اہم ہے۔ آپ کا زمانہ مسلمانوں کی ترقی کا دور تھا آپ الم کی تاویل اس طرح کرتے ہیں۔ کہ حرف الف حلق کے انتہائی آخری حصے سے نکلتا ہے ۔ لام درمیان سے م ہونٹوں سے نکلتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح یہ حروف آخر ، اوسط اور ابتدائی حصے سے ادا ہوتے ہیں۔ اسی طرح انسان کے کلام کی ابتداء اوسط اور آخر بھی اللہ تعالیٰ کے ذکر سے ہونی چاہئے گویا امام بیضاوی نے حروف الم کو اللہ کے ذکر کے ساتھ مربوط کیا ہے (3 ۔ تفسیر بیضاوی ج 1 ، ص 3) ۔ حضرت امام شاہ ولی اللہ کا قول : حضرت امام شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں (4 ۔ الفوذ الکبیر ص 83 مطبوعہ کراچی) کہ مجھے کشفی اور ذوقی طور پر معلوم ہوا ہے کہ الم کا مطلب وہ غیر مادی فیض مجرد ہے۔ جو اس مادی اور متحیز مکان والے عالم میں آکر مقید ہوگیا ہے اور لوگوں کے ادب اور علوم وغیرہ کے مطابق ان کی سنگدلی سے متصادم ہے۔ یہ فیض مجرد اعمال فاسدہ ، اقوال کا سدہ کی تذکیر کرتا ہے۔ اور بدعات اور اخلاق رویہ کا رد کرتا ہے۔ یہ الم تشریح اور تحقیق قدسی پیش کرتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ ساری سورة بقرہ میں الم کا یہی اجمالی معنی نظر آتا ہے۔ اس سورة میں لوگوں کی سنگ دلی کا مقابلہ ، قوانین کی تشریح اور تحقیق اور برے اقوال و عقائد اور برے اخلاق کی اصلاح کے متعلق ہی مضامین پائے جاتے ہیں۔ بعض محققین فرماتے ہیں (1 ۔ تفسیر عزیزی فارسی پ 1 ، ص 77) کہ الف کا اشارہ استقامت علی الشریعۃ کی طرف ہے۔ “ ان الذین قالو ربنا اللہ ثم ستقاموا ” یعنی شریعت پر استقامت اختیار کرنی چاہئے۔ فرماتے ہیں کہ لام کا اشارہ مجاہدہ کی طرف ہے۔ یعنی وہ چیز جو ریاضت اور مجاہدہ کرنے سے حاصل ہو۔ جیسے “ والذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا ” یعنی جو لوگ ہماری طرف مجاہدہ کریں گے ہم ضرور ان کو راہ بتلائیں گے۔ اسی طرح حرف میم میں یہ اشارہ ہے کہ انسان کے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت موجزن ہونی چاہئے۔ مولانا مودودی صاحب : مودودی صاحب نے اپنی کتاب تفسیر تفہیم القرآن میں ایک نہایت ہی غلط بات لکھی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ الم کا معنی پہلے زمانے میں معلوم تھا۔ مگر بعد میں سارے لوگ بھول گئے۔ اس کا مطلب ہے کہ کچھ لوگ ان کے معانی جانتے تھے بعد میں امت کے سارے لوگ بھول گئے۔ یہ تو بالکل ہی غلط بات ذکر کردی کہ کسی کو بھی اسکا معنی نہ آتا ہو۔ مفسرین کرام نے جو معانی بیان کیے ہیں وہ میں نے عرض کردیے۔ مفسر فراہی کا قول : مفسر قرآن فراہی (رح) کہتے ہیں (3 ۔ نظام القرآن ج 1) کہ قدیم مصری زبان میں الف کو سر کی شکل میں لکھا جاتا تھا۔ بعض زبانوں میں حروف جانور یا درخت کی شکل میں لکھے جاتے تھے اور الف کے دو معنی استعمال ہوتے تھے۔ ایک معنی گائے ہے۔ اور ظاہر ہے کہ اس سورة کو گائے کے ساتھ مناسبت ہے کیونکہ اس میں گائے کا واقعہ بیان ہوا ہے۔ الف کا دوسرا معنی اللہ وحدہ لاشریک ہے۔ تو فراہی (رح) لکھتے ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ یہ حروف اس محاورے کے مطابق استعمال کیے گئے ہیں۔ حرف آخر : امام جلال الدین سیوطی (رح) اور بہت سے مفسرین آخری بات یہ فرماتے ہیں (4 ۔ تفسیر جلالین ص 4) اللہ اعلم بمرادہ کہ المۤ اور دیگر حروف مقطعات کی مراد اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ “ امنا بذلک وصدقنا ” ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کی تصدیق کرتے ہیں ہماری عقل ناقص ہے لہٰذا یہ ضروری نہیں کہ ہم ان کے معانی ضرور ہی معلوم کرسکیں۔ اس کا احسن طریقہ یہ ہے کہ یہ معاملہ اللہ تعالیٰ کی طرف سونپ دینا چاہئے کہ ان حروف سے اللہ تعالیٰ کی جو بھی مراد ہے ، وہ برحق ہے ، اور ہمارا اس پر ایمان ہے۔ امنا وصدقنا۔
Top