Kashf-ur-Rahman - Al-Maaida : 6
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا قُمْتُمْ اِلَى الصَّلٰوةِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْهَكُمْ وَ اَیْدِیَكُمْ اِلَى الْمَرَافِقِ وَ امْسَحُوْا بِرُءُوْسِكُمْ وَ اَرْجُلَكُمْ اِلَى الْكَعْبَیْنِ١ؕ وَ اِنْ كُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوْا١ؕ وَ اِنْ كُنْتُمْ مَّرْضٰۤى اَوْ عَلٰى سَفَرٍ اَوْ جَآءَ اَحَدٌ مِّنْكُمْ مِّنَ الْغَآئِطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِكُمْ وَ اَیْدِیْكُمْ مِّنْهُ١ؕ مَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیَجْعَلَ عَلَیْكُمْ مِّنْ حَرَجٍ وَّ لٰكِنْ یُّرِیْدُ لِیُطَهِّرَكُمْ وَ لِیُتِمَّ نِعْمَتَهٗ عَلَیْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : وہ جو ایمان لائے (ایمان والے) اِذَا : جب قُمْتُمْ : تم اٹھو اِلَى الصَّلٰوةِ : نماز کے لیے فَاغْسِلُوْا : تو دھو لو وُجُوْهَكُمْ : اپنے منہ وَاَيْدِيَكُمْ : اور اپنے ہاتھ اِلَى : تک الْمَرَافِقِ : کہنیاں وَامْسَحُوْا : اور مسح کرو بِرُءُوْسِكُمْ : اپنے سروں کا وَاَرْجُلَكُمْ : اور اپنے پاؤں اِلَى : تک الْكَعْبَيْنِ : ٹخنوں وَاِنْ : اور اگر كُنْتُمْ : تم ہو جُنُبًا : ناپاک فَاطَّهَّرُوْا : تو خوب پاک ہوجاؤ وَاِنْ : اور اگر كُنْتُمْ : تم ہو مَّرْضٰٓى : بیمار اَوْ : یا عَلٰي : پر (میں) سَفَرٍ : سفر اَوْ : اور جَآءَ : آئے اَحَدٌ : کوئی مِّنْكُمْ : تم میں سے مِّنَ الْغَآئِطِ : بیت الخلا سے اَوْ لٰمَسْتُمُ : یا تم ملو (صحبت کی) النِّسَآءَ : عورتوں سے فَلَمْ تَجِدُوْا : پھر نہ پاؤ مَآءً : پانی فَتَيَمَّمُوْا : تو تیمم کرلو صَعِيْدًا : مٹی طَيِّبًا : پاک فَامْسَحُوْا : تو مسح کرو بِوُجُوْهِكُمْ : اپنے منہ وَاَيْدِيْكُمْ : اور اپنے ہاتھ مِّنْهُ : اس سے مَا يُرِيْدُ : نہیں چاہتا اللّٰهُ : اللہ لِيَجْعَلَ : کہ کرے عَلَيْكُمْ : تم پر مِّنْ : کوئی حَرَجٍ : تنگی وَّلٰكِنْ : اور لیکن يُّرِيْدُ : چاہتا ہے لِيُطَهِّرَكُمْ : کہ تمہیں پاک کرے وَلِيُتِمَّ : اور یہ کہ پوری کرے نِعْمَتَهٗ : اپنی نعمت عَلَيْكُمْ : تم پر لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَشْكُرُوْنَ : احسان مانو
اے ایمان والو ! جب تم نماز پڑھنے کو اٹھو تو پہلے اپنے منہ کو اور کہنیوں تک اپنے ہاتھوں کو دھو لیا کرو اور اپنے سروں کا مسخ کرلیا کرو اور اپنے پائوں بھی سخنوں تک دھو لیا کرو اور اگر تم جنابت کی حالت میں ہو تو تمام جسم کو خوب پاک کو۔3 اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی شخص جائے ضرور سے فارغ ہو کر آیا ہو یا تم ملے ہو عورتوں سے پھر تم پانی پر قدرت نہ پائو تو ایسی حالت میں تم پاک مٹی کا قصد کرو اور اس مٹی سے اپنے چہروں کا اور اپنے ہاتھوں کا مسخ کرلو اللہ یہ نہیں چاہتا کہ تم پر کوئی تنگی کرے بلکہ وہ تو یہ چاہتا ہے کہ تم کو پاک و صاف کرے اور تم پر اپنے احسانات کی تکمیل کر دے تاکہ تم اس کا شکر بجا لائو1
3 اے ایمان والو ! جب تم نماز پڑھنے کو اٹھو یعنی نماز پڑھنے کا ارادہ کرو اور تم کو وضو نہ ہو تو نماز پڑھنے سے پہلے اپنے چہروں کو دھو لیا کرو یعنی پورے چہرے کو اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں تک دھو لیا کرو یعنی کہنیاں دھونے میں داخل ہوں اور اپنے سروں پر مسح کرلیا کرو یعنی پانی سے ہاتھ تر کر کے اپنے سروں پر پھیرلیا کرو اور اپنے پائوں ٹخنوں تک دھو لیا کرو یعنی ٹخنے دھونے میں داخل ہوں اور اگر تم جنبی ہو یعنی جنابت کی حالت میں ہو تو تمام جسم کو خوب اچھی طرح پاک کرو۔ (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ اوپر کی آیت میں اپنے انعامات اور احسانات کا ذکر فرمایا تھا احسانات کے لئے یہ ضروری ہے کہ انسان محسن کا شکر بجا لائے یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے اور اس کے احکام کی تعمیل کرے اسی لئے سب سے اہم عبادت یعنی نماز کے آداب سکھائے کہ جب ہمارے دربار میں حاضر ہوا اور نماز پڑھو تو پاک صاف ہو کر حاضر ہو اس پاک صاف ہونے کی صورت یہ ہے کہ اگر وضو نہ ہو تو وضو کرو وضو کے فرائض یہ ہیں کہ پورے چہرے کا غسل کو کہنیوں سمیت دونوں ہاتھ دھوئو سر پر مسح کرو ہاتھ تر کر کے سر پر پھیرو اور ٹخنوں سمیت پائوں دھوئو اسی کے ساتھ غسل جنابت کا حکم دیا یعنی صرف وضو اس وقت کافی ہوگا جب کہ تم جنبی نہ ہو اور اگر تم جنبی بھی ہو تو پھر نماز کے لئے تمام جسم کو پاک کرنا ہوگا اور بدن کے جس جس حصہ پر پانی پہنچایا جاسکتا ہے اس حصہ پر پانی پہنچانا ہوگا چونکہ حضرت حق تعالیٰ نے تمام جسم کو مبالغہ کے ساتھ پاک کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس لئے حنفیہ نے کلی کرنا اور ناک میں پانی دینا غسل میں فرض کہا ہے۔ اس آیت کے نزول سے قبل بھی نماز وضو کے ساتھ پڑھی جاتی تھی نبی کریم ﷺ نے کبھی کوئی نماز بغیر وضو کے نہیں پڑھی۔ اسی سابقہ عمل کو قرآن کریم کی تلاوت میں شامل فرمایا ہے۔ جیسا کہ ابن عبداللہ نے فرمایا ہے اور ہوسکتا ہے کہ تمیم کی تمہید کے سلسلے میں وضو کا بیان فرمایا ہو اس آیت میں صرف وضو کے فرائض کا ذکر ہے باقی کلی کرنا، ناک میں پانی دینا، ترتیب کی رعایت کرنا، مسواک کرنا، قبلہ رخ ہو کر وضو کرنا، نیت کرنا، بسم اللہ پڑھ کر وضو کرنا وغیرہ ، یہ امور مسنون اور مستحبات میں داخل ہیں اور ان کی تفصیل کتب فقہ میں مذکور ہے۔ اسی طرح تیسیر میں جو قیوم ہم نے لگائی ہیں اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا ہوگا کہ یہ حکم اس کے لئے جو محدث ہو اور اگر پہلے سے وضوہو تو دوبارہ وضو کرنا فرض نہیں۔ نبی کریم ﷺ ہر نماز کے لئے وضو فرماتے تھے لیکن فتح مکہ کے دن آپ ﷺ نے ایک ہی وضو سے کئی نمازیں پڑھیں اور حضرت عمر ؓ کے دریافت کرنے پر فرمایا اے عمر ! ؓ میں نے یہ کام قصداً کیا ہے اس سے معلوم ہوا کہ وضو پر وضو کرنا ضروری نہیں البتہ ہر نماز کے لئے تازہ وضو کرنا مستحب اور نورانیت کو بڑھانے والا ہے۔ ایک ضعیف حدیث میں آتا ہے کہ وضو پر وضو کرنے والے کے لئے دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔ ارجل کا عطب ایدیکم پر ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وضو میں پائوں کا دھونا فرض ہے مسح کافی نہ ہوگا جیسا کہ روا فض کا عمل ہے اس مسئلہ کی پوری تفصیل صاحب تفسیر مظہری نے بیان کی ہے اور خوب تحقیق فرمائی ہے البتہ جو شخص خفین پہنے ہئے ہو وہ خفین پر مسح کرسکتا ہے خفین پر مسح کرنے کی میعاد مسافر کیلئے تین دن اور تین راتیں ہیں اور مقیم کے لئے ایک دن اور ایک رات ہے تمام سر کا مسح کرنا مستحب ہے اور چوتھائی سر کا مسح حنفیہ کے نزدیک فرض ہے کعب ٹخنے کو اور مرفق کہنی کو کہتے ہیں اور یہ دونوں غسل میں شامل ہیں اور محقق یہی ہے کہ غایت مغیا میں داخل ہے اگر کہنیاں یا ٹخنے خشک رہ جائیں گے تو وضو نہ ہوگا۔ وجہ سے مراد ہے پورا چہرہ لمبائی میں پیشانی کے بالوں سے لے کر ٹھوڑی کے نیچے تک اور چوڑائی میں ایک کان سے لے کر دوسرے کان تک پیشانی کے بال یعنی سر کے بال اگنے کی جگہ چونکہ وضو اور غسل کے مسائل بیشمار ہیں اس لئے تفصیل فقہ کی کتابوں سے معلوم کرنی چاہئے۔ وضو اگر تمام مستحبات اور آداب کی رعایت سے کیا جائے تو انسان کے تمام صغیرہ گناہ پانی کے قطروں کے ساتھ جھڑ جاتے ہیں حتی کہ آخری قطرہ آخری گناہ لے کر زمین پر گرتا ہے غسل اور وضو میں جن اعضاء کے دھونے کا حکم ہے ان میں کوئی حصہ اگر خشک رہ جائے گا تو وضو اور غسل پورا نہیں ہوگا۔ نبی کریم ﷺ نے کچھ لوگوں کی ایڑیاں خشک دیکھ کر فرمایا تھا۔ ویل الاعقاب من النار یعنی جہنم کی آگ سے ایسی ایڑیوں کی خرابی ہو جو وضو میں خشک رہ جائیں۔ حضرت علی ؓ کا قول مشہور ہے کہ جب سے میں نے نبی کریم ﷺ سے یہ سنا ہے کہ ہر بال کے نیچے جنابت کا اثر ہے تب سے میں نے اپنے سر سے دشمنی کر رکھی ہے یعنی سر پر ذرا بال ہوئے اور میں نے سر منڈا یا کہ کہیں غسل میں کوئی بال خشک نہ رہ جائے حضرت عمر ؓ نے مرفوعاً بیان کیا ہے کہ ایک شخص نے وضو کیا تو اس کا پائوں ایک ناخن برابر خشک رہ گیا۔ حضور ﷺ نے فرمایا جا اپنا وضو درست کر کے آ۔ (مسلم) غسل اور وضو کی فرضیت کا بیان کرنے کے بعد اب آگے تمیم کا ذکر ہے چناچہ ارشاد فرماتے ہیں۔ (تسہیل) 1 اور اگر تم بیمار ہو یا حالت سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی شخص پیشاب پاخانے کی ضرورت سے فارغ ہو کر آیا ہو یا تم عورتوں سے ملے ہو پھر تم ان سب صورتوں میں پانی پر قدرت نہ پائو یعنی یا تو پانی نہ ملے یا ملے مگر اس کا استعمال ضرر رساں ہو تو ان دونوں حالتوں میں تم پاک مٹی کا قصد کرو اور اس پاک مٹی پر ہاتھ مار کر اپنے چہروں پر اور اپنے ہاتھوں پر پھیر لو یعنی ایک دفعہ ہاتھ مار کر چہرے پر اور دوسری دفعہ ہاتھ مار کر کہنیوں پر مسح کرلو اللہ تعالیٰ یہ نہیں چاہتا کہ تم پر کسی قسم کی تنگی کرے اور تم پر کسی قسم کی مشکل ڈالے بلکہ وہ تو یہ چاہتا ہے کہ تم کو پاک و صاف رکھے اور ظاہری و باطنی پاکیزگی سے تم کو نوازے اور تم پر اپنی نعمت کا اتمام اور اپنے احسانات کی تکمیل کر دے تاکہ تم اس کا حق مانو اور اس کا شکر بجا لائو۔ (تیسیر) بخاری نے حضرت عائشہ ؓ سے ایک واقعہ نقل کیا ہے وہ فرماتی ہیں ہم کسی سفر سے واپس آ رہے تھے اور مدینہ میں داخل ہونے والے تھے کہ اتفاقاً بیدا میں میرے گلے کا ہار کہیں گرپڑا لوگ اس کو تلاش کرنے لگے نبی ﷺ میری گود میں سر رکھ کر سو گئے حضرت ابوبکر ؓ میرے پاس آئے اور مجھ پر بگڑنے لگے کہ تو نے ہار کھو کر لوگوں کو روک لیا حضرت ابوبکر ؓ غصہ میں مجھے کچوکے لگانے لگے مگر میں اس خیال سے کہ حضور ﷺ کو تکلیف نہ ہو ضبط کے بیٹھی رہی۔ جب حضور ﷺ بیدار ہوئے تو نماز کا وقت ہوچکا تھا وضو کے لئے پانی تلاش کیا گیا تو پانی نہیں ملا اس پر یہ پوری آیت نازل ہوئی۔ حضرت اسید بن حفیر ؓ نے کہا اے آل ابوبکر ؓ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے لئے تمہیں بابرکت بنادیا ہے تم ان کے لئے سر تا پا برکت ہو یعنی تمہارے ہار گم ہونے کی وجہ سے جو تاخیر ہوئی وہ امت کے لئے تخفیف اور رحمت کا موجب بن گئی۔ یہ مضمون سورة نساء میں بھی گذر چکا ہے وہاں شاید غسل کے سلسلے میں ذکر فرمایا ہو اور یہاں وضو اور غسل دونوں کے لئے تمیم کو قائم مقام ظاہر کرنا مقصود ہو۔ (واللہ اعلم) اور یہ جو ہم نے عرض کیا ہے کہ پانی کے حصول یا اس کے استعمال پر قدرت نہ ہو ، اس کا مطلب یہ ہے کہ سفر میں بعض دفعہ دور دور پانی نہیں ملتا یا پانی کے راستہ میں کوئی درندہ یا دشمن حائل ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے پانی تک پہونچنا ناممکن ہوجاتا ہے یا ڈول اور رسی نہیں ہوتی اور استعمال نہ کرسکنے کا مطلب یہ ہے کہ بیماری کی وجہ سے یا سخت سردی کی وجہ سے پانی کا استعمال صحت کے لئے مضر ہو یا جدید مرض کے لاحق ہوجانے کا یقین ہو تو ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے پانی کی بجائے مٹی کو اس کا قائم مقام کردیا ہے غائط نرم زمین کو کہتے ہیں چونکہ پیشاب اور پاخانہ کے لئے انسان نرم اور کوئی گڑھا تلاش کرتا ہے اس لئے غائط سے اب پیشاب پاخانہ وغیرہ کی ضروریات کو کنایہ کیا جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ضروریات سے فارغ ہو کر آیا ہو اور اس کا وضو ٹوٹ گیا ہو اور وضو کرنے کے لئے پانی کی تلاش ہو یا عورتوں سے قربت کی ہو اور غسل واجب ہوگیا ہو۔ مطلب یہ ہے کہ حدث اصغر ہو یا حدث اکبر ہو، وضو ٹوٹا ہو یا غسل واجب ہوگیا ہو اور رفع حدث کے لئے پانی کی ضرورت ہو پھر پانی پر قدرت نہ پائو سفر کی صورت میں تو پانی میسر نہ آئے اور مرض کی صورت میں پانی کا مضر ہونا یقینی ہو تو ان مجبوریوں کی حالت میں پانی کا کام مٹی سے لے لو اور تمیم کرلو یعنی پاک زمین یا زمین کی جنس سے جو چیز ہو اس پر ہاتھ مار کر ایک دفعہ منہ پر پھیر لو اور دوسری دفعہ ہاتھ مار کر اپنے ہاتھوں پر پھیر لو۔ غرض ! وضو کسی طرح ٹوٹا ہو اور غسل کسی صورت سے واجب ہوا ہو جس میں احتلام، حیض، نفاس، التغائے حنانین کی سب صورتیں داخل ہیں اسی طرح وضو میں تمام نواقض وضو داخل ہیں اور وضو یا غسل کی صورت میں پانی کا حصول یا استعمال ناممکن ہوجائے تو اس رعایت کا اعلان کیا جاتا ہے اور ایسی حالت میں مٹی کو پانی کی جگہ استعمال کرنے کا حکم دیا جاتا ہے اور چونکہ مریض اور مسافر کے لئے یہ رعایت ایک عظیم الشان رعایت تھی۔ اس لئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا یہ منشا نہیں کہ وہ تم پر کوئی تنگی اور فسیق ڈالے اور جب تنگی ڈالنے کا ارادہ نہیں تو ظاہر ہے کہ عدم فسیق کا ارادہ ہے اور مطلب یہ ہے کہ اس کا منشا یہ ہے کہ تم پر کوئی تنگی اور فسیق نہ رہے اس پر یہ وہم ہوتا تھا کہ اگر اس کا منشا یہ ہے کہ ہم پر کوئی تنگی نہ رہے تو تمام احکام شرعیہ سے سبکدوش کردیتا اس توہم کو لکن سے رفع فرمایا کہ اصل مقصد تو تمہارے ظاہر و باطن کو پاک کرنا ہے اور یہ ظاہر و باطن کی تطہیر بدون احکام شریعہ کے نہیں ہوسکتی اس لئے احکام شرعیہ کا مقرر کرنا تو تطہیر کی غرض سے ضروری ہے۔ ہاں احکام شرعیہ میں زیادہ سے زیادہ سہولت و آسانی کو مدنظر رکھا گیا ہے تاکہ تطہیر بھیجاصل ہوجائے اور کوئی تنگی بھی تم پر واقع نہ ہو جیسے کوئی طبیب حاذق فرمائے کہ مرض کو زائل کرنے کی غرض سے دوا کا تجویز کرنا ضروری ہے تاکہ مرض دور ہوجائے اور تم میں طاقت آجائے۔ ہاں ! تمہارے ساتھ یہ رعایت کی جائے گی کہ دو ایسی تجویز ہوگی جس کے پینے میں تم کو کوئی تکلیف نہ ہوگی سبحان اللہ ! کس قدر شفقت و محبت کا اظہار فرمایا ہے اور اسی مہربانی کو اتمام نعمت سے تعبیر کیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ احکام شرعیہ کی تکمیل اور ظاہر و باطن کی تطہیر کا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تم پر اپنی نعمت اور اپنے احسانات کا اتمام فرمائے کیونکہ یہی وہ احسانات ہیں جس کی بدولت تم اللہ تعالیٰ کا قرب اور اس کی رضا مندی حاصل کرسکو گے۔ آخر میں ایک محسن کے احسان پر شکر بجا لانے کی تاکید ہے اور شکر بجا لانے کی توقع ظاہر فرمائی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اگر تم مریض ہو یا مسافر ہو یا کسی وجہ سے وضو ٹوٹ گیا ہو یا غسل واجب ہوگیا ہو اور پانی میسر نہ آئے یا پانی میسر آجائے لیکن اس کا استعمال ضر رساں ہو تو پاک مٹی سے تمیم کرلیا کرو اور اس مٹی پر ہاتھ مار کر ایک دفعہ اپنے چہروں پر پھیر لو اور دوسری دفعہ دونوں ہاتھ مار کر ہاتھ پر پھیر لو اور یہ بات یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کو تم پر تنگی ڈالنا منظور نہیں یعنی یہ منظور ہے کہ تم پر کوئی تنگی نہ رہے اور یہ وہم نہ کرو کہ جب تنگی ڈالنا منظور نہیں تو احکام شرعیہ کا مکلف ہی کیوں بنایا، احکام شرعیہ کا مکلف بنانا تنگی ڈالنے کی وجہ سے نہیں بلکہ ظاہر و باطن کی تطہیر اور پاکیزگی کی وجہ سے ہے اور یہ ظاہر و باطن کی تطہیر کا اہتمام اس لئے ہے کہ نعمت کی تکمیل مقصود ہے اور یہ سب کچھ اس لئے ہے کہ تم ہمارے احسانات پر شکر بجا لائو اور ہمارے احکام کی تعمیل کرو کیوں کہ اصل مطلوب یہی ہے کلام کو جس خوبی اور مربیانہ انداز میں ادا کیا ہے۔ یہ انہی کی شان کے قابل ہے اب آگے پھر اپنی نعمت و احسانات پر ایک لطیف پیرائے میں توجہ دلاتے ہیں چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)
Top