بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Dure-Mansoor - Al-Baqara : 1
الٓمّٓۚ
الم : الف لام میم
الف لام میم (یہ حروف مقطعات میں سے ہے) ۔
(1) امام وکیع اور عبد بن حمید نے ابو عبد الرحمن سلمی (رح) سے روایت کیا کہ وہ الم اور حم کو ایک آیت شمار کرتے تھے۔ (2) بخاری نے تاریخ میں ترمذی (انہوں نے اسے صحیح بھی کہا ہے) ابن الضریس، محمد بن نصر اور ابن الانباری نے المصاحف میں حاکم (انہوں نے اسے صحیح کہا ہے) ابن مردویہ، ابوذر الہروی نے فضائل میں اور بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جس نے اللہ کی کتاب میں سے ایک حرف پڑھا اس کے لیے ایک نیکی ہے اور ایک نیکی دس کے برابر ہے۔ میں نہیں کہتا ہے لفظ آیت الم ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف ہے لام ایک حرف ہے۔ اور میم ایک حرف ہے۔ (3) امام سعید بن منصور، ابن ابی شیبہ، دارمی، ابن الضریس، طبرانی اور محمد بن نصر نے حضرت ابن مسعود ؓ سے اسی طرح موقوفا روایت کرتے ہیں۔ (4) محمد ابن نصر، ابو جعفر النحاس نے کتاب الوقف والا ابتداء میں الخطیب نے تاریخ میں اور ابو نصر السنجرانی الابانۃ میں حضرت عبد اللہ بن مسعود سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا قرآن کو پڑھو تمہیں اس پر اجر دیا جائے گا۔ میں نہیں کہتا کہ لفظ آیت الم ایک حرف ہے لیکن الف پر دس نیکیاں ہیں اور لام پر بھی دس اور میم پر بھی دس پس یہ تیس نیکیاں شمار ہونگی۔ (5) ابن ابی شیبہ، البزار نے فضل العلم میں ابوذر الہروی، ابو نصر السنجری نے ضعیف سند کے ساتھ عوف بن مالک اشجعی ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا جس شخص نے قرآن پڑھا اللہ تعالیٰ اس کے لیے ہر حرف کے بدلہ میں ایک نیکی لکھیں گے۔ میں نہیں کہتا کہ لفظ آیت ” الم، ذلک الکتب “ ایک حرف ہے بلکہ چار حرف ہیں الف ذال، الف اور کاف۔ امام محمد بن نصر اور بیہقی نے شعب الایمان میں اور السنجری نے عوف بن مالک ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے قرآن میں سے ایک حرف پڑھا اللہ تعالیٰ اس کے لئے ایک نیکی لکھ دیں گے میں نہیں کہتا کہ بسم اللہ ایک حرف ہے بلکہ تین حرف ہیں یاء، سین، میم اور میں نہیں کہتا کہ ” الم “ ایک حرف ہے بلکہ تین حرف ہیں۔ الف لام اور میم۔ (7) محمد بن نصر التلفی نے کتاب الوجیز میں مجاز اور مجیز کے ذکر میں حضرت انس ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص نے قرآن مجید میں سے ایک حرف پڑھا اللہ تعالیٰ اس کے لیے دس نیکیاں لکھ دیں گے جیسے باء تاء اور ثاء۔ (8) امام ابن ابی داؤد نے المصاحف میں اور ابو نصر السجری نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا ہے کہ جب آدمی اپنی حاجت سے فارغ ہو کر اپنے گھر لوٹ آئے تو اسے قرآن کے پاس آنا چاہئے پھر اسے کھول کر تلاوت کرنی چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر حرف کے بدلہ میں اس کے لئے دس نیکیاں لکھ دیتے ہیں میں نہیں کہتا کہ الم ایک حرف ہے بلکہ الف کی دس نیکیاں، لام کی دس نیکیاں اور میم کی دس نیکیاں ہیں۔ (9) ابو جعفر النحاس نے الوقف والا ابتداء میں اور ابو نصر السجری نے حضرت قیس بن سکن سے روایت کیا ہے کہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود ؓ نے فرمایا کہ قرآن مجید کو سیکھو کیونکہ ہر حرف کے بدلہ میں دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور دس برائیاں مٹا دی جاتی ہیں میں نہیں کہتا کہ ” الم “ ایک حرف ہے۔ بلکہ الف پر دس لام پر دس اور میم پر دس نیکیاں ہیں۔ (10) امام وکیع، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم والنحاس نے کئی طرق سے حضرت ابن عباس ؓ سے لفظ آیت الم کے بارے میں نقل فرمایا ہے کہ انا اللہ اعلم یعنی الف سے لام سے اللہ اور میم سے اعلم مراد ہے۔ (11) امام ابن جریر اور بیہقی نے کتاب الاسماء والصفات میں حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا ہے کہ الم اللہ تعالیٰ کے ناموں کے حرف ہجاء میں سے مشتق کئے ہوئے حروف ہیں۔ (12) امام ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم، ابن مردویہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ الم، حم اور ن کاٹے ہوئے نام ہیں۔ (یعنی علیحدہ علیحدہ کئے ہوئے) المص، الر، المر، کھیعص، طہ، طسم، یس، ص، حم، ق اور نون یہ قسمیں ہیں اللہ تعالیٰ نے ان سے قسم کھائی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ہیں۔ (13) امام ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم، ابن مردویہ اور بیہقی نے کتاب الاسماء والصفات میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ المص، الر، المر، کھیعص، طہ، طسم، یس، ص، حم، ق اور نون یہ قسمیں ہیں اللہ تعالیٰ نے ان سے قسم کھائی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ہیں۔ (14) امام جریر نے مکرمہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ الم قسم ہے۔ (15) امام ابن جریج نے حضرت ابن مسعود سے روایت کیا ہے کہ الم اللہ تعالیٰ کا اسم اعظم ہے۔ (16) امام ابن جریج اور ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ الم، حم اور طس اللہ تعالیٰ کا اسم اعظم ہے۔ (17) امام ابن ابی شیبہ نے اپنی تفسیر میں عبد بن حمید اور ابن المنذر نے حضرت عامر ؓ سے روایت کیا ہے کہ ان سورتوں کے شروع والے حروف کے بارے میں ان سے پوچھا گیا جیسے الم، الر، انہوں نے فرمایا یہ اللہ تعالیٰ کے اسماء کے ہجاء کے حروف ہیں جب تو ان کو جڑے گا تو یہ اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام بن جائے گا۔ (18) عبد بن حمید نے حضرت ربیع بن انس ؓ سے روایت کیا وہ فرماتے ہیں کہ الم میں الف چابی ہے اس کے نام اللہ کی اور لام چابی ہے اس کے نام لطیف کی، اور میم چابی ہے اس کے نام مجید کی۔ (19) ابن مردویہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ سورتوں کے شروع والے حروف اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے نام ہیں۔ حروف مقطعات اسماء الٰہی ہیں (20) ابو الشیخ اور بیہقی نے الاسماء والصفات میں سدی سے روایت کیا ہے کہ شروع والے حروف سب کے سب اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ہیں۔ (21) امام عبد الرزاق، عبد بن حمید، ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے حضرت قتادہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ الم قرآن کے اسماء میں سے ایک اسم ہے۔ (22) ابن جریر نے حضرت مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے کہ ” الم “ قرآن کے اسماء میں سے ایک اسم ہے۔ (23) امام ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے حضرت مجاہد سے روایت کیا ہے کہ الم، حم، المص، ص ابتدائی حروف ہیں جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے قرآن کی ابتدا فرمائی۔ (24) امام ابن المنذر اور ابن ابی حاتم نے حضرت حسن ؓ سے روایت کیا کہ الم اور طسم فواتح ہیں جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے سورتوں کو شروع فرمایا۔ (25) امام ابن المنذر نے حضرت مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے کہ الم، المر، حم اور ق وغیرہ حروف ہجاء ہیں جن کا ایک معنی اور مفہوم ہے۔ (26) امام ابن جریر نے حضرت زید بن اسلم صحابی سے روایت کیا کہ ” الم “ اور اس جیسے حروف سورتوں کے نام ہیں۔ (27) ابن اسحاق اور بخاری نے تاریخ میں اور ابن جریر نے ضعیف سند کے ساتھ حضرت ابن عباس ؓ سے اور انہوں نے جابر بن عبد اللہ بن رباب ؓ سے روایت کیا ہے کہ ایک مرتبہ یہود کے آدمیوں میں سے ابو یاسر بن اخطب، رسول اللہ ﷺ کے پاس سے گزرا اس وقت آپ سورة بقرہ کی پہلی آیت لفظ آیت ” الم، ذلک الکتب “ تلاوت فرما رہے تھے۔ پھر ابو یاسر کا بھائی حیی بن اخطب کے پاس کے پاس آیا اور کہا کیا تم جانتے ہو اللہ کی قسم میں نے محمد ﷺ کو یہ آیت پڑھتے ہوئے سنا جو اس پر نازل ہوئی۔ لفظ آیت ” الم ذلک الکتب “ اس نے کہا کیا تو نے اس کو سنا ہے ؟ اس نے کہا ہاں ! یہ سن کر حیی بن اخطب ایک جماعت کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں چلا آیا (وہاں پہنچ کر) کہنے لگا یا محمد کیا آپ نے یہ آیت لفظ آیت ” الم ذلک الکتب “ پڑھی ہے جو آپ پر اتاری گئی ؟ آپ نے فرمایا ہاں کہنے لگے کیا آپ کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے جبرئیل لے کر آئے ہیں ؟ آپ نے فرمایا ہاں ! انہوں نے کہا آپ سے پہلے بھی اللہ تعالیٰ نے انبیاء بھیجے ہیں ہم نے نہیں جانا کہ کسی نبی کے لیے یہ بیان کیا گیا ہو کہ اس کے بادشاہت کی مدت کتنی ہے ؟ اور آپ کے علاوہ اس کی امت کی مدت کتنی ہے۔ اور اپنے ساتھی کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہنے لگا کہ الف کا عدد ایک ہے اور لام کے عدد تیس ہیں اور میم کے چالیس ہیں تو اس حساب سے اکہتر سال ہوئے کیا تم نبی کے ایسے دین میں داخل ہوتے ہو کہ جس کی بارشاہی اور امت کی مدت اکہتر سال ہے پھر رسول اللہ کی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگا یا محمد ! کیا اس کے علاوہ بھی کوئی آیت ہے آپ نے فرمایا ہاں اس نے پوچھا وہ کونسی ؟ آپ نے فرمایا لفظ آیت المص، کہنے لگا یہ زیادہ بھاری اور زیادہ لمبی ہے الف کا عدد ایک ہے لام کے تیس اور میم کے چالیس اور صاد کے نوے یہ ایک سو اکسٹھ ہوئے۔ کیا اس کے علاوہ بھی آپ کے پاس ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں ! کہنے لگا وہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا الر کہنے لگا یہ زیادہ بھاری ہے اور زیادہ لمبی ہے الف کا عدد ایک ہے لام کے تیس اور را کے دو سو اکتیس سال ہوئے۔ کیا اس کے علاوہ آپ کے پاس اور بھی ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں المر کہنے لگا یہ بھی زیادہ بھاری ہے اور زیادہ لمبی ہے الف کا عد ایک ہے اور لام کے تیس اور میم کے چالیس اور را کے دو سو۔ یہ دو سو اکہتر ہوئے پھر کہنے لگا تو نے ہم پر معاملہ کو خلط ملط کردیا یہاں تک کہ ہم نہیں جانتے کہ آپ کو تھوڑی مدت دی گئی یا زیادہ، پھر سب لوگ کھڑے ہوگئے۔ اور ابو یاسر نے اپنے بھائی حیی اور اس کے ساتھ جو ان کے علماء تھے ان کو مخاطب ہو کر کہنے لگا۔ تم نہیں جانتے شاید اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کے لیے یہ سب جمع کردیا ہے۔ اکہتر، اکسٹھ سو، دو سو اکتیس، اور دو سو اکہتر اور یہ سب سات سو چونتیس ہوئے۔ اور کہنے لگے کہ ان کا معاملہ ہم پر مشتبہ ہوگیا اور وہ گمان کرنے لگے کہ یہ آیات ان کے بارے میں نازل ہوئی لفظ آیت ” ھو الذی انزل علیک الکتب منہ ایت محکمت ہن ام الکتب واخر متشبھت “ (ترجمہ وہی ہے جس نے تجھ پر کتاب اتاری اس میں بعض آیتیں محکم ہیں وہ کتاب کی اصل ہیں اور دوسری مشابہ ہیں یعنی جن کے معنی معلوم سورة آل عمران کے آتے نہیں) ۔ (28) امام ابن المنذ ابن جریج سے روایت فرماتے ہیں کہ یہود (اپنی کتابوں میں) محمد ﷺ اور ان کی امت کا ذکر پاتے تھے اور یہ نہیں جانتے تھے کہ محمد ﷺ کی امت کی مدت کتنی ہے جب محمد ﷺ کی بعثت ہوئی اور ” الم “ نازل ہوئی تو کہنے لگے کہ ہم جانتے تھے کہ یہ امت بھیجی ہوئی ہے لیکن ہم یہ نہیں جانتے تھے کہ اس کی مدت کتنی ہے اگر محمد ﷺ سچے ہیں تو وہ اس امت کے نبی ہیں اب ہم کو معلوم ہوگیا کہ محمد ﷺ کی مدت کتنی ہے اس لئے کہ ” الم “ ہمارے حساب جمل کے اعتبار سے اکہتر سال نبتی ہے سو ہم ایسے دین کو کیا کریں گے جس کی مدت صرف اکہتر سال ہے۔ پھر جب الر نازل ہوئی اور یہ ان کے حساب جمل سے دو سو اکتیس سال تھی کہنے لگے کہ یہ اب دو سو اکتیس اور اکتر ہوگئے۔ کہا گیا پھر المر نازل ہوا۔ یہ ان کے حساب جمل کے اعتبار سے دو سو اکہتر سال ہوئے اسی طرح سورتوں کے شروع میں حروف مقطعات نازل ہوئے تو کہنے لگے کہ ان کا معاملہ ہم پر مشتبہ ہوگیا ہے۔ (29) امام ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابو العالیہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ یہ تین حروف (یعنی ” الم “ ) انتیس حروف میں سے ہیں تمام زبانیں ان کو استعمال کرتے ہیں نہیں ہے اس میں کوئی حرف مگر وہ چابی ہے اس کے اسماء میں سے ایک اسم کی، اور نہیں ہے اس میں کوئی حرف مگر وہ ایک اور تین آیات میں سے ہے اور نہیں اس میں کوئی حرف مگر وہ ایک اور تین آیات میں سے ہے اور نہیں اس میں کوئی حرف مگر وہ قوم کی مدت اور ان کی عمر کے بارے میں ہے سو الف چابی ہے اس کے نام مجید کی، سو الف سے مراد اللہ کی نعمتیں ہیں اور لام سے اللہ کی مہربانی ہے۔ اور میم سے اللہ کی بزرگی ہے۔ سو الف سے مراد ایک سال لام سے مراد تیس سال اور میم سے مراد چالیس سال ہیں۔ (30) امام ابن المنذر، ابو الشیخ ابن حبان سے اپنی تفسیر میں داؤد بن ابی ھند (رح) سے روایت کیا ہے کہ میں نے حضرت شبعی سے سورتوں کے آغاز کے بارے میں پوچھا انہوں نے فرمایا اے داؤد ہر کتاب کے لیے ایک مخفی چیز ہوتی ہے۔ اور اس قرآن کی مخفی چیز سورتوں کے آغاز ہیں۔ سو تو اس کو چھوڑ دے اور سوال کر اس چیز سے جو تیرے لئے ظاہر ہو (یعنی تیرے لئے مفید ہو) ۔ (31) حضرت ابو نصر السجری نے الابانۃ میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ آخر حرف جو حضرت جبرئیل (علیہ السلام) نے رسول اللہ کو پیش فرمائے وہ یہ تھے (آیت) الۗمّۗ ۝ ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ ٻ فِيْهِ ڔ ھُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ ۝
Top