بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Baseerat-e-Quran - Al-Baqara : 1
الٓمّٓۚ
الم : الف لام میم
الف ، لام، میم
سورة البقرۃ لغات القرآن آیت نمبر 1 تا 5 (لا ریب): شک نہیں ہے۔ یعنی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ (ھدی): ہدایت ہے۔ راستہ دکھانے اور منزل تک پہنچانے کو بھی ہدایت کہتے ہیں۔ (تقویٰ ): بچنا، ڈرنا، خوف۔ (اللہ سے اس طرح ڈرنا کہ اس میں اس کی رحمت پر بھی یقین ہو) ۔ (ایمان): زبان سے اقرار اور دل سے یقین کرنا۔ (غیب): انسان کے پانچوں حواس سے باہر جس کو صرف اللہ کے نبی ﷺ ہی اس کی مرضی سے بتا سکتے ہیں۔ (صلوٰۃ): اللہ کی عبادت کرنے کا وہ مخصوص طریقہ جس کو جیسے رسول مکرم ﷺ نے بتایا اس کو اسی طرح ادا کرنا۔ اسی کو عرف عام میں “ نماز ” کہتے ہیں۔ (انفاق): خرچ کرنا اپنے مال اور صلاحیتوں کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات کے مطابق خرچ کرنا اور اس میں کنجوسی سے کام نہ لینا۔ (اخرۃ): اس دنیا کی عارضی زندگی کے بعد ہمیشہ رہنے والی زندگی کو آخرت کہا جاتا ہے۔ (فلاح): کامیاب، کامیابی، اہل ایمان کی خصوصیت۔ تشریح : آیت نمبر 1 تا 5 الف، لام، میم ۔ ۔۔ ۔ ان کو اور ان جیسے حروف کو “ حروف مقطعات ” کہتے ہیں یعنی الگ الگ کر کے پڑھے جانے والے۔ معنی سے کٹے ہوئے۔ ایسے حروف جن کے معنی کے متعلق اتنا کہہ دینا کافی ہے “ کہ اللہ ہی جانتا ہے کہ ان کے کیا معنی ہیں ” اگر ان کے معنی جاننا ضروری ہوتا تو صحابہ کرام نبی مکرم ﷺ سے ضرور پوچھتے کہ ان کے معنی کیا ہیں۔ اس کی دو وجہ ہو سکتی ہیں (1) صحابہ کرام کے لئے یہ کوئی ایسی انوکھی اور نئی بات نہ تھی، جس کو پوچھنا ضروری ہوتا (2) دوسرے یہ کہ وہ جانتے تھے کہ یہ ان آیات میں سے ہیں جن کو قرآن حکیم نے “ متشابہات ” فرمایا ہے جن کے معنی کا علم اللہ کو ہے۔ اور ہو سکتا ہے رسول کریم ﷺ کو بطور ایک راز کے دیا گیا ہو، جس کی تبلیغ امت کے لئے روک دی گئی ہو اسی لئے آنحضرت ﷺ سے ان حروف کی تفسیر و تشریح میں کچھ منقول نہیں۔ عام طور پر مفسرین بھی ان ہی دو باتوں کی طرف گئے ہیں۔ کسی نے یہ کہا ہے کہ عرب کے شاعروں اور ادبی حلقوں میں اس طرح کے الفاظ کا استعمال عام سی بات تھی اور اس کے لئے وہ ان شاعروں کے کلام اور اشعار کو پیش کرتے ہیں۔ ۔۔ ۔ اور یہ کہتے ہیں کہ جن لوگوں کی نظر عربوں کی روایات اور لٹریچر پر ہے وہ جانتے ہیں کہ عرب والے نہ صرف اس طرح کے ناموں سے اچھی طرح واقف تھے بلکہ وہ خود بھی اپنی بہت سی پسندیدہ چیزوں جیسے گھوڑے، جھنڈے، تلواریں، قصیدے اور خطبات کے نام ان ہی سے ملتے جلتے ناموں پر رکھتے تھے۔ قدیم زمانہ کے شاعروں کے کلام میں اس طرح کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عربوں کے لئے حروف مقطعات کا استعمال کوئی نئی اور انوکھی بات نہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس بات کو نہ صحابہ کرام ؓ نے دریافت کیا اور نہ ان اسلام کے دشمنوں نے پوچھا جن کا کام ہی اسلام کی ہر بات کا مذاق اڑانا اور قرآن سے دشمنی کرنا تھا۔ بعض علماء نے یہ فرمایا ہے کہ یہ حروف “ آیات متشابہات ” میں سے ہیں جن کے معنی اللہ ہی جانتا ہے ہم اس پر ایمان لاتے ہیں۔ بعض علماء نے فرمایا ہے کہ ہر کتاب کی ایک خصوصیت ہوتی ہے اور حروف مقطعات قرآن مجید کی ایک بہت بڑی خصوصیت ہے۔ بعض علما نے فرمایا کہ یہ ان سورتوں کے نام ہیں جن کی ابتداء میں یہ حروف آئے ہیں۔ تمام مفسرین نے اپنے اپنے علم و فضل کے مطابق ان حروف کی وضاحت فرمائی ہے لیکن ایک بات پر سب متفق ہیں کہ “ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ ان حروف سے کیا مراد ہے ؟”
Top