Mufradat-ul-Quran - Al-Maaida : 6
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا قُمْتُمْ اِلَى الصَّلٰوةِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْهَكُمْ وَ اَیْدِیَكُمْ اِلَى الْمَرَافِقِ وَ امْسَحُوْا بِرُءُوْسِكُمْ وَ اَرْجُلَكُمْ اِلَى الْكَعْبَیْنِ١ؕ وَ اِنْ كُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوْا١ؕ وَ اِنْ كُنْتُمْ مَّرْضٰۤى اَوْ عَلٰى سَفَرٍ اَوْ جَآءَ اَحَدٌ مِّنْكُمْ مِّنَ الْغَآئِطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِكُمْ وَ اَیْدِیْكُمْ مِّنْهُ١ؕ مَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیَجْعَلَ عَلَیْكُمْ مِّنْ حَرَجٍ وَّ لٰكِنْ یُّرِیْدُ لِیُطَهِّرَكُمْ وَ لِیُتِمَّ نِعْمَتَهٗ عَلَیْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : وہ جو ایمان لائے (ایمان والے) اِذَا : جب قُمْتُمْ : تم اٹھو اِلَى الصَّلٰوةِ : نماز کے لیے فَاغْسِلُوْا : تو دھو لو وُجُوْهَكُمْ : اپنے منہ وَاَيْدِيَكُمْ : اور اپنے ہاتھ اِلَى : تک الْمَرَافِقِ : کہنیاں وَامْسَحُوْا : اور مسح کرو بِرُءُوْسِكُمْ : اپنے سروں کا وَاَرْجُلَكُمْ : اور اپنے پاؤں اِلَى : تک الْكَعْبَيْنِ : ٹخنوں وَاِنْ : اور اگر كُنْتُمْ : تم ہو جُنُبًا : ناپاک فَاطَّهَّرُوْا : تو خوب پاک ہوجاؤ وَاِنْ : اور اگر كُنْتُمْ : تم ہو مَّرْضٰٓى : بیمار اَوْ : یا عَلٰي : پر (میں) سَفَرٍ : سفر اَوْ : اور جَآءَ : آئے اَحَدٌ : کوئی مِّنْكُمْ : تم میں سے مِّنَ الْغَآئِطِ : بیت الخلا سے اَوْ لٰمَسْتُمُ : یا تم ملو (صحبت کی) النِّسَآءَ : عورتوں سے فَلَمْ تَجِدُوْا : پھر نہ پاؤ مَآءً : پانی فَتَيَمَّمُوْا : تو تیمم کرلو صَعِيْدًا : مٹی طَيِّبًا : پاک فَامْسَحُوْا : تو مسح کرو بِوُجُوْهِكُمْ : اپنے منہ وَاَيْدِيْكُمْ : اور اپنے ہاتھ مِّنْهُ : اس سے مَا يُرِيْدُ : نہیں چاہتا اللّٰهُ : اللہ لِيَجْعَلَ : کہ کرے عَلَيْكُمْ : تم پر مِّنْ : کوئی حَرَجٍ : تنگی وَّلٰكِنْ : اور لیکن يُّرِيْدُ : چاہتا ہے لِيُطَهِّرَكُمْ : کہ تمہیں پاک کرے وَلِيُتِمَّ : اور یہ کہ پوری کرے نِعْمَتَهٗ : اپنی نعمت عَلَيْكُمْ : تم پر لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَشْكُرُوْنَ : احسان مانو
مومنو ! جب تم نماز پڑھنے کا قصد کیا کرو تو منہ اور کہنیوں تک ہاتھ دھو لیا کرو۔ اور سر کا مسح کرلیا کرو۔ اور ٹخنوں تک پاؤں (دھولیا کرو) اور اگر نہانے کی حاجت ہو تو (نہاکر) پاک ہوجایا کرو اور اگر بیمار ہو یا سفر میں ہو یا کوئی تم میں سے بیت الخلا سے آیا ہو یا تم عورتوں سے ہمبستر ہوئے ہو، اور تمہیں پانی نہ مل سکے تو پاک مِٹّی لو اور اس منہ اور ہاتھو کا مسح (یعنی تیمم) کرلو۔ خدا تم پر کسی طرح کی تنگی نہیں کرنی چاہتا بلکہ یہ چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کرے اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کرے۔ تاکہ تم شکر کرو۔
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا قُمْتُمْ اِلَى الصَّلٰوۃِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْہَكُمْ وَاَيْدِيَكُمْ اِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوْا بِرُءُوْسِكُمْ وَاَرْجُلَكُمْ اِلَى الْكَعْبَيْنِ۝ 0ۭ وَاِنْ كُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّہَّرُوْا۝ 0ۭ وَاِنْ كُنْتُمْ مَّرْضٰٓى اَوْ عَلٰي سَفَرٍ اَوْ جَاۗءَ اَحَدٌ مِّنْكُمْ مِّنَ الْغَاۗىِٕطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَاۗءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَاۗءً فَتَيَمَّمُوْا صَعِيْدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْہِكُمْ وَاَيْدِيْكُمْ مِّنْہُ۝ 0ۭ مَا يُرِيْدُ اللہُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُمْ مِّنْ حَرَجٍ وَّلٰكِنْ يُّرِيْدُ لِيُطَہِّرَكُمْ وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَہٗ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ۝ 6 أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی ﷺ کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی ﷺ میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔ (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی) (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ) (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔ مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔ (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن) (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی) صلا أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] والصَّلاةُ ، قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق : تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة/ 157] ، ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار، كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة، أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] ( ص ل ی ) الصلیٰ ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ الصلوۃ بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔ اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔ غسل غَسَلْتُ الشیء غَسْلًا : أَسَلْتُ عليه الماءَ فأَزَلْتُ دَرَنَهُ ، والْغَسْلُ الاسم، والْغِسْلُ : ما يُغْسَلُ به . قال تعالی: فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ ... الآية [ المائدة/ 6] ، والِاغْتِسَالُ : غَسْلُ البدنِ ، قال : حَتَّى تَغْتَسِلُوا[ النساء/ 43] ، والمُغْتَسَلُ : الموضعُ الذي يُغْتَسَلُ منه، والماء الذي يُغْتَسَلُ به، قال : هذا مُغْتَسَلٌ بارِدٌ وَشَرابٌ [ ص/ 42] . والْغِسْلِينُ : غُسَالَةُ أبدانِ الكفّار في النار قال تعالی: وَلا طَعامٌ إِلَّا مِنْ غِسْلِينٍ [ الحاقة/ 36] . غ س ل ) غسلت الشئی غسلا کے معنی کسی چیز پر پانی بہا کر اسے میل کچیل سے پاک کرنے کے ہیں اسی سے غسل اسم ہے اور غسل وہ چہرہ ہے جس کے ساتھ کپڑے کو دھو یا یا نہا یا جاتا ہے ( جیسے صابن وغیرہ ) قرآن میں ہے : ۔ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ ... الآية [ المائدة/ 6] تو چہرے اور ہاتھ دھولیا کرو ۔ الاغتسال ( افتعال ) کے معنی نہا کے اور تمام بدن کو دھونے کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى تَغْتَسِلُوا[ النساء/ 43] جب تک کہ غسل نہ کرلو ۔ المغتسل نہانے کی جگہ یا نہانے کا پانی قرآن میں ہے : ۔ هذا مُغْتَسَلٌ بارِدٌ وَشَرابٌ [ ص/ 42] یہ چشمہ نہانے کو ٹھنڈا اور پینے شیریں ۔ الغسلین کے معنی دو زخیوں کے اجسام کا غسالہ ( پیپ ) کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَلا طَعامٌ إِلَّا مِنْ غِسْلِينٍ [ الحاقة/ 36] اور نہ پیپ کے سوا ان کے لئے کھانا ہے ۔ وجه أصل الوجه الجارحة . قال تعالی: فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة/ 6] ( و ج ہ ) الوجہ کے اصل معیج چہرہ کے ہیں ۔ جمع وجوہ جیسے فرمایا : ۔ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة/ 6] تو اپنے منہ اور ہاتھ دھو لیا کرو ۔ يد الْيَدُ : الجارحة، أصله : وقوله : فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم/ 9] ، ( ی د ی ) الید کے اصل معنی تو ہاتھ کے ہیں یہ اصل میں یدی ( ناقص یائی ) ہے کیونکہ اس کی جمع اید ویدی اور تثنیہ یدیان اور آیت کریمہ : ۔ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم/ 9] تو انہوں نے اپنے ہاتھ ان کے مونہوں پر رکھ دئے ۔ إلى إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے ( المرافق) جمع المرفق، اسم للعضو المعروف وزنه مفعل بکسر المیم وفتح العین أو بفتح المیم وکسر العین، ووزن المرافق مفاعل . مسح المَسْحُ : إمرار الید علی الشیء، وإزالة الأثر عنه، وقد يستعمل في كلّ واحد منهما . يقال : مسحت يدي بالمندیل، وقیل للدّرهم الأطلس : مسیح، وللمکان الأملس : أمسح، ومسح الأرضَ : ذرعها، وعبّر عن السّير بالمسح کما عبّر عنه بالذّرع، فقیل : مسح البعیرُ المفازةَ وذرعها، والمسح في تعارف الشرع : إمرار الماء علی الأعضاء . يقال : مسحت للصلاة وتمسّحت، قال تعالی: وَامْسَحُوا بِرُؤُسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ [ المائدة/ 6] . ومسحته بالسیف : كناية عن الضرب، كما يقال : مسست، قال تعالی: فَطَفِقَ مَسْحاً بِالسُّوقِ وَالْأَعْناقِ [ ص/ 33] ، وقیل سمّي الدّجّال مَسِيحاً ، لأنّه ممسوح أحد شقّي وجهه، وهو أنه روي «أنه لا عين له ولا حاجب» «3» ، وقیل : سمّي عيسى عليه السلام مسیحا لکونه ماسحا في الأرض، أي : ذاهبا فيها، وذلک أنه کان في زمانه قوم يسمّون المشّاء ین والسّيّاحین لسیرهم في الأرض، وقیل : سمّي به لأنه کان يمسح ذا العاهة فيبرأ، وقیل : سمّي بذلک لأنه خرج من بطن أمّه ممسوحا بالدّهن . وقال بعضهم «4» : إنما کان مشوحا بالعبرانيّة، فعرّب فقیل المسیح وکذا موسیٰ کان موشی «5» . وقال بعضهم : المسیح : هو الذي مسحت إحدی عينيه، وقد روي : «إنّ الدّجّال ممسوح الیمنی» «1» و «عيسى ممسوح الیسری» «2» . قال : ويعني بأنّ الدّجّال قد مسحت عنه القوّة المحمودة من العلم والعقل والحلم والأخلاق الجمیلة، وأنّ عيسى مسحت عنه القوّة الذّميمة من الجهل والشّره والحرص وسائر الأخلاق الذّميمة . وكنّي عن الجماع بالمسح، كما کنّي عنه بالمسّ واللّمس، وسمّي العرق القلیل مسیحا، والمِسْحُ : البِلَاسُ. جمعه : مُسُوح وأَمساح، والتِّمْسَاح معروف، وبه شبّه المارد من الإنسان . ( م س ح ) المسح کے معنی کسی چیز پر ہاتھ پھیرنے اور اس سے نشان اور آلائش صاف کردینے کے ہیں اور کبھی صرف کسی چیز پر ہاتھ پھیرنا اور کبھی اذالہ اثر کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ مسحت یدی با لمندیل : میں نے رو مال سے ہاتھ پونچھا اور گھسے ہوئے چکنے در ہم ( سکہ ) کو مسیح کہا جاتا ہے اور ہموار اور چکنی جگہ کو مکان امسح کہہ دیتے ہیں ۔ مسح الارض اس نے زمین کی پیمائش کی ۔ پھر جس طرح ( مجازا ) ذرع ( ناپن ا) کے معنی چلنا اور مسافت طے کرنا آجاتے ہیں ۔ اسی طرح مسح کا لفظ بھی چلنے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے : ۔ مسح البعیر المفا ذۃ وذرعھا : اونٹ نے بیا باں کو عبور کیا ۔ اصطلاح شریعت میں مسح کے معنی اعضاء پر پانی گذار نے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ مسحت للصلوۃ وتمسحت میں نے نماز کے لئے مسح کیا ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَامْسَحُوا بِرُؤُسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ [ المائدة/ 6] اور سر کا مسح کرلیا کرو اور پاؤں دھو لیا کرو ۔ اور کبھی مسیست کی طرح مسحتہ باسیف کے معنی بھی تلوار سے مارنا کے آجاتے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَطَفِقَ مَسْحاً بِالسُّوقِ وَالْأَعْناقِ [ ص/ 33] پھر ان کی ٹانگوں اور گر دنوں پر ہاتھ پھیر نے لگے بعض نے کہا ہے کہ دجال کا نام مسیح اس لئے رکھا گیا ہے کہ اس کے چہرے کی ایک جانب مسخ ہوچکی ہوگی ۔ چناچہ مروی ہے انہ لاعین لہ ولا حاجب کہ اس کے ایک جانب کی آنکھ اور بھویں کا نشان تک نہیں ہوگا ۔ اور عیسٰی (علیہ السلام) کا نام مسیح اس لئے رکھا گیا ہے کہ وہ زمین میں سیاست کرتے تھے ۔ اور ان کے زمانہ میں ایک گر وہ تھا جنہیں زمین میں سیاست کی وجہ سے مشائین اور سیا حین کہا جاتا تھا بعض کہتے ہیں کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے مس کرنے سے چونکہ کوڑھی تندرست ہوجاتے تھے اس لئے آپ ﷺ کو مسیح کے نام سے پکارا جاتا ہے ۔ بعض نے اس کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) بطن م اور سے پیدا ہوئے تو یوں معلوم ہوتا تھا ان کے بدن پر تیل کی مالش کی گئی ہے ۔ اس لئے انہیں مسیح کہا گیا ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ یہ عبرانی لفظ مشوح سے معرب ہے جیسا کہ موسٰی عبرانی لفظ موشیٰ سے معرب ہے بعض کا قول یہ ہے کہ مسیح اسے کہتے ہیں جس کی ایک آنکھ مٹی ہوئی ہو اور مردی ہے ان الدجال ممسوح الینمی وان عیسیٰ ممسوح الیسری ٰ کہ دجال کی دائیں اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی بائیں آنکھ مٹی ہوئی ہوگی اس کے معنی یہ ہیں کہ دجال علم وعقل حلم اور دیگر اخلاق جہلیہ سے کلیۃ محروم ہوگا اس کے بر عکس عیسیٰ (علیہ السلام) کی بائیں آنکھ مٹنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ جہالت حرص اور دیگر اخلاق مذمومہ سے پاک تھے ۔ پھر جس طرح مس اور لمس کے الفاظ کنایۃ مجامعت کے لئے آجاتے ہیں اسی طرح مسح بھی مجامعت کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ معمولی پسینے پر بھی مسیح کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ اور مسیح ٹاٹ کر کہتے ہیں اس کی جمع مسود ومساح آتی ہے التمساح مگر مچھ کو کہتے ہیں اور تشبیہ کے طور پر سر کشی آدمی کو بھی تمساح کہہ دیتے ہیں رأس الرَّأْسُ معروف، وجمعه رُؤُوسٌ ، قال : وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْباً [ مریم/ 4] ، وَلا تَحْلِقُوا رُؤُسَكُمْ [ البقرة/ 196] ، ويعبّر بِالرَّأْسِ عن الرَّئِيسِ ، والْأَرْأَسُ : العظیم الرّأس، وشاة رَأْسَاءُ : اسودّ رأسها . ورِيَاسُ السّيف : مقبضه . ( ر ء س ) الراس سر کو کہتے ہیں اور اس کی جمع رؤوس آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْباً [ مریم/ 4] اور سر بڑاھاپے ( کی آگ ) سے بھڑک اٹھا ہے ۔ وَلا تَحْلِقُوا رُؤُسَكُمْ [ البقرة/ 196] اپنے سر نہ منڈاؤ اور کبھی راس بمعنی رئیس بھی آتا ہے اور ارء س ( اسم تفصیل ) کے معنی بڑے سر والا کے ہیں اور سیاہ سر والی بکری کو شاۃ راساء کہتے ہیں اور ریاس السیف کے معنی دستہ شمشیر کے ہیں ۔ رِّجْلُ : العضو المخصوص بأكثر الحیوان، قال تعالی: وَامْسَحُوا بِرُؤُسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ [ المائدة/ 6] ، واشتقّ من الرِّجْلِ رَجِلٌ ورَاجِلٌ للماشي بالرِّجْل، ورَاجِلٌ بيّن الرُّجْلَةِ «1» ، فجمع الرَّاجِلُ رَجَّالَةٌ ورَجْلٌ ، نحو : ركب، ورِجَالٌ نحو : رکاب لجمع الرّاكب . ويقال : رَجُلٌ رَاجِلٌ ، أي : قويّ علی المشي، جمعه رِجَالٌ ، نحو قوله تعالی: فَرِجالًا أَوْ رُكْباناً [ البقرة/ 239] ، الرجل ۔ پاؤں ۔ اس کی جمع ارجل آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَامْسَحُوا بِرُؤُسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ [ المائدة/ 6] اپنے سروں کا مسح کرلیا کرو اور اپنے پاؤں بھی ٹخنوں تک دھو لیا کرو ۔ راجل ورجل پا پیادہ چلنے والا یہ بھی الرجل بمعنی پاؤں سے مشتق ہے اور راجل کی جمع رجالۃ اور رجل آتی ہے جیسے رکب جو کہ راکب کی جمع ہے اور راجل کی جمع رجال بھی آجاتی ہے جیسے راکب ورکاب ۔ اور رجل راجل اسے کہتے ہیں جو چلنے پر قدرت رکھتا ہو اس کی جمع رجال آجاتی ہے قرآن میں ہے : ۔ فَرِجالًا أَوْ رُكْباناً [ البقرة/ 239] تو پاؤں پیدل یا سوار ۔ (بقیہ حصہ کتاب سے ملاحضہ فرمائیں)
Top