Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Jalalain - Al-Baqara : 1
الٓمّٓۚ
الم
: الف لام میم
الم
اَلمّ اللہ ہی اس سے اپنی مراد کو بہتر جانتا ہے، یہ کتاب ہے جس کو محمد ﷺ پڑھتے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ منجانب اللہ ہے اور جملہ (یعنی لَا رَیْبَ فِیْہِ ) خبر ہے جس کا مبتداء ذٰلِکَ ہے اور اسم بعید کا استعمال بیان تعظیم کے لئے ہے، ھُدًی خبر ثانی ہے اور معنی میں ھَادٍ کے ہے، متقیوں کے لئے رہنما ہے (یعنی) امتثال اوامر اور اجتناب نواہی کے ذریعہ تقویٰ کی رغبت رکھنے والے ہیں، (اس امتثال واجتناب) ہی کی بدولت نار جہنم سے بچنے کی وجہ سے ان کو متقی کہا گیا ہے، یہ وہ لوگ ہیں جو مغیبات پر ایمان رکھتے ہیں، یعنی ان چیزوں کی جو ان سے مخفی ہیں مثلاً بعث بعد الموت، جنت اور نار کی تصدیق کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں یعنی اس کے ارکان و شرائط کے ساتھ ادا کرتے ہیں اور ہم نے ان کو جو رزق دیا ہے، اس میں سے اللہ کی طاعت میں خرچ کرتے ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں، جو اس قرآن پر ایمان رکھتے ہیں، جو آپ پر نازل کیا گیا ہے اور اس پر بھی جو آپ سے پہلے نازل کیا گیا، یعنی تورات انجیل وغیرہ، اور وہ آخرت پر بھی یقین رکھتے ہیں، یعنی اس کا پختہ علم رکھتے ہیں، یہی لوگ جو مذکورہ صفات سے متصف ہیں، اپنے رب کی جانب سے ہدایت پر ہیں اور یہی ہیں جو پوری طرح کامیاب ہیں، (یعنی) جنت کے (حصول کے) ذریعہ کامیاب اور نار جہنم سے نجات پانے والے ہیں، بلاشبہ وہ لوگ جو منکر ہوئے جیسا کہ ابو جہل اور ابو لہب وغیرہ، آپ کا ان کو ڈرانا اور نہ ڈرانا برابر ہے، (ءَاَنْذَرْتَھُمْ ) میں دونوں ہمزوں کی تحقیق اور دوسرے کو الف سے تبدیل کرکے اور دوسرے میں ترک تسہیل کرکے اور مُسَہُّلَہ اور محققہ کے درمیان الف داخل کرکے (اور ثانی میں) ترک تسہیل کرکے وہ ایمان لانے والے نہیں ہیں، اس لئے کہ یہ بات ان کے بارے میں اللہ کے علم میں ہے، لہٰذا آپ ان کے ایمان کی امید نہ رکھیں اور انذار، خوف کے ساتھ ڈرانے کو کہتے ہیں، اللہ نے ان کے قلوب پر مہر لگا دی ہے اور ان کو سیل (Seel) کردیا ہے، لہٰذا اب ان میں خیر داخل نہیں ہوسکتی اور ان کی (قوت) سماعت یعنی کانوں پر (معنوی) مہر لگای گئی ہے، یہی وجہ ہے کہ حق بات سن کر مستفید نہیں ہوتے اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے، جس کی وجہ سے حق بات نہیں دیکھ سکتے اور ان کے لئے قوی اور دائمی عذاب ہے۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قرآنی سورتوں کا ” سورة “ نام رکھنے کی وجہ تسمیہ : سَوْرَۃُ البَقَرَۃِ : سورة ، لغت میں بلندی یا بلند منزل کو کہتے ہیں، (لسان، راغب) یعنی ہر سورت بلند مرتبہ ہے، سورت کے ایک معنی فصیل (شہر پناہ) کے بھی ہیں، شہر کے چاروں طرف کی دیوار کو سورت المدینہ کہتے ہیں قرآنی سورتوں کو سورت کہنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ اپنے مضامین کو اسی طرح احاطہ کئے رہتی ہے، جس طرح فصیل شہر کا احاطہ کئے رہتی ہے۔ ذَلِکَ : اسم اشارہ بعید کے لئے ہے، جس کا مشار الیہ محسوسات میں سے ہو، یعنی حواس خمسہ ظاہرہ سے جن کا ادراک کیا جاسکتا ہو، رَیْبَ شک و شبہ، ھو التردد بین المنقیضین لا ترجیح لاحدھما علی الآخر عند الشاک، ھُدًی، ہدایت سے ماخوذ ہے بمعنی رہنمائی غَیْبِ ہر وہ شئی جو انسان کے حواس خمسہ سے غائب ہو، یُقِیْمُوْنَ اقامت سے ماخوذ ہے، جس کے معنی سیدھا کرنے کے ہیں اور نماز کا سیدھا کرنا اس کو آداب و شرائط کی رعایت کرتے ہوئے خشوع خضوع کے ساتھ ادا کرنا ہے، رزق زندگی گزارنے کا سامان یُنْفِقُوْنَ یہ اتفاق سے ماخوذ ہے، بمعنی خرچ کرنا اٰخِرَۃِ مؤخر اور بعد میں آنے والی چیز، یہاں عالم دنیا کے مقابلہ میں عالم آخرت مراد ہے، یُوْقِنُوْنَ ، ایقان سے ماخوذ ہے، جمع مذکر غائب، مُفْلِحُوْنَ ، افلاح سے ماخوذ ہے، فلاح پوری کامیابی کو کہتے ہیں، سَوَآءٌ یہ اسم ہے قائم مقام مصدر کے یہی وجہ ہے کہ اس کا تثنیہ اور جمع نہیں آتا کہا جاتا ہے، ھما سوائ، ھم سَوَآءٌ اور جب اس کا تثنیہ لانا ہوتا ہے، تو کہا جاتا ہے، ھما سَیّانِ ، غِشَارَۃٌ، بروزن فِعالۃ یہ وزن کسی چیز پر مشتمل ہونے کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے : عِصابہ اور عِمَامہ، غشٰوۃ، کے غین پر تینوں حرکت درست ہیں، اس کے معنی سرپوش کے ہیں، یہ مصدر بھی ہے، مگر اس جگہ ڈھانکنے والی چیز مراد ہے۔ قولہ : ھذا۔ سوال : ذٰلِکَ کی تفسیر ھٰذا سے کیوں کی ؟ جواب : ذٰلِکَ ، بمعنی ھذا ہے، اس لئے کہ ذٰلِکَ کا مشار الیہ، الم، یا قرآن کریم ہے اور دونوں ہی نہایت قریب ہیں۔ سوال : تو پھر ذٰلِکَ کے بجائے، ھذا ہی کیوں استعمال نہیں کیا۔ جواب : بیان تعظیم کے لئے اسم اشارہ کا استعمال کیا۔ قولہ : اَلَّذِیْ یَقرؤہ محمد ﷺ اس سے دیگر کتب سماویہ سے احتراز ہوگیا۔ قولہ : اَنَّہٗ مِنْ عند اللہ کے اضافہ کا مقصد ایک اعتراض کا جواب ہے۔ اعتراض : (الکتاب) مفرد ہے، اور مفرد میں شک کا کوئی مطلب نہیں ہوتا اس لئے کہ شک اور ظن اور علم کا تعلق قضیہ سے ہوتا ہے۔ جواب : اَلکتاب مفرد نہیں ہے بلکہ قضیہ ہے، اسکی تقدیر عبارت یہ ہے ذالک الکتابُ أنَّہ مِن عند اللہ قولہ : اَلصائرنِ الی التقویٰ ۔ سوال : لِلْمُتَّقِیْنَ ، کی تفسیر اَلصَّائِرِیْنَ اِلَی التَّقْوٰی سے کرنے میں کیا نکتہ ہے ؟ جواب : اس تفسیر سے ایک سوال مقدر کا جواب مقصود ہے۔ سوال : سوال یہ ہے کہ ھُدًی لِلمتقین میں تحصیل حاصل ہے، یعنی یہ کتاب متقیوں کو ہدایت دینے والی ہے، متقیوں کو ہدایت دینے سے مراد ہے، جب کہ متقی تو خود ہی ہدایت یافتہ ہوتا ہے۔ جواب : جواب کا حاصل یہ ہے کہ متقین سے مراد اغبین الی التقویٰ ہے۔ قولہ : لِاتقائِھم بذلک النار کے اضافہ کا مقصد متقی کو متقی کہنے کی وجہ کو بیان کرنا ہے متقی کو اس کے اعمال صالحہ کے ذریعہ چونکہ جہنم سے بچایا جائے گا اس لئے اس کو متقی کہتے ہیں۔ قولہ : کا بی جھل وابی لھب وغیرھما، اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک سوال کا جواب ہے۔ سوال : اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا سَوَآءٌ عَلَیْھِمْ ءَانْذَرْتَھُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمْ لَایُؤْمِنُوْنَ ، اس آیت میں عموم کے ساتھ کہا گیا ہے کہ آپ کو ان کو ڈرانا اور نہ ڈرانا برابر ہے ان میں سے کوئی بھی ایمان لانے والا نہیں حالانکہ ان ہی حضرات میں سے بہت سے افراد مشرف باسلام ہوئے۔ جواب : مفسر علام نے اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا، کی تفسیر کابی جھلٍ وابی لھبٍ سے کرکے اشارہ کردیا کہ عموم سے بعض افراد مراد ہیں، جن کا ایمان نہ لانا اللہ کے علم میں متعین تھا جیسا کہ ابوجہل اور ابو لہب۔ قولہ : ئَاَنْذَرْتَھُمْ ، اس میں پانچ قراءتیں ہیں، دونوں ہمزوں کی تحقیق کی صورت میں دو قراءتیں ہیں، (1) دونوں ہمزوں کے درمیان الف داخل کرکے، (2) ترک ادخال کرکے، دوسرے ہمزہ کی تسہیل کی صورت میں بھی دو قراءتیں ہیں، (3) ادخال الف، (4) ترک ادخال الف اور (5) پانچویں قراءت دوسرے ہمزہ کو الف سے بدل کر، وادخال الف میں واؤ بمعنی مع ہے، ای مع ادخال الف، مذکورہ پانچوں قراءتیں صاحب جلالین نے مندرجہ ذیل ترتیب سے بیان کی ہیں : (1) تحقیق ہمزتین (یعنی تحقیق محض بلا ادخال) (2) ابدال ثانیہ بالالف مع المد (3) تسہیل محض (بلا ادخال الف) (4) تسہیل بلا ادخال (5) ادخال مع تحقیق ثانیہ۔ الم : مبتداء محذوف کی خبر ہونے کی وجہ سے محلاً مرفوع ہے، تقدیر عبارت یہ ہے، ھٰذا الم، ذٰلک، اسم اشارہ مبتداء اور نحلاً مرفوع الکتابُ ، ذلک مبتداء کی خبر اول، لارَیْبَ فِیِہِ ، خبرثانی، تقدیر عبات یہ ہے کہ لَارَیْبَ کائنٌ فیِہ، لا نفی جنس رَیْبَ اس کا اسم فیہ، کائن کے متعلق ہو کہ جملہ ہو کر ذلک کی خبر ثانی، ھدًی للمتقین خبر ثالث۔ قولہ : ءَاَنْذَرْتَھُمْ ، پہلا ہمزہ استفہامیہ تسویہ کے لئے ہے، ءَاَنْذَرْتَھُمْ ، تاویل مصدر ہو کر مبتداء ہے اور سواءٌ علیھم خبر مقدم ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سَوَاءٌ جاری مجریٰ مصدر اور ءَاَنْذَرْتَھُمْ کا فاعل جملہ ہو کر اِنَّ کی خبر۔ سوال : انذار اور اخبار بالعذاب میں کیا فرق ہے۔ جواب : انذار ایسے وقت میں ڈرانے کو کہتے ہیں کہ امر مخوف منہ سے احتراز ممکن ہو، ورنہ تو اخبار بالعذاب کہیں گے (ای فی وقت یَسَعُ التحرز من الامر المخوف واِلَّا فَیُسمّٰی اِخبار بالعذاب) ۔ خَتَمَ اللہ علی قلوبھِمْ : یہ اور اس کا مابعد ماقبل کی علت ہے یعنی یہ لوگ ایمان اس لئے نہیں لائیں گے کہ ان کے قلوب پر مہر لگا دی گئی ہے۔ سوال : مہر لگانے سے کیا مراد ہے ؟ حالانکہ یہ امر مشاہدہ ہے کہ آج تک کسی بھی کافر کے قلب پر مہر لگی ہوئی نظر نہیں آئی حالانکہ آپریشن کے ذریعہ بہت سے قلوب کا مشاہد کیا جاتا ہے۔ جواب : قلب سے مراد عقل ہے کو کہ ایک لطیفہ ربانیہ ہے، جو کہ قلب صنوبری کے ساتھ قائم ہوتا ہے جیسا کہ عرض کا قیام جوہر کے ساتھ اور حرارت کا قیام نار کے ساتھ ہوتا ہے اس اتصال کی کیفیت خدا کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ قولہ : ای مَوَاضِعَہٗ : ایک سوال کا جواب ہے۔ سوال : مضاف کسی فائدہ کے لئے محذوف مانا گیا ہے ؟ جواب : یہ ہے کہ سمع، ایک معنوی شئی ہے، اس کی جانب ختم کی نسبت درست نہیں ہے اس لئے مضاف محذوف مان لیا اور بتادیا کہ سمع سے مراد مواضع السمع ہیں، جن پر مہر لگ سکتی ہے۔ سوال : سمعٌ کو مفرد لانے میں کیا حکمت ہے، جب کہ قلوب اور ابصار کو جمع لایا گیا ہے۔ جواب : یا تو اس لئے کہ سمعٌ مصدر ہے اور مصدر کا تثنیہ و جمع نہیں لایا جاتا، یا اس لئے کہ مسموع واحد ہے، وَعَلٰی سَمْعِھِمْ میں وقف تام ہوگیا، عَلیٰ ابصارھم خبر مقدم ہے اور غشاوۃ مبتداء مؤخر اور جملہ مستانفہ ہے۔ قولہ : قویٌ دَائِمٌ: عَظِیْمٌ کی تفسیر قوی دائمٌ سے کرنے کا مقصد اس شبہ کا جواب دینا ہے کہ عظیمٌ اجسام کی صفت واقع ہوتی ہے جیسا کہ : ” لَھَا عرش عظیم “ اور عذاب از قبیل معنی ہے لہٰذا عظیمٌ، عذاب کی صفت لانا درست نہیں ہے، جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ عظیم، قوی دائمٌ کے معنی میں ہے جو کہ معنی کی صفت واقع ہوتا ہے۔ اللغۃ والبلاغۃ اَولٰئِکَ عَلیٰ ھُدًی مِّن رَّبِّھِمْ ۔ (1) وُضِعَ المصدر، ھدًی موضع الوصف المشتق الَّذِیْ ھو ھادٍ ، وذلِکَ اَوْغَلُ فی المبالغۃ فی التعبیر عن دَیْمُومَتِہٖ واستمرارہٖ کزید عدل۔ (2) فی قولہ تعالیٰ : عَلٰی ھُدًی، استعارۃ تصریحیۃ تبعیۃ تبعیۃ، تشبُّھا لحال المتقین بحال من اعتلیٰ صھوۃَ جوادہ، فحذِفَ المشبَّہ، واستعیرت کلمۃ عَلٰی الدالۃ علی الْاِسْتِعْلاء والتفوقِ عَلیٰ ما بعدھا حقیقۃ، نحو : زید علی السطح او حکمًا نحو علیہ دین “۔ خَتَمَ اللہُ عَلیٰ قُلُوْبِھِمْ (الآیۃ) فی اسناد الختم الی القلوب استعارۃً تمثیلیۃً ، فقد شُبِھَتْ قلوب الکفار فی نبوّھا عن الحق وعدم الاصغاء الیہ بحال قلوبٍ خَتَم اللہ عَلَیھَا، وھی قلوب البھائم وھو تشبیہ معقول بمحسوس۔ تفسیر و تشریح سورة بقرہ کے فضائل : حدیث شریف میں سورة بقرہ کی ایک خاص فضیلت یہ بیان کی گئی ہے کہ یہ سورت جس گھر میں پڑھی جائے اس گھر سے شیطان بھاگ جاتا ہے حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : ” لاتجعلوا بُیُوْتَکم قبورًا فَاِنَّ البَیْتَ الَّذِی تُقْرَأُ فیہ سُورَۃُ الْبَقَرَۃِ لَایَدْخُلُہُ الشَّیْطَانُ “ (مسلم، باب استحباب صلوٰۃ النافلۃِ فی بیتہٖ ) حضرت ابوہریرہ ؓ سے یہ بھی مروی ہے کہ : لکل شئ بمنام وسنام القرآن سورة البقرۃ، ہر چیز کا کوہان ہوتا ہے اور قرآن کا کوہان سورة بقرہ ہے، ایک روایت میں ہے کہ قرآنی آیتوں کی سردار آیت الکرسی ہے جو کہ سورة بقرہ میں ہے۔ زمانہ نزول : نزول کے اعتبار سے یہ مدنی دور کی ابتدائی سورتوں میں سے ہے، البتہ اس کی طرض آیتیں حجۃ الوداع کے موقع پر نام نازل ہوئیں، جو مضمون کی مناسبت سے اس کے آخر میں شامل کردی گئیں ہیں، سورتوں کے مکی یا مدنی ہونے کے بارے میں علماء کے متعدد اقوال ہیں، مگر راجح اور صحیح قول یہ ہے کہ ہجرت سے پہلے نازل ہونے والی تمام سورتیں مکی ہیں، خواہ وہ مکہ میں نازل ہوئی ہوں یا مکہ سے باہر اور ہجرت کے بعد نازل ہونے والی سورتیں مدنی ہیں، خواہ مکہ ہی میں کیوں نہ نازل ہوئی ہوں، 83 سورتیں مکہ میں نازل ہوئیں اور 31 سورتیں مدینہ میں یہ کل 114 سورتیں ہوئیں۔ ابن عربی (رح) تعالیٰ نے کہا کہ سورة بقرہ میں ایک ہزار اوامر اور ایک ہزار نواہی اور ایک ہزار اخبار ہیں، اور 1، 15 مثلہ ہیں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے اس سورت کو حاصل کرنے میں آٹھ سال لگائے۔ سورة بقرہ کی وجہ تسمیہ : اس سورة کا نام ” بقرہ “ اس لئے ہے کہ اس میں ایک جگہ بقرہ کا ذکر آیا ہے، یہ اسم الکل باسم الجز کے قبیل سے ہے، قرآن مجید کی ہر سورت میں اس قدر وسیع مضامین بیان ہوئے ہیں کہ ان کے لئے مضمون کے لحاظ سے جامع عنوانات تجویز نہیں کیے جاسکتے، عربی زبان اپنی لغت کے اعتبار سے اگرچہ نہایت مالدار ہے، مشہور ہے کہ اگر تین حرفوں کو جمع کردیا جائے، تو ضرور کوئی بامعنی لفظ بن جائے گا، اس کے باوجود بہرحال ہے تو انسانی زبان ہی انسان جو زبانیں بھی بولتا ہے، وہ اس قدر تنگ اور محدود ہیں کہ وہ ایسے الفاظ یا فقرے فراہم نہیں کرسکتیں کہ جو ان وسیع مضامین کے لئے جامع عنوان بن سکتے ہوں، اس لئے آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی رہنمائی سے قرآن کی بیشتر سورتوں کے لئے عنوانات کے بجائے نام تجویز فرمائے ہیں، جو محض علامت کا کام دیتے ہیں، اس سورة کو سورة بقرہ کہنے کا یہ مطلب نہیں کہ اس میں گائے کے مسئلہ سے بحث کی گئی ہے اور اس کی ماہیت اور خاصیت اور فوائد بیان کئے گئے ہیں، بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ وہ سورت جس میں گائے کا ذکر آیا ہے۔ حروف مقطعات کی بحث : الم، 29 سورتوں کے شروع میں 14 حروف مقطعات کا استعمال ہوا ہے جو کہ حروف ہجا کے نصف ہیں ان حروف کو مقطعات اس لئے کہا جاتا ہے کہ ان کو الگ الگ پڑھا جاتا ہے، اگرچہ یہ مرکب لکھے ہوئے ہیں، بعض سورتوں کے شروع میں صرف ایک حرف ہے جیسے، ق، اس کو احادی کہتے ہیں اور بعض کے شروع میں دو حروف ہیں جیسے : حم، اس کو ثنائی کہتے ہیں اور بعض کے شروع میں تین حروف ہیں جیسے : الم، اس کو ثلاثی کہتے ہیں، علی ھذا القیاس، رباعی اور خماسی اس سے زیادہ نہیں ہیں، اس لئے کہ کلام عرب میں پانچ حرفی سے زیادہ کوئی کلمہ نہیں ہے، حروف مقطعات کے بارے میں مختلف اقوال ہیں، ان میں احوط قبول یہ ہے کہ حروف مقطعات قرآن میں سِرٌّ من اسرار اللہ، یعنی حروف مقطعات قرآنی رازوں میں سے ایک راز ہے کما قال الشعبی و سفیان الثوری وجماعۃ من المحدثین، حروف مقطعات کا علم اللہ کے ساتھ خاص ہے، اور فرمایا لا نحبُّ ان نتکلم فیھا ولکن نؤمن بھا، یعنی ہم یہ پسند نہیں کرتے کہ ان میں بحث و گفتگو کریں اور یہ قول حضرت ابوبکر اور علی بن ابی طالب ؓ کا ہے بعض حضرات نے حروف مقطعات کے معانی بیان کرنے کی کوشش کی ہے حضرت ابن عباس اور حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ حروف مقطعات اسم اعظم ہیں، مگر ہم ان حروف سے تالیف کو نہیں جانتے قطرب اور فراء وغیرہ نے کہا کہ حروف مقطعات سے حروف ہجا کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جن کا مقصد یہ بتانا ہے کہ قرآن جو اپنا مثل لانے کے لئے تحدی اور چیلنچ کر رہا ہے یہ کوئی انوکھے حروف سے مرکب نہیں ہے بلکہ یہ ان ہی حروف و کلمات سے مرکب ہے جن کو تم رات دن بولتے ہو، پھر کیا وجہ ہے کہ کہ تم قرآن کی ایک چھوٹی سے چھوٹی سورت لانے سے بھی عاجز ہو، معلوم ہوا کہ یہ بشری کلام نہیں ہے۔ ابن کثیر (رح) تعالیٰ نے بھی قرطبی وغیرہ سے نقل کرکے شعبی و سفیان ثوری رحمہما اللہ تعالیٰ وغیرہ کے قول کو ترجیح دی ہے، جن بعض اکابر سے ان حروف کے معنی منقول ہیں اس سے صرف تمثیل و تنبیہ و تسہیل مقصود ہے، اللہ تعالیٰ کی مراد کی تعیین نہیں۔ بعض حضرات نے کہا ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جس دور میں قرآن کریم کا نزول ہوا اس دور کے اسالیب بیان میں اس طرح کے حروف مقطعات عام تھا، خطیب اور شعراء اس اسلوب سے کام لیتے تھے، چناچہ اب بھی کلام جاہلیت کے جو نمونے محفوظ ہیں، ان میں اس کی مثالیں ملتی ہیں، نیز مفرد حروف کا استعمال بھی کلام عرب میں موجود ہے۔ مثال کے طور پر۔ قال شاعر : قُلتُ لَھَا قفی فقالت ق، ای وقفت۔ اور حدیث شریف میں ہے مَنْ اَعَانَ علیٰ قتل مسلم بشطر کلمۃ، مثلاً کسی شخص نے کسی کے قتل کے بارے میں اقتل کہنے کے بجائے، اُق کہا یہ بھی قتل ہر معاونت ہے اس سے معلوم ہوا کہ حروف مقطعات کوئی پہیلی یا چیستاں نہیں کہ بولنے والے کے سوا کوئی نہ سمجھتا ہو، بلکہ سامعین بلعموم جانتے تھے کہ ان سے کیا مراد ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن کے خلاف نبی ﷺ کے ہم عصر مخالفین میں سے کسی نے بھی یہ اعتراض کبھی نہیں کیا کہ یہ بےمعنی حروف کیسے ہیں، جو تم بعض سورتوں کے شروع میں بولتے ہو اور یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام ؓ سے بھی کوئی روایت منقول نہیں کہ انہوں نے نبی ﷺ سے ان کے معانی پوچھے ہوں، اور نہ آپ ﷺ ہی سے ان کو کوئی تفسیر منقول ہے، بعد میں یہ اسلوب عربی زبان میں بھی متروک ہوتا چلا گیا، اس بناء پر مفسرین کے لئے ان کے معنی متعین کرنا مشکل ہوگیا، لیکن یہ بات ظاہر ہے کہ ان حروف کا مفہوم سمجھنے پر قرآن سے ہدایت حاصل کرنے کا انحصار نہیں ہے، لہٰذا ایک عام ناظر کے لئے یہ قطعاً ضروری نہیں کہ وہ ان کی تحقیق میں سرگرداں ہو۔ ذٰلِکَ الْکِتَابُ لَارَیْبَ فِیْہِ : یہ کتاب ایسی ہے کہ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں، یہ موقع بظاہر اشارہ بعید کا نہیں تھا اس لئے کہ اسی قرآن کی طرف اشارہ مقصود ہے جو لوگوں کے سامنے بلکہ دل میں موجود ہے، مگر بعید کا اشارہ لا کر قرآن کی عظمت شان کی طرف اشارہ کرنے کے ساتھ اس کی طرف بھی اشارہ مقصود ہے، کہ سورة فاتحہ میں جس صراط مستقیم کی درخواست کی گئی ہے یہ سارا قرآن اس درخواست اور دعاء کا جواب ہے اور صراط مستقیم کی تشریح اور تفصیل ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ ہم نے دعاء سن لی اور تمہاری رہنمائی کے لئے قرآن بھیج دیا جو آفتاب ہدایت ہے، جو شخص ہدایت چاہتا ہے وہ اس کو پڑھے اور سمجھے اور اس کے مقتضیٰ پر عمل کرے۔ (معارف القرآن) پھر قرآن کے متعلق ارشاد ہے کہ (لاریب فیہ) اس میں کوئی شک نہیں، سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کی حقانیت میں شک و شبہ کرنے والے تو ہزاروں لاکھوں موجود ہیں، پھر یہ کہنا کہ یہ قرآن شک و شبہ سے بالا تر ہے اس کا کیا مطلب ہے ؟ پہلا جواب : اس کا سیدھا سادا ایک جواب تو یہ ہے کہ دلائل وبراہین کی روشنی میں عقل سلیم کے لئے اس کے کتاب الہیٰ ہونے میں شک کی گنجائش نہیں اور نہ اس میں کوئی شک کی بات۔ دوسرا جواب : شک و شبہ کی دو صورتیں ہوتی ہیں ایک یہ کہ خود کلام میں غلطی ہو، تو وہ کلام محل شک و شبہ ہوجاتا ہے، اور اگر کسی کو کج فہمی یا کم فہمی کی وجہ سے کسی طرح کا شبہ ہوجائے جس کا ذکر خود قرآن کریم میں چند آیتوں کے بعد ” اِنْ کنتم فی رَیْبِ “ میں آرہا ہے، اس لئے ہزاروں کم فہم یا کج فہموں کے شبہات و اعتراضات کے باوجود یہ بات کہنی صحیح ہے کہ اس کتاب میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔ ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْن : یہ کتاب پرہیزگاروں کے لئے رہنما ہے، یہاں ھدًی بمعنی ھادٍ ہے، تاکہ مصدر کا حمل ذات پر ہونے کا اعتراض نہ ہو، اور یہ بھی درست ہے کہ ھُدًی مصدر کو مصدر ہی کے معنی میں رکھا جائے، اس صورت میں مبالغہ کے طور حمل درست ہوگا، اور یہ حمل، زیدٌ عَدْلٌ کے قبیل سے ہوگا مطلب یہ ہوگا کہ یہ کتاب ہے تو سراسر ہدایت و رہنمائی، اور تمام انسانوں بلکہ پوری کائنات کی ہدایت و رہنمائی کیلئے نازل ہوئی ہے لیکن اس چشمہ فیض سے سیراب صرف وہی لوگ ہوسکتے ہیں جو آب حیات کے متلاشی اور خوف الہیٰ سے سرشار ہوں گے اس چشمہ ہدایت سے فیضیاب ہونے کے لئے جن چھ صفات و شرائط کا پایا جانا ضروری ہے، ان کو ان دو آیتوں میں بیان کیا گیا ہے ان میں سے پہلی شرط یہ ہے کہ آدمی متقی و پرہیزگار ہو، بھلائی اور برائی میں تمیز کرتا ہو، برائی سے بچنا چاہتا ہو، بھلائی کا طالب ہو اور اس پر عمل کرنے کا خواہشمند ہو، رہے وہ لوگ جو دنیا میں جانوروں کی طرح جیتے ہیں جنہیں کبھی یہ فکر لاحق نہ کوئی کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں وہ صحیح بھی ہے یا نہیں، بس جدھر دنیا چل رہی ہو، یا جدھر خواہش نفس دھکیل دے اسی طرف چل پڑتے ہیں تو ایسے لوگوں کے لئے قرآن میں کوئی رہنمائی نہیں ہے۔
Top