بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Jalalain - Al-Baqara : 1
الٓمّٓۚ
الم : الف لام میم
الم
اَلمّ اللہ ہی اس سے اپنی مراد کو بہتر جانتا ہے، یہ کتاب ہے جس کو محمد ﷺ پڑھتے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ منجانب اللہ ہے اور جملہ (یعنی لَا رَیْبَ فِیْہِ ) خبر ہے جس کا مبتداء ذٰلِکَ ہے اور اسم بعید کا استعمال بیان تعظیم کے لئے ہے، ھُدًی خبر ثانی ہے اور معنی میں ھَادٍ کے ہے، متقیوں کے لئے رہنما ہے (یعنی) امتثال اوامر اور اجتناب نواہی کے ذریعہ تقویٰ کی رغبت رکھنے والے ہیں، (اس امتثال واجتناب) ہی کی بدولت نار جہنم سے بچنے کی وجہ سے ان کو متقی کہا گیا ہے، یہ وہ لوگ ہیں جو مغیبات پر ایمان رکھتے ہیں، یعنی ان چیزوں کی جو ان سے مخفی ہیں مثلاً بعث بعد الموت، جنت اور نار کی تصدیق کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں یعنی اس کے ارکان و شرائط کے ساتھ ادا کرتے ہیں اور ہم نے ان کو جو رزق دیا ہے، اس میں سے اللہ کی طاعت میں خرچ کرتے ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں، جو اس قرآن پر ایمان رکھتے ہیں، جو آپ پر نازل کیا گیا ہے اور اس پر بھی جو آپ سے پہلے نازل کیا گیا، یعنی تورات انجیل وغیرہ، اور وہ آخرت پر بھی یقین رکھتے ہیں، یعنی اس کا پختہ علم رکھتے ہیں، یہی لوگ جو مذکورہ صفات سے متصف ہیں، اپنے رب کی جانب سے ہدایت پر ہیں اور یہی ہیں جو پوری طرح کامیاب ہیں، (یعنی) جنت کے (حصول کے) ذریعہ کامیاب اور نار جہنم سے نجات پانے والے ہیں، بلاشبہ وہ لوگ جو منکر ہوئے جیسا کہ ابو جہل اور ابو لہب وغیرہ، آپ کا ان کو ڈرانا اور نہ ڈرانا برابر ہے، (ءَاَنْذَرْتَھُمْ ) میں دونوں ہمزوں کی تحقیق اور دوسرے کو الف سے تبدیل کرکے اور دوسرے میں ترک تسہیل کرکے اور مُسَہُّلَہ اور محققہ کے درمیان الف داخل کرکے (اور ثانی میں) ترک تسہیل کرکے وہ ایمان لانے والے نہیں ہیں، اس لئے کہ یہ بات ان کے بارے میں اللہ کے علم میں ہے، لہٰذا آپ ان کے ایمان کی امید نہ رکھیں اور انذار، خوف کے ساتھ ڈرانے کو کہتے ہیں، اللہ نے ان کے قلوب پر مہر لگا دی ہے اور ان کو سیل (Seel) کردیا ہے، لہٰذا اب ان میں خیر داخل نہیں ہوسکتی اور ان کی (قوت) سماعت یعنی کانوں پر (معنوی) مہر لگای گئی ہے، یہی وجہ ہے کہ حق بات سن کر مستفید نہیں ہوتے اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے، جس کی وجہ سے حق بات نہیں دیکھ سکتے اور ان کے لئے قوی اور دائمی عذاب ہے۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قرآنی سورتوں کا ” سورة “ نام رکھنے کی وجہ تسمیہ : سَوْرَۃُ البَقَرَۃِ : سورة ، لغت میں بلندی یا بلند منزل کو کہتے ہیں، (لسان، راغب) یعنی ہر سورت بلند مرتبہ ہے، سورت کے ایک معنی فصیل (شہر پناہ) کے بھی ہیں، شہر کے چاروں طرف کی دیوار کو سورت المدینہ کہتے ہیں قرآنی سورتوں کو سورت کہنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ اپنے مضامین کو اسی طرح احاطہ کئے رہتی ہے، جس طرح فصیل شہر کا احاطہ کئے رہتی ہے۔ ذَلِکَ : اسم اشارہ بعید کے لئے ہے، جس کا مشار الیہ محسوسات میں سے ہو، یعنی حواس خمسہ ظاہرہ سے جن کا ادراک کیا جاسکتا ہو، رَیْبَ شک و شبہ، ھو التردد بین المنقیضین لا ترجیح لاحدھما علی الآخر عند الشاک، ھُدًی، ہدایت سے ماخوذ ہے بمعنی رہنمائی غَیْبِ ہر وہ شئی جو انسان کے حواس خمسہ سے غائب ہو، یُقِیْمُوْنَ اقامت سے ماخوذ ہے، جس کے معنی سیدھا کرنے کے ہیں اور نماز کا سیدھا کرنا اس کو آداب و شرائط کی رعایت کرتے ہوئے خشوع خضوع کے ساتھ ادا کرنا ہے، رزق زندگی گزارنے کا سامان یُنْفِقُوْنَ یہ اتفاق سے ماخوذ ہے، بمعنی خرچ کرنا اٰخِرَۃِ مؤخر اور بعد میں آنے والی چیز، یہاں عالم دنیا کے مقابلہ میں عالم آخرت مراد ہے، یُوْقِنُوْنَ ، ایقان سے ماخوذ ہے، جمع مذکر غائب، مُفْلِحُوْنَ ، افلاح سے ماخوذ ہے، فلاح پوری کامیابی کو کہتے ہیں، سَوَآءٌ یہ اسم ہے قائم مقام مصدر کے یہی وجہ ہے کہ اس کا تثنیہ اور جمع نہیں آتا کہا جاتا ہے، ھما سوائ، ھم سَوَآءٌ اور جب اس کا تثنیہ لانا ہوتا ہے، تو کہا جاتا ہے، ھما سَیّانِ ، غِشَارَۃٌ، بروزن فِعالۃ یہ وزن کسی چیز پر مشتمل ہونے کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے : عِصابہ اور عِمَامہ، غشٰوۃ، کے غین پر تینوں حرکت درست ہیں، اس کے معنی سرپوش کے ہیں، یہ مصدر بھی ہے، مگر اس جگہ ڈھانکنے والی چیز مراد ہے۔ قولہ : ھذا۔ سوال : ذٰلِکَ کی تفسیر ھٰذا سے کیوں کی ؟ جواب : ذٰلِکَ ، بمعنی ھذا ہے، اس لئے کہ ذٰلِکَ کا مشار الیہ، الم، یا قرآن کریم ہے اور دونوں ہی نہایت قریب ہیں۔ سوال : تو پھر ذٰلِکَ کے بجائے، ھذا ہی کیوں استعمال نہیں کیا۔ جواب : بیان تعظیم کے لئے اسم اشارہ کا استعمال کیا۔ قولہ : اَلَّذِیْ یَقرؤہ محمد ﷺ اس سے دیگر کتب سماویہ سے احتراز ہوگیا۔ قولہ : اَنَّہٗ مِنْ عند اللہ کے اضافہ کا مقصد ایک اعتراض کا جواب ہے۔ اعتراض : (الکتاب) مفرد ہے، اور مفرد میں شک کا کوئی مطلب نہیں ہوتا اس لئے کہ شک اور ظن اور علم کا تعلق قضیہ سے ہوتا ہے۔ جواب : اَلکتاب مفرد نہیں ہے بلکہ قضیہ ہے، اسکی تقدیر عبارت یہ ہے ذالک الکتابُ أنَّہ مِن عند اللہ قولہ : اَلصائرنِ الی التقویٰ ۔ سوال : لِلْمُتَّقِیْنَ ، کی تفسیر اَلصَّائِرِیْنَ اِلَی التَّقْوٰی سے کرنے میں کیا نکتہ ہے ؟ جواب : اس تفسیر سے ایک سوال مقدر کا جواب مقصود ہے۔ سوال : سوال یہ ہے کہ ھُدًی لِلمتقین میں تحصیل حاصل ہے، یعنی یہ کتاب متقیوں کو ہدایت دینے والی ہے، متقیوں کو ہدایت دینے سے مراد ہے، جب کہ متقی تو خود ہی ہدایت یافتہ ہوتا ہے۔ جواب : جواب کا حاصل یہ ہے کہ متقین سے مراد اغبین الی التقویٰ ہے۔ قولہ : لِاتقائِھم بذلک النار کے اضافہ کا مقصد متقی کو متقی کہنے کی وجہ کو بیان کرنا ہے متقی کو اس کے اعمال صالحہ کے ذریعہ چونکہ جہنم سے بچایا جائے گا اس لئے اس کو متقی کہتے ہیں۔ قولہ : کا بی جھل وابی لھب وغیرھما، اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک سوال کا جواب ہے۔ سوال : اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا سَوَآءٌ عَلَیْھِمْ ءَانْذَرْتَھُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمْ لَایُؤْمِنُوْنَ ، اس آیت میں عموم کے ساتھ کہا گیا ہے کہ آپ کو ان کو ڈرانا اور نہ ڈرانا برابر ہے ان میں سے کوئی بھی ایمان لانے والا نہیں حالانکہ ان ہی حضرات میں سے بہت سے افراد مشرف باسلام ہوئے۔ جواب : مفسر علام نے اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا، کی تفسیر کابی جھلٍ وابی لھبٍ سے کرکے اشارہ کردیا کہ عموم سے بعض افراد مراد ہیں، جن کا ایمان نہ لانا اللہ کے علم میں متعین تھا جیسا کہ ابوجہل اور ابو لہب۔ قولہ : ئَاَنْذَرْتَھُمْ ، اس میں پانچ قراءتیں ہیں، دونوں ہمزوں کی تحقیق کی صورت میں دو قراءتیں ہیں، (1) دونوں ہمزوں کے درمیان الف داخل کرکے، (2) ترک ادخال کرکے، دوسرے ہمزہ کی تسہیل کی صورت میں بھی دو قراءتیں ہیں، (3) ادخال الف، (4) ترک ادخال الف اور (5) پانچویں قراءت دوسرے ہمزہ کو الف سے بدل کر، وادخال الف میں واؤ بمعنی مع ہے، ای مع ادخال الف، مذکورہ پانچوں قراءتیں صاحب جلالین نے مندرجہ ذیل ترتیب سے بیان کی ہیں : (1) تحقیق ہمزتین (یعنی تحقیق محض بلا ادخال) (2) ابدال ثانیہ بالالف مع المد (3) تسہیل محض (بلا ادخال الف) (4) تسہیل بلا ادخال (5) ادخال مع تحقیق ثانیہ۔ الم : مبتداء محذوف کی خبر ہونے کی وجہ سے محلاً مرفوع ہے، تقدیر عبارت یہ ہے، ھٰذا الم، ذٰلک، اسم اشارہ مبتداء اور نحلاً مرفوع الکتابُ ، ذلک مبتداء کی خبر اول، لارَیْبَ فِیِہِ ، خبرثانی، تقدیر عبات یہ ہے کہ لَارَیْبَ کائنٌ فیِہ، لا نفی جنس رَیْبَ اس کا اسم فیہ، کائن کے متعلق ہو کہ جملہ ہو کر ذلک کی خبر ثانی، ھدًی للمتقین خبر ثالث۔ قولہ : ءَاَنْذَرْتَھُمْ ، پہلا ہمزہ استفہامیہ تسویہ کے لئے ہے، ءَاَنْذَرْتَھُمْ ، تاویل مصدر ہو کر مبتداء ہے اور سواءٌ علیھم خبر مقدم ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سَوَاءٌ جاری مجریٰ مصدر اور ءَاَنْذَرْتَھُمْ کا فاعل جملہ ہو کر اِنَّ کی خبر۔ سوال : انذار اور اخبار بالعذاب میں کیا فرق ہے۔ جواب : انذار ایسے وقت میں ڈرانے کو کہتے ہیں کہ امر مخوف منہ سے احتراز ممکن ہو، ورنہ تو اخبار بالعذاب کہیں گے (ای فی وقت یَسَعُ التحرز من الامر المخوف واِلَّا فَیُسمّٰی اِخبار بالعذاب) ۔ خَتَمَ اللہ علی قلوبھِمْ : یہ اور اس کا مابعد ماقبل کی علت ہے یعنی یہ لوگ ایمان اس لئے نہیں لائیں گے کہ ان کے قلوب پر مہر لگا دی گئی ہے۔ سوال : مہر لگانے سے کیا مراد ہے ؟ حالانکہ یہ امر مشاہدہ ہے کہ آج تک کسی بھی کافر کے قلب پر مہر لگی ہوئی نظر نہیں آئی حالانکہ آپریشن کے ذریعہ بہت سے قلوب کا مشاہد کیا جاتا ہے۔ جواب : قلب سے مراد عقل ہے کو کہ ایک لطیفہ ربانیہ ہے، جو کہ قلب صنوبری کے ساتھ قائم ہوتا ہے جیسا کہ عرض کا قیام جوہر کے ساتھ اور حرارت کا قیام نار کے ساتھ ہوتا ہے اس اتصال کی کیفیت خدا کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ قولہ : ای مَوَاضِعَہٗ : ایک سوال کا جواب ہے۔ سوال : مضاف کسی فائدہ کے لئے محذوف مانا گیا ہے ؟ جواب : یہ ہے کہ سمع، ایک معنوی شئی ہے، اس کی جانب ختم کی نسبت درست نہیں ہے اس لئے مضاف محذوف مان لیا اور بتادیا کہ سمع سے مراد مواضع السمع ہیں، جن پر مہر لگ سکتی ہے۔ سوال : سمعٌ کو مفرد لانے میں کیا حکمت ہے، جب کہ قلوب اور ابصار کو جمع لایا گیا ہے۔ جواب : یا تو اس لئے کہ سمعٌ مصدر ہے اور مصدر کا تثنیہ و جمع نہیں لایا جاتا، یا اس لئے کہ مسموع واحد ہے، وَعَلٰی سَمْعِھِمْ میں وقف تام ہوگیا، عَلیٰ ابصارھم خبر مقدم ہے اور غشاوۃ مبتداء مؤخر اور جملہ مستانفہ ہے۔ قولہ : قویٌ دَائِمٌ: عَظِیْمٌ کی تفسیر قوی دائمٌ سے کرنے کا مقصد اس شبہ کا جواب دینا ہے کہ عظیمٌ اجسام کی صفت واقع ہوتی ہے جیسا کہ : ” لَھَا عرش عظیم “ اور عذاب از قبیل معنی ہے لہٰذا عظیمٌ، عذاب کی صفت لانا درست نہیں ہے، جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ عظیم، قوی دائمٌ کے معنی میں ہے جو کہ معنی کی صفت واقع ہوتا ہے۔ اللغۃ والبلاغۃ اَولٰئِکَ عَلیٰ ھُدًی مِّن رَّبِّھِمْ ۔ (1) وُضِعَ المصدر، ھدًی موضع الوصف المشتق الَّذِیْ ھو ھادٍ ، وذلِکَ اَوْغَلُ فی المبالغۃ فی التعبیر عن دَیْمُومَتِہٖ واستمرارہٖ کزید عدل۔ (2) فی قولہ تعالیٰ : عَلٰی ھُدًی، استعارۃ تصریحیۃ تبعیۃ تبعیۃ، تشبُّھا لحال المتقین بحال من اعتلیٰ صھوۃَ جوادہ، فحذِفَ المشبَّہ، واستعیرت کلمۃ عَلٰی الدالۃ علی الْاِسْتِعْلاء والتفوقِ عَلیٰ ما بعدھا حقیقۃ، نحو : زید علی السطح او حکمًا نحو علیہ دین “۔ خَتَمَ اللہُ عَلیٰ قُلُوْبِھِمْ (الآیۃ) فی اسناد الختم الی القلوب استعارۃً تمثیلیۃً ، فقد شُبِھَتْ قلوب الکفار فی نبوّھا عن الحق وعدم الاصغاء الیہ بحال قلوبٍ خَتَم اللہ عَلَیھَا، وھی قلوب البھائم وھو تشبیہ معقول بمحسوس۔ تفسیر و تشریح سورة بقرہ کے فضائل : حدیث شریف میں سورة بقرہ کی ایک خاص فضیلت یہ بیان کی گئی ہے کہ یہ سورت جس گھر میں پڑھی جائے اس گھر سے شیطان بھاگ جاتا ہے حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : ” لاتجعلوا بُیُوْتَکم قبورًا فَاِنَّ البَیْتَ الَّذِی تُقْرَأُ فیہ سُورَۃُ الْبَقَرَۃِ لَایَدْخُلُہُ الشَّیْطَانُ “ (مسلم، باب استحباب صلوٰۃ النافلۃِ فی بیتہٖ ) حضرت ابوہریرہ ؓ سے یہ بھی مروی ہے کہ : لکل شئ بمنام وسنام القرآن سورة البقرۃ، ہر چیز کا کوہان ہوتا ہے اور قرآن کا کوہان سورة بقرہ ہے، ایک روایت میں ہے کہ قرآنی آیتوں کی سردار آیت الکرسی ہے جو کہ سورة بقرہ میں ہے۔ زمانہ نزول : نزول کے اعتبار سے یہ مدنی دور کی ابتدائی سورتوں میں سے ہے، البتہ اس کی طرض آیتیں حجۃ الوداع کے موقع پر نام نازل ہوئیں، جو مضمون کی مناسبت سے اس کے آخر میں شامل کردی گئیں ہیں، سورتوں کے مکی یا مدنی ہونے کے بارے میں علماء کے متعدد اقوال ہیں، مگر راجح اور صحیح قول یہ ہے کہ ہجرت سے پہلے نازل ہونے والی تمام سورتیں مکی ہیں، خواہ وہ مکہ میں نازل ہوئی ہوں یا مکہ سے باہر اور ہجرت کے بعد نازل ہونے والی سورتیں مدنی ہیں، خواہ مکہ ہی میں کیوں نہ نازل ہوئی ہوں، 83 سورتیں مکہ میں نازل ہوئیں اور 31 سورتیں مدینہ میں یہ کل 114 سورتیں ہوئیں۔ ابن عربی (رح) تعالیٰ نے کہا کہ سورة بقرہ میں ایک ہزار اوامر اور ایک ہزار نواہی اور ایک ہزار اخبار ہیں، اور 1، 15 مثلہ ہیں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے اس سورت کو حاصل کرنے میں آٹھ سال لگائے۔ سورة بقرہ کی وجہ تسمیہ : اس سورة کا نام ” بقرہ “ اس لئے ہے کہ اس میں ایک جگہ بقرہ کا ذکر آیا ہے، یہ اسم الکل باسم الجز کے قبیل سے ہے، قرآن مجید کی ہر سورت میں اس قدر وسیع مضامین بیان ہوئے ہیں کہ ان کے لئے مضمون کے لحاظ سے جامع عنوانات تجویز نہیں کیے جاسکتے، عربی زبان اپنی لغت کے اعتبار سے اگرچہ نہایت مالدار ہے، مشہور ہے کہ اگر تین حرفوں کو جمع کردیا جائے، تو ضرور کوئی بامعنی لفظ بن جائے گا، اس کے باوجود بہرحال ہے تو انسانی زبان ہی انسان جو زبانیں بھی بولتا ہے، وہ اس قدر تنگ اور محدود ہیں کہ وہ ایسے الفاظ یا فقرے فراہم نہیں کرسکتیں کہ جو ان وسیع مضامین کے لئے جامع عنوان بن سکتے ہوں، اس لئے آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی رہنمائی سے قرآن کی بیشتر سورتوں کے لئے عنوانات کے بجائے نام تجویز فرمائے ہیں، جو محض علامت کا کام دیتے ہیں، اس سورة کو سورة بقرہ کہنے کا یہ مطلب نہیں کہ اس میں گائے کے مسئلہ سے بحث کی گئی ہے اور اس کی ماہیت اور خاصیت اور فوائد بیان کئے گئے ہیں، بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ وہ سورت جس میں گائے کا ذکر آیا ہے۔ حروف مقطعات کی بحث : الم، 29 سورتوں کے شروع میں 14 حروف مقطعات کا استعمال ہوا ہے جو کہ حروف ہجا کے نصف ہیں ان حروف کو مقطعات اس لئے کہا جاتا ہے کہ ان کو الگ الگ پڑھا جاتا ہے، اگرچہ یہ مرکب لکھے ہوئے ہیں، بعض سورتوں کے شروع میں صرف ایک حرف ہے جیسے، ق، اس کو احادی کہتے ہیں اور بعض کے شروع میں دو حروف ہیں جیسے : حم، اس کو ثنائی کہتے ہیں اور بعض کے شروع میں تین حروف ہیں جیسے : الم، اس کو ثلاثی کہتے ہیں، علی ھذا القیاس، رباعی اور خماسی اس سے زیادہ نہیں ہیں، اس لئے کہ کلام عرب میں پانچ حرفی سے زیادہ کوئی کلمہ نہیں ہے، حروف مقطعات کے بارے میں مختلف اقوال ہیں، ان میں احوط قبول یہ ہے کہ حروف مقطعات قرآن میں سِرٌّ من اسرار اللہ، یعنی حروف مقطعات قرآنی رازوں میں سے ایک راز ہے کما قال الشعبی و سفیان الثوری وجماعۃ من المحدثین، حروف مقطعات کا علم اللہ کے ساتھ خاص ہے، اور فرمایا لا نحبُّ ان نتکلم فیھا ولکن نؤمن بھا، یعنی ہم یہ پسند نہیں کرتے کہ ان میں بحث و گفتگو کریں اور یہ قول حضرت ابوبکر اور علی بن ابی طالب ؓ کا ہے بعض حضرات نے حروف مقطعات کے معانی بیان کرنے کی کوشش کی ہے حضرت ابن عباس اور حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ حروف مقطعات اسم اعظم ہیں، مگر ہم ان حروف سے تالیف کو نہیں جانتے قطرب اور فراء وغیرہ نے کہا کہ حروف مقطعات سے حروف ہجا کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جن کا مقصد یہ بتانا ہے کہ قرآن جو اپنا مثل لانے کے لئے تحدی اور چیلنچ کر رہا ہے یہ کوئی انوکھے حروف سے مرکب نہیں ہے بلکہ یہ ان ہی حروف و کلمات سے مرکب ہے جن کو تم رات دن بولتے ہو، پھر کیا وجہ ہے کہ کہ تم قرآن کی ایک چھوٹی سے چھوٹی سورت لانے سے بھی عاجز ہو، معلوم ہوا کہ یہ بشری کلام نہیں ہے۔ ابن کثیر (رح) تعالیٰ نے بھی قرطبی وغیرہ سے نقل کرکے شعبی و سفیان ثوری رحمہما اللہ تعالیٰ وغیرہ کے قول کو ترجیح دی ہے، جن بعض اکابر سے ان حروف کے معنی منقول ہیں اس سے صرف تمثیل و تنبیہ و تسہیل مقصود ہے، اللہ تعالیٰ کی مراد کی تعیین نہیں۔ بعض حضرات نے کہا ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جس دور میں قرآن کریم کا نزول ہوا اس دور کے اسالیب بیان میں اس طرح کے حروف مقطعات عام تھا، خطیب اور شعراء اس اسلوب سے کام لیتے تھے، چناچہ اب بھی کلام جاہلیت کے جو نمونے محفوظ ہیں، ان میں اس کی مثالیں ملتی ہیں، نیز مفرد حروف کا استعمال بھی کلام عرب میں موجود ہے۔ مثال کے طور پر۔ قال شاعر : قُلتُ لَھَا قفی فقالت ق، ای وقفت۔ اور حدیث شریف میں ہے مَنْ اَعَانَ علیٰ قتل مسلم بشطر کلمۃ، مثلاً کسی شخص نے کسی کے قتل کے بارے میں اقتل کہنے کے بجائے، اُق کہا یہ بھی قتل ہر معاونت ہے اس سے معلوم ہوا کہ حروف مقطعات کوئی پہیلی یا چیستاں نہیں کہ بولنے والے کے سوا کوئی نہ سمجھتا ہو، بلکہ سامعین بلعموم جانتے تھے کہ ان سے کیا مراد ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن کے خلاف نبی ﷺ کے ہم عصر مخالفین میں سے کسی نے بھی یہ اعتراض کبھی نہیں کیا کہ یہ بےمعنی حروف کیسے ہیں، جو تم بعض سورتوں کے شروع میں بولتے ہو اور یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام ؓ سے بھی کوئی روایت منقول نہیں کہ انہوں نے نبی ﷺ سے ان کے معانی پوچھے ہوں، اور نہ آپ ﷺ ہی سے ان کو کوئی تفسیر منقول ہے، بعد میں یہ اسلوب عربی زبان میں بھی متروک ہوتا چلا گیا، اس بناء پر مفسرین کے لئے ان کے معنی متعین کرنا مشکل ہوگیا، لیکن یہ بات ظاہر ہے کہ ان حروف کا مفہوم سمجھنے پر قرآن سے ہدایت حاصل کرنے کا انحصار نہیں ہے، لہٰذا ایک عام ناظر کے لئے یہ قطعاً ضروری نہیں کہ وہ ان کی تحقیق میں سرگرداں ہو۔ ذٰلِکَ الْکِتَابُ لَارَیْبَ فِیْہِ : یہ کتاب ایسی ہے کہ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں، یہ موقع بظاہر اشارہ بعید کا نہیں تھا اس لئے کہ اسی قرآن کی طرف اشارہ مقصود ہے جو لوگوں کے سامنے بلکہ دل میں موجود ہے، مگر بعید کا اشارہ لا کر قرآن کی عظمت شان کی طرف اشارہ کرنے کے ساتھ اس کی طرف بھی اشارہ مقصود ہے، کہ سورة فاتحہ میں جس صراط مستقیم کی درخواست کی گئی ہے یہ سارا قرآن اس درخواست اور دعاء کا جواب ہے اور صراط مستقیم کی تشریح اور تفصیل ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ ہم نے دعاء سن لی اور تمہاری رہنمائی کے لئے قرآن بھیج دیا جو آفتاب ہدایت ہے، جو شخص ہدایت چاہتا ہے وہ اس کو پڑھے اور سمجھے اور اس کے مقتضیٰ پر عمل کرے۔ (معارف القرآن) پھر قرآن کے متعلق ارشاد ہے کہ (لاریب فیہ) اس میں کوئی شک نہیں، سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کی حقانیت میں شک و شبہ کرنے والے تو ہزاروں لاکھوں موجود ہیں، پھر یہ کہنا کہ یہ قرآن شک و شبہ سے بالا تر ہے اس کا کیا مطلب ہے ؟ پہلا جواب : اس کا سیدھا سادا ایک جواب تو یہ ہے کہ دلائل وبراہین کی روشنی میں عقل سلیم کے لئے اس کے کتاب الہیٰ ہونے میں شک کی گنجائش نہیں اور نہ اس میں کوئی شک کی بات۔ دوسرا جواب : شک و شبہ کی دو صورتیں ہوتی ہیں ایک یہ کہ خود کلام میں غلطی ہو، تو وہ کلام محل شک و شبہ ہوجاتا ہے، اور اگر کسی کو کج فہمی یا کم فہمی کی وجہ سے کسی طرح کا شبہ ہوجائے جس کا ذکر خود قرآن کریم میں چند آیتوں کے بعد ” اِنْ کنتم فی رَیْبِ “ میں آرہا ہے، اس لئے ہزاروں کم فہم یا کج فہموں کے شبہات و اعتراضات کے باوجود یہ بات کہنی صحیح ہے کہ اس کتاب میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔ ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْن : یہ کتاب پرہیزگاروں کے لئے رہنما ہے، یہاں ھدًی بمعنی ھادٍ ہے، تاکہ مصدر کا حمل ذات پر ہونے کا اعتراض نہ ہو، اور یہ بھی درست ہے کہ ھُدًی مصدر کو مصدر ہی کے معنی میں رکھا جائے، اس صورت میں مبالغہ کے طور حمل درست ہوگا، اور یہ حمل، زیدٌ عَدْلٌ کے قبیل سے ہوگا مطلب یہ ہوگا کہ یہ کتاب ہے تو سراسر ہدایت و رہنمائی، اور تمام انسانوں بلکہ پوری کائنات کی ہدایت و رہنمائی کیلئے نازل ہوئی ہے لیکن اس چشمہ فیض سے سیراب صرف وہی لوگ ہوسکتے ہیں جو آب حیات کے متلاشی اور خوف الہیٰ سے سرشار ہوں گے اس چشمہ ہدایت سے فیضیاب ہونے کے لئے جن چھ صفات و شرائط کا پایا جانا ضروری ہے، ان کو ان دو آیتوں میں بیان کیا گیا ہے ان میں سے پہلی شرط یہ ہے کہ آدمی متقی و پرہیزگار ہو، بھلائی اور برائی میں تمیز کرتا ہو، برائی سے بچنا چاہتا ہو، بھلائی کا طالب ہو اور اس پر عمل کرنے کا خواہشمند ہو، رہے وہ لوگ جو دنیا میں جانوروں کی طرح جیتے ہیں جنہیں کبھی یہ فکر لاحق نہ کوئی کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں وہ صحیح بھی ہے یا نہیں، بس جدھر دنیا چل رہی ہو، یا جدھر خواہش نفس دھکیل دے اسی طرف چل پڑتے ہیں تو ایسے لوگوں کے لئے قرآن میں کوئی رہنمائی نہیں ہے۔
Top