بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 1
الٓمّٓۚ
الم : الف لام میم
الم
2 حروف مقطّعات اور ان کا معنیٰ و مفہوم ؟ : ایسے حروف کو حروف مقطعات کہا جاتا ہے۔ کیونکہ ان کو حروف تہجی کی طرح علیحدہ علیحدہ طور پر پڑھا جاتا ہے، ملا کر ایک کلمے کی طرح نہیں پڑھا جاتا۔ مکررات کو حذف کرنے کے بعد یہ کل چودہ حروف رہ جاتے ہیں جو انتیس مختلف سورتوں کے شروع میں آئے ہیں۔ ان کے معانی کے بارے میں حضرات مفسرین کرام کے مختلف اقوال ہیں۔ مثلا یہ کہ ان میں اعجاز قرآن کی طرف اشارہ ہے کہ قرآن حکیم انہی معانی اور ان ہی حروف و کلمات سے مرکب ہے جن سے تمہارا اپنا روز مرہ کا کلام۔ مگر اس کے باوجود اگر تم لوگ اس کی ایک چھوٹی سے چھوٹی سورت کی نظیر و مثال لانے سے بھی قاصر ہو اور قرآن حکیم کی زوردار تحدّی اور بار بار کے چیلنج کے باوجود۔ اور تمہاری حق سے کھلم کھلا عداوت و دشمنی اور اعلانیہ بغض وعناد کے باوصف تم لوگ اس کلام معجز نظام کا مقابلہ کرنے سے عاجز ہو، جو خود تمہاری اپنی زبان میں ہے اور جس میں اپنی فصاحت و بلاغت پر تم لوگوں کو بڑا ناز ہے، جبکہ اس کلام حکیم کو اس نبی امی نے پیش فرمایا ہے جنہوں نے کبھی ایک حرف بھی با ضابطہ طور پر کسی انسان سے نہیں پڑھا۔ اور جو اپنے ہاتھ سے لکھنا بھی نہیں جانتے تھے۔ تو یہ کس قدر کھلا ثبوت ہے اس بات کا کہ یہ قرآن حکیم کسی انسان کا کلام نہیں بلکہ انسانوں کے خالق ومالک حضرت حق جَلَّ جَلَاُلہ کا کلام ہے۔ اور جس طرح وہ خود بےمثل ہے اسی طرح اس کا کلام بھی بےمثل ہے۔ جبکہ بعض دوسرے حضرات کے نزدیک یہ حروف مقطّعات دراصل عربی فصاحت و بلاغت کے قدیم دستور کے مطابق اصل مقصود سے قبل یونہی بطور توطئہ و تمہید لائے جاتے ہیں۔ اور بعض نے ان کو مختلف سورتوں کے نام قرار دیا ہے اور بعض نے ان کلمات کے مختلف معانی بھی بیان کئے ہیں۔ مثلًا یہ کہ " المّٓ " کا معنی ہے " اَنَا اللّہ اَعْلَم " اور " اَلٓر " کا معنی ہے " اَنَا اللّہ اَرَی " وغیرہ۔ مگر ان تمام اقوال کا تعلق ظن وتخمین ہی سے ہے، کوئی مستقل سند اور ٹھوس ثبوت ان کے لئے موجود نہیں۔ اس لئے ثقہ اور محتاط علماء کرام کا کہنا یہی ہے کہ یہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے اسرار میں سے ایک سرّ ہے، جس کے حقیقی معنی وہی جانتا ہے۔ ہمارے ذمے بس یہ یقین و اعتقاد ہے کہ ان کی جو بھی مراد ہے وہ برحق ہے۔ چناچہ امام رازی (رح) جیسے محققین کا کہنا ہے۔ " اِنَّ ہٰذَا عِلْمٌ مَّسْتُوْرٌ وَسِرٌّ مَحْجُوْبٌ اِسْتَأثَرَ اللّٰہ تَعَالَی بِہٖ " ۔۔ (کبیر، محاسن، ابن کثیر وغیرہ) ۔ یعنی " یہ ایک ایسا مخفی علم اور پوشیدہ راز ہے جس کو اللہ پاک نے اپنے ساتھ خاص فرمایا ہے "۔ سو ایسے میں محض ظن وتخمین کی بنا پر ان کے پیچھے لگنے کی اور اپنے طور پر ان کے معانی و مطالب بیان کرنے کی نہ ضرورت ہے اور نہ ہی ایسے تخمینی معانی و مطالب کی کوئی استنادی اور یقینی حیثیت ہوسکتی ہے کہ ان کی تصدیق کیلیے قرآن وسنت کی کوئی نص موجود نہیں۔ اور نص کے بغیر کسی چیز کو قطعی نہیں مانا جاسکتا کہ یقین کا ذریعہ بہرحال نص ہی ہوسکتی ہے۔
Top