Mualim-ul-Irfan - Al-Maaida : 6
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا قُمْتُمْ اِلَى الصَّلٰوةِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْهَكُمْ وَ اَیْدِیَكُمْ اِلَى الْمَرَافِقِ وَ امْسَحُوْا بِرُءُوْسِكُمْ وَ اَرْجُلَكُمْ اِلَى الْكَعْبَیْنِ١ؕ وَ اِنْ كُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوْا١ؕ وَ اِنْ كُنْتُمْ مَّرْضٰۤى اَوْ عَلٰى سَفَرٍ اَوْ جَآءَ اَحَدٌ مِّنْكُمْ مِّنَ الْغَآئِطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِكُمْ وَ اَیْدِیْكُمْ مِّنْهُ١ؕ مَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیَجْعَلَ عَلَیْكُمْ مِّنْ حَرَجٍ وَّ لٰكِنْ یُّرِیْدُ لِیُطَهِّرَكُمْ وَ لِیُتِمَّ نِعْمَتَهٗ عَلَیْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : وہ جو ایمان لائے (ایمان والے) اِذَا : جب قُمْتُمْ : تم اٹھو اِلَى الصَّلٰوةِ : نماز کے لیے فَاغْسِلُوْا : تو دھو لو وُجُوْهَكُمْ : اپنے منہ وَاَيْدِيَكُمْ : اور اپنے ہاتھ اِلَى : تک الْمَرَافِقِ : کہنیاں وَامْسَحُوْا : اور مسح کرو بِرُءُوْسِكُمْ : اپنے سروں کا وَاَرْجُلَكُمْ : اور اپنے پاؤں اِلَى : تک الْكَعْبَيْنِ : ٹخنوں وَاِنْ : اور اگر كُنْتُمْ : تم ہو جُنُبًا : ناپاک فَاطَّهَّرُوْا : تو خوب پاک ہوجاؤ وَاِنْ : اور اگر كُنْتُمْ : تم ہو مَّرْضٰٓى : بیمار اَوْ : یا عَلٰي : پر (میں) سَفَرٍ : سفر اَوْ : اور جَآءَ : آئے اَحَدٌ : کوئی مِّنْكُمْ : تم میں سے مِّنَ الْغَآئِطِ : بیت الخلا سے اَوْ لٰمَسْتُمُ : یا تم ملو (صحبت کی) النِّسَآءَ : عورتوں سے فَلَمْ تَجِدُوْا : پھر نہ پاؤ مَآءً : پانی فَتَيَمَّمُوْا : تو تیمم کرلو صَعِيْدًا : مٹی طَيِّبًا : پاک فَامْسَحُوْا : تو مسح کرو بِوُجُوْهِكُمْ : اپنے منہ وَاَيْدِيْكُمْ : اور اپنے ہاتھ مِّنْهُ : اس سے مَا يُرِيْدُ : نہیں چاہتا اللّٰهُ : اللہ لِيَجْعَلَ : کہ کرے عَلَيْكُمْ : تم پر مِّنْ : کوئی حَرَجٍ : تنگی وَّلٰكِنْ : اور لیکن يُّرِيْدُ : چاہتا ہے لِيُطَهِّرَكُمْ : کہ تمہیں پاک کرے وَلِيُتِمَّ : اور یہ کہ پوری کرے نِعْمَتَهٗ : اپنی نعمت عَلَيْكُمْ : تم پر لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَشْكُرُوْنَ : احسان مانو
اور اگر جنابت کی حالت میں ہو تو اچھی طرح طہارت حاصل کرلو اور اگر تم بیمار ہو یا سفر پر ہو یا تم میں سے کوئی ضرورت سے آئے یا تم عورتوں کے پا س گئے ہو ، پھر تم نے پانی نہیں پایا ، پس قصد کرو پاک مٹی کا اور مل کو اپنے چہروں اور ہاتھوں پر اس مٹی سے ، اللہ نہیں چاہتا کہ تم پر تنگی دال دے بلکہ وہ چاہتا ہے کہ تم کو پاک کردے اور تاکہ تم پر اپنی نعمت پوری کردے۔ تاکہ تم شکر ادا کرو۔
ربط آیات گذشتہ دردس میں اللہ تعالیٰ نے حلت و حرمت کا قانون بتایا۔ نکاح اور اکل و شرب میں حلال و حرام کو واضح کیا ، یہ دراصل طہارت ہی کا بیان ہے۔ انسان کے لیے ظاہری اور باطنی طہارت ضروری ہے ۔ عبادت سے بھی انسان کو باطنی طہارت حاصل ہوتی ہے اور عبادت کرنے سے پہلے ظاہری طہارت کی ضرورت ہوتی ہے ، کیونکہ اس کے بغیر نماز بھی ادا نہیں ہوسکتی۔ اور نماز کے ذریعے انسان اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرتا ہے۔ چناچہ گذشتہ درس میں طہارت صغریٰ یعنی وضو کا مسئلہ بیان ہوچکا ہے ۔ اب آج کے درس میں طہارت کبریٰ کا بیان ہے یعنی جنابت کی حالت طاری ہوجائے تو کس طرح طہارت حاصل کرنی چاہیے۔ حدث اکبر بےوضو ہونا حدث اصغر ہے جب کہ جنابت کی حالت میں ہونا حدث اکبر ہے۔ جنابت کا معنی بعد یا دوری ہوتا ہے جب یہ حالت طاری ہوتی ہے تو انسان ملائکہ سے دور ہوجاتا ہے اور جب مکمل مہارت کرلیتا ہے تو اسے پھر ملائکہ سے مشابہت پیدا ہوجاتی ہے ۔ جنابت کا مذکورہ معنی زمانہ جاہلیت کے عربی شاعر کے شعر سے بھی واضح ہوتا ہے ۔ شاعر کہتا ہے مجھے میرے غریب الوطن یعنی گھر سے دور ہونے کی وجہ سے محروم نہ کرنا کیونکہ ان تمام خیموں میں ایک میں ہی غریب الوطن ہون۔ مقصد یہ کہ جنابت کا لفظی معنی دوری ہے کیونکہ جنابت کی حالت میں انسان پاکیزگی اور فرشتوں سے دور ہوجاتا ہے۔ جنابت اس حالت کو کہتے ہیں کہ جب انسانی جسم سے مادہ تولید شہوت کے ساتھ خارج ہو ۔ اخراج مادہ منویہ خواہ مباشرت کی وجہ سے ہو یا احتلام کی بنا پر آدمی ہر صورت میں جنبی ہوجاتا ہے طہارت کا ایک عام قاعدیہ ہے کہ انسانی جسم کے جو اعضا منکسف یعنی کھلے ہوتے ہیں انہیں دھونے کا حکم ہے ، جیسے منہ ، ہاتھ اور پائوں ۔ اور سر چونکہ اکثر پگڑی ، ٹوپی یا رومال سے ڈھکا رہتا ہے ، اس کے لیے صرف مسح کافی ہے ۔ برخلاف اس کے جنابت سے چونکہ سارا جسم اور اعصاب متاثر ہوتے ہیں۔ لہذا سارے جسم کے لیے نجاست حکمی لاحق ہوجاتی ہے ، جسکی وجہ سے پورے جسم کو پاک کرنا ضروری ہوجاتا ہے اس کی دوسری مثال حیض و نفاص ہے۔ ان دو حالتوں میں بھی عورت مکمل طور پر ناپاک ہوجاتی ہے ، لہذا اس کے لیے بھی مکمل طہارت لازم ہے۔ حیض کی حالت میں حکم ہے کہ عورتوں کے قریب نہ جائو حتیٰ یطھرون یہاں تک کہ وہ خوب اچھی طرح پاک صاف ہوجائیں ۔ یہاں جنابت کی صورت کے متعلق بھی فرمایا ، کہ جب جنبی ہو جائو فاطھرو تو مکمل طہارت حاصل کرو ۔ غرضیکہ جنابت سے پاکیزگی کے لیے مکمل غسل فرض ہوجاتا ہے ۔ جس طرح وضو کے بعد فرائض ہیں۔ اسی طرح غسل کے بھی فرائض ہیں جن کی ادائیگی کے بغیر نہ غسل مکمل ہوتا ہے اور نہ انسان پاک ہوتا ہے ۔ وضو کے دوران کلی کرنا سنت ہے جب کہ غسل جنابت میں فرض کا درجہ رکھتا ہے اسی طرح ناک میں پانی ڈالنا وضو میں سنت ہے جبکہ غسل جنابت میں ضروری ہے ، اس کے بغیر غسل مکمل نہیں ہوتا ۔ پھر اس کے بعد پورے جسم پر پانی بہانا فرض ہے حتٰی کہ کوئی جگہ خشک نہ رہ جائے کیونکہ تحت کل شعرۃ جنابۃ بر بال کے نیچے جنابت ہوتی ہے ۔ ْ اسی لیے فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ اگر پورے جسم میں ایک بال کے برابر بھی جگہ خشک رہ گئی تو غسل مکلمل نہ ہوگا ۔ اس طرح خطرے کے پیش نظر حضرت علی ؓ کا مقولہ ہے فمن ثم عادیت راسی اسی لیے میں نے اپنے سے کے ساتھ دشمنی کی ہے یعنی پورا سر منڈوا دیا ہے تاکہ غسل جنابت میں بال برابر جگہ بھی خشک نہ رہ جائے ، چناچہ حکم ہے کہ جنابت سے طہارت کے لیے خوب اچھی طرح طرح مل مل کر غسل کرو۔ پانی مطہر ہے پوری متمد دنیا پانی آلہ طہارت تسلیم کیا گیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشادہ ہے وانزلنا من السماء مآء طھور ا (الفرقان) ہم نے آسمان سے پاکیزہ پانی نازل فرمایا ہے۔ طہور مبالغے کا صیغہ ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ پانی خود پاک ہے اور دوسری چیزوں کو پاک کرتا ہے ۔ گویا پانی اولین آلہ مہارت ہے۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ خوشبو بھی آلات طہارت میں داخل ہے مگر یہ دوسرے درجے پر ہے ، بہر حال اس آیت کریمہ میں ارشاد ہے۔ وان کنتم جنبا فاطھروا اگر تم جنابت کی حالت میں ہو تو اچھی طرح طہارت کرلو۔ طہارت کا طریقہ میں نے عرض کردیا ہے۔ پانی کی عدم موجودگی یہ تو واضح ہوگیا کہ طہارت کے بغیر نہ تو قرآن پاک کو ہاتھ لگایا جاسکتا ہے اور نہ نماز یا کوئی دیگر عبادت کی جاسکتی ہے۔ اب اگر نسان بےوضو ہوجائے یا حالت جنابت طاری ہوجائے اور آلہ طہارت یعنی پانی بھی میسر نہ ہو تو طہارت کیسے حاصل کی جائے ؟ اور عبادت کیسے ادا کی جائے ؟ ایسی صورت حال کے متعلق فرمایا وان کنتم مرضی اگر تم بیمار ہو جائو اور بیماری کی نوعیت ایسی ہو کہ پانی استعمال کرنے سے منع کردیا ہو او علی سفر یا تم سفر پر ہو اور دوران سفر پای میسر نہ ہو۔ فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ اگر پانی مسافر کے عارضٰ قیام سے کم از کم ایک میل کے فاصلے پر ہو۔ تو اس کے لیے تییم مباح ہوجاتا ہے ۔ تاہم حالت سفر ہو او جاء احد منکم من الغائط یا تم میں سے کوئی جائے ضرورت سے آیا ہو ۔ غائط دراصل پست جگہ کو کہتے ہیں ۔ رفع حاجت کے لیے عموماً لوگ پست اور نچلی جگہ کو تلاش کرتے ہیں تاکہ کسی کی نظر نہ پڑے ۔ اس لیے اصطلاحاً غائط بو ل ویراز کرنے کو کہتے ہیں ۔ فرمایا اگر تم رفع حاجت کے بعد آئے ہو۔ او لمستم النساء یا تم عورتوں کے پاس گئے ہو۔ لمس کے دو معانی دار ہوئے ہیں۔ امام شافعی (رح) لمس سے مراد ہاتھ لگانا لیتے ہیں ، گویا عورت کو ہاتھ لگانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ۔ تاہم امام ابوحنیفہ ؓ اور دیگر ائمہ کرام لمس سے مراد مباشرت لیتے ہیں۔ لمستم باب مفاعلہ کا صیغہ ہے۔ اور اس باب کا تقاضا یہ ہے کہ فعل جانبین کی طرف سے ہو ، لہذا لمس کا معنی عورت سے قربت یا مباشرت ہی ہے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ ، حضرت علی ؓ اور دوسرے صحابہ ؓ نے یہی معنی لیا ہے کہ جب تم عورتوں سے مقاربت کرو۔ غرضیکہ اللہ تعالیٰ نے چا ر علل بیان فرمائے کہ اگر تم مریض ہو ، یا سفر پر ہو ، یا جائے ضرورت سے آئے ہو ، یا تم نے عورتوں سے مقاربت کی ہے۔ ان میں سے کوئی صورت حال پیدا ہوجائے ، فلم تجدو ماء پھر تم پانی نہ پائو۔ مذکورہ حالات میں وضو کی ضرورت ہے یا غسل کی اور پانی موجود نہیں ، یا تمہیں پانی پر قدرت نہیں یا پانی کے استعمال سے بیماری کے مہلک ہونے کا خطرہ ہے تو پھر کای کرو ؟ فرمایا فتیمعو صعیدا طیبا قصد کرو پاک مٹی کا ، یعنی پاک مٹی سے تییم کرلو ۔ یہ تمہارے لیے وضو اور غسل کے قائم مقام ہوگا ۔ تییم کا طریقہ تییم کا لفظی معنی قصد کرنا ہے ۔ فقہائے کرام تییم کا معنی قصدالصعید للتطھیر کرتے ہیں یعنی طہارت کے لیے پاک مٹی کا ارادہ کرنا۔ فرمایا جب پای میسر نہ ہو تو تتیم کرلو۔ مگر کیسے ؟ فا مسحو ابو جو مکم واید کم منہ یعنی اس مٹی کو اپنے مومنوں اور ہاتھوں پر مل لو۔ اس کی تشریح نبی (علیہ السلام) نے خود اپنے ارشاد مبارک سے فرمائی ۔ فرمایا دونوں ہاتھوں سے یک ضرب مٹی لگائو ۔ اگر مٹی زیادہ لگ جائے تو ہاتھوں کو جھاڑ دو ، تاکہ گرد و غبار قد سے کم ہوجائے پھر دونوں ہا تھ اپنے منہ پر مل لو ۔ پھر دوسری ضرب مٹی پر لگائو اور دونوں ہاتھ دونوں ہاتھوں پر کہنیوں سمیت مل لو۔ تمہارا تییم مکمل ہوگیا ضربات کی تعداد میں قضائے کرام کا اختلاف ہے۔ بعض کے نزدیک ایک ہی ضرب لگا کر منہ اور ہاتھوں پر پھیر لو۔ صحیح حدیث میں دو ضربوں کا ثبوت موجود ہے امام حنیفہ (رح) کا بھی یہی مسلک ہے ۔ ہاتھوں کی تعریف میں بھی کئی قول ہیں۔ امام زہری کے نزدیک ہاتھوں کی حد لعبلوں تک ہے۔ بعض کے نزدیک ہاتھ کلائی تک ہیں اور بعض کے نزدیک نصف ہاتھ تک ۔ مگر امام ابوحنیفہ (رح) کہنیاں بھی ہاتھوں میں داخل کرتے ہیں۔ تییم وضو کا نائب ہوتا ہے۔ اور وضو میں ہاتھ کہنیوں تک دھوئے جاتے ہیں لہذا تییم میں بھی مٹی پر ہاتھ مارکر مسح کیا جاتا ہے اور اس کے بعد پائوں دھونا فرض ہے مگر تییم میں دو فرائض پورے کئے جائیں گی اور ترک کردیئے گے۔ یعنی منہ اور ہاتھوں پر مسح ہوگا۔ اور سر اور پائوں کو چھوڑ دیا جائے گا ۔ پاک مٹی اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے صعیدا طیبا فرمایا ہے یعنی جس مٹی کے ساتھ تییم کیا جائے وہ پاک ہونی چاہیے ، نا پاک جگہ پر ہاتھ مارکر تییم کرنے سے تییم کیا جائے وہ پاک ہونی چاہیے ، ناپاک جگہ پر ہاتھ مار کر تییم کرنے سے تییم درست نہیں ہوگا ۔ بعض مقامات پر لوگ گندگی پھینکتے ہیں اگر خشک ہونے پر ایسی جگہ پر نماز پڑھی جاسکتی ہے مگر اس جگہ پر ہاتھ مار کر تییم نہیں کیا جاسکتا ، تییم کے لیے مٹی ، بالکل پاک صاف ہونی چاہیے۔ مٹی کے علاوہ زمین سے کوئی چیز ہو اس کے ساتھ تییم کیا جاسکتا ہے ، جیسے گردو غبار ، پتھر ، سیمنٹ ، چونا ، ہر تال ، اینٹ روڈ وغیرہ ان اشیا پر ضرب لگا کر تییم کیا جاسکتا ہے ، البتہ لکڑی کی راکھ درست نہیں کیونکہ جنس ارض سے تعلق نہیں رکھتی ۔ پہاڑی نمک کے ساتھ تییم کیا جاسکتا ہے ۔ بشرطیکہ ان میں نمی نہ ہو۔ دریائی نمک میں چونکہ نمی ہوتی ہے ، اس لیے اس سے تییم جائز نہیں ۔ پتھر چونکہ جنس زمین سے ہے اس لیے اس پر تییم جائز ہے اگرچہ اس پر گردوغبار نہ ہو ۔ دھات مثلاً لوہا ، تانبا ، سونا ، چاندی وغیرہ روا نہیں ہے ۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے التراب طھور الملم مسلمان کے لیے مٹی کا باعث طہارت ہے خواہ دس سال تک پانی میسر نہ ہو۔ اس دوران کوئی شخص تییم نہیں کرسکتا ، غرضیکہ وہ تمام امور انجام دے سکتا ہے جو وضو کرنے سے ادا ہوتے ہیں ۔ بہر حال یہاں پر وضو ، غسل اور تییم تینوں مسائل بیان کردیے گئے ہیں۔ احسانات الہٰی یہ تینوں مسائل بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا ما یرید اللہ لیجعل علیکم من حرج اللہ تعالیٰ تم پر کوئی تنگی نہیں ڈالنا چاہتا ۔ اللہ نے تمہارے لیے بڑی آسانیاں پیدا کی ہیں ولکن یرید لیطھر کم بلکہ وہ تو تمہیں پاک کرنا چاہتا ہے ، کیونکہ اس کا اپنا فرمان ہے و یحب المتطھر ین (بقرہ) کہ وہ پاکیزہ لوگوں کو پسند کرتا ہے ۔ اسی لے اس نے طہارت کے تمام طریقے تمہیں بتلا دیے ہیں ۔ اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ یہ بھی چاہتا ہے ولیتم نعمتہ علیکم تا کہ تم پر اپنی نعمت پوری کردے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے احسانات اور اس کی مہربانیاں ہیں کہ اس نے تمہارے لیے حلت و حرمت کے احکام بیان فرمادیے ہیں۔ وضو ، غسل اور تییم کا طریقہ بتلایا ہے ، تمہارے لیے پاکیزہ چیزوں کو حلال اور جو چیزیں تمہارے جسم کی ساخت کے منافی اور روح کی طہارت کے خلاف انہیں حرام قراد دیا ہے اور خاص شروط کے تحت نکاح کی اجازت دی ہے ، اس سے پہلے اللہ تعالیٰ اپنے احسانات میں سے سلام کی دولت کا ذکر بھی کرچکے ہیں کہ اس کی طرف تمہاری راہنمائی فرمائی اور پھر تم اپنا دین مکمل کیا ، تمہیں خلافت ارضی ، غلبہ اور عزت عطا فرمائی ، قرآن جیسی عظیم کتاب کے علم سے تمہارے دلوں کو منور کیا اور بنی آخر الزماں کی سنت سے مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائی ۔ فرمایا یہ تم احسانات اس لیے کیے لعلکم تشکرون تا کہ تم میرے شکر گزار بندے بن جائو۔ نعمت کا شکریہ ادا کرنا بھی ضروری ہے ، ورنہ یہی نعمت تمہارے لیے وبال جان بھی بن سکتی ہے ۔ سورة سبا میں ارشاد ہے اعملو ال داو د شکرا واقلیل من عبادی الشکور اے آل دائود ! میرا شکر ادا کرو ، اور میرے شکر گزار بندے بہت تھوڑے ہیں۔ اکثر لوگوں کو بیشمار نعمتیں حاصل ہیں مگر وہ شکر نہیں کرتے۔ اسی لیے فرمایا واذکر و انعمتہ اللہ علیکم ان نعمتوں کو یاد کرو جو اللہ نے تمہیں عطا کی ہیں۔ اور ا س کا شکریہ ادا کرتے رہو۔ عہد خداوندی فرمایا کے علاوہ ومیثاقہ الذی واثقکم بہ اس عہد کو بھی یاد کرو جو اس نے تم سے پختہ طریقے پر ٹھہرایا ہے اذ قلتم سمعنا واطعنا جب تم نے کہا تھا کہ ہم نے سن لیا اور اطاعت کی اس قسم کا ذکر اس امت کے بارے میں سورة بقرہ کے آخری رکوع میں بھی موجود ہے وقالو سمعنا واطعنا غفرانک ربنا والیک المصیر۔ ایمان والوں نے یہی کہا کہ ہم نے تیرے احکام سن لیے اور ان کی اطاعت کا عہد کرتے ہیں اے مولا کریم ! ہمارے گناہ معاف فرمادے کہ ہمیں تیری ہی طرف لوٹ کر جانا ہے ۔ سابقہ سورة میں گز رچکا ہے کہ آخری امت سے پہلے اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے بھی عہد لیے۔ مگر انہوں نے توڑ دیے ۔ سورة نساء میں فیما نقضھم میثاقھم کے الفاظ موجود ہیں۔ کہ ان کے عہد توڑنے کو جہ سے وہ لعنت کے ٹھہرے ۔ اس سورة کی ابتداء بھی ایفائے عہد کے موضوع سے ہی ہونی ہے ۔ ” یا ایھا الذین امنوا او فو بالعقود “ اے ایمان والو ! اپنے عہدوں کو پورا کرو ۔ عہد کا ایفا کرنا بہت بڑی ذمہ داری کی بات ہے جو شخص کلمہ توحید پڑھتا ہے ۔ اللہ کے احکام کی اطاعت کا عہد کرتا ہے۔ تو اسے چاہیئے کہ اپنے عہد کو پورا کرے۔ اسی لیے یہاں فرمایا کہ اپنے اس عہد کو یاد کرو عام طور پر اللہ تعالیٰ کا یہ طریقہ ہے کہ وہ قوانین یا احکام بیان کرنے کے بعد یا تو علم کا حوالہ دیتا ہے یا تقویٰ اختیار کرنے کا۔ چناچہ یہاں تییم کے احکام بیان کرنے اور اپنے احسانات کے ذکر کے بعد فرمایا واتقو اللہ اللہ تعالیٰ سے ڈر جائو ۔ کہیں اس کے عہد کی خلاف ورزی نہ کر بیٹھنا ۔ یہ نہ سمجھنا کہ تم اپنے ہم جنسوں کی طرح اللہ تعالیٰ کو دھوکہ دے سکو گے ، بلکہ ان اللہ علیم بذات الصدور وہ تمہارے نیت اور اردے سے واقف ہے ۔ لہذا عہد شکنی کر کے تم اس کی سزا سے بچ نہیں سکتے۔
Top