بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 1
الٓمّٓۚ
الم : الف لام میم
: الف الام میم4
4 الم یہ حروف پڑھنے میں پوری پوری آواز کے ساتھ ادا کیے جاتے ہیں۔ جیسا کہ اردو رسم الخط میں ظاہر بھی کردیا گیا ہے۔ اور یہ حروف مقطعات کہلاتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ صحابی اور بعض تابعین کا قول ہے کہ الم مخفف اور قائمقام ہے پورے فقرہ انا اللہ اعلم کا (ابن جریر) زجاج لغوی نے یہی قول اختیار کیا ہے اور کہا ہے کہ حروف مقطعات میں سے ہر حرف کسی متعین معنی کی طرف اشارہ کرتا ہے اور ” عربی شاعری “ سے اس کی مثالیں پیش کی ہیں (قرطبی) بعض نے کہا ہے کہ یہ سورت کا نام ہے۔ اکثر متکلمین اور خلیل نحوی اور سیبویہ نحوی اسی طرف گئے ہیں۔ انھا اسماء السور وھو قول اکثر المتکلمین واختیار الخلیل وسیبویہ (کبیر) بعض کا قول ہے کہ یہ قرآن ہی کا ایک نام ہے۔ اور قول بھی نقل ہوئے ہیں۔ بعض صوفیہ نے انہیں عارفانہ اشارات ومرموزات قرار دیا ہے، اور ان سے طرح طرح کے نکتے اور لطیفے پیدا کیے ہیں۔ ایک قول یہ بھی نقل ہوا ہے کہ خطبات عرب کے دستور کے مطابق یہ حروف محض افتتاح کلام کے لیے لائے گئے ہیں۔ اور یہ بات اس لیے دل کو زیادہ لگتی ہے کہ عرب اگر اس طرز خطاب وخطابت سے آشنا ومانوس نہ ہوتے تو اس پرت اعتراض ضرور ہی کرتے۔ اعتراض کے لیے تو مخالفین بہانے ہی ڈھونڈتے رہتے تھے۔ لیکن اس قسم کا کوئی بھی اعتراض اہل زبان سے منقول نہیں۔ لیکن مشاہیر صحابہ وتابعین میں سے اکثر کا اور جمہور مفسرین کا مسلک یہ ہے کہ یہ حروف ان مشابہتات قرآنی میں سے ہیں جن کا علم کسی مصلحت سے عام بندوں کو نہیں دیا گیا ہے۔ ان ھذا علم مستور وسر محجوب استأثر اللہ تعالیٰ وتبارک بہ (کبیر) حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ اور شعبی، سفیان ثوری، ربیع بن خیثم وابو حاتم وغیرہ سب کا یہی مذہب ہے (قرطبی وابن کثیر) یہ اعتراض کہ قرآن کے مخاطب جب ہم ہیں تو ان حروف کو بھی ہمارے لیے قابل فہم ہونا لازمی ہے، کچھ زیادہ باوقعت وباوزن نہیں۔ قرآن مجید کے اندر اور جتنے مضامین ومطالب ہیں، کیا وہ سب ہر کس وناکس کی سمجھ میں آگئے ہیں ؟ یا کائنات خارجی میں جو کچھ موجود ہے، کیا ان موجودات میں سے سب کا مصرف بڑے بڑے فاضلوں اور ماہروں کی بھی سمجھ میں آگیا ہے ؟
Top