Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Baghwi - Al-Maaida : 6
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا قُمْتُمْ اِلَى الصَّلٰوةِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْهَكُمْ وَ اَیْدِیَكُمْ اِلَى الْمَرَافِقِ وَ امْسَحُوْا بِرُءُوْسِكُمْ وَ اَرْجُلَكُمْ اِلَى الْكَعْبَیْنِ١ؕ وَ اِنْ كُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوْا١ؕ وَ اِنْ كُنْتُمْ مَّرْضٰۤى اَوْ عَلٰى سَفَرٍ اَوْ جَآءَ اَحَدٌ مِّنْكُمْ مِّنَ الْغَآئِطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِكُمْ وَ اَیْدِیْكُمْ مِّنْهُ١ؕ مَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیَجْعَلَ عَلَیْكُمْ مِّنْ حَرَجٍ وَّ لٰكِنْ یُّرِیْدُ لِیُطَهِّرَكُمْ وَ لِیُتِمَّ نِعْمَتَهٗ عَلَیْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا
: اے
الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا
: وہ جو ایمان لائے (ایمان والے)
اِذَا
: جب
قُمْتُمْ
: تم اٹھو
اِلَى الصَّلٰوةِ
: نماز کے لیے
فَاغْسِلُوْا
: تو دھو لو
وُجُوْهَكُمْ
: اپنے منہ
وَاَيْدِيَكُمْ
: اور اپنے ہاتھ
اِلَى
: تک
الْمَرَافِقِ
: کہنیاں
وَامْسَحُوْا
: اور مسح کرو
بِرُءُوْسِكُمْ
: اپنے سروں کا
وَاَرْجُلَكُمْ
: اور اپنے پاؤں
اِلَى
: تک
الْكَعْبَيْنِ
: ٹخنوں
وَاِنْ
: اور اگر
كُنْتُمْ
: تم ہو
جُنُبًا
: ناپاک
فَاطَّهَّرُوْا
: تو خوب پاک ہوجاؤ
وَاِنْ
: اور اگر
كُنْتُمْ
: تم ہو
مَّرْضٰٓى
: بیمار
اَوْ
: یا
عَلٰي
: پر (میں)
سَفَرٍ
: سفر
اَوْ
: اور
جَآءَ
: آئے
اَحَدٌ
: کوئی
مِّنْكُمْ
: تم میں سے
مِّنَ الْغَآئِطِ
: بیت الخلا سے
اَوْ لٰمَسْتُمُ
: یا تم ملو (صحبت کی)
النِّسَآءَ
: عورتوں سے
فَلَمْ تَجِدُوْا
: پھر نہ پاؤ
مَآءً
: پانی
فَتَيَمَّمُوْا
: تو تیمم کرلو
صَعِيْدًا
: مٹی
طَيِّبًا
: پاک
فَامْسَحُوْا
: تو مسح کرو
بِوُجُوْهِكُمْ
: اپنے منہ
وَاَيْدِيْكُمْ
: اور اپنے ہاتھ
مِّنْهُ
: اس سے
مَا يُرِيْدُ
: نہیں چاہتا
اللّٰهُ
: اللہ
لِيَجْعَلَ
: کہ کرے
عَلَيْكُمْ
: تم پر
مِّنْ
: کوئی
حَرَجٍ
: تنگی
وَّلٰكِنْ
: اور لیکن
يُّرِيْدُ
: چاہتا ہے
لِيُطَهِّرَكُمْ
: کہ تمہیں پاک کرے
وَلِيُتِمَّ
: اور یہ کہ پوری کرے
نِعْمَتَهٗ
: اپنی نعمت
عَلَيْكُمْ
: تم پر
لَعَلَّكُمْ
: تاکہ تم
تَشْكُرُوْنَ
: احسان مانو
مومنو ! جب تم نماز پڑھنے کا قصد کیا کرو تو منہ اور کہنیوں تک ہاتھ دھو لیا کرو۔ اور سر کا مسح کرلیا کرو۔ اور ٹخنوں تک پاؤں (دھولیا کرو) اور اگر نہانے کی حاجت ہو تو (نہاکر) پاک ہوجایا کرو اور اگر بیمار ہو یا سفر میں ہو یا کوئی تم میں سے بیت الخلا سے آیا ہو یا تم عورتوں سے ہمبستر ہوئے ہو، اور تمہیں پانی نہ مل سکے تو پاک مِٹّی لو اور اس منہ اور ہاتھو کا مسح (یعنی تیمم) کرلو۔ خدا تم پر کسی طرح کی تنگی نہیں کرنی چاہتا بلکہ یہ چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کرے اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کرے۔ تاکہ تم شکر کرو۔
آیت نمبر 6 تفسیر : (یایھا الذین امنوا اذا قمتم الی الصلوۃ اے ایمان والو ! جب تم اٹھو نماز کو) یعنی جب تم ارادہ کرو نماز کی طرف کھڑا ہونے کا جیسا کہ دوسری آیت میں ہے جب تو قرآن کی قرأت کا ارادہ کرے تو اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگ اور آیت کا ظاہر تقاضا کرتا ہے کہ جب بھی نماز کے قیام کا ارادہ ہو تو وضو واجب ہے لیکن سنت کے بیان اور نبی کریم ﷺ کے فعل سے یہ بات ہمیں معلوم ہوئی کہ آیت کی مراد یہ ہے کہ جب تم نماز کی طرف کھڑے ہو اور تم پاکی پر نہ ہو تو وضو کرو۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ تم میں سے کسی کی نماز ناپاکی کی حالت میں قبول نہیں کرتے جب تک وہ وضو نہ کرے۔ (البخاری کتاب الحیل، الترمذی کتاب الطہارۃ) اور بیشک نبی کریم ﷺ نے خندق کے دن چار نمازیں ایک ہی وضو سے پڑھیں۔ سلمان بن بریدہ ؓ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فتح مکہ کے دن کئی نمازیں ایک ہی وضو سے ادا کیں اور اپنے موزوں پر مسح کیا اور زید بن اسلم (رح) فرماتے ہیں کہ آیت کا معنی یہ ہے کہ جب تم نیند سے اٹھ کر نماز کی طرف قیام کا ارادہ کرو اور بعض نے فرمایا کہ ” فاغلسوا “ کا امراستحباب کے لیے ہے یعنی کہ جو شخص نماز کا ارادہ کرے تو اگرچہ پہلے سے وضو ہو پھر بھی دوسرا وضو کرنا مستحب ہے۔ ابن عمر ؓ نے روایت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا جس نے پاکی کی حالت میں دوبارہ وضو کیا اللہ تعالیٰ اس کو دس نیکیاں دیں گے۔ ( ابودائود ، ترمذی، ابن ماجہ) اور عبداللہ بن حنظلہ بن عامر نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہر نماز کے وقت وضو کا حکم دیا ہے خواہ پہلے سے پاک ہو یا نہ ہو۔ پھر جب یہ حکم آپ (علیہ السلام) کو گراں معلوم ہوا تو ہر نماز کے لیے مسواک کا حکم دیا۔ (الترمذی کتاب الطہارۃ) اور بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ اس آیت میں حضور ﷺ کو اطلاع دی گئی ہے کہ آپ (علیہ السلام) پر صرف نماز کے لیے وضو لازم ہے دیگر اعمال کے لیے نہیں۔ پس آپ (علیہ السلام) کو یہ اجازت دی کہ حدث کے بعد آپ ﷺ نماز کے علاوہ افعال ادا کرسکتے ہیں۔ سعید بن حویرث (رح) نے ابن عباس ؓ کو یہ فرماتے سنا کہ ہم نبی کریم ﷺ کی خدمت میں تھے تو آپ (علیہ السلام) قضائے حاجت سے تشریف لائے تو آپ (علیہ السلام) کے پاس کھانا لایا گیا تو عرض کیا گیا آپ (علیہ السلام) وضو نہیں کریں گے ؟ تو آپ (علیہ السلام) نے فرمایا میں نماز نہیں پڑھ رہا کہ وضو کروں۔ وضو کے مسائل (فاغسلوا وجو ھکم) (پس تم دھوئو اپنے چہروں کو) اور چہرے کی حد لمبائی میں سر کے بال اگنے کی جگہ سے ٹھوڑی کے نیچے تک اور چوڑائی میں دونوں کانوں کے درمیان ہے اس تمام حصہ کا وضو میں دھونا واجب ہے اور یہ بھی واجب ہے کہ پانی کو بھنوئوں کے نیچے اور پلکوں کے اطراف میں اور مونچھوں و بچہ داڑھی کے نیچے تک پہنچائے۔ اگرچہ وہ گھنی ہو اور داڑھی اگر اتنی گھنی ہو کہ اس کے نیچے کی جلد نہ نظر آتی ہو تو اس کے اندر والے حصہ کا دھونا واجب نہیں ہے بلکہ ظاہر حصہ کا دھونا واجب ہے اور جو بال ٹھوڑی سے نیچے لٹک جاتے ہیں ان کو دھونے کا کیا حکم ہے ؟ اس میں دو قول ہیں۔ ایک یہ کہ ان لٹکے ہوئے بالوں کا دھونا واجب نہیں ہے اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے اس لیے کہ جو بال سر سے لٹکے ہوئے ہوں مسح کے جائز ہونے میں ان کا حکم سر والا نہیں ہے اس لیے صرف ان کا مسح کرنے سے سر کا مسح نہ ہوگا۔ یہی حکم چہرے کی حد سے لٹکے ہوئے بالوں کا ہے کہ ان کو بھی چہرے کا حکم نہ ملے گا اور دوسرا قول یہ ہے کہ ان بالوں کے ظاہر پر پانی بہانا واجب ہے کیونکہ وجہ یعنی چہرہ اس کو کہتے ہیں جس سے آمنا سامنا ہو اور لغت میں بھی جب کسی کی داڑھی نکل آئے تو اس داڑھی پر وجہ کا لفظ بولا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے ” بقل وجہ فلان یاخرج وجھہ “ (وایدیکم الی المرافق) ( اور دھوئو اپنے ہاتھوں کو کہنیوں تک) یعنی کہنیوں کے ساتھ یہاں الی بمعنی مع کے ہے۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا ” ولاتاکلوا موالھم الی اموالکم “ مراد مع اموالکم کے ان کے مال کو اپنے مال کے ساتھ نہ کھائو اور فرمایا ” من انصاری الی اللہ “ یہاں پر الی ” مع “ کے معنی میں ہے۔ کون ہ کے میرا مدد گار اللہ کے ساتھ اور اکثر علما اس بات کی طرف گئے ہیں کہ کہنیوں کا دھونا واجب ہے اور پائوں میں ٹخنوں کا دھونا واجب ہے اور امام شعبی اور محمد بن جریررحمہما اللہ فرماتے ہیں کہ کہنیوں اور ٹخنوں کا دھونا واب نہیں ہے اس لیے کہ الی کا حرف انتہا اور حد بتانے کے لیے آتا ہے تو یہ خود حد میں داخل نہ ہوگا۔ ہم کہتے ہیں کہ حد کے لیے نہیں بلکہ مع کے معنی میں ہے جیسا کہ ہم نے ذکر کردیا اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ شے کی حد جب اس کی جنس سے ہو تو انتہا اس میں داخل ہوگی اور جب حد اس کی جنس سے نہ ہو تو انتہا داخل نہ ہوگی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ” اتموا الصیام الی اللیل “ اب یہاں رات روزے کے وقت میں داخل نہیں ہے کیونکہ یہ دن کی جنس سے نہیں ہیص وامسحوابرئوسکم اور مسح کرو اپنے سروں کا) سر کے مسح کی مقدار کا حکم سر کے مسح میں کتنی مقدار واجب ہے اس میں علماء رحمہما اللہ کا اختلاف ہے۔ امام مالک (رح) فرماتے ہیں مکمل سر کا مسح واجب ہے جیسا کہ تیمم میں تمام چہرے کا مسح واجب ہے۔ اور امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں سر کی چوتھائی کا مسح واجب ہے اور امام شافعی (رح) کے نزدیک سر کی اتنی مقدار کا مسح واجب ہے جس پر مسح کا اطلاق ہوسکے اور جن حضرات نے سر کے بعض حصے کے مسح کو جائز قرار دیا۔ انہوں نے حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ کی حدیث سے استدلال کیا کہ نبی کریم ﷺ نے وضو کیا اور اپنی پیشانی اور عمامہ اور موزوں پر مسح کیا تو بعض اہل علم نے عمامہ پر مسح کو اس حدیث کی وجہ سے جائز قرار دیا ہے اور اسی بات کے قائل ہیں۔ امام اوزاعی، اما احمد و اسحق رحمہما اللہ اور اکثر اہل علم نے سر کے بدلے عمامہ پر مسح کو جائز قرار نہیں دیا اور حدیث مغیرہ ؓ کے جواب میں کہا کہ پیشانی پر مسح کرنے کی وجہ سے حضور ﷺ کا فرض مسح پورا ہوگیا تھا اور اس حدیث میں اس بات پر دلیل ہے کہ مکمل سر کا مسح واجب نہیں ہے (وارجلکم الی الکعبین اور اپنے پائوں کو دھوئو ٹخنوں تک) نافع، ابن عامر، کسائی، یعقوب اور حفص رحمہما اللہ نے ” ارجلکم “ کو لام کی زبر کے ساتھ پڑھا ہے اور باقی حضرات نے لام کی زیر کے ساتھ۔ پھر جن حضرات نے زبر پڑھی ہے تو اس کا عطف ” وجوھکم وایدیکم “ پر ہوگا یعنی ” اغسلوا ارجلکم “ اپنے پائوں کو دھوئوں اور جنہوں نے لام پر زیر پڑھی ہے تو بہت تھوڑے اہل علم اس بات کی طرف گئے ہیں کہ پائوں پر مسلح کرے اور ابن عباس ؓ سے مروی ہ کے کہ وضو میں دونوں چیزیں غسل اور مسح ہے اور یہی بات حضرت عکرمہ و قتادہ رحمہما اللہ سے مروی ہے اور امام شعبی (رح) فرماتے ہیں کہ جبرئیل (علیہ السلام) مسح کا حکم لے کر اترے۔ کیا آپ خود نہیں دیکھتے کہ تیمم کرنے والا جن اعضا کو دھویا جاتا ہے ان کا مسح کرتا ہے اور جن کا مسح کیا جاتا ہے ان کو چھوڑ دیتا ہے اور محمد بن جریر طبری (رح) فرماتے ہیں کہ وضو کرنے والے کو اختیار ہے کہ موزوں پر مسح کرے یا پائوں دھولے اور صحابہ کرام ؓ وتابعین اہل علم کی ایک بڑی جماعت اس بات کی طرف گئی ہے کہ پائوں کا دھونا واجب ہے اور یہ حضرات فرماتے ہیں کہ ” ارجلکم “ کے لام پر زیر ” برئو وسکم “ کے پڑوس کی وجہ سے ہے نہ کہ حکم میں موافقت کی وجہ سے ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” عذاب یوم الیم “ اب الیم عذاب کی صفت ہے لیکن یوم کے پڑوسی ہونے کی وجہ سے اس کا اعراب لے لیا ہے اور اسی طرح اہل عرب کا قول ہے ” جحر ضب خرب “ اب ” خرب جحر “ کی صفت ہے لیکن ضب کا اعراب پڑوس کی وجہ سے لے لیا ہے۔ پائوں کا دھونا واجب ہے اس پر دلیل حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ کی حدیث ہے کہ ہم سے رسول اللہ ﷺ ایک سفر میں پیچھے رہ گئے تو ہمیں اس حالت میں پایا کہ عصر کی نماز کا وقت قریب تھا اور ہم وضو کررہے تھے ، جلدی میں ہم اپنے پائوں کا مسح کرنے لگے تو حضور ﷺ نے بلند آواز سے ہمیں پکارا ” ہلاکت ہے پائوں کی ایڑیوں کے لیے آگ سے “ حضرت عثمان ؓ کے آزاد کردہ غلام حمران سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عثمان ؓ کو دیکھا کہ وضو کررہے ہیں تو اپنے ہاتھوں پر تین بار پانی ڈالا، پھر کلی کی اور ناک میں پانی چڑھایا۔ پھر تین بار چہرہ دھویا پھر اپنا دایاں ہاتھ کہنی سمیت تین بار دھویا، پھر اپنا بایاں ہاتھ کہنی تک تین بار دھویا، پھر اپنے سر کا مسح کیا پھر اپنے دائیں پائوں کو تین بار دھویا۔ پھر فرمایا میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ میرے وضو کی طرح وضو کیا۔ پھر ارشاد فرمایا جس نے میرے وضو کی طرح وضو کیا پھر دو روکعتیں اس طرح پڑھیں کہ اپنے آپ سے ان میں کوئی بات نہ کی تو اس کے پچھلے گناہ معاف ہوجائیں گے اور بعض حضرات فرماتے ہیں کہ ” ارجلکم “ سے مراد موزوں پر مسح کرنا ہے۔ جیسا کہ مروی ہے کہ بیشک نبی کریم ﷺ جب رکوع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں پر رکھتے اور یہ مراد نہیں ہے کہ ان ہاتھوں اور گھٹنوں کے درمیان کوئی چیز حائل نہیں ہوتی تھی۔ جیسا کہ کوئی کہے فلاں نے امیر کے سر اور ہاتھ کو بوسہ دیا تو اگرچہ اس کے سر پر پگڑی ہو اور ہاتھ پر آستیں ہو لیکن کہا جاتا ہ کے کہ سر اور ہاتھ کو بوسہ دیا اسی طرح پائوں پر مسح کو موزوں پر مسح سے تعبیر کیا گیا ہے۔ عرو بن مغیرہ ؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں ایک رات نبی کریم ﷺ کے ساتھ سفر میں تھا۔ آپ (علیہ السلام) نے پوچھا کیا تمہارے پاس پانی ہے ؟ میں نے عرض کیا جی، تو آپ (علیہ السلام) اپنی سواری سے اتر آئے اور ایک طرف چل پڑے اور رات کی تاریکی میں مجھ سے چھپ گئے ، پھر تشریف لائے تو میں نے برتن سے آپ (علیہ السلام) پر پانی ڈالا، آپ (علیہ السلام) نے اپنا چہرہ اور ہاتھ دھوئے ، آپ (علیہ السلام) پر اون کا ایک جبہ تھا تو آپ (علیہ السلام) اس کی آستین سے بازو نہ نکال سکے تو جبہ کے نیچے سے بازو نکال کر دھوئے۔ پھر سر کا مسح کیا پھر میں جھکا تاکہ آپ (علیہ السلام) کے موزے اتار لوں تو آپ (علیہ السلام) نے فرمایا ان کو چھوڑ دو میں نے ان میں پائوں پاکی کی حالت میں داخل کیے تھے۔ پھر آپ (علیہ السلام) نے ان پر مسح کیا۔ ” الی الکعبین “ (ٹخنوں تک) کعبان وہ ہڈیاں ہیں جو پائوں کی جانب سے ابھری ہوئی ہوتی ہیں۔ ان دو ہڈیوں میں پائوں اور پنڈلی کا جوڑ جمع ہوتا ہے۔ ان کا دھونا پائوں کے ساتھ واجب ہے۔ جیسا کہ ہم نے کہنیوں میں ذکر کیا اور وضو کے فرائض تین اعضاء کو دھونا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ذکر کیا اور سر کا مسح کرنا ہے۔ نیت کے واجب ہونے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ اکثر اہل علم نیت کے واجب ہونے کی طرف گئے ہیں اس لیے کہ وضو ایک عبادت ہے تو تمام عبادات کی طرح نیت کی ضرورت ہے اور بعض اہل علم اس طرف گئے ہیں کہ وضو میں نیت واجب نہیں ہے اور یہی ثوری (رح) کا قول ہے اور علماء کا وضو کی ترتیب کے وجوب میں بھی اختلاف ہے اور وہ ترتیب یہ ہے کہ وضو کے اعضاء کو پے درپے اس ترتیب سے دھوئے جس سے اللہ تعالیٰ نے ذکر کیا ہے۔ ایک جماعت اس کے جواب ہونے کی قائل ہے اور یہی امام مالک ، امام شافعی، امام احمد و اسحاق رحمہما اللہ کا قول ہے اور یہی بات حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے۔ اور امام شافعی (رح) نے اللہ تعالیٰ کے فرمان ” ان الصفا والمروۃ من شعائر اللہ “ سے استدلال کیا ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ نے سعی کی ابتداء صفا سے کی اور فرمایا ہم اس سے ابتداء کرتے ہیں جس کی اللہ تعالیٰ نے تذکرہ میں ابتداء کی اور ایک جماعت اس بات کی طرف گئی ہے کہ ترتیب وضو میں سنت ہے اور یہ حضرات فرماتے ہیں کہ آیت میں جو حرف وائوذکر کیے گئے ہیں یہ جمع کے لیے ہیں ترتیب کے لیے نہیں جیسا کہ دوسری آیت ” انما الصدقات للفقراء والمساکین الآیۃ “ میں وائو جمع کے لیے ہے اور اس بات پر تمام علماء متفق ہیں کہ صدقہ کے حق داروں میں صدقات خرچ کرنے کے لیے ترتیب کی رعایت واجب نہیں ہے اور جس نے وجوب کا قول کیا ہے انہوں نے جواب دیا ہے کہ نبی کریم ﷺ سے منقول نہیں ہے کہ آپ (علیہ السلام) نے کبھی بھی صدقات کی تقسیم میں ترتیب کی رعایت کی ہو لیکن وضو کی روایت میں یہ منقول نہیں کہ آپ (علیہ السلام) نے کبھی بغیر ترتیب کے وضو کیا ہو اور کتاب اللہ کا بیان اور وضاحت سنت سے لی جاتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ” یا یھا الذین امنوا ارکعوا واسجدوا “ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے رکوع کے ذکر کو سجدہ پر مقدم کیا ہے اور نبی کریم ﷺ سے یہ منقول نہیں کہ آپ (علیہ السلام) نے اس ترتیب کے علاوہ کبھی نماز پڑھی ہو تو ترتیب کی رعایت جس طرح نماز میں واجب ہے اسی طرح وضو میں بھی واجب ہے۔ ( وان کنتم جنبا فاطھروا اور اگر تم جنبی ہو تو خوب طرح پاک ہو) یعنی غسل کرلو۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ جب جنابت کے غسل کی ابتداء کرتے تو اپنے ہاتھوں دھوتے پھر وضو کرتے۔ جیسا کہ نماز کے لیے وضو کرتے تھے۔ پھر اپنی انگلیوں کو پانی میں داخل کرتے۔ پھر ان کے ذریعے اپنے بالوں کی جڑوں کا خلال کرتے ، پھر اپنے سر پر اپنے ہاتھوں سے تین دفعہ پانی بہاتے پھر اپنے تمام جسم پر پانی بہاتے۔ (وان کنتم مرضیٰ…وایدیکم منہ) اس آیت میں اس بات پر دلیل ہے کہ چہرے اور دونوں ہاتھوں کو پاک مٹی ملنا واجب ہے۔ ( مایرید اللہ لیجعل علیکم اللہ تعالیٰ نہیں چاہتے کہ تم پر) وضو، غسل اور تیمم کے فرض کرنے میں (من حرج یہاں سے مراد تنگی ہے۔ ولکن یرد لیطھرکم لیکن وہ چاہتا ہے کہ تم کو پاک کرے) حدث، جنابت اور گناہوں سے (ولیتم نعمتہ علیکم لعلکم تشکرون اور پورا کرے اپنا احسان تم پر تاکہ تم احسان مانو) محمد بن کعب قرظی (رح) فرماتے ہیں نعمت کو پورا کرنا یہ ہے کہ وضو کے ساتھ گناہوں کو معاف کردے۔ جیسا کہ ارشاد باری ہے ” لیغفرلک اللہ ماتقدم من ذنبک وما تاخر “ تاکہ اللہ بخش دے آپ کے اگلے پچھلے گناہوں کو تو اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی مکمل نعمت گناہ معاف کرنے کو قرار دیا ہے۔ حمران (رح) سے مروی ہے کہ حضرت عثمان ؓ نے وضو کیا۔ تین تین مرتبہ تمام اعضاء کو دھویا۔ پھر فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس نے میرے اس وضو کی طرح وضو کیا اس کے گناہ اس کے چہرے اور دونوں ہاتھوں اور پائوں سے نکل جائیں گے۔ حضرت عثمان ؓ کے غلام حمران سے مروی ہے کہ حضرت عثمان بن عفان ؓ مقاعد جگہ پر ایک دن بیٹھے تھے تو آپ ؓ کے پاس موذن آیا اور عصر کی نماز کی اطلاع دی۔ آپ ؓ نے پانی منگوایا اور وضو کیا۔ پھر فرمایا اللہ کی قسم میں تمہیں ایک حدیث بیان کرتا ہوں، اگر قرآن مجید کی ایک آیت نہ ہوتی تو میں وہ حدیث تمہیں کبھی بیان نہ کرتا۔ پھر فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے سنا کہ جو مسلمان اچھے طریقے سے وضو کرے پھر نماز پڑھے تو اس کے اس نماز سے دوسری نماز تک کے گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ دوسری نماز پڑھ لیتا ہے۔ امام مالک (رح) فرماتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ حضرت عثمان ؓ نے آیت ” اقم الصلوٰۃ لذکری “ کی طرف اشارہ کیا ہے اور اسی بات کو ابن شہاب (رح) نے روایت کیا ہے اور حضرت عروہ (رح) فرماتے ہیں کہ وہ آیت ” ان الذین یکتمون ماانزلنا من البینات “ ہے۔ نعیم المجمر سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابوہریرہ ؓ کے ساتھ مسجد کی چھت پر چڑھا۔ آپ ؓ نے وضو کیا پھر کہا میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ (علیہ السلام) نے فرمایا میری امت قیامت کے دن اس حال میں پکاری جائے گی کہ ان کی پیشانی اور وضو کے اعضاء خوب روشن ہوں گے وضو کی وجہ سے۔ پس جو شخص تم میں سے اپنی روشنی کو لمبا کرنا چاہے تو ضرور کرے۔
Top