Tafseer-e-Baghwi - Al-Maaida : 6
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا قُمْتُمْ اِلَى الصَّلٰوةِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْهَكُمْ وَ اَیْدِیَكُمْ اِلَى الْمَرَافِقِ وَ امْسَحُوْا بِرُءُوْسِكُمْ وَ اَرْجُلَكُمْ اِلَى الْكَعْبَیْنِ١ؕ وَ اِنْ كُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوْا١ؕ وَ اِنْ كُنْتُمْ مَّرْضٰۤى اَوْ عَلٰى سَفَرٍ اَوْ جَآءَ اَحَدٌ مِّنْكُمْ مِّنَ الْغَآئِطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِكُمْ وَ اَیْدِیْكُمْ مِّنْهُ١ؕ مَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیَجْعَلَ عَلَیْكُمْ مِّنْ حَرَجٍ وَّ لٰكِنْ یُّرِیْدُ لِیُطَهِّرَكُمْ وَ لِیُتِمَّ نِعْمَتَهٗ عَلَیْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : وہ جو ایمان لائے (ایمان والے) اِذَا : جب قُمْتُمْ : تم اٹھو اِلَى الصَّلٰوةِ : نماز کے لیے فَاغْسِلُوْا : تو دھو لو وُجُوْهَكُمْ : اپنے منہ وَاَيْدِيَكُمْ : اور اپنے ہاتھ اِلَى : تک الْمَرَافِقِ : کہنیاں وَامْسَحُوْا : اور مسح کرو بِرُءُوْسِكُمْ : اپنے سروں کا وَاَرْجُلَكُمْ : اور اپنے پاؤں اِلَى : تک الْكَعْبَيْنِ : ٹخنوں وَاِنْ : اور اگر كُنْتُمْ : تم ہو جُنُبًا : ناپاک فَاطَّهَّرُوْا : تو خوب پاک ہوجاؤ وَاِنْ : اور اگر كُنْتُمْ : تم ہو مَّرْضٰٓى : بیمار اَوْ : یا عَلٰي : پر (میں) سَفَرٍ : سفر اَوْ : اور جَآءَ : آئے اَحَدٌ : کوئی مِّنْكُمْ : تم میں سے مِّنَ الْغَآئِطِ : بیت الخلا سے اَوْ لٰمَسْتُمُ : یا تم ملو (صحبت کی) النِّسَآءَ : عورتوں سے فَلَمْ تَجِدُوْا : پھر نہ پاؤ مَآءً : پانی فَتَيَمَّمُوْا : تو تیمم کرلو صَعِيْدًا : مٹی طَيِّبًا : پاک فَامْسَحُوْا : تو مسح کرو بِوُجُوْهِكُمْ : اپنے منہ وَاَيْدِيْكُمْ : اور اپنے ہاتھ مِّنْهُ : اس سے مَا يُرِيْدُ : نہیں چاہتا اللّٰهُ : اللہ لِيَجْعَلَ : کہ کرے عَلَيْكُمْ : تم پر مِّنْ : کوئی حَرَجٍ : تنگی وَّلٰكِنْ : اور لیکن يُّرِيْدُ : چاہتا ہے لِيُطَهِّرَكُمْ : کہ تمہیں پاک کرے وَلِيُتِمَّ : اور یہ کہ پوری کرے نِعْمَتَهٗ : اپنی نعمت عَلَيْكُمْ : تم پر لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَشْكُرُوْنَ : احسان مانو
مومنو ! جب تم نماز پڑھنے کا قصد کیا کرو تو منہ اور کہنیوں تک ہاتھ دھو لیا کرو۔ اور سر کا مسح کرلیا کرو۔ اور ٹخنوں تک پاؤں (دھولیا کرو) اور اگر نہانے کی حاجت ہو تو (نہاکر) پاک ہوجایا کرو اور اگر بیمار ہو یا سفر میں ہو یا کوئی تم میں سے بیت الخلا سے آیا ہو یا تم عورتوں سے ہمبستر ہوئے ہو، اور تمہیں پانی نہ مل سکے تو پاک مِٹّی لو اور اس منہ اور ہاتھو کا مسح (یعنی تیمم) کرلو۔ خدا تم پر کسی طرح کی تنگی نہیں کرنی چاہتا بلکہ یہ چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کرے اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کرے۔ تاکہ تم شکر کرو۔
آیت نمبر 6 تفسیر : (یایھا الذین امنوا اذا قمتم الی الصلوۃ اے ایمان والو ! جب تم اٹھو نماز کو) یعنی جب تم ارادہ کرو نماز کی طرف کھڑا ہونے کا جیسا کہ دوسری آیت میں ہے جب تو قرآن کی قرأت کا ارادہ کرے تو اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگ اور آیت کا ظاہر تقاضا کرتا ہے کہ جب بھی نماز کے قیام کا ارادہ ہو تو وضو واجب ہے لیکن سنت کے بیان اور نبی کریم ﷺ کے فعل سے یہ بات ہمیں معلوم ہوئی کہ آیت کی مراد یہ ہے کہ جب تم نماز کی طرف کھڑے ہو اور تم پاکی پر نہ ہو تو وضو کرو۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ تم میں سے کسی کی نماز ناپاکی کی حالت میں قبول نہیں کرتے جب تک وہ وضو نہ کرے۔ (البخاری کتاب الحیل، الترمذی کتاب الطہارۃ) اور بیشک نبی کریم ﷺ نے خندق کے دن چار نمازیں ایک ہی وضو سے پڑھیں۔ سلمان بن بریدہ ؓ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فتح مکہ کے دن کئی نمازیں ایک ہی وضو سے ادا کیں اور اپنے موزوں پر مسح کیا اور زید بن اسلم (رح) فرماتے ہیں کہ آیت کا معنی یہ ہے کہ جب تم نیند سے اٹھ کر نماز کی طرف قیام کا ارادہ کرو اور بعض نے فرمایا کہ ” فاغلسوا “ کا امراستحباب کے لیے ہے یعنی کہ جو شخص نماز کا ارادہ کرے تو اگرچہ پہلے سے وضو ہو پھر بھی دوسرا وضو کرنا مستحب ہے۔ ابن عمر ؓ نے روایت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا جس نے پاکی کی حالت میں دوبارہ وضو کیا اللہ تعالیٰ اس کو دس نیکیاں دیں گے۔ ( ابودائود ، ترمذی، ابن ماجہ) اور عبداللہ بن حنظلہ بن عامر نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہر نماز کے وقت وضو کا حکم دیا ہے خواہ پہلے سے پاک ہو یا نہ ہو۔ پھر جب یہ حکم آپ (علیہ السلام) کو گراں معلوم ہوا تو ہر نماز کے لیے مسواک کا حکم دیا۔ (الترمذی کتاب الطہارۃ) اور بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ اس آیت میں حضور ﷺ کو اطلاع دی گئی ہے کہ آپ (علیہ السلام) پر صرف نماز کے لیے وضو لازم ہے دیگر اعمال کے لیے نہیں۔ پس آپ (علیہ السلام) کو یہ اجازت دی کہ حدث کے بعد آپ ﷺ نماز کے علاوہ افعال ادا کرسکتے ہیں۔ سعید بن حویرث (رح) نے ابن عباس ؓ کو یہ فرماتے سنا کہ ہم نبی کریم ﷺ کی خدمت میں تھے تو آپ (علیہ السلام) قضائے حاجت سے تشریف لائے تو آپ (علیہ السلام) کے پاس کھانا لایا گیا تو عرض کیا گیا آپ (علیہ السلام) وضو نہیں کریں گے ؟ تو آپ (علیہ السلام) نے فرمایا میں نماز نہیں پڑھ رہا کہ وضو کروں۔ وضو کے مسائل (فاغسلوا وجو ھکم) (پس تم دھوئو اپنے چہروں کو) اور چہرے کی حد لمبائی میں سر کے بال اگنے کی جگہ سے ٹھوڑی کے نیچے تک اور چوڑائی میں دونوں کانوں کے درمیان ہے اس تمام حصہ کا وضو میں دھونا واجب ہے اور یہ بھی واجب ہے کہ پانی کو بھنوئوں کے نیچے اور پلکوں کے اطراف میں اور مونچھوں و بچہ داڑھی کے نیچے تک پہنچائے۔ اگرچہ وہ گھنی ہو اور داڑھی اگر اتنی گھنی ہو کہ اس کے نیچے کی جلد نہ نظر آتی ہو تو اس کے اندر والے حصہ کا دھونا واجب نہیں ہے بلکہ ظاہر حصہ کا دھونا واجب ہے اور جو بال ٹھوڑی سے نیچے لٹک جاتے ہیں ان کو دھونے کا کیا حکم ہے ؟ اس میں دو قول ہیں۔ ایک یہ کہ ان لٹکے ہوئے بالوں کا دھونا واجب نہیں ہے اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے اس لیے کہ جو بال سر سے لٹکے ہوئے ہوں مسح کے جائز ہونے میں ان کا حکم سر والا نہیں ہے اس لیے صرف ان کا مسح کرنے سے سر کا مسح نہ ہوگا۔ یہی حکم چہرے کی حد سے لٹکے ہوئے بالوں کا ہے کہ ان کو بھی چہرے کا حکم نہ ملے گا اور دوسرا قول یہ ہے کہ ان بالوں کے ظاہر پر پانی بہانا واجب ہے کیونکہ وجہ یعنی چہرہ اس کو کہتے ہیں جس سے آمنا سامنا ہو اور لغت میں بھی جب کسی کی داڑھی نکل آئے تو اس داڑھی پر وجہ کا لفظ بولا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے ” بقل وجہ فلان یاخرج وجھہ “ (وایدیکم الی المرافق) ( اور دھوئو اپنے ہاتھوں کو کہنیوں تک) یعنی کہنیوں کے ساتھ یہاں الی بمعنی مع کے ہے۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا ” ولاتاکلوا موالھم الی اموالکم “ مراد مع اموالکم کے ان کے مال کو اپنے مال کے ساتھ نہ کھائو اور فرمایا ” من انصاری الی اللہ “ یہاں پر الی ” مع “ کے معنی میں ہے۔ کون ہ کے میرا مدد گار اللہ کے ساتھ اور اکثر علما اس بات کی طرف گئے ہیں کہ کہنیوں کا دھونا واجب ہے اور پائوں میں ٹخنوں کا دھونا واجب ہے اور امام شعبی اور محمد بن جریررحمہما اللہ فرماتے ہیں کہ کہنیوں اور ٹخنوں کا دھونا واب نہیں ہے اس لیے کہ الی کا حرف انتہا اور حد بتانے کے لیے آتا ہے تو یہ خود حد میں داخل نہ ہوگا۔ ہم کہتے ہیں کہ حد کے لیے نہیں بلکہ مع کے معنی میں ہے جیسا کہ ہم نے ذکر کردیا اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ شے کی حد جب اس کی جنس سے ہو تو انتہا اس میں داخل ہوگی اور جب حد اس کی جنس سے نہ ہو تو انتہا داخل نہ ہوگی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ” اتموا الصیام الی اللیل “ اب یہاں رات روزے کے وقت میں داخل نہیں ہے کیونکہ یہ دن کی جنس سے نہیں ہیص وامسحوابرئوسکم اور مسح کرو اپنے سروں کا) سر کے مسح کی مقدار کا حکم سر کے مسح میں کتنی مقدار واجب ہے اس میں علماء رحمہما اللہ کا اختلاف ہے۔ امام مالک (رح) فرماتے ہیں مکمل سر کا مسح واجب ہے جیسا کہ تیمم میں تمام چہرے کا مسح واجب ہے۔ اور امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں سر کی چوتھائی کا مسح واجب ہے اور امام شافعی (رح) کے نزدیک سر کی اتنی مقدار کا مسح واجب ہے جس پر مسح کا اطلاق ہوسکے اور جن حضرات نے سر کے بعض حصے کے مسح کو جائز قرار دیا۔ انہوں نے حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ کی حدیث سے استدلال کیا کہ نبی کریم ﷺ نے وضو کیا اور اپنی پیشانی اور عمامہ اور موزوں پر مسح کیا تو بعض اہل علم نے عمامہ پر مسح کو اس حدیث کی وجہ سے جائز قرار دیا ہے اور اسی بات کے قائل ہیں۔ امام اوزاعی، اما احمد و اسحق رحمہما اللہ اور اکثر اہل علم نے سر کے بدلے عمامہ پر مسح کو جائز قرار نہیں دیا اور حدیث مغیرہ ؓ کے جواب میں کہا کہ پیشانی پر مسح کرنے کی وجہ سے حضور ﷺ کا فرض مسح پورا ہوگیا تھا اور اس حدیث میں اس بات پر دلیل ہے کہ مکمل سر کا مسح واجب نہیں ہے (وارجلکم الی الکعبین اور اپنے پائوں کو دھوئو ٹخنوں تک) نافع، ابن عامر، کسائی، یعقوب اور حفص رحمہما اللہ نے ” ارجلکم “ کو لام کی زبر کے ساتھ پڑھا ہے اور باقی حضرات نے لام کی زیر کے ساتھ۔ پھر جن حضرات نے زبر پڑھی ہے تو اس کا عطف ” وجوھکم وایدیکم “ پر ہوگا یعنی ” اغسلوا ارجلکم “ اپنے پائوں کو دھوئوں اور جنہوں نے لام پر زیر پڑھی ہے تو بہت تھوڑے اہل علم اس بات کی طرف گئے ہیں کہ پائوں پر مسلح کرے اور ابن عباس ؓ سے مروی ہ کے کہ وضو میں دونوں چیزیں غسل اور مسح ہے اور یہی بات حضرت عکرمہ و قتادہ رحمہما اللہ سے مروی ہے اور امام شعبی (رح) فرماتے ہیں کہ جبرئیل (علیہ السلام) مسح کا حکم لے کر اترے۔ کیا آپ خود نہیں دیکھتے کہ تیمم کرنے والا جن اعضا کو دھویا جاتا ہے ان کا مسح کرتا ہے اور جن کا مسح کیا جاتا ہے ان کو چھوڑ دیتا ہے اور محمد بن جریر طبری (رح) فرماتے ہیں کہ وضو کرنے والے کو اختیار ہے کہ موزوں پر مسح کرے یا پائوں دھولے اور صحابہ کرام ؓ وتابعین اہل علم کی ایک بڑی جماعت اس بات کی طرف گئی ہے کہ پائوں کا دھونا واجب ہے اور یہ حضرات فرماتے ہیں کہ ” ارجلکم “ کے لام پر زیر ” برئو وسکم “ کے پڑوس کی وجہ سے ہے نہ کہ حکم میں موافقت کی وجہ سے ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” عذاب یوم الیم “ اب الیم عذاب کی صفت ہے لیکن یوم کے پڑوسی ہونے کی وجہ سے اس کا اعراب لے لیا ہے اور اسی طرح اہل عرب کا قول ہے ” جحر ضب خرب “ اب ” خرب جحر “ کی صفت ہے لیکن ضب کا اعراب پڑوس کی وجہ سے لے لیا ہے۔ پائوں کا دھونا واجب ہے اس پر دلیل حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ کی حدیث ہے کہ ہم سے رسول اللہ ﷺ ایک سفر میں پیچھے رہ گئے تو ہمیں اس حالت میں پایا کہ عصر کی نماز کا وقت قریب تھا اور ہم وضو کررہے تھے ، جلدی میں ہم اپنے پائوں کا مسح کرنے لگے تو حضور ﷺ نے بلند آواز سے ہمیں پکارا ” ہلاکت ہے پائوں کی ایڑیوں کے لیے آگ سے “ حضرت عثمان ؓ کے آزاد کردہ غلام حمران سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عثمان ؓ کو دیکھا کہ وضو کررہے ہیں تو اپنے ہاتھوں پر تین بار پانی ڈالا، پھر کلی کی اور ناک میں پانی چڑھایا۔ پھر تین بار چہرہ دھویا پھر اپنا دایاں ہاتھ کہنی سمیت تین بار دھویا، پھر اپنا بایاں ہاتھ کہنی تک تین بار دھویا، پھر اپنے سر کا مسح کیا پھر اپنے دائیں پائوں کو تین بار دھویا۔ پھر فرمایا میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ میرے وضو کی طرح وضو کیا۔ پھر ارشاد فرمایا جس نے میرے وضو کی طرح وضو کیا پھر دو روکعتیں اس طرح پڑھیں کہ اپنے آپ سے ان میں کوئی بات نہ کی تو اس کے پچھلے گناہ معاف ہوجائیں گے اور بعض حضرات فرماتے ہیں کہ ” ارجلکم “ سے مراد موزوں پر مسح کرنا ہے۔ جیسا کہ مروی ہے کہ بیشک نبی کریم ﷺ جب رکوع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں پر رکھتے اور یہ مراد نہیں ہے کہ ان ہاتھوں اور گھٹنوں کے درمیان کوئی چیز حائل نہیں ہوتی تھی۔ جیسا کہ کوئی کہے فلاں نے امیر کے سر اور ہاتھ کو بوسہ دیا تو اگرچہ اس کے سر پر پگڑی ہو اور ہاتھ پر آستیں ہو لیکن کہا جاتا ہ کے کہ سر اور ہاتھ کو بوسہ دیا اسی طرح پائوں پر مسح کو موزوں پر مسح سے تعبیر کیا گیا ہے۔ عرو بن مغیرہ ؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں ایک رات نبی کریم ﷺ کے ساتھ سفر میں تھا۔ آپ (علیہ السلام) نے پوچھا کیا تمہارے پاس پانی ہے ؟ میں نے عرض کیا جی، تو آپ (علیہ السلام) اپنی سواری سے اتر آئے اور ایک طرف چل پڑے اور رات کی تاریکی میں مجھ سے چھپ گئے ، پھر تشریف لائے تو میں نے برتن سے آپ (علیہ السلام) پر پانی ڈالا، آپ (علیہ السلام) نے اپنا چہرہ اور ہاتھ دھوئے ، آپ (علیہ السلام) پر اون کا ایک جبہ تھا تو آپ (علیہ السلام) اس کی آستین سے بازو نہ نکال سکے تو جبہ کے نیچے سے بازو نکال کر دھوئے۔ پھر سر کا مسح کیا پھر میں جھکا تاکہ آپ (علیہ السلام) کے موزے اتار لوں تو آپ (علیہ السلام) نے فرمایا ان کو چھوڑ دو میں نے ان میں پائوں پاکی کی حالت میں داخل کیے تھے۔ پھر آپ (علیہ السلام) نے ان پر مسح کیا۔ ” الی الکعبین “ (ٹخنوں تک) کعبان وہ ہڈیاں ہیں جو پائوں کی جانب سے ابھری ہوئی ہوتی ہیں۔ ان دو ہڈیوں میں پائوں اور پنڈلی کا جوڑ جمع ہوتا ہے۔ ان کا دھونا پائوں کے ساتھ واجب ہے۔ جیسا کہ ہم نے کہنیوں میں ذکر کیا اور وضو کے فرائض تین اعضاء کو دھونا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ذکر کیا اور سر کا مسح کرنا ہے۔ نیت کے واجب ہونے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ اکثر اہل علم نیت کے واجب ہونے کی طرف گئے ہیں اس لیے کہ وضو ایک عبادت ہے تو تمام عبادات کی طرح نیت کی ضرورت ہے اور بعض اہل علم اس طرف گئے ہیں کہ وضو میں نیت واجب نہیں ہے اور یہی ثوری (رح) کا قول ہے اور علماء کا وضو کی ترتیب کے وجوب میں بھی اختلاف ہے اور وہ ترتیب یہ ہے کہ وضو کے اعضاء کو پے درپے اس ترتیب سے دھوئے جس سے اللہ تعالیٰ نے ذکر کیا ہے۔ ایک جماعت اس کے جواب ہونے کی قائل ہے اور یہی امام مالک ، امام شافعی، امام احمد و اسحاق رحمہما اللہ کا قول ہے اور یہی بات حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے۔ اور امام شافعی (رح) نے اللہ تعالیٰ کے فرمان ” ان الصفا والمروۃ من شعائر اللہ “ سے استدلال کیا ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ نے سعی کی ابتداء صفا سے کی اور فرمایا ہم اس سے ابتداء کرتے ہیں جس کی اللہ تعالیٰ نے تذکرہ میں ابتداء کی اور ایک جماعت اس بات کی طرف گئی ہے کہ ترتیب وضو میں سنت ہے اور یہ حضرات فرماتے ہیں کہ آیت میں جو حرف وائوذکر کیے گئے ہیں یہ جمع کے لیے ہیں ترتیب کے لیے نہیں جیسا کہ دوسری آیت ” انما الصدقات للفقراء والمساکین الآیۃ “ میں وائو جمع کے لیے ہے اور اس بات پر تمام علماء متفق ہیں کہ صدقہ کے حق داروں میں صدقات خرچ کرنے کے لیے ترتیب کی رعایت واجب نہیں ہے اور جس نے وجوب کا قول کیا ہے انہوں نے جواب دیا ہے کہ نبی کریم ﷺ سے منقول نہیں ہے کہ آپ (علیہ السلام) نے کبھی بھی صدقات کی تقسیم میں ترتیب کی رعایت کی ہو لیکن وضو کی روایت میں یہ منقول نہیں کہ آپ (علیہ السلام) نے کبھی بغیر ترتیب کے وضو کیا ہو اور کتاب اللہ کا بیان اور وضاحت سنت سے لی جاتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ” یا یھا الذین امنوا ارکعوا واسجدوا “ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے رکوع کے ذکر کو سجدہ پر مقدم کیا ہے اور نبی کریم ﷺ سے یہ منقول نہیں کہ آپ (علیہ السلام) نے اس ترتیب کے علاوہ کبھی نماز پڑھی ہو تو ترتیب کی رعایت جس طرح نماز میں واجب ہے اسی طرح وضو میں بھی واجب ہے۔ ( وان کنتم جنبا فاطھروا اور اگر تم جنبی ہو تو خوب طرح پاک ہو) یعنی غسل کرلو۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ جب جنابت کے غسل کی ابتداء کرتے تو اپنے ہاتھوں دھوتے پھر وضو کرتے۔ جیسا کہ نماز کے لیے وضو کرتے تھے۔ پھر اپنی انگلیوں کو پانی میں داخل کرتے۔ پھر ان کے ذریعے اپنے بالوں کی جڑوں کا خلال کرتے ، پھر اپنے سر پر اپنے ہاتھوں سے تین دفعہ پانی بہاتے پھر اپنے تمام جسم پر پانی بہاتے۔ (وان کنتم مرضیٰ…وایدیکم منہ) اس آیت میں اس بات پر دلیل ہے کہ چہرے اور دونوں ہاتھوں کو پاک مٹی ملنا واجب ہے۔ ( مایرید اللہ لیجعل علیکم اللہ تعالیٰ نہیں چاہتے کہ تم پر) وضو، غسل اور تیمم کے فرض کرنے میں (من حرج یہاں سے مراد تنگی ہے۔ ولکن یرد لیطھرکم لیکن وہ چاہتا ہے کہ تم کو پاک کرے) حدث، جنابت اور گناہوں سے (ولیتم نعمتہ علیکم لعلکم تشکرون اور پورا کرے اپنا احسان تم پر تاکہ تم احسان مانو) محمد بن کعب قرظی (رح) فرماتے ہیں نعمت کو پورا کرنا یہ ہے کہ وضو کے ساتھ گناہوں کو معاف کردے۔ جیسا کہ ارشاد باری ہے ” لیغفرلک اللہ ماتقدم من ذنبک وما تاخر “ تاکہ اللہ بخش دے آپ کے اگلے پچھلے گناہوں کو تو اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی مکمل نعمت گناہ معاف کرنے کو قرار دیا ہے۔ حمران (رح) سے مروی ہے کہ حضرت عثمان ؓ نے وضو کیا۔ تین تین مرتبہ تمام اعضاء کو دھویا۔ پھر فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس نے میرے اس وضو کی طرح وضو کیا اس کے گناہ اس کے چہرے اور دونوں ہاتھوں اور پائوں سے نکل جائیں گے۔ حضرت عثمان ؓ کے غلام حمران سے مروی ہے کہ حضرت عثمان بن عفان ؓ مقاعد جگہ پر ایک دن بیٹھے تھے تو آپ ؓ کے پاس موذن آیا اور عصر کی نماز کی اطلاع دی۔ آپ ؓ نے پانی منگوایا اور وضو کیا۔ پھر فرمایا اللہ کی قسم میں تمہیں ایک حدیث بیان کرتا ہوں، اگر قرآن مجید کی ایک آیت نہ ہوتی تو میں وہ حدیث تمہیں کبھی بیان نہ کرتا۔ پھر فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے سنا کہ جو مسلمان اچھے طریقے سے وضو کرے پھر نماز پڑھے تو اس کے اس نماز سے دوسری نماز تک کے گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ دوسری نماز پڑھ لیتا ہے۔ امام مالک (رح) فرماتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ حضرت عثمان ؓ نے آیت ” اقم الصلوٰۃ لذکری “ کی طرف اشارہ کیا ہے اور اسی بات کو ابن شہاب (رح) نے روایت کیا ہے اور حضرت عروہ (رح) فرماتے ہیں کہ وہ آیت ” ان الذین یکتمون ماانزلنا من البینات “ ہے۔ نعیم المجمر سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابوہریرہ ؓ کے ساتھ مسجد کی چھت پر چڑھا۔ آپ ؓ نے وضو کیا پھر کہا میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ (علیہ السلام) نے فرمایا میری امت قیامت کے دن اس حال میں پکاری جائے گی کہ ان کی پیشانی اور وضو کے اعضاء خوب روشن ہوں گے وضو کی وجہ سے۔ پس جو شخص تم میں سے اپنی روشنی کو لمبا کرنا چاہے تو ضرور کرے۔
Top