Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Al-Maaida : 6
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا قُمْتُمْ اِلَى الصَّلٰوةِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْهَكُمْ وَ اَیْدِیَكُمْ اِلَى الْمَرَافِقِ وَ امْسَحُوْا بِرُءُوْسِكُمْ وَ اَرْجُلَكُمْ اِلَى الْكَعْبَیْنِ١ؕ وَ اِنْ كُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوْا١ؕ وَ اِنْ كُنْتُمْ مَّرْضٰۤى اَوْ عَلٰى سَفَرٍ اَوْ جَآءَ اَحَدٌ مِّنْكُمْ مِّنَ الْغَآئِطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِكُمْ وَ اَیْدِیْكُمْ مِّنْهُ١ؕ مَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیَجْعَلَ عَلَیْكُمْ مِّنْ حَرَجٍ وَّ لٰكِنْ یُّرِیْدُ لِیُطَهِّرَكُمْ وَ لِیُتِمَّ نِعْمَتَهٗ عَلَیْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا
: اے
الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا
: وہ جو ایمان لائے (ایمان والے)
اِذَا
: جب
قُمْتُمْ
: تم اٹھو
اِلَى الصَّلٰوةِ
: نماز کے لیے
فَاغْسِلُوْا
: تو دھو لو
وُجُوْهَكُمْ
: اپنے منہ
وَاَيْدِيَكُمْ
: اور اپنے ہاتھ
اِلَى
: تک
الْمَرَافِقِ
: کہنیاں
وَامْسَحُوْا
: اور مسح کرو
بِرُءُوْسِكُمْ
: اپنے سروں کا
وَاَرْجُلَكُمْ
: اور اپنے پاؤں
اِلَى
: تک
الْكَعْبَيْنِ
: ٹخنوں
وَاِنْ
: اور اگر
كُنْتُمْ
: تم ہو
جُنُبًا
: ناپاک
فَاطَّهَّرُوْا
: تو خوب پاک ہوجاؤ
وَاِنْ
: اور اگر
كُنْتُمْ
: تم ہو
مَّرْضٰٓى
: بیمار
اَوْ
: یا
عَلٰي
: پر (میں)
سَفَرٍ
: سفر
اَوْ
: اور
جَآءَ
: آئے
اَحَدٌ
: کوئی
مِّنْكُمْ
: تم میں سے
مِّنَ الْغَآئِطِ
: بیت الخلا سے
اَوْ لٰمَسْتُمُ
: یا تم ملو (صحبت کی)
النِّسَآءَ
: عورتوں سے
فَلَمْ تَجِدُوْا
: پھر نہ پاؤ
مَآءً
: پانی
فَتَيَمَّمُوْا
: تو تیمم کرلو
صَعِيْدًا
: مٹی
طَيِّبًا
: پاک
فَامْسَحُوْا
: تو مسح کرو
بِوُجُوْهِكُمْ
: اپنے منہ
وَاَيْدِيْكُمْ
: اور اپنے ہاتھ
مِّنْهُ
: اس سے
مَا يُرِيْدُ
: نہیں چاہتا
اللّٰهُ
: اللہ
لِيَجْعَلَ
: کہ کرے
عَلَيْكُمْ
: تم پر
مِّنْ
: کوئی
حَرَجٍ
: تنگی
وَّلٰكِنْ
: اور لیکن
يُّرِيْدُ
: چاہتا ہے
لِيُطَهِّرَكُمْ
: کہ تمہیں پاک کرے
وَلِيُتِمَّ
: اور یہ کہ پوری کرے
نِعْمَتَهٗ
: اپنی نعمت
عَلَيْكُمْ
: تم پر
لَعَلَّكُمْ
: تاکہ تم
تَشْكُرُوْنَ
: احسان مانو
مومنو ! جب تم نماز پڑھنے کا قصد کیا کرو تو منہ اور کہنیوں تک ہاتھ دھو لیا کرو۔ اور سر کا مسح کرلیا کرو۔ اور ٹخنوں تک پاؤں (دھولیا کرو) اور اگر نہانے کی حاجت ہو تو (نہاکر) پاک ہوجایا کرو اور اگر بیمار ہو یا سفر میں ہو یا کوئی تم میں سے بیت الخلا سے آیا ہو یا تم عورتوں سے ہمبستر ہوئے ہو، اور تمہیں پانی نہ مل سکے تو پاک مِٹّی لو اور اس منہ اور ہاتھو کا مسح (یعنی تیمم) کرلو۔ خدا تم پر کسی طرح کی تنگی نہیں کرنی چاہتا بلکہ یہ چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کرے اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کرے۔ تاکہ تم شکر کرو۔
حکم ہشتم۔ ونہم۔ ودہم۔ فرضیت وضوء، وفرضیت غسل، ومشروعیت تیمم۔ قال تعالیٰ یا ایھا الذین۔۔۔۔ الی۔۔۔ تشکرون۔ ربط) ابتداء سورت میں اجمالی طور پر عقود اور عہود کے ایفاء کا حکم دیا پھر اس کی تفصیل شروع فرمائی تو سب سے پہلے کھانے کی چیزوں کی اباحت اور حلت کو بیان فرمایا پھر حلال عورتوں کا ذکر کیا جن سے نکاح کی اجازت دی گئی اور چونکہ انسانی حاجتیں اور کھانے پینے کی ضرورتیں بہ نسبت نکاح کے زیادہ ہیں اس لیے ان کو مقدم فرمایا اور نکاح کو ان کے بعد بیان کیا ان عقود کا تعلق دنیا سے تھا اب ان عقود اور عہود کو بیان کرتے ہیں جو دین اور عبودیت سے متعلق ہیں اور چونکہ اکل حلال اور وطی حلال خداوند ذوالجلال کی عبادت میں بہت معین ہے اس لیے اس کو مقدم فرمایا اب ان سب کے بعد عہد عبودیت کے ایفاء کا مطالبہ فرماتے ہیں کہ اور اعلی ترین عبودیت نماز ہے جس کے لیے طہارت نہایت ضروری ہے اس لیے ان آیات میں وضو اور غسل اور تیمم کے حکم کی تفصیل فرمائی (تفسیر کبیرص 374 ج 3) ۔ فرضیت وضو۔ اے ایمان والو کا مقتضی یہ ہے کہ ظاہری اور باطنی طہارت اور پاکیزگی کو ملحوظ رکھو اور کفر اور معصیت کی نجاست اور گندگی سے اپنے آپ کو محفوظ رکھو اکل طیبات اور مخالطت محصنات سے جو تمہاری باطنی طہارت اور نزاہت میں خلل آیا ہے تو اس کو وضو یا غسل یا تیمم کی طہارت سے دور کرو کیونکہ موجبات وضومثلاپیشاب اور پایخانہ اور قے اور خون ان سب کا منشاء اکل طعام ہے اور موجبات غسل کا منشاء نکاح ہے اور اس لیے اکل طیبات اور نکاح محصنات کے بعد وضو اور غسل کے احکام کا بیان نہایت مناسب ہوا چناچہ فرماتے ہیں اے مسلمانواجب تم نماز کے لیے اٹھو تو دھولیا کرو اپنے مونہوں کو اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں تک اور مسح کرلیا کرو اپنے سروں پر اور اپنے پاؤں دھو لیا کرو ٹخنوں تک یعنی پیروں کو ٹخنوں تک دھونا فرض ہے سر کی طرح کا مسح کافی نہیں نبی ﷺ نے جوا مت کو وضو کی تعلیم دی وہ یہی ہے کہ وضو میں پیروں کو دھویا کریں نہ یہ کہ ان پر مسح کیا کریں اور صحابہ کرام نے جو نبی ﷺ کے وضو کی روایت اور حکایت کی ہے سب میں غسل قدمین کی صراحت آئی ہے کسی ایک جگہ بی مسح قد میں کا ذکر نہیں آیا۔ محقق ابن امیرالحاج شرح تحریر الاصول ص 6 ج 3۔ میں تحریر فرماتے ہیں کہ تیس صحابہ سے زیادہ نے آپ کے وضو کو روایت کیا ہے اور اس پر متفق ہیں کہ آپ نے وضو میں پیروں کو دھویا ہے سفر اور حضر، سردی اور گرمی کسی حالت میں بھی آپ نے پیروں پر مسح نہیں فرمایا بعد ازاں محقق ابن امیر الحاج نے تیس سے زیادہ روایتوں کو مع تخریج روایت اور حوالہ کتاب ذکر فرمایا۔ غرض یہ کہ احادیث متواترہ سے یہ امر ثابت ہے کہ نبی اکرم ﷺ وضو میں پیروں کو دھوتے تھے اور عہد صحابہ سے لے کر اس وقت امت کا تعامل یہی چلا آرہا ہے کہ وضو میں پیروں کو دھویا جائے اور عہد صحابہ سے لے کر اس وقت تک پوری امت کا مسلسل عمل خود ایک مستقل دلیل ہے جس کے بعد کسی دلیل کی حاجت نہیں رہتی نیز کتب شیعہ میں بھی نبی سے پاؤں کا دھونا منقول ہے اور یہ روایتیں صحیح ہیں اور ثابت ہیں اور بالاتفاق فریقین کے نزدیک مسلمہ ہیں اور مسح کے بارے میں اختلاف ہے پس احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ متفق علیہ اور مسلمہ فریقین کو لے لیا جائے اور مختلف فیہ کو چھوڑ دیا جائے۔ تحقیق اختلاف قرات درلفظ وارجلم الی العکبین۔ جاننا چاہیے کہ لفظ وارجلکم الی العکبین میں دو قرائتیں ہیں ایک قرات نصب ہے یعنی بفتح لام اور دوسری قرات جر ہے یعنی وارجلکم بکسر الام پہلی قرات کی بنا پر وارجلکم کا عطف وایدیکم پر ہوگا اور ترجمہ یوں ہوگا کہ اور اپنے پیروں کو ٹخنوں تک دھویا کرو اس قرات سے وضو میں پیروں کے دھونے کی فرضیت ثابت ہوتی ہے اور جو اہل نست والجماعت کا مذہب ہے دوسری قرات میں یعنی بکسرالام کی بنا پروارجلکم کا عطف بظاہر لفظ روسکم پر ہوگا اور ترجمہ یوں ہوگا اپنے سروں پر اور اپنے پیروں پر مسح کیا کرو اس قرات میں وضو میں مسح رجلین کی فرضیت ثابت ہوتی ہے یہ شیعہ اور امامیہ فرقہ کا مذہب ہے کہ وضو میں بجائے غسل کے مسح رجلین فرض ہے اہل سنت والجماعت یہ کہتے ہیں کہ یہ دونوں قراءتیں متواتر ہیں اور بمنزلہ دو آیت کے ہیں اور کلام خداوندی میں تعارض ناممکن ہے یہ امر قطعا ناممکن ہے کہ وقت واحد میں دونوں مختلف اور متضاد چیزیں اللہ کے نزدیک مراد ہوں لہذا اللہ کے نزدیک غسل رجلین اور مسح رجلین میں سے ایک ہی معنی مراد ہوں گے رہایہ امر کہ اللہ کے نزدیک کون سے معنی مراد ہیں سو اس اجمال اور اشتباہ کے دور کرنے کے لیے احادیث نبویہ اور تعامل صحابہ وتابعین کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے سو احادیث متواترہ میں صریحہ میں یہ امر ثابت ہے کہ نبی نے امت کو جو وضو کی تعلیم دی اس میں پیروں کے دھونے کا حکم دیا اور پھر یہ فرمایا ھذا وضو لایقبل اللہ الصلوۃ الا بہ۔ یعنی بغیر اس طرح وضو کے خدا تعالیٰ کے یہاں نماز قبول نہیں نیز مدت العمر کبھی بھی آپ نے مسح رجلین نہیں فرمایا نہ سفر میں اور نہ حضر میں۔ بلکہ جن لوگوں کو غسل رجلین میں کوتاہی کرتے دیکھا ان کو باآواز بلند یہ فرمایا ویل اللعاب من النار یعنی ان ایڑیوں کے لیے ہلاکت ہے اور عذاب نار ہے جن کو پانی نہیں پہنچا معلوم ہوا کہ وضو میں پیروں کا دھونا فرض ہے۔ اور عمر بن عبسہ کی ایک طویل حدیث میں ہے کہ نبی ﷺ نے وضوء کی تلقین کرتے ہوئے یہ فرمایا۔ ترجمہ۔ پھر قدمین کو دھوئے جیسا کہ اللہ نے انکے دھونے کا قرآن میں حکم دیا ہے۔ اور امام بیہقی کی سنن کبری ص 71 ج 1 میں حضرت علی کرم اللہ وجہ سے مروی ہے کہ انہوں نے یہ حکم دیا اپنے قدموں کو ٹخنوں تک دھوؤ جیسا کہ تم کو قرآن میں اس کا حکم دیا گیا ہے۔ معلوم ہوا کہ قرآن نے جو حکم دیا ہے وہ غسل رجلین کا حکم دیا ہے نہ مسح قدمین کا۔ اور عبدالرحمن بن ابی لیلی سے منقول ہے وہ یہ فرماتے ہیں کہ غسل قدمین پر تمام صحابہ کا اجماع ہے (فتح الباری ص 232 ج 1۔ باب غسل الرجلین) ۔ پس نبی کریم کے قول اور فعل دونوں سے یہ امر بخوبی واضح ہوگیا کہ آیت میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک غسل رجلین مامور بہ ہے جیسا کہ قرات نصب اس پر دلالت کرتی ہے اور اللہ کے نزدیک یہی معنی متعین ہیں اور مراد ہیں جس میں کوئی دوسرا احتمال نہیں لہذا اسیسی صورت میں قرات جر کی ایسی تفسیر کرنی لازم ہوگئی جو قرات نصب کے ہم معنی ہونا واضح ہوجائے اور دونوں قراتوں کے تعارض رفع کرنے کے لیے مختلف جوابات دیے ہیں جن کو ہم ہدیۃ ناظرین کرتے ہیں غور سے پڑھیں۔ جواب اول۔ بلاشبہ قرات جر کی صورت میں بظاہر پیروں کا مسح کرنا ثابت ہوتا ہے لیکن آیت میں پیروں کے مسح سے غسل خفیف مراد ہے اس لیے کہ لفظ مسح کا اطلاق لغت میں غسل خفیف پر بھی آتا ہے جیسا کہ امام قرطبی نے ابوزید انصاری سے نقل کیا ہے کہ اہل عرب کو جب یہ کہنا ہوتا ہے کہ میں نے نماز کے لیے وضو کیا تو ایسے موقعہ پر تمسحت للصلاۃ بولتے ہیں یعنی میں نے نماز کے لیے وضو کی نیز جب یہ کہنا ہوتا ہے وضو کے لیے پانی لاؤ تو اس طرح بولتے ہیں ھات مااتمسح بہ للصلاۃ۔ یعنی وہ چیز لاؤ جس سے نماز کے لیے وجو کروں ابوھاتم کہتے ہیں کہ وضو کو مسح کے لفظ سے تعبیر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ وضو کرنے والا محض پانی بہالینے سے خوش نہیں ہوتا جب تک اپنے اعضاء کو پونچھ نہ لے۔ غرض یہ کہ ان محاورات سے یہ ثابت ہوگیا کہ مسح کا اطلاق غسل خفیف پر بھی آتا ہے پس اب ہم کہتے ہیں کہ وامسحوا بروسکم میں سرکے مسح پر محض تر ہاتھ پھیرلینا مراد ہے اور مسح رجلین سے غسل خفیف مراد ہے اور دلیل اس کی یہ ہے کہ اللہ نے پیروں کے مسح میں الی الکعبین کی قید لگائی ہے اگر سر اور پیروں کا مسح ایک ہی قسم کا ہوتا تو یہ تحدید نہ لگائی جاتی جس طرح سر کو بلا تعین مقدار بیان کیا گیا اس طرح پیروں کو بھی کوئی حد اور مقدار نہ بیان کی جاتی ہاتھوں اور پیروں کی حد مقرر کرنے سے اور سر کی حد نہ مقرر کرنے سے صاف عیاں ہے کہ ہاتھوں اور پیروں کا حکم تو ایک ہے اور سرکاحکم ان سے مختلف ہے (تفسیر قرطبی ص 92 ج 6) ۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ منہاج السنۃ فرماتے ہیں کہ لغت عرب میں لفظ مسح بمنزلہ جنس عام کے ہے جس کے تحت دو نوعیں یعنی دو قسمیں مدرج ہیں ایک اسالہ یعنی بہانا اور دوسرے غیر اسالہ یعنی بغیر پانی بہائے تر ہاتھ پھیرلینا اصل لغت کے اعتبار سے لفظ مسح عرفی مسح اور غسل دونوں کو شامل ہے جیسے لفظ ذوی الارحام بمعنی ذوی القربات لغت کے لحاظ سے ذوی الفروض اور عصبات وغیرہ سب کو شامل ہے مگر چونکہ عرف میں ذوی الفروض اور عصبات کا قسیم اور مقابل ہے ورنہ اصل لغت کے لحاظ سے ذوی الفروض اور عصبات دونوں ذوی الارحام کی ایک قسم ہیں عرف میں چونکہ اقارب عصبات ایک خاص نام سے پکارے جانے لگے اس لیے لوگ یہ سمجھنے لگے کہ لفظ ذوی الارحام عصبات کا قسیم اور مقابل ہے یہ ایسا ہے جیسا کہ لفظ حیوان اصل لغت کے لحاظ سے انسان کو بھی شامل ہے مگر عرف میں غیر انسان کے لیے بولا جاتا ہے اس طرح لفظ مسح کو سمجھو کہ وہ اصل لغت کے اعتبار سے عرفی مسح اور غسل دھونے دونوں کو شامل ہے حق تعالیٰ نے اس آیت میں وامسحو ا کے تحت دو چیزوں کو ذکر کیا اور ایک روسکم یعنی سر کو جس میں مسح عرفی معنی مراد ہیں اور دوسرا وارجلکم اس میں مسح سے غسل اور اسالہ یعنی دھونے اور پانی بہانے کے معنی مراد ہیں شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے کلام کا خلاصہ ختم ہوا دیکھو منہاج السنۃ ص 151 ج 2) ۔ یہ بندہ ناچیز کہتا ہے کہ کلام عرب میں بسا اوقات ایک ذو معنین لفظ بولا جاتا ہے اور اس کے تحت بطریق عطف مختلف متعلقات اور معمولات کو ذکر کیا جاتا ہے لیکن معطوف علیہ میں اس لفظ سے ایک معنی مراد ہوتے ہیں اور اسی لفظ سے معطوف میں اس لفظ کے دوسرے معنی مراد ہوتے ہیں جیسے اللہ کا یہ قول ان اللہ وملئ کہ یصلون علی النبی۔ آیت۔ اس میں یصلون کی ضمیر اللہ کی طرف اور ملائکہ کی طرف راجع کی گئی ہے اور دونوں جگہ صلاۃ سے مختلف معنی مراد ہیں اللہ کی صلاۃ کے معنی نبی کریم پر رحمت خاص نازل کرنے کے ہیں اور فرشتوں کی صلوۃ کے معنی دعا کے ہیں اسی طرح، وامسحوا بروسکم وارجلکم میں سمجھو کہ مسح روس سے تر ہاتھ پھیرنا مراد ہے اور مسح ارجل سے اسالہ پانی بہانا اور غسل خفیف مراد ہے اور اصل لغت کے اعتبار سے لفظ مسح ایک معنی کلی کے لیے وضع ہوا ہے یعنی الافضاء الی المحل یعنی پانی کا کسی جگہ تک پہنچا دینا اور اس معنی کلی دونوں فردوں کو شامل ہیں مگر بروسکم میں معنی کلی ایک فرد مراد ہے یعنی عرفی اور وارجلکم میں دوسرا فرد مراد ہے خوب سمجھ لو۔ جواب دوم۔ قرات جر میں اگرچہ لفظ وارجلکم کا عطف لفظ روسکم پر ہے لیکن معنی اس کا عطف وجوہکم وایدیکم پر ہے اور ارجل اعضاء مغسولہ کے ساتھ وجوب غسل میں شریک ہے اور قرات جر میں جر یعنی لام کا کسرہ جور کی وجہ سے ہے یعنی بروسکم کے قرب اور مجاورت کی وجہ سے وارجلکم کو مجرور پڑھا گیا ورنہ فی الحقیقت اس کا عط وجوہکم اور ایدیکم پر اور چہرہ اور ہاتھوں کی طرح پیروں کا دھونا بھی فرض ہے اور قرآن عزیز اور کلام عرب میں جر جوار بکثرت آیا ہے۔ 1۔ کما قال تعالیٰ یرسل علیکما شواظ من نار ونحاس۔ بالجر نحاس۔ آیت۔ کا جر نار کے جوار کی وجہ سے ہے ورنہ نحاس فی الحقیقت شواظ پر معطوف ہے اور معنی مرفوع ہے۔ 2۔ وقال تعالی۔ بل ھو قرآن مجید فی لوح محفوظ۔ قرات میں جر میں لفظا مجرور ہے مگر معنی مرفوع ہے اس لے کہ قرآن کی صفت ہے جر محض مجاورت کی وجہ سے ہے۔ 3۔ وقال تعالیٰ عذاب یوم محیط۔ محیط کا جر محض یوم کی مجاورت اور مقارنت کی وجہ سے ورنہ محیط فی الحقیقت صفت عذاب کی ہے۔ 4۔ وقال تعالیٰ عذاب یوم بحر الیم کہ الیم اصل میں صفت عذاب کی ہے مگر یوم کے جواب کے وجہ سے مجرور ہوا۔ 5۔ اور امری القیس کا قول ہے کان ابانا فی افانین ودقہ کبیر اناس فی بجاد مزمل اس شعر میں مزمل جر محض جوار کی وجہ سے ہے ورنہ مزمل دار اصل رجل کی صفت ہے اور معنی مرفوع ہے اگرچہ لفظ مجرور ہے۔ 6۔ اور عرب میں بہ مثل مشہور ہے ججز ضب خرب۔ خرب کا جر محض ضب کے جوار اور قرب کی بنا پر ہے ورنہ خرب دراصل خرب دراصل حجر کی صفت ہے۔ خلاصہ کلام یہ کہ جر جوار محاورہ عرب میں شائع اور ذائع ہے اور تمام ائمہ عربیت اور ماہرین نحو کلام فصیح میں اس کے استعمال کے قائل ہیں سوائے زجاج کے جر جوار کا کوئی منکر نہیں (روح المعانی ص 68۔ ج 6) اور شواہد مذکورہ کے ہوتے ہوئے کسی کا انکار قابل اعتبار نہیں خوب سمجھ لو۔ جواب سوم۔ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ظاہر میں وارجلکم کا عطف روس پر ہے لیکن باایں ہمہ حکم دونوں کا مختلف ہے اس لیے کہ کلام عرب ہیں بکثرت ایسا ہوتا ہے کہ ایک شی کا دوسری شی پر عطف ہوتا ہے مگر حکم میں دونوں مختلف ہوتے ہیں اور یہ صورت وہاں ہوتی ہے کہ جہاں دو فعل متقرب فی المعنی جمع ہوجائیں اور ہر ایک کا متعلق اور معمول علیحدہ ہو تو ایسے موقعہ پر بغرض ایجاز واختصار ایسا کرتے ہیں کہ ایک فعل کو تو حذف کردیتے ہیں مگر اس کے معمول اور مفعول کا فعل مذکور کے معمول پر عطف کردیتے ہیں کہ بظاہر معطوف، معطوف علیہ کے ساتھ حکم میں شریک ہوتا ہے لیکن معنی مختلف ہوتا ہے ایک شاعر کہتا ہے، یالیت بعلک قد غدا متقلدا سیفا ورمحا۔ اے کاش تیرا شوہر صبح کے وقت ایسے حال میں روانہ ہوتا کہ گلے میں تلوار اور نیزہ کا قلادہ ڈالے ہوئے ہوتا۔ اس شعر میں ورمحا کا عطف باظہر سیفا پر ہے جو متقلدا کا مفعول ہے لیکن حقیقت میں رمحا متقلدا کا مفعول نہیں اس لیے کہ نیزہ گلے میں ڈالنے کی چیز نہیں بلکہ تقدیم کلام اس طر ہے۔ متقلدا سیفا وحاملا یعنی تلوار گلے میں ڈالتے ہوئے اور نیزہ ہاتھ میں اٹھائے ہوئے مگر چونکہ حاملا اور متقلد دونوں متقارب المعنی تھے اسلیے بغرض ایجاز حاملا کو حذف کردیا گیا اور حاملا کے مفعول یعنی رمحا کا عط متقلد کے مفعول یعنی سیفا پر کردیا گیا کہ اہل سخن قرینہ مقام اور سیاق کلام سے مراد کو سمجھ جائیں گے ایک دوسرا شاعر کہتا ہے لما ھططت الرحل عنہا واردا علفتھا تبنا وماء باردا۔ جب میں نے اونٹنی کا کجاوا اتارا تو اس اونٹنی کو بھس کہلایا اور ٹھنڈا پانی اس شعر میں بظاہر اگرچہ وماء باردا کا عطف تبنا پر ہورہا ہے لیکن علفت کے حکم میں اس کے ساتھ شریک نہیں اس لیے کہ ٹھنڈا پانی بھس کے حکم میں نہیں پانی پلایا جاتا ہے بھس کی طرح کھلایا نہیں جاتا بلکہ تقدیر کلام اس طرح سے ہے علفتاھا بتنا وسقی تھا ماء باردا۔ میں نے اس اونٹنی کو بھس کھلایا اور ٹھنڈا پانی پلایا لیکن چونکہ سقیت اور علفت دونوں متقارب فی المعنی تھے اس لیے سقیت کو حذف کرکے اس کے مفعول ماء باردا کا عطف علفت کے مفعول تبنا پر کردیا گیا کہ اہل فہم قرینہ مقام سے مراد سمجھ لیں گے پس وماء باردا اگرچہ لفظ پر معطوف ہونے کی وجہ سے بظاہر شریک حکم ہے مگر معنی اس سے مختلف اور جدا ہے۔ اور شاعر کہتا ہے فعلا فروع الایہقان واطفلت بالجلہتین ظباء ہاو نعامہا اس شعر میں ونعامہا کا ظباء ہا پر عطف کیا گیا ہے اور بظاہر دونوں واطفلت کے حکم میں شریک ہیں لیکن معنی مختلف ہیں اس لیے کہ شتر مرغ بچے نہیں دیتا بلکہ بیضے دیتا ہے اور تقدیر کلام اس طرح ہے واطفلت ظباء ہا وبا ضت نعامہا۔ اسی طرح آیت میں تقدیر کلام یوں ہے، وامسحوا بروسکم واغسلوا ارجلکم غسلا خفیفا۔ یعنی اپنے سروں پر مسح کرو اور اپنے پیروں کو نرمی اور اعتدال کے ساتھ دھوؤ پیروں پر پانی بہانے میں مبالغہ اور اسراف نہ کرو چونکہ غسل خفیف اور مسح دونوں متقارب المعنی تھے اس لیے واغسلوا غسلا خفیفا کو حذف کرکے اس کے مفعول یعنی ارجلکم کا عطف بروسکم پر کردیا گیا یہ تیسرا جواب تمام تر امام قرطبی کی تشریح ہے (تفسیر قرطبی ص 95 ج 6 روح المعانی ص 69 ج 6) ۔ جواب چہارم۔ امام شافعی فرماتے ہیں کہ دونوں قراتوں میں کوئی تعارض نہیں ہر قرات میں ایک جداگانہ حالت کا حکم بیان کیا گیا ہے قرات جر جس سے مسح قدمین معلوم ہوتا ہے یہ حکم اس حالت میں ہے کہ جب قدمن پر خفین ہوں یعنی جس حالت میں موزے پہنے ہوں تو مسح رجلین کرے اور اگر پیروں میں موزے نہ ہوں تو ایسی حالت میں غسل قدمین فرض ہے مطلب یہ ہے کہ یہ دو قراتیں دو مختلف حالتوں پر محمول ہیں اس لیے کہ قلا یہ ناممکن ہے کہ وق واحد اور حالت واحدہ میں عضو واحد کا غسل بھی فرض ہو اور مسح بھی فرض ہو معلوم ہوا کہ ان دو قراتوں میں دو مختلف حالتوں کا حکم بیان کیا گیا۔ (فتح الباری ص 344 ج 1) ۔ بحرالعلوم شرح مسلم الثبوت میں لکھتے ہیں کہ فخرالاسلام بزدوی نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے اور یہ توجیہ نہایت لطیف ہے اور فرماتے ہیں کہ قرات جر میں الی الکعبین کا لفظ مسح کی غایت نہیں اس لیے کہ مسح تو ظاہر خفین پر کافی ہے کعبین تک مسح کرنا بالاجماع ضروری نہیں بلکہ یہ تخفف کی غایت ہے کہ جو سیاق کلام سے مفہوم ہوا ہے اور مطلب یہ ہوا کہ پیروں پر مسح کرلیا کرو درآنحالیکہ تم ٹخنوں تک موزے پہنے ہوئے ہو اور اگر موزہ ٹخنوں سے نیچے ہو تو پھر موزوں پر مسح درست نہ ہوگا (فواتح الرحموت مسلم الثبوت ص 196 ج 2۔ طبع مصر) ۔ جواب پنجم۔ امام طحاوی اور ابن حزم کہتے ہیں کہ ابتداء میں مسح قدمین جائز تھا بعد میں یہ حکم منسوخ ہوگیا اور غسل قدمین فرض ہوگیا۔ (فتح الباری ص 232 ج 1) ۔ (قراءت) ۔ جاننا چاہیے کہ وارجلکم میں ایک تیسری قرات رفع کی بھی آئی ہے یعنی وارجلکم برفع الام پڑھا گیا ہے یہ قرات بظاہر کسی فریق کے لیے دلیل نہیں بن سکتی اس لیے کہ اس قرات میں وارجلکم کی خبر محذوف ہوگی کوئی تقدیر کلام اس طرح بتلائے گا وارجلکم مغسولۃ اور کوئی تقدیر کلام اس طرح بتائے گا وارجلکم ممسوحۃ لیکن اس قرات میں بظاہر خبر کو اس لیے حذف کردیا گیا کہ ارجل کا حکم شریعت میں معلوم اور معروف ہے نبی ﷺ اور تمام صحابہ کا عمل یہی رہا کہ پیروں کو دھوتے تھے۔ (روح المعانی ص 70 ج 6) ۔ ایک شبہ۔ دار قطنی وغیرہ کی بعض روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نبی ﷺ نے وضو میں مسح رجلین فرمایا۔ جواب۔ یہ ہے کہ مسح رجلین کی روایت قطعا شاذ اور منکر ہے قطعا صحیح نہیں اور احادیث متواترہ کے صریح خلاف ہے نیز حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے منقول ہے کہ ایک مرتبہ حضرت علی نے سب کے سامنے وضو کیا اور سر اور پیروں کا مسح کیا اور پھر یہ فرمایا تحقیق کچھ لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ اس طرح وضو درست نہیں تحقیق میں کو اس طح وضو کرتے دیکھا ہے لیکن یہ وضو اس شخص کی ہے جو پہلے سے محدث (بےوضو) نہ ہو یعنی جو وضوء ازالہ حدث کے لیے نہ ہو بلکہ تبرک کے لیے وضو علی الوضوء ہو یا تبرید کے لیے وضو کیا جائے تو پھر بجائے غسل رجلین کے مسح رجلین کافی ہوسکتا ہے۔ فرضیت غسل۔ وان کنتم جنبا فاطہروا۔ آیت۔ اوپر فرضیت وضو کا بیان تھا اب فرضیت غسل کو بیان کرتے ہیں اور اگر تم جنابت یعنی ناپاکی کی حالت میں ہو تو سارے بدن کو خوب اچھی طرح سے دھوؤ یعنی اس طرح غسل کرو کہ جہاں جہاں تک پانی پہنچانا ناممکن ہو وہاں پانی پہنچاؤ اسی وجہ سے امام اعظم فرماتے ہیں کہ غسل میں مضمضہ اور استنشقاق یعنی کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا فرض ہے اور وضو میں سنت ہے اس لیے کہ وضو میں فقط غسل وجہ کا حکم دیا گیا ہے اور غسل میں فاطہرا مبالغہ کا صیغہ لایا گیا ہے معلوم ہوا کہ وضو میں صرف ظاہری چہرہ کا دھولینا کافی ہے کیونکہ وجہ مواجہت سے ماخوذ ہے بخلاف غسل کے کہ وہاں سارے بدن کا دھونا فرض ہے کیونکہ فاطہرا مبالغہ کا صیغہ ہے یعنی جس کے دھونے میں اتنا مبالغہ کرو کہ ایک بال بھی نہ رہے اور جنابت کے معنی ناپاکی کے ہیں جس کی دو صورتیں ایک یہ کہ منی خارج ہوجائے خواہ بیداری میں یا سوتے میں اور دوم مرد عورت کی مبارشرت اور مجامعت خواہ اس میں انزال ہوا ہو یا نہ ان دونوں صورتوں میں آدمی شرعا ناپاک ہوجاتا ہے اور اس پر غسل واجب ہوجاتا ہے۔ نکتہ۔ جنابت کی حالت میں چونکہ آدمی سر سے لے کر پیر تک غرق لذت اور محوغفلت ہوجاتا ہے اس لیے ازالہ جنابت کے لیے تمام بدن کا دھونا فرض ہوابخلاف وضو کے اس میں صرف اعضاء اربعہ کی طہارت کا حکم ہوا کیونکہ پیشاب اور پاخانہ میں جنابت جیسی لذت اور غفلت نہیں۔ مشروعیت تیمم۔ وضو اور غسل کی فرضیت کے بعد اب تیمم کا حکم بیان فرماتے ہیں کہ جو وضو اور غسل کا قائم مقام ہے اور اگر تم بیمار ہو اور پانی کا استعمال تمہارے لیے مضر ہو اور پانی تم کو میسر نہ ہو اور اس بیماری میں اور مسافری میں تم کو وضو یا غسل کی ضرورت ہو یا تم میں سے کوئی جائے ضرور پیشاب یا پاخانہ سے فارغ ہو کر آئے اور اس لیے اس کو وضو کی ضررت ہو یا تم نے عورتوں سے صحبت کی ہو اور اس لیے تم کو نہانے کی ضرورت ہو پھر تم اس ضرورت کے پورا کرنے کے لیے پانی نہ پاؤ تو تم تمام حالتوں میں پاک زمین کا قصد کرو اس طرح کہ اپنے دونوں ہاتھ زمین پر مارو پھر اپنے چہروں اور ہاتھوں پر اس سے مسح کرلو یہ تیمم ہے جس کو اللہ نے اپنی رحمت سے پانی نہ ملنے کی صورت میں وضو اور غسل کا قائم مقام بنا دیا غور تو کرو کہ اللہ نے تمہارے لیے کیسی آسانی کردی اللہ نہیں چاہتا کہ تم پر کچھ تنگی کرے اگر ہر حال میں تم کو وضو اور غسل کا حکم ہوتا تو تم تنگی میں پڑجاتے لیکن یہ چاہتا ہے کہ تم کو خوب پاک کردے اگر پانی نہ ملے تو پاک مٹی کے ذریعہ طہارت حاصل کرلو اور تاکہ تم اپنی نعمت پوری کرے کہ سفر اور حضر تندرستی اور بیماری کسی حالت میں عبادت سے کوئی رکاوٹ باقی نہ رہے تیمم کا حکم نازل کرکے اللہ نے تم پر نعمت پوری کردی پچھلی امتوں میں تیمم کا حکم نہ تھا تاکہ تم ہمارے ان انعامات کا شکر کرو ہم نے تمہاری ظاہری اور باطنی طہارت کے لیے وضو اور غسل اور تیمم کا حکم دیا اس وجہ سے حضرت بلال وضو کے بعد دو رکعت وضو کے شکر میں پڑھتے تھے ایسی نماز کو تحیۃ الوضو کہتے ہیں کہ لہذا عجب نہیں کہ حکم وضو کے اخیر میں لفظ لعلکم تشکرون سے تحیۃ الوضو کی طرف اشارہ ہو۔ واللہ اعلم۔ نکتہ۔ آیت تیمم کی تفسیر سورة نساء میں مفصل گزر چکی ہے یہاں اس کا اعادہ اس غرص سے کیا گیا تاکہ طہارت کے مسائل علی الاتصال بیان میں آجائیں۔
Top