بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 1
الٓمّٓۚ
الم : الف لام میم
(الٓمّٓ
الٓـمّٓ حروفِ مقطعات کا تعارف الٓـمّٓ بہت ساری سورتوں کے شروع میں چند حرفوں سے مرکب کچھ کلمات لائے گئے ہیں۔ جیسے الم، حم، طسم وغیرہ۔ انھیں حروف مقطعات کہا جاتا ہے۔ اگر یہ حروف، حروف تہجی کے طور پر استعمال ہوں تو یہ معرب ہوتے ہیں۔ یعنی ان کے آخر میں اعراب ہوتا ہے۔ لیکن جب یہ سورتوں کے شروع میں حروف مقطعات کے طور پر آتے ہیں، تو ان کا ہر حرف آخر میں ساکن ہوتا ہے۔ مثلاً الم کو الفٌ، لامٌ اور میمٌ نہیں پڑھیں گے بلکہ الف، لام اور میم پڑھیں گے۔ اہل علم کی ان کے بارے میں مختلف آراء اور مختلف اقوال ہیں۔ ہم سب سے پہلے چند اقوال کا ذکر کرتے ہیں۔ 1 ایک قول یہ ہے کہ عربی زبان کے اٹھائیس حروف تہجی ہیں۔ جن میں سے تقریبا چودہ حروف، حروف مقطعات کی شکل میں 29 سورتوں کے آغاز میں آئے ہیں۔ ان میں اشارہ اس بات کی جانب ہے کہ دیکھو انھیں حروف تہجی سے ہم نے قرآن پاک کے الفاظ کی چمن آرائی کی ہے اور ایک ایسی کتاب نازل کی ہے، جس کا ایک ایک لفظ، الفاظ کا دروبست، الفاظ کی ترکیب اور جملوں کی ساخت ایسا معجزہ ہے، جس کی مثال لانے سے جن وانس عاجز ہیں حالانکہ یہ سب کچھ انھیں حروف تہجی ہی سے آراستہ کیا گیا ہے۔ تم اگر اسے اللہ کی کتاب نہیں مانتے ہو تو یہی حروف تہجی تمہارے پاس بھی ہیں، تم انھیں سے قرآن جیسی، ایک سورة ہی ترتیب دے کر دکھائو۔ 2 حضرت عبداللہ ابن عباس ( رض) فرماتے ہیں کہ یہ حروف مقطعات اشارات ہیں۔ مثلاً الم میں الف سے مراد ” آلاء اللہ “ ہیں۔ لام سے مراد ” لطف “ اور میم سے مراد ” ملک “ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے ملک کی تمام نعمتیں اسی کے لطف و کرم کا صدقہ ہیں۔ 3 بعض اہل علم کا خیال ہے کہ جیسے اب ہمارے یہاں اختصار نویسی یعنی شارٹ ہینڈ ایک فن بن گیا ہے۔ نزول قرآن کے وقت بھی اختصار نویسی ایک فن کے طور پر تو نہیں، ایک ضرورت کے تحت مروج تھی۔ بولنے والے حسب ضرورت بجائے فقروں کے لفظوں کی صورت میں اپنا مفہوم ادا کردیتے تھے اور سننے والے چونکہ اس کے عادی تھے، وہ بھی اسے سمجھ لیتے تھے۔ آپ اسے اس دور کے code words کہہ لیجئے۔ مثلاً عربی میں ایک تلمیح مشہور ہے۔ قلتُ لہا قفی فقالت لی قاف کہ میں نے اس خاتون سے کہا ٹھہر جاؤ، اس نے کہا میں ٹھہر گئی۔ جملے کے آخر میں جو قاف ہے یہ اصل میں قِفْتُ کی طرف اشارہ کررہا ہے۔ گویا یہ قاف، قِفْتُ کا مخفف ہے۔ یہی طریقہ حروف مقطعات کی صورت میں قرآن کریم میں بھی اختیار کیا گیا ہے۔ 4 بعض لوگوں کا گمان یہ ہے کہ یہ حروف مقطعات اصل میں حروف ابجد ہیں اور ابجد کے حساب سے اقوام وملل کی تاریخ اور ان کے عروج وزوال کی طرف اشارات کیے گئے ہیں۔ یہود کا یہی خیال تھا۔ احادیث میں یہود کے ایک وفد کا حضور ﷺ کی خدمت میں آکر اسی طرح کی گفتگو کرنے کا ذکر کیا گیا ہے۔ لیکن حضور ﷺ نے تبسّم کے سوا ان کی باتوں کا جواب دینا پسند نہیں فرمایا۔ اس طرح کے متعدد اقوال ہیں، جس کا بعض اہل علم کی طرف انتساب کیا گیا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسے اقوال کی کوئی علمی بنیاد نہیں۔ البتہ بعض آراء ایسی ہیں جنھیں قابل لحاظ کہا جاسکتا ہے۔ ہم ان میں سے تین آراء کا ذکر کرتے ہیں۔ 1 سب سے پہلی رائے جسے جمہور کی رائے کہنا چاہیے اور صحابہ کی تائید بھی اسے حاصل ہے۔ اس رائے کا خلاصہ یہ ہے، جسے امام قرطبی نے اپنی تفسیر میں بیان کیا ہے کہ ہر آسمانی کتاب میں اللہ تعالیٰ کے کچھ خاص رموز و اسرار ہوتے ہیں۔ اسی طرح یہ حروف مقطعات، قرآن میں حق تعالیٰ کا راز ہیں۔ ہمارے لیے ان میں بحث و گفتگو بھی جائز نہیں ہے۔ مگر اس کے باوجود وہ ہمارے فائدے سے خالی نہیں۔ اوّل تو ان پر ایمان لانا، پھر ان کا پڑھنا، ہمارے لیے ثواب عظیم ہے۔ دوسرے ان کے پڑھنے کے معنوی فوائد و برکات ہیں، جو اگرچہ ہمیں معلوم نہ ہوں، مگر غیب سے ہمیں پہنچتے ہیں۔ آگے چل کر وہ لکھتے ہیں کہ خلفائے راشدین اور جمہور صحابہ کا ان حروف کے بارے میں یہی عقیدہ تھا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے اسرار ہیں (ہمیں ان پر ایمان لانا چاہیے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے ہیں اور جس طرح سے آئے ہیں ان کی تلاوت کرنا چاہیے۔ مگر معنی معلوم کرنے کی فکر میں پڑنا درست نہیں۔ ) اسی لیے اکثر تراجم ِ قرآن میں ان حروف کے نیچے یہی حروف لکھ دئیے جاتے ہیں اور یا تفاسیر میں ان کے نیچے لکھ دیا جاتا ہے، اللہ اعلم بمرادہ (اللہ اپنی مراد کو بہتر جانتے ہیں) اس رائے پر بہت سے لوگ سوال کرتے ہیں کہ قرآن کریم کے بارے میں خود قرآن کا دعویٰ ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ نے عربی مبین میں نازل کیا ہے۔ یعنی ایک ایسی عربی زبان میں جس کا معنی اور مفہوم بالکل واضح ہے۔ تو جس کتاب کا ایک ایک لفظ معنی اور مطلب کے اعتبار سے واضح ہو، اس میں سورتوں کے شروع میں ایسے مرکب حروف کا آنا، جس کی مراد کوئی نہ جانتاہو، یہ تو قرآن کریم کے اپنے دعویٰ کی نفی ہے۔ مزید یہ بات بھی کہ یہ قرآن تو سرتاپا ہدایت ہے۔ اس کا ایک ایک لفظ ہدایت بن کر نازل ہوا، تو کوئی لفظ جس کی مراد واضح نہ ہو، کس طرح ہدایت کا سامان بن سکتا ہے ؟ بات یہ ہے کہ اس قسم کے اعتراضات، حقیقت میں قلت تدبر کا نتیجہ ہیں۔ قرآن کریم یقینا ہدایت کی کتاب ہے اور اس کے نزول کا یہی مقصد ہے۔ لیکن اس سے یہ استدالال کرنا کہ ہدایت اسی لفظ سے ممکن ہے، جس کا معنی اور مراد واضح ہو۔ یہ کسی طرح بھی صحیح نہیں۔ اہل علم اس بات کو سمجھتے ہیں کہ ہدایت جس طرح الفاظ کی مدد سے کی جاتی ہے، اسی طرح بعض دفعہ خاموشی الفاظ سے بڑھ کر ہدایت کا سامان بنتی ہے کہ مربی اور ہادی کے اشارات چہرے کے تأثرات اور نگاہوں کے تیور وہ کچھ سمجھادیتے ہیں، جہاں تک الفاظ کی رسائی نہیں ہوتی۔ اس لیے الفاظ کو معنی اور مفہوم پر منحصر کرنا صحیح نہیں۔ مثال کے طور پر ان الفاظ کا ایک اور محمل بھی ہے، اس پر بھی غور کرلینا چاہیے۔ وہ یہ ہے کہ قرآن اللہ کا کلام ہے اور اللہ کی ذات کے بارے میں ہم صرف اپنے عقیدے سے نہیں بلکہ فہم و فراست سے اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اللہ کی ذات تو خالق کل اور منتہائے علم کمال ہے۔ اس کی صفات میں سے ایک ایک صفت کی مراد کو پالینا اور اس کے مفہوم کی تہہ تک اترجانا، یہ بھی انسان کی بساط سے باہر ہے۔ وہ قادر مطلق ہے۔ لیکن اس کی قدرت کی انتہا کو کوئی نہیں جانتا۔ وہ سرتاپا جمال ہے، اس کا جمال ظاہری ہی ہمارے مشاہدے کی قوت سے ماورا نہیں بلکہ ہم تو اس کے جمال معنوی کو بھی پوری طرح سمجھنے پر قادر نہیں۔ اسی طرح کلام بھی اس کی صفت ہے۔ اس کے ہر کلام کو اور کلام کے ایک ایک لفظ کو احاطہء ادراک میں لے آنا انسانی طاقت سے بعید ہے۔ گر اس کا ایک ایک لفظ ہماری گرفت میں اس طرح آجائے، جس طرح انسانی الفاظ آجاتے ہیں، تو پھر اسے کلام خداوندی کہنا بہت مشکل ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ قرآن کریم کی آیات کی ایک قسم متشابہات بھی ہے اور قرآن کریم میں اس کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ ان متشابہات کا مفہوم اور مراد اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ یہ حروف مقطعات متشابہات میں شامل ہیں۔ تو ان کی مراد کو جاننا انسان کے لیے کس طرح ممکن ہے۔ البتہ اس طرح کی آیات یا اس طرح کے حروف مقطعات سمجھ نہ آنے کے باوجود بھی ہمارے لیے ہدایت کا سامان ہیں۔ وہ اس طرح کہ جس طرح ہم اپنے خالق ومالک کے بارے میں یہ جانتے ہیں کہ ہم اس کو کماحقہ نہیں جان سکتے اور ہمیں اس کے سامنے اپنے عجز کا اعتراف ہے اور یہ اعتراف ہماری بندگی اور عبدیت کا ایک ایسا جوہر اور ایک ایسی متاع بےبہا ہے کہ جس پر جتنا بھی فخر کیا جائے کم ہے۔ اس متاع بےبہا میں اضافہ صرف اسی بات سے ہوتا ہے کہ آدمی کے دل و دماغ میں اللہ کی کبریائی اترتی چلی جائے اور اسے اپنے عجز کا اعتراف روزبروز بڑھتا چلاجائے۔ وہ جیسے جیسے بندگی میں راسخ ہوتاچلا جاتا ہے اور اس پر اپنی حقیقت روشن ہوتی چلی جاتی ہے ویسے ویسے اللہ کی کبریائی اور اس کی عظمت اس کے نہاں خانہء دل کو نہ صرف روشنی دیتی ہے۔ بلکہ ایسی قوت بھی عطا کرتی ہے کہ یہ نہایت عاجز بندہ اس قدر مضبوط اور توانا ہوجاتا ہے کہ دنیا کی بڑی سے بڑی قوت اسے اپنے سامنے جھکنے پر مجبور نہیں کرسکتی۔ اقبال نے شاید اسی پر فخر کرتے ہوئے کہا تھا ؎ متاعِ بےبہا ہے درد و سوز آرزو مندی متاعِ بندگی دے کر نہ لوں شان خداوندی قرآن کریم کا پہلا ہی حرف اگر اتنی بڑی دولت کے حصول کے لیے کلید بن جاتا ہے۔ تو یہ بھی قرآن کریم کے معجزوں میں سے ایک معجزہ ہوگا کہ اس کے جس حرف کا راز کسی پر نہ کھل سکا اور اس کی پیدا کردہ کاوش ہزاروں سر بستہ رازوں سے پردہ اٹھانے کے لیے دلیل راہ بنی۔ حضرت علی کرم اللہ وجہ نے اسی حقیقت کی طرف توجہ دلائی۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ، جو اس کی شخصیت بننے میں مانع ہوتی ہے، وہ اس کا اپنی حقیقت سے بےبہرہ ہونا ہے۔ وہ حقیقت کے اعتبار سے بندہ ہے، لیکن اس کی ساری زندگی بندگی کی بجائے آقائی کالبادہ اوڑھنے میں گزر جاتی ہے اور وہ اس وقت تک اپنے آپ سے محروم رہتا ہے، جب تک اسی طرح اس کے اندر اعتراف کی شمع روشن نہیں ہوتی۔ اگر قرآن کریم کے پہلے لفظ سے یہ شمع جل اٹھے اور آدمی اعتراف کی منزلیں طے کرتا ہوا اپنے اندر بندگی کے خلاف بننے والے ہر طلسم کو توڑ ڈالے، تو ایک وقت ضرور آتا ہے جب وہ یہ کہہ سکے : ہر تمنا دل سے رخصت ہوگئی اب تو آجا اب تو خلوت ہوگئی اور یہی وقت اس کی زندگی اور اس کی انسانیت کی معراج کا ہے۔ 2 بعض اہل علم کی رائے یہ ہے کہ نزول قرآن کے وقت، عربوں میں جو اسالیبِ بیان مروج تھے۔ ان میں اس طرح حروف مقطعات کا استعمال عام طور پر معروف تھا۔ خطیب اپنے خطبوں میں اور شعراء اپنے اشعار میں انھیں استعمال کرتے تھے اور چونکہ یہ اسلوب بالعموم پہچانا جاتا تھا تو سننے والے کبھی اس میں اجنبیت محسوس نہیں کرتے تھے۔ چناچہ اب بھی دور جاہلیت کے جو ادبی نمونے محفوظ ہیں، ان میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔ اس استعمال عام کی وجہ سے یہ مقطعات کوئی چیستان نہ تھے، جن کو بولنے والے کے سوا کوئی نہ سمجھتاہو بلکہ سامعین خوب جانتے تھے کہ ان کی مراد کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن اور نبی کریم ﷺ کے خلاف مخالفین نے ہر طرح کی باتیں کہیں، لیکن یہ اعتراض کبھی نہیں کیا کہ سورتوں کے شروع میں یہ بےمعنی حروف کیسے ہیں ؟ اور صحابہ بھی چونکہ انھیں سمجھتے تھے، اس لیے انھوں نے بھی آنحضرت ﷺ سے ان کے بارے میں کبھی نہ پوچھا۔ بعد میں یہ اسلوب عربی زبان میں متروک ہوتا چلا گیا، تو بعد کے آنے والے اہل علم کو اس کے معنی متعین کرنے میں مشکل پیش آگئی۔ لیکن اس سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ ان حروف کا استعمال تو عربوں میں ضرور مروج تھا۔ لیکن ان کی حیثیت ایسے حروف کی تھی، جو محض تحسین کلام کے لیے استعمال ہوتے ہیں اور یا محض خطابیات کا حصہ ہوتے ہیں۔ کلام کے مفہوم میں انھیں کوئی دخل نہیں ہوتا۔ 3 بعض اہل علم کا خیال یہ ہے کہ یہ حروف مقطعات جو سورتوں کے شروع میں آئے ہیں، یہ درحقیقت سورتوں کے نام ہیں اور بعض سورتوں میں قرآن کریم نے ذٰلِکَ اور تِلْکَ کے ذریعے ان کے نام ہونے کی طرف اشارہ بھی کیا ہے۔ اگرچہ تمام سورتیں جن کے آغاز میں یہ حروف آئے ہیں، ان ناموں سے مشہور تو نہیں ہوئیں، لیکن بعض سورتیں انھیں ناموں سے معروف بھی ہیں۔ مثلاً طٰہٰ ، یٰس، ق، اور ن وغیرہ۔ اس رائے میں اس لحاظ سے تو ایک وزن معلوم ہوتا ہے کہ آج بھی جب اہل عرب کا لٹریچر پڑھا جاتا ہے، تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عرب اس طرح کے حروف سے اشیا کے نام رکھنے کے عادی تھے۔ وہ اپنی مختلف اشیا، اشخاص، گھوڑوں، جھنڈوں، تلواروں حتی کہ قصائد اور خطبات تک کے نام اسی سے ملتے جلتے رکھتے تھے۔ نام چونکہ مسمّٰی کی شناخت کے لیے رکھا جاتا ہے، اس لیے ضروری نہیں ہے کہ اسم اور مسمی میں کوئی معنوی مناسبت بھی ہو۔ چناچہ جب یہ معلوم ہوجائے کہ یہ لفظ یاحرف فلاں چیز کا نام ہے، تو پھر یہ بحث نہیں کی جاتی کہ اس لفظ یا حرف کا معنی کیا ہے۔ حروف سے اشیا کا نام رکھنا، یہ ایک ایسی حقیقت ہے، جس کے اثرات آج بھی ہم عربی زبان اور دوسری زبانوں میں محسوس کرتے ہیں۔ مثلاً عین، آج بھی مختلف اشیا پر بولا جاتا ہے۔ نون، آج بھی مچھلی کو کہتے ہیں۔ ق، ایک پہاڑ کا نام ہے۔ ہمارے ہاں بھی کوہ قاف مشہور ہے۔ اس لحاظ سے تو قرآن کریم میں جہاں بھی حروف مقطعات آئے ہیں۔ انھیں اگر سورتوں کا نام سمجھ لیاجائے، تو معنی کی بحث ختم ہوجاتی ہے۔ لیکن جب یہ دیکھا جاتا ہے کہ چونکہ قرآن پاک میں پروردگار نے یہ نام رکھے ہیں۔ اس وجہ سے طبیعتوں میں یہ شوق پیدا ہونے لگتا ہے کہ ضرور یہ کسی نہ کسی مناسبت کی بناء پر رکھے گئے ہوں گے۔ چناچہ یہی شوق، شوق جستجو میں ڈھل جاتا ہے، تو اہل علم اس کے معنی کی تلاش میں لگ جاتے ہیں۔ جیسا کہ اس سے پہلے ذکر ہوچکا کہ ہر دور کے اصحاب علم نے اس جستجو میں کچھ نہ کچھ محنت کی۔ چناچہ اسی شوق ِجستجو کی ایک قابل قدر مثال ہمارے دور میں مولانا حمید الدین فراہی ( رح) کی بھی ہے جسے مولانا امین احسن اصلاحی نے تدبر قرآن میں ذکر کیا ہے۔ ہم وہیں سے اسے نقل کرتے ہیں۔ جو لوگ عربی رسم الخط کی تاریخ سے واقف ہیں، وہ جانتے ہیں کہ عربی زبان کے حروف عبرانی سے لیے گئے ہیں اور عبرانی کے یہ حروف ان حروف سے ماخوذ ہیں، جو عرب قدیم میں رائج تھے۔ عرب قدیم کے ان حروف کے متعلق استاذ امام کی تحقیق یہ ہے کہ انگریزی اور ہندی کے حروف کی طرح صرف آواز ہی نہیں بتاتے، بلکہ یہ چینی زبان کے حروف کی طرح معانی اور اشیا پر بھی دلیل ہوتے تھے۔ جن معانی یا اشیا پر وہ دلیل ہوتے تھے، عموماً انہی کی صورت وہیئت پر لکھے بھی جاتے تھے۔ مولانا ( رح) کی تحقیق یہ ہے کہ یہی حروف ہیں جو قدیم مصریوں نے اخذ کیے اور اپنے تصورات کے مطابق ان میں ترمیم واصلاح کرکے ان کو اس خط تمثالی کی شکل دی، جس کے آثاراہرام مصر کے کتبات میں موجود ہیں۔ ان حروف کے معانی کا علم اب اگرچہ مٹ چکا ہے تاہم بعض حروف کے معنی اب بھی معلوم ہیں اور ان کے لکھنے کے ڈھنگ میں بھی ان کی قدیم شکل کی کچھ نہ کچھ جھلک پائی جاتی ہے۔ مثلاً الف کے متعلق معلوم ہے کہ گائے کے معنی بتاتا تھا اور گائے کے سر کی صورت ہی پر لکھا جاتا تھا۔ ب کو عبرانی میں بیت کہتے ہیں اور اس کے معنی بھی بیت (گھر) کے ہیں۔ ج کا عبرانی تلفظ جیمل ہے۔ جس کے معنی جمل (اونٹ) کے ہیں۔ ط سانپ کے معنی میں آتا تھا اور لکھا بھی کچھ سانپ ہی شکل پر جاتا تھا۔ م پانی کی لہر پر دلیل ہوتا تھا اور اس کی شکل بھی لہر سے ملتی جلتی بنائی جاتی تھی۔ مولانا اپنے نظریہ کی تائید میں سورة ” ن “ کو پیش کرتے ہیں۔ حرف ” نون “ اب بھی اپنے قدیم معنی ہی میں بولا جاتا ہے۔ اس کے معنی مچھلی کے ہیں۔ اور جو سورة اس نام سے موسوم ہوئی ہے اس میں حضرت یونس (علیہ السلام) کا ذکر صاحب الحوت (مچھلی والے) کے نام سے آیا ہے۔ مولانا اس نام کو پیش کرکے فرماتے ہیں۔ کہ اس سے ذہن قدرتی طور پر اس طرف جاتا ہے کہ اس سورة کا نام ” ن “ اسی وجہ سے رکھا گیا ہے کہ اس میں صاحب الحوت ’ ’ یونس۔ “ کا واقعہ بیان ہوا ہے۔ جن کو مچھلی نے نگل لیا تھا۔ پھر کیا عجب ہے کہ بعض دوسری سورتوں کے شروع میں جو حرف آئے ہیں وہ بھی اپنے قدیم معانی اور سورتوں کے مضامین کے درمیان کسی مناسبت ہی کی بناء پر آئے ہوں۔ قرآن مجید کی بعض اور سورتوں کے ناموں سے بھی مولانا کے اس نظریہ کی تائید ہوتی ہے۔ مثلاً حرف ” ط “ کے معنی، جیسا کہ اوپر ذکر ہوچکا ہے، سانپ کے تھے اور اس کے لکھنے کی ہیئت بھی سانپ کی ہیئت سے ملتی جلتی ہوتی تھی۔ قرآن میں سورة طٰـہٰ کو دیکھئے جو ” ط “ سے شروع ہوتی ہے۔ اس میں ایک مختصر تمہید کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی لٹھیا کے سانپ بن جانے کا قصہ بیان ہوا ہے۔ اسی طرح طسم، طس، وغیرہ بھی ” ط “ سے شروع ہوتی ہیں اور ان میں بھی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی لٹھیا کے سانپ کی شکل اختیار کرلینے کا معجزہ مذکور ہے۔ ” الف “ کے متعلق ہم بیان کرچکے ہیں کہ یہ گائے کے سر کی ہیئت پر لکھا بھی جاتا تھا اور گائے کے معنی بتاتا بھی تھا۔ اس کے کے دوسرے معنی اللہ واحد کے ہوتے تھے۔ اب قرآن کریم میں دیکھیے تو معلوم ہوگا کہ سورة بقرۃ میں جس کا نام الف سے شروع ہوتا ہے، گائے کے ذبح کا قصہ بیان ہوا ہے۔ دوسری سورتیں جن کے نام الف سے شروع ہوئے ہیں۔ توحید کے مضمون میں مشترک نظر آتی ہیں۔ یہ مضمون ان میں خاص اہتمام کے ساتھ بیان ہوا ہے۔ ان ناموں کا یہ پہلو بھی خاص طور پر قابل لحاظ ہے کہ جن سورتوں کے نام ملتے جلتے ہیں ان کے مضامین بھی ملتے جلتے ہیں۔ بلکہ بعض سورتوں میں تو اسلوب بیان تک ملتا جلتا ہے۔ میں نے مولانا کا یہ نظریہ جیسا کہ عرض کرچکا ہوں، محض اس خیال سے پیش کیا ہے کہ اس سے حروف مقطعات پر غور کرنے کے لیے ایک علمی راہ کھلتی ہے۔ میرے نزدیک اس کی حیثیت ابھی تک ایک نظریہ سے زیادہ نہیں ہے۔ جب تک تمام حروف کے معنی کی تحقیق ہو کر ہر پہلو سے ان ناموں اور ان سے موسوم سورتوں کی مناسبت واضح نہ ہوجائے اس وقت تک اس پر ایک نظریہ سے زیادہ اعتماد کرلینا صحیح نہیں ہوگا۔ یہ محض علوم ِقرآن کے قدردانوں کے لیے ایک اشارہ ہے۔ جو لوگ مزید تحقیق و جستجو کی ہمت رکھتے ہیں وہ اس راہ میں قسمت آزمائی کریں۔ شائد اللہ تعالیٰ اس راہ سے یہ مشکل آسان کر دے۔
Top