بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Al-Qurtubi - Al-Baqara : 1
الٓمّٓۚ
الم : الف لام میم
الم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم آیت نمبر 1 تا 2 علماء تاویل کا ان حروف کا مفہوم متعین کرنے میں اختلاف ہے جو سورتوں کی ابتدا میں ہیں۔ عامر شعبی، سفیان ثوری اور محدثین کی ایک جماعت نے کہا : یہ قرآن میں اللہ تعالیٰ کے راز ہیں (1) اور اللہ کی کتب میں سے ہر کتاب میں اس کے راز ہیں یہ ان متشابہات میں سے ہیں جن کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے اور ان کے متعلق گفتگو کرنا واجب نہیں لیکن ہم ان پر ایمان رکھتے ہیں اور اسی طرح پڑھتے ہیں جس طرح آئے ہیں۔ یہ قول حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے مروی ہے۔ ابو لیث سمر قندی نے حضرت عمر، حضرت عثمان اور ابن مسعود ؓ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا : حروف مقطعہ پوشیدہ حقیقت سے ہیں جن کی تفسیر نہیں کی جاسکتی۔ ابو حاتم نے کہا : ہم حروف مقطعہ صرف سورتوں کے آغاز میں پاتے ہیں اور ہم نہیں جانتے جو اللہ تعالیٰ نے ان سے مراد لیا ہے۔ میں کہتا ہوں : اسی مفہوم کو ابوبکر انباری نے ذکر کیا ہے۔ انہوں نے اپنی سند سے ربیع بن خثیم سے روایت کیا ہے، فرمایا : اللہ تعالیٰ نے یہ قرآن نازل کیا اور اس میں جتنا علم چاہا اپنے ساتھ خاص فرمایا اور جتنا چاہا اس پر تمہیں مطلع فرمایا اور جو اس نے اپنے ساتھ خاص فرمایا تم اس کو حاصل نہیں کرسکتے۔ پس تم اس کے متعلق مت پوچھو اور وہ علم جس پر اس نے تمہیں مطلع فرمایا وہ علم ہے جس کے متعلق تم پوچھتے ہو اور تجھے اس کے متعلق بتایا جاتا ہے۔ پورا قرآن تم نہیں جانتے اور وہ جو تم جانتے ہو اس پر عمل کرتے ہیں۔ حضرت ابوبکر نے کہا : یہ بات وضاحت کرتی ہے کہ قرآن کے کچھ حروف کے معانی عام عالم سے چھپائے گئے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ نے بطور آزمائش وامتحان کیا ہے۔ پس جو ان پر ایمان لایا اس نے اجر پایا اور سعادت مند ہوا اور جس نے انکار اور شک کیا وہ گنہگار ہوا اور حق سے دور ہوگیا۔ ہمیں ابو یوسف بن یعقوب القاضی نے بتایا۔ انہوں نے کہا : ہمیں محمد بن ابی بکر نے بتایا، انہوں نے کہا : ہمیں عبد الرحمن بن مہدی نے بتایا۔ انہوں نے سفیان سے انہوں نے اعمش سے انہوں نے عمارہ سے انہوں نے حریث بن ظہیر سے انہوں نے حضرت عبد اللہ سے روایت کیا، فرمایا : کوئی مومن ایمان بالغیب سے افضل ایمان نہیں لایا پھر یہ آیت پڑھی : الذین یؤمنون بالغیب۔ میں کہتا ہوں : یہ قول متشابہ اور اس کے حکم کے متعلق ہے اور یہ صحیح ہے جیسا کہ اس کا بیان سورة آل عمران میں آئے گا۔ بہت سے علماء کبار نے فرمایا بلکہ ان کے متعلق ہم پر گفتگو کرنا واجب ہے تاکہ ہم وہ فوائد نکالیں جو ان کے ضمن میں ہیں اور وہ معانی نکالیں جو ان سے نکل سکتے ہیں، اس کے متعلق علماء کے مختلف اقوال ہیں : حضرت ابن عباس سے مروی ہے اور حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ قرآن میں حروف مقطعہ اللہ تعالیٰ کا اسم اعظم ہے مگر ہم نہیں جانتے کہ اس کی ان حروف سے تالیف کیسی ہے (1) ، قطرب اور فراء وغیرہما نے کہا : یہ حروف ہجاء کی طرف اشارہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جب عربوں کو چیلنج فرمایا تو انہیں ان کے ساتھ بتایا کہ یہ قرآن ان حروف سے مرکب ہے جن پر ان کے کلام کی بنیاد ہے تاکہ ان کا اس سے عجز زیادہ ظاہر ہوجائے کیونکہ اس نے ان کے کلام سے خروج نہیں کیا۔ جب وہ نبی کریم ﷺ کی بات سننے کے لئے خاموش ہوئے تو آپ ﷺ نے مرکب قرآن ان پر پڑھا تاکہ قرآن کو ان کے کانوں میں ثابت کردیں اور ان پر حجت قائم کردیں۔ ایک قوم نے کہا : روایت ہے کہ مشرکین نے جب مکہ میں قرآن سننے سے یہ اعراض کیا تو انہوں نے کہا : لا تسمعوا لھذا القران والغوا فیہ (فصلت :26 ) ۔ مت سنا کرو اس قرآن کو اور شوروغل مچا دیا کرو اس کی تلاوت کے درمیان تو یہ حروف مقطعات نازل ہوئے تاکہ وہ اس پر تعجب کریں پھر اپنے کانوں کو اس کی طرف متوجہ کریں اور اس کے قرآن کو سنیں تاکہ ان پر حجت لازم ہوجائے۔ بعض علماء فرماتے ہیں : یہ حروف اسماء پر دلالت کرتے ہیں، اسماء سے یہ حروف اخذ کئے گئے ہیں اور ان کے بقیہ حروف کو حذف کیا گیا ہے جیسے حضرت ابن عباس وغیرہ کا قول ہے، الف، اللہ سے ہے، لام، جبریل سے ہے، میم، محمد سے ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : الف، اسم اللہ کی چابی ہے، لام، لطیف کی چابی ہے، میم، اس مجید کی چابی ہے۔ ابو الضحی نے حضرت ابن عباس سے الم کے قول میں روایت کیا ہے، فرمایا : انا اللہ اعلم۔ الر۔ انا للہ اری۔ المص۔ انا اللہ افصل۔ (2) الف انا کے معنی کو ادا کرتا ہے، لام اللہ کے اسم کا معنی ادا کرتا ہے اور میم اعلم کا معنی ادا کرتا ہے۔ اس قول کو زجاج نے پسند کیا ہے۔ زجاج نے کہا : میرا خیال یہ ہے کہ ان حروف میں سے ہر حرف ایک معنی ادا کرتا ہے۔ عرب بھی نظماً اور فصحاً حروف مقطعات کو ان کلمات کے بدل بولتے ہیں جن سے یہ حروف مشتق ہیں۔ جیسے شاعر کا قول ہے : فقلت لھا قفی فقالت قاف میں اسے کہا ٹھہر جاتو اس نے کہا : میں ٹھہر گئی۔ شاعر نے یہ ارادہ کیا ہے کہ قالت وقفت۔ زہیر نے کہا : بالخیر خیرات وان شراً فا ولا أرید الشر الا ان تا اس سے شاعر نے یہ ارادہ کیا ہے وان شرا فشر اور الا ان تشاء۔ ایک اور شاعر نے کہا : نادوھم الا الجمو ألانا قالوا جمیعا کلھم الا فا اس میں شاعر نے الا ترکبون مراد لیا ہے اور انہوں نے کہا : الا فارکبو اور حدیث پاک میں ہے : من اعان علی قتل مسلم بشطر کلمۃ۔ (3) شفیق نے کہا : اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اقتل میں سے أق کہتا ہے جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا : کفی بالسیف شا۔ اس کا مطلب ہے : شافیا۔ حضرت زید بن اسلم نے کہا : یہ حروف مقطعات سورتوں کے اسماء ہیں۔ کلبی نے کہا : یہ قسمیں ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کے شرف اور فضل کی وجہ سے ان کے ساتھ قسمیں اٹھائی ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے ہیں۔ حضرت ابن عباس سے یہ بھی مروی ہے۔ بعض علماء نے اس قول کو رد کیا ہے۔ فرمایا : ان کا قسم ہونا صحیح نہیں کیونکہ قسم کے لئے مخصوص حروف ہیں مثلاً ان قد، لقد اور حروف میں سے کوئی حرف یہاں نہیں پایا جاتا۔ پس قسم ہونا جائز نہیں۔ اس کا جواب اس طرح دیا جاتا ہے کہ قسم کی جگہ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : لا ریب فیہ اگر کوئی انسان قسم اٹھائے تو کہے گا : واللہ ھذا الکتاب لا ریب فیہ۔ یہ تو کلام درست ہوگا اور لا جواب قسم ہوگا۔ پس کلبی کا قول اور جو حضرت ابن عباس سے مروی ہے صحیح اور درست ہے۔ اگر کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قسم اٹھانے میں کیا حکمت ہے۔ اس وقت میں لوگ دو قسم کے تھے : ایک تصدیق کرنے والے اور دوسرے تکذیب کرنے والے۔ تصدیق کرنے والے تو بغیر قسم کے ہی تصدیق کردیتے ہیں اور مکذب قسم کے ساتھ بھی تصدیق نہیں کرتے ؟ تو اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ قرآن لغت عرب میں نازل ہوا ہے۔ عربوں میں سے جب کوئی اپنے کلام کو مؤکد کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اپنے کلام پر قسم اٹھاتا ہے اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنی حجت کو مؤ کد کرنے کا ارادہ فرمایا تو قسم اٹھائی کہ قرآن اس کی طرف سے ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : الم کا مطلب ہے میں نے تجھ پر یہ کتاب لوح محفوظ سے نازل کی۔ قتادہ نے الم کی تفہیم میں فرمایا : یہ قرآن کے اسماء میں سے ایک اسم ہے۔ محمد بن علی ترمذی سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے ان سورتوں میں جو احکام اور قصص ودیعت فرمائے ہیں وہ ان حروف میں ودیعت فرما دئیے جو ان سورتوں کی ابتدا میں ذکر کئے ہیں۔ ان حقیقتوں کو سوائے نبی یا ولی کے کوئی نہیں جانتا پھر ان حقائق کو سورت میں بیان فرمایا تاکہ لوگ سمجھ سکیں (1) ۔ ان اقوال کے علاوہ بھی حروف مقطعات کے بارے میں اقوال موجود ہیں۔ حقیقت حال اللہ بہتر جانتا ہے۔ ان حروف پر وقف ان کے نقصان کی وجہ سے ہے مگر جب ان کو تو مبتدا بنائے گا یا انہیں معطوف کرے گا تو ان کو اعراب دے گا۔ علماء کا اختلاف ہے کہ ان کا اعراب میں کوئی محل ہے یا نہیں۔ بعض علماء نے فرمایا : ان کا کوئی اعراب نہیں کیونکہ یہ اسماء متمکنہ نہیں ہیں نہ یہ افعال مضارعہ ہیں۔ یہ حروف تہجی کے قائم مقام ہیں۔ پس یہ محکیۃ ہیں یہ خلیل اور سیبویہ کا مذہب ہے اور جن علماء نے فرمایا کہ یہ سورتوں کے اسماء ہیں ان کے نزدیک ان کا اعراب مرفوع ہے اس بنا پر کہ یہ مبتدا محذوف کی خبر ہیں یعنی ھذہ الم۔ جیسا کہ تو کہتا ہے : ھذہ سورة البقرۃ یا یہ مبتدا ہیں اور ان کی خبر ذالک ہے جیسا کہ تو کہتا ہے زید ذالک الرجل۔ ابن کیسان نحوی نے کہا الم نصب کی جگہ میں ہے جیسا کہ تو کہتا ہے : اقرا الم یا علیک الم۔ بعض علماء نے فرمایا : یہ قسم کی بنا پر جر کی جگہ میں ہیں کیونکہ حضرت ابن عباس کا قول ہے : یہ قسمیں ہیں ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے قسمیں اٹھائی ہیں (2) ۔ ذلک الکتب بعض علماء نے فرمایا : اس کا معنی ہے ھذا الکتاب۔ اور ذلک حاضر کی طرف اشارہ کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے اگرچہ یہ وضع غائب کی طرف اشارہ کرنے کے لئے کیا گیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق خبر دیتے ہوئے فرمایا : ذلک علم الغیب والشھادۃ العزیز الرحیم (السجدہ) اسی طرح خفاف بن ندبہ کا قول ہے اقول لہ والرمح یاطر متنہ تامل خفافاً اننی ان ذلکا یعنی انا ھذا۔ پس ذلک کا ارشاد قرآن کی طرف ہے۔ یہ ھذا کی جگہ پر رکھا گیا ہے۔ اس کی تلخیص یہ ہے : الم ھذا الکتاب لا ریب۔ یہ ابو عبیدہ، عکرمہ وغیرہما کا قول ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وتلک حجتنا اتینھا ابراھیم (انعام :83) (اور یہ ہماری دلیل تھی جو ہم نے دی ابراہیم کو) ۔ تلک ایت اللہ نتلوھا علیک بالحق (بقرہ : 252) (یہ سب نشانیاں ہیں اللہ کی (قدرت کی) ہم بیان کرتے ہیں انہیں آپ پر حق کے ساتھ) ۔ ان آیات میں تلک بمعنی ھذہ استعمال ہوتا ہے لیکن جب یہ توڑیں گئیں تو گویا وہ دور ہوگئیں۔ بخاری میں ہے، معمر نے ذلک الکتب کی تفسیر میں فرمایا : کتاب سے مراد یہ قرآن ہے۔ ھدی للمتقین یہ بیان اور دلالت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ذلکم حکم اللہ یحکم بینکم (الممتحنہ :10) یعنی ھذا حکم اللہ میں کہتا ہوں : ھذا بمعنی ذالک استعمال ہوتا ہے، مثلاً ام حرام کی حدیث میں نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : یرکبون ثبج ھذا البحر (1) ۔ یعنی ذالک البحر، (واللہ اعلم) ۔ بعض علماء نے فرمایا : یہ غائب کی طرف اشارہ کے باب پر ہے۔ اس غائب میں علماء کے مختلف دس اقوال ہیں : بعض علماء نے فرمایا : ذلک الکتب سے مراو وہ کتاب ہے جو میں نے مخلوق کی سعادت، شقاوت، عمر اور رزق کے بارے میں لکھی۔ لا ریب فیہ یعنی اس میں کوئی تبدیلی کرنے والا نہیں۔ بعض علماء نے فرمایا : ذلک الکتب سے مراد وہ تحریر ہے جو ازل میں میں نے اپنے بارے میں لکھی کہ میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے (2) ۔ صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے، فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا تو اپنی کتاب میں اپنے بارے میں لکھا اور وہ کتاب اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہے کہ میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے۔ (ایک روایت میں تغلب کی جگہ سبقت کے الفاظ ہیں) (3) ۔ بعض علماء نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی مکرم ﷺ سے وعدہ فرمایا تھا کہ وہ اس پر ایسی کتاب نازل کرے گا جس کو پانی نہیں مٹا سکے گا۔ پس اسی وعدہ کی طرف اشارہ فرمایا، جیسا کہ صحیح مسلم میں عیاض بن حمار مجاشعی کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے اہل زمین کی طرف دیکھا اور اس کے عرب وعجم پر ناراضگی کا اظہار کیا سوائے اہل کتاب کے بقیہ لوگوں کے۔ اور فرمایا : میں نے تجھے مبعوث فرمایا تاکہ تجھے آزمائش میں ڈالوں اور تیرے ذریعے آزماؤں، میں تجھ پر ایک کتاب نازل کروں گا جس کو پانی صاف نہیں کر دے گا، تو اس سے نیند اور بیداری کی حالت میں پڑھے گا (1) ۔ (الحدیث) ۔ بعض علماء نے فرمایا : یہ قرآن کے اس حصہ کی طرف اشارہ ہے جو مکہ میں نازل ہوا تھا۔ بعض علماء نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے جب نبی کریم ﷺ پر مکہ میں یہ ارشاد نازل فرمایا تھا : انا سنلقی علیک قولا ثقیلا (المزمل) (بےشک ہم جلدی ہی القا کریں گے آپ پر ایک بھاری کلام) ۔ رسول اللہ ﷺ اپنے رب کی طرف سے اس وعدہ کے پورا ہونے کے منتظر رہتے تھے۔ پھر جب مدینہ طیبہ میں الم ذلک الکتب لا ریب فیہ نازل ہوا۔ اس میں اس قرآن کا معنی ہے جو میں نے تم پر مدینہ طیبہ میں اتارا۔ یہ وہ کتاب ہے جس کا میں نے تجھ سے مکہ میں وعدہ کیا تھا کہ میں تیری طرف وحی کروں گا۔ بعض علماء نے فرمایا : ذلک سے اس کلام کی طرف اشارہ ہے جو تورات اور انجیل میں ہے اور الم قرآن کا اسم ہے تقدیر کلام یہ ہوگا : یہ قرآن وہ کتاب ہے جس کی تفسیر تورات اور انجیل میں کی گئی ہے یعنی تورات اور انجیل اس کی صحت کے گواہ ہیں اور جو معانی تورات اور انجیل میں ہیں ان کا یہ جامع ہے اور جو کچھ ان میں نہیں وہ بھی اس میں ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : ذلک الکتب تورات اور انجیل دونوں کی طرف اشارہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ الم دو کتابیں ہیں دو کتابیں ہیں یا ان دو کتابوں کی مثل ہے یعنی یہ قرآن ان دونوں کتابوں کے معانی وحقائق کا جامع ہے، پس تثنیہ کو ذلک سے تعبیر فرمایا اس کی مثال قرآن میں موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : انھا بقرۃ لا فارض ولا بکر عوان بین ذلک (البقرہ : (68) (کہ وہ گائے ہے جو نہ بوڑھی ہو اور نہ بالکل بچی (بلکہ) درمیانی عمر ہو) ۔ یہاں بین ذلک بمعنی بین تینک ہے یعنی بوڑھی اور جوان کے درمیان ہو۔ اس کی تفصیل آگے آئے گی۔ بعض علماء نے فرمایا : ذلک لوح محفوظ کی طرف اشارہ ہے۔ کسائی نے کہا ذلک اس قرآن کی طرف اشارہ ہے جو آسمان میں تھا اور ابھی نازل نہیں ہوا تھا۔ بعض علماء نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب سے وعدہ فرمایا تھا کہ وہ محمد ﷺ پر ایک کتاب نازل کرے گا۔ پس یہ اشارہ اس وعدہ کی طرف ہے (2) ۔ المبرد نے کہا : معنی یہ ہے کہ یہ قرآن وہ کتاب ہے جس کے وسیلہ سے تم کفار پر فتح طلب کیا کرتے تھے۔ بعض علماء نے فرمایا : یہ اشارہ ہے حروف معجمہ کی طرف، اس کے قول پر جو کہتا ہے : الم سے مراد وہ حروف ہیں جن پر قرآن نظم کر کے میں نے تمہیں چیلنج کیا ہے (3) ۔ کتاب : کتب یکتب سے مصدر ہے۔ اس کا معنی ہے : جمع کرنا۔ اسی وجہ سے لشکر کو کتیبہ کہا جاتا ہے اس کے اجتماع کی وجہ سے۔ عرب کہتے ہیں : تکتب الخیل جو گھوڑے چھوٹے چھوٹے لشکر ہوجائیں۔ کتبت البغلۃ کہا جاتا ہے۔ جب بغلہ کے رحم کو حلقہ یا دھاگہ کے ساتھ جمع کردیا جائے۔ شاعر نے کہا : لا تامنن فذاریا حللت بہ علی قلوصک واکتبھا باسیار الکتبہ (کاف کے ضمہ کے ساتھ) اس کا معنی الخرزۃ۔ سینے کا تسمہ ہے اور اس کی جمع کتب ہے اور الکتب الخرز یعنی تسمہ۔ ذوالرمہ کا شعر ہے : دفراء غرفیۃ اثای خوارزھا مشلشل ضیعتہ بینھا الکتب اس شعر میں یہ لفظ اسی مفہوم میں شاعر نے استعمال کیا ہے۔ کتاب کاتب کے حروف معجمہ لکھنے کو کہتے ہیں خواہ وہ حروف جمع ہوں یا جدا جدا ہوں اس کتاب کہا جاتا ہے اگرچہ مکتوب ہو، جیسا کہ شاعر کا قول ہے : تومل رجعۃ منی وفیھا کتاب مثل ما لصق الغراء اس میں مذکورہ مفہوم میں کتاب کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ کتاب کا معنی فرض، حکم اور القدر بھی ہے۔ جعدی کا قول ہے : یابنۃ عمی کتاب اللہ اخرجنی عنکم وھل امنعن اللہ ما فعلا اس میں شاعر نے کتاب سے مراد فرض، حکم لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے لا ریب فیہ۔ یہ نفی عام ہے، اسی وجہ سے ریب کو اس کے ساتھ نصب دی گئی ہے، ریب کے تین معانی ہیں۔ 1۔ شک : عبد اللہ بن الزیہری نے کہا : لیس فی الحق یا أمیمۃ ریب انما الریب ما یقول الجھول اے امیمہ ! حق میں کوئی شک نہیں، شک تو اس میں ہوتا ہے جو جاہل کہتا ہے۔ 2۔ تہمت : جمیل نے کہا : بثینۃ قالت یا جمیل اربتنی فقلت کلانا یابثین مریب بثینہ نے کہا : اے جمیل ! تو نے مجھ پر تہمت لگائی۔ میں نے کہا : ہم میں سے ہر ایک اے بثین تہمت لگانے والا ہے۔ 3۔ حاجت : شاعر (کعب بن مالک) نے کہا : قضینا من تھا مۃ کل ریب و خیبر ثم اجمعنا السیوفا ہم نے تہامہ اور خیبر سے ہر حاجت کو پورا کرلیا پھر ہم نے تلواروں کو جمع کیا۔ پس اللہ کی کتاب میں کوئی شک وارتیاب نہیں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس کی ذات میں حق ہے وہ اللہ کی طرف سے نازل ہوئی ہے اور اس کی صفات میں سے ایک صفت غیر مخلوق اور غیر حادث ہے اگرچہ کفار کے لئے شک واقع ہوا ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : یہ خبر ہے اور اس کا معنی نہی ہے یعنی تم اس میں شک نہ کرو۔ کلام مکمل ہے۔ گویا فرمایا : یہ کتاب حق ہے، تو کہتا ہے : رابنی ھذا الامر۔ جب وہ امر شک اور خوف کو داخل کر دے۔ اراب، شک والا ہوگیا۔ فھو مریب، رابنی امرہ، ریب الدھر۔ زمانہ کی گردشیں۔ اس کے متعلق چھ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فیہ اس میں ھا، فی کی وجہ سے حالت جری میں ہے، اس میں پانچ وجوہ ہیں عمدہ ترین وجہ فیہ ھدی اور اس کے قریب پھر فیہ ھدی (بغیر واو کے ھاء کے ضمہ کے ساتھ) یہ زہری، سلام اور ابو المنذر کی قراءت ہے۔ پھر اس کے قریب فیھی ھدی ہے یعنی (یاء کے اثبات کے ساتھ) یہ ابن کثیر کی قراءت ہے۔ اس میں فیھو ھدی (واؤ کے ساتھ) بھی جائز ہے، اس میں فیہ ھدی مدغم کر کے پڑھنا جائز ہے، ھدی کا رفع مبتدا ہونے کی بنا پر ہے اور فیہ خبر ہے، الھدی عرب کلام میں الرشید اور بیان کے معنی میں ہوتا ہے یعنی اس میں اہل معرفت کے لئے کشف، رشد، بیان کی زیادتی اور رہنمائی ہے۔ مسئلہ نمبر 2: الھدیٰ ، ھدیان، ھدیٰ کا معنی دلالت ہے۔ یہ وہ ہے جس پر رسول اور ان کے متبعین قادر ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ولکل قوم ھاد (الرعد) ( اور ہر قوم کے لئے آپ ہادی ہیں) ۔ اور ارشاد ہے : وانک لتھدی الی صراط مستقیم (الشورایٰ ) (اور بلا شبہ آپ رہنمائی فرماتے ہیں صراط مستقیم کی طرف) ۔ اللہ تعالیٰ نے رسل کے لئے ہدایت کو ثابت فرمایا جس کا معنی ہے دلالت، دعوت اور تنبیہ۔ اور وہ ہدایت جس کا معنی تائید اور توفیق ہے وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم ﷺ سے فرمایا : انک لتھدی الی صراط مستقیم (الشوریٰ : 52) ۔ (بےشک آپ ہدایت نہیں دے سکتے جس کو آپ پسند کریں ) ۔ پس اس اعتبار سے ھدی کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایمان کو دل میں پیدا فرمایا۔ اس مفہوم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اولئک علیٰ ھدی من ربھم (البقرہ : 5) (وہی لوگ ہدایت پر ہیں اپنے رب (کی توفیق) سے) اور ارشاد ہے یھدی من یشاء (البقرہ :142) ہدایت دیتا ہے جسے چاہتا ہے۔ الھدی اور الا ھتداء اس کا معنی ارشاد کے معنی کی طرف راجع ہے، جیسے بھی تو اس کا صیغہ بنائے۔ ابو المعالی نے کہا : کبھی ہدایۃ کا لفظ واردہوتا ہے اور اس سے مراد مومنین کی جنت کے راستوں اور جنت تک پہنچانے والے طرق کی طرف رہنمائی کرنا ہوتا ہے۔ اسی مفہوم میں مجاہدین کی صفت میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے فلن یضل اعمالھم سیھدیھم (محمد : 4) اسی مفہوم میں یہ ارشاد ہے : فاھذوھم الی صراط الجحیم (صافات) اس کا معنی ہے انہیں جحیم کے راستہ کی طرف چلاؤ۔ مسئلہ نمبر 3: الھدیٰ لفظ مونث ہے۔ فراء نے کہا : بعض بنی اسد الھدی کو مونث استعمال کرتے ہیں۔ کہتے ہیں : ھذہ ھدی حسنۃ۔ اور لحیانی نے کہا : یہ مذکر ہے، اس پر اعراب نہیں آتا، یہ اسم مقصور ہے اور الف پر حرکت نہیں آتی۔ یہ حرف جر کے ساتھ اور بغیر حرف جر کے متعدی ہوتا ہے۔ سورة فاتحہ میں یہ گزر چکا ہے، تو کہتا ہے : ھدیتہ الطریق والی الطریق، والدار والی الدار (یعنی میں نے اسے راستہ کی پہچان کرائی اور گھر کی پہچان کرائی) حرف جر کے متعدی ہونا اہل حجاز کی لغت ہے اور دوسری صورت یعنی بغیر حرف جر کے متعدی ہونا، اخفش نے حکایت کیا ہے اور قرآن حکیم میں ہے اھدنا الصراط المستقیم (فاتحہ) (چلا ہم کو سیدھے راستے پر ) ۔ الحمدللہ الذی ھدنا لھذا (الاعراف : 43) ۔ ساری تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے راہ دکھائی ہمیں اس بہشت کی۔ بعض علماء نے فرمایا : الھدی دن کے اسماء میں سے ایک اسم ہے کیونکہ لوگ دن میں اپنی معیشت اور کام کرنے کے لئے راستوں پر نکلتے ہیں۔ اسی سے ابن مقبل کا قول ہے : حتی استبنت الھدی والبید ھاجمۃ یخشعن فی الآل غلفا او یصلینا اس شعر میں الھدی، دن کے لئے استعمال ہوا ہے۔ مسئلہ نمبر 4 : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : للمتقین۔ اللہ تعالیٰ نے ہدایت کے ساتھ المتقین کو خاص فرمایا ہے اگرچہ قرآن ساری مخلوق کے لئے ہے یہ متقین کو شرف بخشنے کے لئے فرمایا ہے کیونکہ وہ ایمان لائے اور جو کچھ اس قرآن میں ہے اس کی تصدیق کی۔ ابو روق سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا : ھدی للمتقین یعنی متقین کی عزت وشرف کے لئے ہدایت کو متقین کے لئے ذکر فرمایا اور ان کی فضیلت و عظمت کے لئے یہ فرمایا۔ متقین اصل میں الموتقین تھا۔ یعنی دو یاؤوں کے ساتھ تھا، پہلی یاء کے کسرہ کو اس کے ثقل کی وجہ سے حذف کردیا گیا پھر التقاء ساکنین کی وجہ سے یاء کو حذف کردیا گیا اور داد اور تاء کے اجتماع کی صورت میں واو کو تا سے بدل دیا گیا پھر تاء کو تاء میں ادغام کیا گیا پس یہ متقین بن گیا۔ مسئلہ نمبر 5: التقویٰ اس کا اصل میں لغوی معنی قلت کلام ہے۔ ابن فارس نے یہ معنی حکایت کیا ہے۔ اسی مفہوم میں حدیث شریف ہے التقی ملجم، کم کلام کرنے والا لگام دیا گیا ہے۔ متقی، مومن اور اطاعت کرنے والے سے بلند درجہ ہے، یہ وہ شخص ہوتا ہے جو اپنے نیک عمل اور خالص دعا کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچتا ہے۔ یہ اتقاء المکروہ بما تجعلہ حاجزاً بینک وبینہ سے مشتق ہے یعنی جس کو تو اپنے اور مکروہ چیز کے درمیان آڑ بناتا ہے جیسا کہ نابغہ نے کہا تھا : سقط النصیف ولم ترد اسقاط فتناولتہ واتقتنا بالید اس کی اوڑھنی گر گئی اور اس نے اس کو گرانے کا ارادہ نہیں کیا تھا۔ پس اس نے اس کو پکڑ لیا اور ہاتھ سے ہمیں بچا لیا۔ ایک اور شاعر نے کہا : فالقت قناعاً دونہ الشمس واتقت باحسن موصولین کف ومعصم اس نے دھوپ سے بچاؤ کے لئے پردہ ڈالا اور ہاتھ ور کلائی دونوں خوبصورت ملی ہوئی چیزوں کے ساتھ بچاؤ کیا۔ ابو محمد عبد الغنی الحافظ نے سعید بن زربی ابو عبیدہ بن عاصم بن بھدلہ عن زربن جیش عن ابن مسعود کے سلسلہ سے روایت کیا ہے، فرمایا : ابن مسعود نے ایک اپنے بھتیجے سے کہا : اے میرے بھتیجے سے کہا : اے میرے بھتیجے ! تو کتنے زیادہ لوگ دیکھتا ہے ؟ اس نے کہا : ہاں۔ حضرت ابن مسعود نے فرمایا : ان میں کوئی خبر نہیں ہے سوائے تائب تو بہ کرنے والے اور گناہوں سے بچنے والے کے۔ پھر فرمایا : اے میرے بھائی کے بیٹے ! تو لوگوں کو دیکھتا ہے کتنے زیادہ ہیں ؟ میں نے کہا : کیوں نہیں۔ فرمایا : ان میں کوئی خیر نہیں ہے سوائے عالم یا متعلم کے۔ ابو یزید بسطامی نے کہا : متقی وہ ہے جب بات کرے تو اللہ کے لئے بات کرے اور جب عمل کرے تو اللہ کے لئے عمل کرے، ابو سلیمان دارانی نے کہا : المتقین وہ ہیں جن کے دلوں سے اللہ تعالیٰ نے خواہشات کی محبت ختم کردی۔ بعض علماء نے فرمایا : متقی وہ ہے جو شرک سے بچتا ہے اور نفاق سے بری ہوتا ہے۔ ابن عطیہ نے کہا : یہ قول فاسد ہے کیونکہ کبھی ایک شخص شرک و نفاق سے پاک ہوتا ہے لیکن وہ فاسق ہوتا ہے۔ حضرت عمر بن خطاب نے حضرت ابی سے تقویٰ کے متعلق پوچھا تو حضرت ابی نے کہا : کیا تم نے کانٹوں والا راستہ پایا ہے ؟ حضرت عمر نے کہا : ہاں۔ حضرت ابی نے کہا : پھر تم نے اس سے گزرتے ہوئے کیا کیا تھا۔ حضرت عمر نے کہا : میں نے کپڑے اوپر کر لئے اور بچ کے احتیاط سے گزرا۔ حضرت ابی نے کہا : یہ تقویٰ ہے ابن المعتز نے یہی معنی لیا ہے اور اسے نظم کیا ہے : خل الذنوب صغیرھا وکبیرھا ذاک التقی واصنع کماش فوق ارض الشوک یحذر مایری لا تحقرن صغیرۃ ان الجبال من الحصیٰ ترجمہ : تو گناہ صغیر اور کبیرہ کو چھوڑ دے یہی تقویٰ ہے اور تو کانٹوں والی زمین کے اوپر چلنے والے کی طرح کر کہ وہ کانٹوں کو دیکھ کر احتیاط کرتا ہے۔ صغیرہ گناہ کو بھی حقیر نہ سمجھ کیونکہ پہاڑ، کنکریوں سے بنتے ہیں۔ مسئلہ نمبر 6: تقویٰ میں تمام خیر کے اعمال جمع ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی اولین وآخرین میں وصیت ہے۔ یہ وہ خیر ہے جو انسان حاصل کرتا ہے جیسا کہ حضرت ابو الدرداء نے کہا، ان سے پوچھا گیا : تمہارے ساتھ شعر کہتے ہیں اور تجھ سے کوئی چیز محفوظ نہیں کی گئی۔ فرمایا : یرید المرء ان یوتی مناہ ویابی اللہ الا ما ارادا یقول المرء فائدتی ومالی وتقوی اللہ افضل ما استفادا انسان ارادہ کرتا ہے کہ اس کی خواہش پوری کی جائے اور اللہ تعالیٰ عطا نہیں فرماتا مگر جس کا اللہ ارادہ فرماتا ہے۔ انسان کہتا ہے میرا فائدہ اور میرا مال حالانکہ جو اس نے فائدہ اٹھایا اس میں سے افضل اللہ تعالیٰ کا تقویٰ ہے۔ ابن ماجہ نے اپنی سنن میں حضرت ابو امامہ سے روایت کی ہے کہ نبی کریم ﷺ فرماتے تھے : مومن تقویٰ کے بعد نیک بیوی سے بہتر کوئی خیر حاصل نہیں کرتا اگر وہ اسے حکم دے، تو اس کی اطاعت کرے اگر وہ اس کی طرف دیکھے تو اسے خوش کرے اور اس پر کوئی قسم اٹھائے تو اسے سچا کرے، اگر وہ اس سے غائب ہو تو اپنے نفس اور اس کے مال میں اس سے اخلاص کا مظاہرہ کرے (1) ۔ تقویٰ اصل میں وقویٰ تھا بروزن فعلی، پھر واو کو تاء سے بدلا گیا یہ وقیتہ، اقیہ سے مشتق ہے یعنی میں نے اسے بچایا رجل تقی، یعنی ڈرنے والا شخص۔ اصل میں وقی تھا اسی طرح تقاۃ اصل میں وقاۃ تھا جیسا کہ عرب کہتے ہیں تجاہ، وتراک اصل میں رجاہ اور وارث تھا۔
Top