Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Mazhari - Al-Maaida : 6
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا قُمْتُمْ اِلَى الصَّلٰوةِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْهَكُمْ وَ اَیْدِیَكُمْ اِلَى الْمَرَافِقِ وَ امْسَحُوْا بِرُءُوْسِكُمْ وَ اَرْجُلَكُمْ اِلَى الْكَعْبَیْنِ١ؕ وَ اِنْ كُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوْا١ؕ وَ اِنْ كُنْتُمْ مَّرْضٰۤى اَوْ عَلٰى سَفَرٍ اَوْ جَآءَ اَحَدٌ مِّنْكُمْ مِّنَ الْغَآئِطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِكُمْ وَ اَیْدِیْكُمْ مِّنْهُ١ؕ مَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیَجْعَلَ عَلَیْكُمْ مِّنْ حَرَجٍ وَّ لٰكِنْ یُّرِیْدُ لِیُطَهِّرَكُمْ وَ لِیُتِمَّ نِعْمَتَهٗ عَلَیْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا
: اے
الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا
: وہ جو ایمان لائے (ایمان والے)
اِذَا
: جب
قُمْتُمْ
: تم اٹھو
اِلَى الصَّلٰوةِ
: نماز کے لیے
فَاغْسِلُوْا
: تو دھو لو
وُجُوْهَكُمْ
: اپنے منہ
وَاَيْدِيَكُمْ
: اور اپنے ہاتھ
اِلَى
: تک
الْمَرَافِقِ
: کہنیاں
وَامْسَحُوْا
: اور مسح کرو
بِرُءُوْسِكُمْ
: اپنے سروں کا
وَاَرْجُلَكُمْ
: اور اپنے پاؤں
اِلَى
: تک
الْكَعْبَيْنِ
: ٹخنوں
وَاِنْ
: اور اگر
كُنْتُمْ
: تم ہو
جُنُبًا
: ناپاک
فَاطَّهَّرُوْا
: تو خوب پاک ہوجاؤ
وَاِنْ
: اور اگر
كُنْتُمْ
: تم ہو
مَّرْضٰٓى
: بیمار
اَوْ
: یا
عَلٰي
: پر (میں)
سَفَرٍ
: سفر
اَوْ
: اور
جَآءَ
: آئے
اَحَدٌ
: کوئی
مِّنْكُمْ
: تم میں سے
مِّنَ الْغَآئِطِ
: بیت الخلا سے
اَوْ لٰمَسْتُمُ
: یا تم ملو (صحبت کی)
النِّسَآءَ
: عورتوں سے
فَلَمْ تَجِدُوْا
: پھر نہ پاؤ
مَآءً
: پانی
فَتَيَمَّمُوْا
: تو تیمم کرلو
صَعِيْدًا
: مٹی
طَيِّبًا
: پاک
فَامْسَحُوْا
: تو مسح کرو
بِوُجُوْهِكُمْ
: اپنے منہ
وَاَيْدِيْكُمْ
: اور اپنے ہاتھ
مِّنْهُ
: اس سے
مَا يُرِيْدُ
: نہیں چاہتا
اللّٰهُ
: اللہ
لِيَجْعَلَ
: کہ کرے
عَلَيْكُمْ
: تم پر
مِّنْ
: کوئی
حَرَجٍ
: تنگی
وَّلٰكِنْ
: اور لیکن
يُّرِيْدُ
: چاہتا ہے
لِيُطَهِّرَكُمْ
: کہ تمہیں پاک کرے
وَلِيُتِمَّ
: اور یہ کہ پوری کرے
نِعْمَتَهٗ
: اپنی نعمت
عَلَيْكُمْ
: تم پر
لَعَلَّكُمْ
: تاکہ تم
تَشْكُرُوْنَ
: احسان مانو
مومنو! جب تم نماز پڑھنے کا قصد کیا کرو تم منہ اور کہنیوں تک ہاتھ دھو لیا کرو اور سر کا مسح کر لیا کرو اور ٹخنوں تک پاؤں (دھو لیا کرو) اور اگر نہانے کی حاجت ہو تو (نہا کر) پاک ہو جایا کرو اور اگر بیمار ہو یا سفر میں ہو یا کوئی تم میں سے بیت الخلا سے ہو کر آیا ہو یا تم عورتوں سے ہم بستر ہوئے ہو اور تمہیں پانی نہ مل سکے تو پاک مٹی لو اور اس سے منہ اور ہاتھوں کا مسح (یعنی تیمم) کر لو۔ خدا تم پر کسی طرح کی تنگی نہیں کرنا چاہتا بلکہ یہ چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کرے اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کرے تاکہ تم شکر کرو
یا ایہا الذین امنوا اذا قمتم الی الصلوۃ اے ایمان والو ! جب تم نماز کو اٹھنے لگو۔ بخاری نے قاسم کی روایت سے لکھا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا ہم مدینہ کو آ رہے تھے کہ میرا ہار کہیں صحرا میں گرپڑا اس لئے رسول اللہ ﷺ : کو پڑاؤ کرنا پڑا اور آپ فروکش ہوگئے (لوگ ہار کی تلاش کرنے لگے) حضور ﷺ : فروکش ہونے کے بعد میری گود میں سر رکھ کر سو گئے۔ اتنے میں ابوبکر ؓ : آئے اور میرے مکہ مارنے لگے اور فرمانے لگے تو نے ایک ہار کے لئے لوگوں کو روک رکھا ہے کچھ دیر کے بعد رسول اللہ ﷺ بیدار ہوگئے اور صبح کی نماز کا وقت آگیا۔ وضو کے لئے پانی تلاش کیا گیا مگر پانی نہیں ملا اس پر آیت مذکورہ نازل ہوئی اسید بن حضیر ؓ نے کہا اے ابوبکر ؓ کے گھرانے والو ! تمہاری وجہ سے اللہ نے لوگوں کو برکت عطا فرمائی۔ اس بیان میں صراحت ہے کہ سورة مائدہ کی اس آیت کا نزول حضرت عائشہ ؓ کے ہار کے سلسلہ میں ہوا سورة نساء کی آیت کا نزول ہار کے سلسلہ میں نہیں ہوا۔ اس بیان سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سورة نساء والی آیت سے پہلے اس آیت کا نزول اگر ایسا نہ ہوتا تو حضرت ابوبکر ؓ حضرت عائشہ ؓ پر ان الفاظ سے عتاب نہ کرتے کہ تو نے لوگوں کو روک دیا ہے پانی پر پڑاؤ بھی نہیں اور پانی ساتھ بھی نہیں ہے نہ حضرت اسید حضرت عائشہ ؓ کے شکرگزار ہوتے۔ طبرانی نے بھی حضرت عائشہ ؓ کی روایت سے ایسی حدیث نقل کی ہے اس روایت میں اتنا زائد ہے کہ اللہ نے آیت تیمم نازل فرمائی اور حضرت ابوبکر ؓ نے (حضرت عائشہ ؓ سے) فرمایا بلاشبہ تو برکت والی ہے۔ آیت میں نماز کے لئے کھڑے ہونے سے مراد ہے کھڑے ہونے کا ارادہ کرنا جیسے آیت : وَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرٰانَ فَاسْتَعِذْ باللّٰہِمیں قرآن پڑھنے سے مراد ہے پڑھنے کا ارادہ کرنا۔ ایجاز کے پیش نظر ارادہ کی تعبیر فعل سے کی (ارادہ سبب فعل ہے اور فعل اس کا نتیجہ۔ نتیجہ بول کر سبب مراد لینا ضابطۂ مجاز مرسل ہے) اس تعبیر سے اس بات پر بھی تنبیہ کرنی مقصود ہے کہ جو شخص عبادت کا ارادہ کرے اس کو فوراً عبادت کر ہی لینا چاہئے ارادہ اور عبادت میں فصل نہ ہونا چاہئے۔ ظاہر آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص بھی نماز پڑھنے کا ارادہ کرے اس پر وضو کرنا واجب ہے خواہ طاہر باوضو ہو یا غیر طاہر بےوضو۔ حالانکہ اجماع علماء اس کے خلاف ہے (بےوضو پر وضو واجب ہے اور باوضو کے لئے تجدید وضو مستحب) صحیح روایت سے ثابت ہے کہ فتح مکہ کے دن رسول اللہ ﷺ نے چند نمازیں ایک وضو سے پڑھیں اور چمڑے کے موزوں پر مسح کیا اس سے پہلے آپ ہر نماز کے لئے (تازہ) وضو کیا کرتے تھے۔ حضرت عمر ؓ نے عرض کیا آج حضور ﷺ نے ایسا عمل کیا جو پہلے نہیں کرتے تھے فرمایا عمر ؓ میں نے ایسا قصداً کیا ہے۔ (رواہ مسلم واصحاب السنین الاربعۃ من حدیث بریدۃ ؓ اس ظاہری تضاد کو دور کرنے کے لئے علماء نے آیت کی تفسیر مختلف طور پر کی ہے۔ بعض نے کہا امر وجوب کے لئے ہے مگر یہ وجوب شروع میں تھا پھر منسوخ ہوگیا (اور باوضو کے لئے تجدید وضو مستحب ہوگئی) اس پر حضرت غسیل الملائکہ عبداللہ بن حنظلہ کی حدیث دلالت کر رہی ہے کہ رسول اللہ ﷺ : کو ہر نماز کے لئے تازہ وضو کرنے کا حکم دیا گیا تھا با وضو ہوں یا بےوضو ‘ جب اس سے حضور ﷺ : کو دشواری ہوئی تو ہر نماز کے لئے (صرف) مسواک کرنے کا حکم دے دیا گیا۔ رواہ احمد و ابو داؤد و ابن خزیمہ ؓ و ابن حبان فی صحیحہا والحاکم فی المستدرک) بعض اہل تفسیر نے لکھا ہے کہ امر استحباب کے لئے ہے (باوضو آدمی کے لئے ہر نماز کے واسطے تازہ وضو کرنا مستحب ہے) اور نمازی اگر باوضو بھی ہو تب بھی باجماع علماء وضو کرنا مسنون یا (کم سے کم) مستحب ہے۔ مسنون ہونے پر حضرت انس ؓ کی حدیث دلالت کر رہی ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہر نماز کے لئے (تازہ) وضو کرتے تھے۔ رواہ النسائی وصححہ۔ مستحب ہونے پر حضرت ابن عمر ؓ کی روایت دلالت کرتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص پاک ہونے کے باوجود وضو کرتا ہے اللہ اس کے لئے دس نیکیاں لکھ دیتا ہے۔ رواہ النسائی باسناد ضعیف۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ وضو کا حکم اس جگہ اگرچہ بےقید ہے لیکن معنوی حیثیت سے تقیید مراد ہے۔ مطلب یہ ہے کہ بےوضو ہونے کی حالت میں اگر نماز کو اٹھنے لگو تو وضو کرلو۔ اس مطلب پر رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان دلالت کرتا ہے کہ جب کوئی بےوضو ہو تو اللہ اس کی نماز قبول نہیں کرتا تاوقتیکہ وہ وضو نہ کرلے۔ رواہ الشیخان فی صحیحہا و ابو داؤد والترمذی عن ابی ہریرہ ؓ ۔ زید بن اسلم کے نزدیک آیت کا معنی اس طرح ہے جب تم سو کر اٹھو نماز کے لئے تو بعض علماء نے کہا حقیقت میں یہ اللہ کی طرف سے رسول اللہ ﷺ : کو اطلاع ہے کہ تم پر وضو اسی وقت واجب ہے جب نماز کا ارادہ ہو اور کسی عمل کے لئے وضو واجب نہیں گویا یہ اللہ کی طرف سے اجازت ہے کہ نماز کے علاوہ جو عمل کرنا چاہو بےوضو ہونے کی حالت میں کرسکتے ہو (یعنی ممنوعات کے علاوہ) حضرت ابن عباس ؓ کا بیان ہے ‘ ہم حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے آپ قضائے حاجت سے واپس آئے تھے کھانا خدمت میں پیش کیا گیا اور عرض کیا گیا۔ کیا حضور ﷺ وضو کریں گے فرمایا میں نماز پڑھنی چاہتا ہوں تو وضو کرتا ہوں۔ رواہ البغوی۔ فائدہ : اس آیت کے نزول سے پہلے ہی وضو واجب تھا جیسا بخاری کی اس روایت سے معلوم ہوتا ہے جو آیت کی شان نزول میں حضرت عائشہ ؓ کے متعلق انہوں نے نقل کی ہے اسی وجہ سے کسی پانی پر فروکش نہ ہونے سے صحابہ ؓ : کو تکلیف ہوئی تھی (کہ وضو کیسے کریں) ابن عبدالبر نے بیان کیا ہے تمام اہل مغازی کے علم میں ہے کہ جب سے نماز فرض ہوئی حضور ﷺ نے بےوضو کے کوئی نماز نہیں پڑھی وضو کی فرضیت نماز کی فرضیت کے ساتھ ہوئی تھی۔ اس صورت میں وضو کا اس جگہ حکم باوجودیکہ اس سے پہلے بھی کوئی نماز بغیر وضو کے نہ تھی محض اس لئے ہے کہ وضو کی فرضیت عبارت سے ثابت ہوجائے (اگرچہ عمل سے پہلے بھی ثابت تھی) میں کہتا ہوں وضو کا ذکر تیمم کی تمہید کے لئے بھی کیا گیا ہے۔ واللہ اعلم۔ فاغسلوا وجوہکم تو اپنے چہروں کو دھوؤ۔ دھونے کا مفہوم ہے پانی گزار دینا۔ تینوں اماموں کے نزدیک ملنا شرط ہے۔ امام مالک (رح) کے نزدیک ملنا ضروری ہے چونکہ قرآن میں ملنے کا ذکر نہیں اس لئے امام مالک کا قول بےدلیل ہے۔ وجہ ‘ مواجہت سے مشتق ہے وجہ کی حد پیشانی کے بالوں کی جڑوں سے ٹھوڑی کے نیچے تک اور ایک کان سے دوسرے کان تک ہے۔ اگر کان اور ڈاڑھی کا درمیانی حصہ دھونے سے رہ جائے گا تو علاوہ امام مالک کے تینوں اماموں کے نزدیک وضو نہ ہوگا۔ امام مالک کا قول اس کے خلاف ہے۔ ابرو کے نیچے پلکوں کے اندر اور مونچھوں میں پانی پہنچانا لازم ہے۔ اگر داڑھی چھدری ہو کہ اندر کی کھال نظر آتی ہو تو کھال تک پانی پہنچانا ضروری ہے اور اگر گھنی ہو کہ کھال نظر نہ آتی ہو تو جلد تک پانی پہنچانا ضروری نہیں جیسے سر کے بالوں پر مسح کرنا سر کے مسح کے قائم مقام ہوجاتا ہے۔ اس کی دلیل ایک تو اجماع علماء ہے دوسرا عمل رسول کہ رسول اللہ ﷺ ایک لپ سے منہ دھو لیا کرتے تھے۔ رواہ البخاری من حدیث ابن عباس ؓ ۔ حالانکہ ریش مبارک بہت گھنی تھی۔ ذکرہ القاضی عیاض۔ قاضی عیاض کے قول کی تائید بکثرت صحابہ ؓ کے اقوال سے ہوتی ہے جو صحیح سندوں کے ساتھ آئے ہیں۔ مسلم نے حضرت جابر ؓ : کا بیان نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ : کی ڈاڑھی کے بال بہت تھے۔ میں کہتا ہوں کہ اگر داڑھی گھنی ہو تو ایک لپ پانی ہر بال کی جڑ تک پہنچانا تو ممکن ہی نہیں۔ کھال کے عوض داڑھی کے اوپری سطح کو دھو لینا جمہور کے نزدیک واجب ہے جس طرح سر کے بالوں کا مسح بجائے سر کی کھال کے واجب ہے۔ ایک روایت میں امام اعظم (رح) کا بھی یہی قول ہے۔ صاحب ظہیریہ نے اسی پر فتویٰ ہونا نقل کیا ہے صاحب بدائع نے لکھا ہے کہ اس قول کے علاوہ دوسرے اقوال سے امام صاحب کا رجوع کرلینا ثابت ہے۔ ایک روایت میں امام صاحب (رح) : کا ایک قول اس طرح آیا ہے کہ چوتھائی داڑھی کا مسح کرنا واجب ہے۔ دوسری روایت میں تہائی داڑھی کے مسح کا وجوب آیا ہے۔ تیسری روایت میں آیا ہے کہ داڑھی کو نہ دھونا واجب ہے نہ مسح کرنا۔ داڑھی کے اوپری حصہ کو دھونے کے وجوب کی دلیل یہ ہے کہ داڑھی کے اندر کی کھال کو دھونا بالاجماع ساقط ہے اور اجماع کی تائید عمل رسول ﷺ سے بھی ہوتی ہے کہ آپ ایک لپ سے چہرہ دھو لیا کرتے تھے اور سر کے بالوں کے مسح پر قیاس کرنے سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ بالوں کے اندر کھال کو دھونا واجب نہیں۔ کیونکہ سر کی کھال پر مسح کرنے کی جگہ جب بالوں پر مسح کرنے کو دے دی گئی اور سر کا مسح ساقط کردیا گیا تو کوئی وجہ نہیں کہ چہرہ کی کھال کو دھونے کی جگہ داڑھی کے بیرونی حصہ کو دھونا ضروری نہ قرار دیا جائے ورنہ فرع کی ترجیح اصل پر لازم آئے گی۔ حدیث بھی بتارہی ہے کہ ایک لپ پانی سے رسول اللہ ﷺ چہرۂ مبارک دھو لیا کرتے تھے اور ظاہر ہے کہ داڑھی تو ضرور دھوتے ہی تھے اس سے ثابت ہوگیا کہ بجائے اندرونی جلد کے صرف داڑھی (کے بیرونی حصہ) کو دھو لینے پر اجماع بلاسند نہیں قیاس کا بھی یہی تقاضا ہے اور حدیث کا بھی۔ وایدیکم الی المرافق اور اپنے ہاتھوں کو کہینوں تک۔ پوروں کے سروں سے بغل تک۔ پورے عضو کا نام ہاتھ ہے اور مرافق کو حد قرار دینے سے ہاتھ کا باقی حصہ یعنی بازو ساقط ہوگیا اور چاروں اماموں کے نزدیک کہنیوں کا دھونا واجب رہا۔ جمہور علماء کا یہی قول ہے۔ ہاں شعبی اور محمد بن جریر کا قول ایک روایت میں آیا ہے کہ ان دونوں حضرات کے نزدیک کہنیاں دھونا واجب نہیں۔ امام زفر بھی اسی کے قائل تھے کیونکہ اِلٰیکا لفظ غایت (آخری حد) پر دلالت کرتا ہے اور آخری حد اوّل حصہ سے (جس کی وہ حد ہوتی ہے) خارج ہوتی ہے جیسے اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَی الَّیْلمیں (رات کا کوئی حصہ صوم کے حکم میں داخل نہیں۔ رات کا آغاز ‘ حکم صوم کی آخری حد ہے) اس کے علاوہ ایک بات یہ بھی ہے کہ محقق علماء عربیت کہتے ہیں کہ لفظ الی کی وضع صرف آخری حد کو ظاہر کرنے کے لئے ہے۔ آخری حد حکم میں داخل ہے یا خارج اس پر لفظ الیٰ دلالت نہیں کرتا۔ یہ بات خارجی قرینہ سے معلوم ہوتی ہے اور آیت میں حد کو داخل کرنے والا کوئی قرینہ نہیں۔ اس لئے حد کے داخل اور خارج ہونے کا برابر احتمال ہے اور احتمال سے حکم ثابت نہیں ہوتا۔ ہم کہتے ہیں اجماع بجائے خود اس بات کی دلیل ہے کہ الیکا مابعد ماقبل کے حکم میں داخل ہے۔ امام شافعی نے الام میں لکھا ہے کہ وضو میں کہنیوں کو دھونے سے اختلاف کرنے والا کوئی شخص مجھے معلوم نہیں (یعنی ہر عالم کے نزدیک کہنیاں دھونی واجب ہیں) شعبی اور محمد بن جریر اور امام زفر کا اختلاف اگر صحیح روایت سے ثابت بھی ہوجائے تب بھی سلف و خلف کے اجماع کے مقابلہ میں یہ اختلاف ہیچ ہے۔ امام مالک (رح) سے کوئی ایسا قول منقول نہیں جس سے صراحتہً کہنیوں کا خارج ہونا ثابت ہوتا ہو صرف اشہب کے ایسے الفاظ نقل کئے ہیں جو (دونوں معنی کے) محتمل ہیں۔ پھر اجماع بالاسند نہیں۔ رسول اللہ ﷺ کا عمل اس کی سند موجود ہے اور فعل رسول سے کتاب کے مجمل حکم کی وضاحت ہوجاتی ہے۔ دارقطنی نے حسن سند کے ساتھ بیان کیا ہے کہ حضرت عثمان ؓ نے وضو میں دونوں ہاتھ کہنیوں تک اس طرح دھوئے کہ بازو کے سروں سے مس ہوگیا (بازو کے سر چھو گئے) اور فرمایا رسول اللہ ﷺ کا وضو اسی طرح تھا۔ دارقطنی نے حضرت جابر ؓ کی روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ وضو کرتے وقت کہنیوں پر پانی گزار دیتے تھے اس روایت کی سند میں ضعف ہے۔ بزار اور طبرانی نے حضرت وائل بن حجر کی مرفوع حدیث نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ دونوں بانہیں کو نہیوں سے آگے تک دھوئیں طحاوی اور طبرانی نے ثعلبہ بن عباد کے باپ کی مرفوع حدیث نقل کی ہے پھر آپ دونوں بانہیں اس حد تک دھوتے کہ پانی کہنیوں پر بہا لیتے تھے رسول اللہ ﷺ یا کسی ایسے صحابی کا کوئی عمل ایسا منقول نہیں کہ کسی نے وضو میں کہنیاں یا ٹخنے نہ دھوئے ہوں ‘ اس عمل سے کتاب کے مجمل حکم کی وضاحت کامل طور پر ہوتی ہے اسی لئے بعض مفسرین نے صراحت کی ہے کہ اس آیت میں دونوں جگہ (الی المرافق اور الی الکعبین) الیکا معنی ہے مع جیسے دوسری آیت وَیَزْدِکُمْ قُوَّۃً اِلٰی قُوَّۃٍمیں یا آیت ولا تَاکُلُوْا اَمْوَالَہُمْ اِلٰی اَمْوَالِکُمْمیں اور آیت مَنْ اَنْصَارِیْ اِلٰی اللّٰہِمیں اِلٰیکا معنی ہے مع۔ وامسحوا برء وسکم اور اپنے سروں پر مسح کرو۔ اس آیت سے سر کا مسح واجب ہوتا ہے کتنے سر کا مسح واجب ہے اس میں علما کا اختلاف ہے۔ امام مالک اور امام احمد (رح) کے نزدیک پورے سر کا مسح واجب ہے کیونکہ سر کا مفہوم متعین ہے اور برؤسکم میں باء زائد ہے لہٰذا پورے سر کا مسح کرنا واجب ہے جیسے چہرہ دھونے کے حکم میں پورے چہرہ کو دھونا واجب ہے اور تیمم میں پورے چہرہ کا مسح واجب ہے۔ رسول اللہ ﷺ : کا پورے سر پر مسح کرنا اس قول کی تائیدی دلیل ہے۔ حضرت عبداللہ بن زید راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے دونوں ہاتھوں سے سر کا مسح کیا سر کے اگلے حصہ پر دونوں ہاتھ آگے سے پیچھے کو لے گئے اور پیچھے سے آگے کو لائے پھر دونوں ہاتھ گدی تک لے گئے اور گدی سے اس مقام تک واپس لائے جہاں سے شروع کیا تھا۔ متفق علیہ۔ امام ابوحنیفہ (رح) اور امام شافعی (رح) نے فرمایا کہ برؤسکم میں باء الصاق کی ہے اور باجماع علماء عربی باء کا حقیقی معنی الصاق ہی ہے حقیقی معنی کو چھوڑ کر مجازی معنی کی طرف رجوع بےوجہ نہیں کیا جاسکتا اور باء الصاق اکثر وسائط (اور آلات و ذرائع) پر داخل ہوتی ہے (مفعول پر داخل نہیں ہوتی) اور وسائط کا استعیاب (احاطہ اور ہر طرف سے تکمیل) مقصود نہیں ہوتی اسی لئے اگر باء الصاق محل (مکان) پر داخل ہو (جیسے مررت بالسوق) تو پورا محل مقصود نہیں ہوتا (لہٰذا پورے سر کا مسح کرنا آیت میں مراد نہیں ہوسکتا) اس قول کی تائید رسول اللہ ﷺ کے عمل سے ہوتی ہے۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے وضو کیا تو اپنی پیشانی (یعنی سر کے اگلے حصہ) پر اور چمڑے کے دونوں موزوں پر اور عمامہ پر مسح کیا۔ (رواہ مسلم) امام شافعی (رح) نے عطاء کی مرسل روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے وضو کیا تو عمامہ کو اٹھا کر سر کے اگلے حصہ پر مسح کیا۔ یہ روایت مرسل ہے مگر اس کی تائید ایک اور متصل روایت سے ہوتی ہے جو ابو داؤد نے حضرت انس ؓ کے حوالہ سے لکھی ہے مگر اس سند میں ایک راوی ابو معقل مجہول ہے۔ سعید بن منصور کا بیان ہے کہ حضرت عثمان ؓ (سے جب وضو کی کیفیت دریافت کی گئی تو آپ) نے وضو کیا اور سر کے اگلے حصہ پر مسح کیا۔ اس حدیث کی سند میں خالد بن یزید بن ابی مالک ہے جو مختلف فیہ شخصیت ہے۔ حافظ ابن حجر نے لکھا ہے کہ ابن منذر وغیرہ نے نقل کیا ہے کہ حضرت ابن عمرؓ نے سر کے کچھ حصہ پر مسح کو کافی سمجھا یعنی صرف کچھ حصہ پر مسح کیا اور یہ روایت صحیح بھی ہے۔ کسی صحابی کی طرف سے اس کا انکار کسی روایت میں نہیں آیا ابن حزم نے اس کی صراحت کی ہے۔ باقی وہ احادیث جن میں پورے سر پر مسح کرنے کا بیان ہے ان کو استحباب پر محمول کیا جائے گا اور پورے سر پر مسح کو مستحب کہا جائے گا۔ پورے سر پر مسح کرنے کا وجوب ان سے ثابت نہیں ہوتا۔ مذکورہ بالا توضیح سے ثابت ہوگیا کہ آیت میں پورے سر کا مسح مراد نہیں۔ سر کے کچھ حصہ کا مسح کافی ہے لیکن آیت میں ” کچھ “ کی تعیین نہیں ہے۔ اسی لئے امام شافعی (رح) نے فرمایا کہ اگر ایک بال یا تین بالوں پر مسح کرلیا تو کافی ہے۔ امام شافعی (رح) کے نزدیک آیت مطلق ہے (اور مطلق کے تحقق کے لئے ادنیٰ مقدار کافی ہے) امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک آیت مجمل ہے (تفصیل طلب) حضرت مغیرہ والی حدیث اور اس کا ہم معنی دوسری روایات اجمال آیت کو دور کر رہی ہے اسی لئے ہم چوتھائی سر پر مسح کرنے کو واجب کہتے ہیں (سر کا اگلا حصہ سر کا ایک چوتھائی ہوتا ہے) اگر آیت کو مطلق قرار دیا جائے گا تو دو ایک بالوں کا مسح بھی کافی ہوگا حالانکہ یہ امر بدیہی ہے کہ پورے چہرے کو دھونے سے سر کے اگلے حصہ کے چند بال خود دھل جاتے ہیں (پھر مسح راس کا مستقل ذکر کرنے کی کوئی وجہ نہیں) وارجلکم الی الکعبین اور دونوں ٹخنوں تک اپنے پاؤں دھوؤ۔ اَرْجُلَکُمْلام کے زبر کے ساتھ۔ نافع۔ ابن عامر۔ کسائی۔ یعقوب اور حفص کی قرأت ہے۔ ایدیکم پر اس کا عطف ہے۔ اس لئے کہ پاؤں کی حد کعبین کو اسی طرح قائم کیا ہے جس طرح ایدیکم کی حد الی المرافقکو قائم کیا ہے لہٰذا دونوں جگہ دھونا ہی مراد ہے اگر رؤوسکم پر عطف ہو اور اَرْجُلِکُمْلام کے کسرہ کے ساتھ پڑھا جائے تو پھر پاؤں کے مسح کی حد نہ ہونی چاہئے جیسے سر کے مسح کی حد نہیں بیان کی گئی۔ باقی قاریوں نے لام کے کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے مگر عطف ایدیکم پر ہی قرار دیا ہے جیسے انی اخاف علیکمْ عَذَابَ یَوْمٍ الیمٌمیں الیمکوزیر کے ساتھ قرب یوم کی وجہ سے پڑھا ہے اگرچہ یہ صفت عذاب کی ہے پس ارجلکم میں لام کا زیر بھی رؤسکم کے قرب کی وجہ سے ہے اگرچہ اس کا عطف ایدیکم پر ہے۔ ایک شبہ اکثر اہل نحو نے جوار اور قرب کی وجہ سے مکسور پڑھنے کو ناجائز قرار دیا ہے اور جس نے جائز بھی کہا ہے تو دو شرطوں کے ساتھ (1) حرف عطف درمیان میں نہ ہو (اور یہاں حرف عطف موجود ہے) ۔ (2) اشتباہ نہ پیدا ہوتا ہو (اور یہاں لام کے کسرہ پڑھنے سے اشتباہ ہوتا ہے کہ معلوم نہیں اس کا عطف رُؤْسِکُمْپر ہے یا اَیْدِیَکُمْپر) جوابیہ دعویٰ کرنا کہ اکثر اہل نحو نے کسرۂ جوار کا انکار کیا ہے ناقابل تسلیم ہے ‘ اور جب حد (الی الکعبین) کو ذکر کردیا تو اشتباہ باقی نہیں رہا۔ پھر جب جوار کی وجہ سے کسرہ کا استعمال قرآن کی بکثرت آیات اور بڑے بڑے اہل بلاغت کے کلام میں موجود ہے تو اس کا انکار محض مکابرہ اور عناد ہے جسکی تفصیل امثلہ موجب طوالت ہے۔ ہاں حرف عطف درمیان میں نہ آیا ہو یہ شرط ضرور اختلافی ہے بعض اہل علم اس کے قائل ہیں کیونکہ حرف عطف (بالکل مغایرت پر دلالت کرتا ہے اور) حق جوار کو روک دیتا ہے۔ مگر حق یہ ہے کہ حرف عطف کی موجودگی میں بھی حق جوار قائم رہتا ہے۔ حرف عطف سے تو اتصال پختہ ہوتا ہے۔ قطع اتصال نہیں ہوتا۔ ابن مالک اور خالد ازہری نے کہا کہ من جملہ دیگر حروف کے واؤ کے خصوصیات گیارہ ہیں جن میں سے ایک حق جوار ہے جو معطوف بالواؤ میں قائم رہتا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ واؤ کے درمیان میں آنے کے بعد حق جوار کے باقی رہنے کی اگر کوئی مزید دلیل نہ بھی ہو تب بھی پاؤں دھونے کا وجوب اس آیت سے ثابت ہو ہی جاتا ہے اور وجوہ ثبوت وہ ہیں جو ہم نے اوپر درج کردیں کہ ارجلکم کا عطف ایدیکم پر ہے روسکم پر ناجائز ہے اور احادیث میں اس کا بیان آچکا ہے اور اجماع بھی منعقد ہوچکا ہے لہٰذا حرف عاطف کے درمیان میں آنے کے بعد بھی حق جوار کا بقاء انہی وجوہ سے ثابت شدہ حقیقت ہے۔ اس کے علاوہ ایک بات یہ بھی ہے کہ کعبین سے مراد وہ دو ہڈیاں ہیں جو پنڈلی اور قدم کے ملنے کی جگہ (دونوں طرف) اُبھری ہوئی ہیں ‘ ان دونوں ہڈیوں تک مسح کرنے کا کوئی قائل نہیں۔ بعض علماء نے کہا کہ (اگر ارجلکمکا علف ایدیکم پر کیا جائے گا تو) اس وقت کلام کی ترکیب اسی قسم کی ہوگی جیسی ضَرَبْتُ زَیْدًا و عَمْرًا واَکْرَمْتُ بَکْرًا وَخَالدًاکی ہے جبکہ خالدًا کا عطف زیدا پر قرار دیا جائے۔ یہ قول غلط ہے کیونکہ کوئی قرینہ نہیں کہ خالدا کا عطف زیداً پر ہی قرار دیا جائے اگر بکرا پر عطف مانا جائے تو کوئی مانع نہیں۔ بعض علماء کا قول ہے کہ ارجلکم کو اگر منصوب پڑھا جائے تب بھی اس کا عطف روسکم کے محل پر ہوگا (اور روسکم محلاً منصوب ہے) یا یوں کہا جائے گا کہ اس جگہ سے حرف جر کو نکال کر منصوب کردیا گیا ہے ‘ یہ توجیہ بھی غلط ہے کیونکہ اصل یہ ہے کہ لفظ پر عطف ہو بلاقرینہ اور بےوجہ محل پر عطف صحیح نہیں اور نہ بےوجہ حرف جر کو حذف کرنا درست ہے اور یہاں کوئی وجہ اور قرینہ موجود نہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اَرْجُلَکُمْ سے پہلے امسحوا محذوف ہے مگر یہ بھی غلط ہے۔ بغیر قرینہ کے فعل خاص کو محذوف ماننا درست نہیں۔ پھر ان تمام توجیہات میں شرط یہ ہے کہ خلاف مقصود کا اشتباہ نہ پیدا ہو اور ارجلکمکو کسی تاویل کے ساتھ بھی اگر مسح کے تحت داخل کیا جائے تو مقصود کا غیر مقصود سے التباس باقی رہتا ہے۔ بعض علماء کے نزدیک وارجلکم میں واؤ بمعنی مع ہے (یعنی واؤ مصاحبت کا ہے) مگر یہ بھی غلط ہے کیونکہ مفعول معہ کے لئے صرف فعل کا اشتراک کافی نہیں ہے بلکہ زمانہ یا مکان بھی ایک ہی ہونا ضروری ہے۔ زمانہ کے اتحاد کا تو تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کیونکہ (عطف بالواو میں) یا ترتیب واجب ہوگی (اس صورت میں سر اور پاؤں کے زمانہ میں تقدیم تاخیر ضرور ہوگی ‘ اتحاد زمانہ نہ ہوگا) یا مطلق فعل مراد ہوگا (اس وقت زمانہ کا مفہوم ہی نہ ہوگا نہ ترتیب کے ساتھ نہ بلاترتیب) رہا اتحاد مکان تو دونوں مسحوں کا ایک مکان میں ہونا کسی کا بھی قول نہیں۔ اگر مذکورۂ بالا ضعیف توجیہات کو مان کر رؤسکم پر عطف تسلیم بھی کرلیا جائے تب بھی وہ باء جو برؤسکم میں ہے (الصاق کے لئے ہوگی اور الصاق کی باء) اکثر آلات پر داخل ہوتی ہے (اور روسکو آلہ سے تشبیہ دے کر اس کے قائم مقام مانا جائے گا) لہٰذا کل سر مراد نہیں ہوسکتا بلکہ باء تبیعض کے لئے ہوگی (اور سر کا بعض غیر معین حصہ مراد ہوگا) اسی لئے اکثر فقہاء کے نزدیک سر کے کچھ حصہ کا مسح فرض ہے لیکن ارجلکم میں پہنچ کر اسلوب کلام بدل جائے گا اور پورا قدم مراد ہوگا۔ معطوف میں اسلوب کلام کا تغیر اسی کا مقتضی ہے اور دونوں پورے قدموں پر کسی کے نزدیک مسح واجب نہیں۔ فرقۂ امامیہ کے نزدیک اَرَجُلَکُمْ (لام کے زبر کے ساتھ) کا عطف رو وسکم پر ہے اور لام کے زبر کی ان لوگوں نے ضعیف توجیہات بیان کی ہیں۔ ہمارے مسلک کی دلیل یہ ہے کہ حضرت عمرو ؓ بن عنبہ نے فضیلت وضو کے سلسلہ میں ایک طویل حدیث نقل کی ہے جس کے آخر میں حضور ﷺ نے فرمایا پھر دونوں قدم دھو لے جیسا کہ اللہ نے حکم دیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے پاؤں دھونے کی حدیث بطور تواتر منقول ہے اور اتنے راویوں نے پاؤں دھونے کی احادیث نقل کی ہیں جن کا کذب پر اتفاق بعید ہے اور قدمین پر مسح کرنے کی ایک حدیث بھی منقول نہیں۔ صحابہ ؓ : کا بھی (عملاً ) پاؤں دھونے پر اجماع ہے۔ ایک کا خلاف بھی کہیں روایت میں نہیں آیا۔ صرف حضرت علی ؓ ‘ حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت انس ؓ کے اقوال ضرور مسح قدمین کے آئے ہیں ‘ مگر ان بزرگوں کا اپنے اوّل قول سے رجوع کرلینا بھی ثابت ہوچکا ہے۔ سعید بن منصور ‘ ابن المنذر اور ابن ابی حاتم نے بیان کیا کہ حضرت علی ؓ نے وارجلکم پڑھا حافظ ابن حجر نے لکھا ہے کہ حضرت علی ؓ نے (اس قرأت کی وجہ سے مسح سے) قدم دھونے کی طرف رجوع کرلیا۔ ابو عبدالرحمن سلمی کی روایت ہے کہ حضرت امام حسن ؓ اور حضرت امام حسین نے وَاَرْجُلِکُمْپڑھا تو حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ نے سن کر فرمایا وارجلکم اس کلام میں (بعض حصوں کی) تقدیم تاخیر ہے (یعنی ارجلکم روسکم سے حکماً پہلے ہے اگرچہ ذکر میں مؤخر ہے) اس وقت حضرت علی ؓ لوگوں کے کسی مقدمہ کا فیصلہ کر رہے تھے۔ رواہ ابن جریر۔ عبدالرحمن بن ابی لیلی کا بیان کہ قدموں کے دھونے پر تمام صحابہ ؓ : کا اجماع ہے۔ رواہ سعید بن منصور۔ ابن ابی شیبہ نے حکم کا قول نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں کا طریقہ گزشتہ زمانہ سے پاؤں دھونے کا چلا آ رہا ہے۔ ابن جریر کی روایت ہے کہ عطا نے کہا میں نے کسی کو قدموں پر مسح کرنے کی اجازت نہیں دی۔ طحاوی اور ابن حزم نے دعویٰ کیا کہ مسح (پہلے تھا پھر) منسوخ کردیا گیا۔ ابن جریر نے حضرت انس ؓ : کا قول نقل کیا ہے کہ قرآن (بظاہر) مسح (کا حکم) لے کر نازل ہوا اور سنت قدم دھونے کا (حکم لے کر آئی) حضرت انس ؓ : کا یہ قول بتارہا ہے کہ (بظاہر) قرآن کی آیت مسح قدمین پر دلالت کر رہی ہے اور رسول اللہ ﷺ قدم دھویا کرتے تھے اور رسول اللہ ﷺ کا ایسا عمل اسی وقت ممکن ہے کہ آیت میں پاؤں دھونا مراد ہو یا مسح کا حکم منسوخ ہوگیا ہو۔ ہمارے قول کا ثبوت حضرت عبداللہ ؓ بن عمر کی حدیث سے بھی ہوتا ہے۔ حضرت عبداللہ ؓ بن عمر نے فرمایا ایک سفر میں رسول اللہ ﷺ پیچھے رہ گئے اور اس وقت پہنچے جب نماز بالکل قریب تھی اور ہم وضو کر رہے تھے اس لئے ہم پاؤں پر مسح کرنے لگے حضور ﷺ نے انتہائی اونچی آواز سے فرمایا (خشک) ایڑیوں کے لئے دوزخ کا (طبقۂ ) ویل ہے (یا عذاب دوزخ ہے) متفق علیہ۔ روایت میں آیا ہے کہ حضرت ابوہریرہ ؓ کچھ لوگوں کی طرف سے گزرے جو وضو کر رہے تھے آپ نے فرمایا وضو پورا پورا کرو۔ میں نے حضور ابوالقاسم ﷺ سے سنا ہے آپ فرما رہے تھے (خشک) ایڑیوں کے لئے عذاب دوزخ ہے۔ متفق علیہ۔ حضرت جابر ؓ و حضرت عائشہ ؓ کی روایت میں بھی یہ حدیث انہی الفاظ کے ساتھ آئی ہے۔ قدموں پر مسح کے قائل اپنے قول کے ثبوت میں یہ حدیث پیش کرتے ہیں کہ حضرت اویس ؓ بن ابی اویس ؓ نے بیان کیا ‘ میں نے خود دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ نے وضو کیا اور نعلین مبارک پر مسح کیا ‘ پھر نماز کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ‘ ابو داؤد کی روایت میں آیا ہے کہ حضور ﷺ نے نعلین اور پاؤں پر مسح کیا۔ ہم کہتے ہیں اس کا معنی یہ ہے کہ نعلین مبارک پورے قدموں پر حاوی تھیں اور چمڑے کے موزوں کی طرح ہوگئی تھیں اس لئے آپ نے ان پر مسح کیا جس طرح موزوں پر مسح کیا جاتا ہے۔ اگر شبہ کیا جائے کہ یعلی کی روایت میں آیا ہے کہ حضور ﷺ نے وضو کیا اور دونوں پاؤں پر مسح کیا یہ حدیث ہیثم نے بحوالۂ یعلی بیان کی ہے ہم کہیں گے کہ امام احمد نے کہا ہیثم تدلیس کرتا ہے۔ شاید کسی بیوقوف سے ہیثم نے یہ حدیث سنی ہو پھر اس کا نام ساقط کردیا (اور خود دعویٰ کیا کہ میں نے یعلی سے سنا ہے) یا حدیث کا مطلب اس طرح بیان کیا جائے کہ حضور ﷺ نے پاؤں پر مسح کیا اور اس وقت پاؤں موزوں کے اندر تھے گویا موزوں کے اندر تھے گویا موزوں پر مسح کو پاؤں پر مسح قرار دیا۔ (1) [ محاورہ میں بولا جاتا ہے میں جب بھی امیر کے پاس گیا میں نے اس کے پاؤں چومے یعنی اگر اس کے پاؤں بغیر موزوں کے ننگے تھے تو پاؤں کو چوما اور موزوں کے اندر تھے تو موزوں کو چوما۔ اگر شبہ کیا جائے کہ اس وقت موزوں کا ذکر ناجائز ہے اور ذکر نہ کیا جائے تو کوئی قرینہ ایسا نہیں جو خفین پر دلالت کر رہا ہو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر دو آیتوں یا دو قرأتوں میں تعارض ہو تو دونوں پر عمل کرنے کی صورت نکالنا واجب ہے اور دونوں پر عمل کرنے کی صورتوں میں سے ایک صورت یہ بھی ہے کہ دونوں کا وقت اور حالت جدا جدا قرار دی جائے اس میں نہ تو دونوں حالتوں کا ذکر ضروری ہے اور نہ کسی قرینہ کی ضرورت ہے دیکھو آیت ولا تَقْرَبُوْہُنَّ حَتّٰی یَطْہُرْنَمیں دو قرأتیں آئی ہیں اوّل یطہرن اور دوسری یطہرنپہلی قرأت کے وقت قربت کا جواز اس وقت ہوگا جب حیض پورے دس دن آیا ہو اور دس دن کے بعد طہارت ہوئی ہو اور دوسری قرأت اس وقت ہوگی جب حیض دس دن سے کم میں ختم ہوگیا ہو۔ اگر شبہ کیا جائے تو چمڑے کے موزے پہننے کا رواج رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں بہت ہی کم تھا تو ہمارے لئے یہ قول ناقبل تسلیم ہے۔] الی الکعبین میں الی کی تفصیل وہی ہے جو الی المرافق میں کردی گئی۔ کعب وہ ہڈی ہے جو پنڈلی اور قدم کے جوڑ کے دونوں طرف ابھری ہوئی ہے۔ جوتہ کا تسمہ باندھنے کی (بالائی وسطی) جگہ کا نام کعب نہیں ہے دیکھو الکعبین تثنیہ کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے۔ الکعاب (جمع کا صیغہ) نہیں فرمایا حالانکہ جب جمع کا جمع سے مقابلہ ہو تو اکائی کی تقسیم میں اکائی آتی ہے تثنیہ کے مقابل اگر جمع کا ضیغہ ہو تو اس وقت آحاد کی تقسیم آحاد پر نہیں ہوتی اور جب تقسیم آحاد ممکن نہیں تو پھر ہر پاؤں میں دو کعب ہونے چاہئیں اور تسمہ باندھنے کی جگہ ہر پاؤں میں ایک ہوتی ہے۔ مسئلہسفر ہو یا اقامت کی حالت اگر چمڑے کے موزے پاؤں دھونے کے بعد طہارت کی حالت میں پہنے ہوں تو (وضو ٹوٹ جانے کے بعد) بجائے پاؤں دھونے کے موزوں پر مسح جمہور کے نزدیک کافی ہے۔ امام مالک (رح) اقامت کی حالت میں موزوں پر مسح کرنے کی اجازت نہیں دیتے سفر کی حالت میں صحیح روایات سے امام مالک (رح) کا قول جواز کا منقول ہے۔ ابوبکر بن داؤد اور فرقۂ امامیہ کے نزدیک موزوں پر مسح ہر حالت میں ناجائز ہے۔ بعض اہل تفسیر نے لکھا ہے کہ ارجلکم لام کے زبر کے ساتھ پڑھا جائے تو ایدیکم پر عطف ہوگا اور پاؤں دھونا واجب ہوں گے اور زیر کے ساتھ پڑھا جائے تو روسکم پر عطف ہوگا اور پاؤں کا مسح کرنا واجب ہوگا لیکن یہ اس صورت میں ہوگا کہ پاؤں موزوں کے اندر ہوں گویا دونوں قرأتیں دو آیتوں کی طرح ہیں ‘ ایک قرأت کا حمل حقیقی معنی پر اور دوسری قرأت کا حمل مجازی معنی پر ہوگا۔ ہر قرأت کی ترکیب اور تقدیر الفاظ دوسری قرأت کی ترکیب اور تقدیر الفاظ سے جدا ہے (گویا اوّل صورت میں حقیقتاً پاؤں کا دھونا اور دوسری صورت میں مجازاً پاؤں پر مسح کرنا مراد ہوگا۔ حقیقی مسح تو موزوں پر ہوگا) ۔ اگر آیت کی یہ تفسیر نہ بھی کی جائے تب بھی موزوں پر مسح کو جائز کرنے والی حدیث معنی متواتر ہے جس سے قرآنی آیت کے حکم کا منسوخ ہونا جائز ہے۔ حفاظت حدیث کی ایک جماعت نے صراحت کی ہے کہ موزوں پر مسح کا حکم متواتر ہے۔ بعض لوگوں نے مسح علی الخفین کے راویوں کو (جو طبقۂ اوّل کے تھے) جمع کیا ہے جن کی مجموعی تعداد اسی سے بھی بڑھ جاتی ہے اس تعداد میں عشرۂ مبشرہ بھی شامل ہیں۔ ابن ابی شیبہ وغیرہ نے لکھا ہے کہ حسن بصری نے فرمایا مجھ سے ستر صحابیوں نے موزوں پر مسح کرنے کی حدیث بیان کی۔ امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا میں موزوں پر مسح کرنے کا قائل اس وقت تک نہ ہوا جب تک دن کی روشنی کی طرح مجھ پر اس کی وضاحت نہیں ہوگئی۔ یہ بھی امام اعظم ہی کا قول ہے کہ جو شخص موزوں پر مسح کو جائز نہیں کہتا مجھے اس کے کفر کا اندیشہ ہے۔ امام احمد (رح) نے فرمایا میرے دل میں موزوں پر مسح کے جواز کے متعلق کوئی کھٹک باقی نہیں اس سلسلہ میں رسول اللہ ﷺ کے صحابیوں کی چالیس حدیثیں آئی ہیں جن میں سے کچھ مرفوع ہیں کچھ موقوف۔ امام احمد نے ان احادیث میں سے دو حدیثیں بیان کیں ‘ ایک حضرت مغیرہ بن شعبہ والی ‘ حضرت مغیرہ ؓ نے بیان کیا میں ایک سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ہمرکاب تھا۔ حضور ﷺ نے فرمایا مغیرہ لوٹا لے لے میں نے لوٹا لے لیا آپ تشریف لے چلے اور اتنی دور چلے گئے کہ میری آنکھوں سے چھپ گئے اور رفع حاجت کر کے واپس تشریف لے آئے میں نے پانی ڈالا آپ نے وضو کیا جیسا نماز کا وضو کرتے تھے اور دونوں موزوں پر مسح کیا۔ متفق علیہ۔ حضرت مغیرہ ؓ کی یہ حدیث تقریباً ساٹھ سندوں سے نقل کی گئی ہے جن میں سے 45 سلسلوں سے ابن مندہ نے بھی اس کو بیان کیا ہے۔ دوسری حضرت جریر ؓ والی حدیث ہے۔ حضرت جریر ؓ : کا بیان ہے کہ میں نے دیکھا رسول اللہ ﷺ نے پیشاب کرنے کے بعد وضو کیا اور موزوں پر مسح کیا۔ ابراہیم نے کہا لوگوں کو یہ حدیث بہت پسند تھی کیونکہ حضرت جریر ؓ سورة مائدہ کے نزول کے بعد مسلمان ہوئے تھے (اگر پاؤں دھونا ضروری ہوتے جیسا کہ سورة مائدہ کی آیت وضو سے بظاہر معلوم ہوتا ہے تو حضور ﷺ موزوں پر مسح نہ کرتے۔ یہ حدیث بھی بخاری و مسلم دونوں نے صحیحین میں بیان کی ہے) ابن عبدالبر مالکی کا بیان ہے کہ کسی فقیہ نے موزوں پر مسح کے جواز کا انکار نہیں کیا۔ صرف امام مالک (رح) کا انکار روایت میں آیا ہے۔ مگر صحیح روایات سے ثابت ہے کہ امام مالک (رح) نے بھی آخر میں اقرار کرلیا تھا۔ صحابہ ؓ میں سے کوئی بھی موزوں پر مسح کا منکر نہ تھا ‘ صرف حضرت ابوہریرہ ؓ ‘ حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت عائشہ ؓ : کا انکار بعض روایات میں آتا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت ابوہریرہ ؓ کے انکاری قول کے خلاف صحیح سندوں کے ساتھ خود انہی حضرات کا اقرار منقول ہے اور ثابت ہوگیا ہے کہ یہ دونوں بزرگ بھی باقی صحابہ ؓ کے موافق ہوگئے تھے۔ رہا حضرت عائشہ ؓ : کا قول تو صحیح مسلم میں شریح بن ہانی کی روایت سے اس کی تفصیل اس طرح آئی ہے شریح نے کہا میں نے ام المؤمنین ؓ سے موزوں پر مسح کے متعلق دریافت کیا فرمایا تم ابن ابی طالب سے جا کر پوچھو وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سفر کرتے تھے ہم نے حضرت علی ؓ سے جا کر پوچھا حضرت نے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے مسافر کے لئے تین دن تین راتیں اور مقیم کے لئے ایک شبانہ روز کی میعاد مقرر فرمائی ہے۔ رواہ ابو داؤد والترمذی و ابن حبان۔ دارقطنی نے بھی مسح خفین کے جواز کے متعلق حضرت عائشہ ؓ کا قول نقل کیا ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضرت علی ؓ نے فرمایا مجھے پرواہ نہیں کہ موزوں پر مسح کروں یا اپنے گدھے کی پشت پر۔ یہ قول سراسر غلط ہے اس کی کوئی اصل نہیں۔ بعض لوگ راوی ہیں کہ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا اگر پاؤں کو میں استرے سے کاٹ ڈالوں تو موزوں پر مسح کرنے سے میرے نزدیک بہتر ہے۔ یہ روایت بھی بالکل غلط ہے حفاظت حدیث نے اس کی صراحت کردی ہے۔ مسئلہ : موزوں پر مسح کرنے کی میعاد مسافر کے لئے تین شبانہ روز اور مقیم کے لئے ایک رات دن ہے۔ حضرت ابوبکر ؓ کی حدیث ہے کہ مسافر کو تین روز (تک مسح کرنے) کی اور مقیم کو ایک روز کی اجازت دی گئی ہے بشرطیکہ طہارت کے بعد موزے پہنے ہوں۔ رواہ الترمذی و صححہ۔ و رواہ ابن خزیمۃ و ابن حبان و ابن الجارود و الشافعی و ابن ابی شیبۃ والبقیہی و الدارقطنی۔ بیہقی نے یہ بھی لکھا ہے کہ امام شافعی کے نزدیک یہ حدیث صحیح ہے۔ حضرت مغیرہ ؓ کی حدیث جس کا ذکر اوپر آچکا ہے اس میں یہ بھی ہے کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میں حضور ﷺ کے موزے اتار نہ دوں فرمایا رہنے دو طہارت کی حالت میں میں نے ان کے اندر پاؤں ڈالے ہیں۔ ابن جوزی نے حضرت علی ؓ ‘ حضرت صفوان ؓ بن عسال ‘ حضرت عمر بن خطاب ؓ ‘ حضرت عمر ؓ بن ابی امیہ ضمری حضرت ابوہریرہ ؓ اور حضرت خزیمہ ؓ بن ثابت کی احادیث التحقیق میں نقل کی ہیں اور ہم نے منار الاحکام میں ترتیب وار ان کو بیان کیا ہے ان احادیث میں مدت مسح کا ذکر ہے۔ امام مالک (رح) : مقیم کو تو مسح خفین کی اجازت ہی نہیں دیتے اور مسافر کو اجازت دیتے ہیں تو اس کے لئے کسی مدت کی تعیین نہیں کرتے امام مالک کے مسلک کے خلاف احادیث مذکورہ حجت ہیں۔ مسئلہ : امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک وضو میں ترتیب اور تو الی شرط نہیں۔ امام شافعی (رح) ‘ امام احمد اور امام مالک کے نزدیک ترتیب شرط ہے اور تو الی (پیہم بغیر وقفہ کے دھونا) بھی امام مالک کے نزدیک ضروری ہے امام شافعی (رح) کا قدیم قول بھی یہی ہے۔ ہم اپنے مسلک کے ثبوت میں کہتے ہیں کہ آیت کے اندر واؤ کے ساتھ عطف کیا گیا اور واؤ ترتیب پر دلالت نہیں کرتا نہ تو الی مفہوم اس کے اندر آتا ہے۔ صرف جمعیت کے لئے واؤ کی وضع ہے۔ روایت میں آیا ہے کہ حضرت علی ؓ نے فرمایا میں کس عضو سے وضو کا آغاز کروں یہ امر میرے لئے ناقابل التفات ہے۔ تینوں اماموں نے حضرت ابی بن کعب اور حضرت ابن عمر ؓ کی روایت سے استدلال کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے وضو کا پانی منگوا کر ایک ایک بار وضو کیا اور فرمایا یہ وضو ہے۔ جو (اتنا) وضو نہ کرے اللہ اس کی نماز نہیں قبول فرماتا پھر (ہر عضو کا) دو دو بار وضو کیا اور فرمایا یہ (بھی) وضو ہے جو ایسا وضو کرے گا اللہ اس کو دوہرا اجر دے گا۔ پھر آپ نے تین تین بار وضو کیا اور فرمایا یہ میرا اور مجھ سے پہلے پیغمبروں کا وضو ہے۔ رواہما الدارقطنی۔ صورت استدلال یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ترتیب اور تو الی کے ساتھ وضو کیا ہوگا۔ ورنہ یہ کہنا پڑے گا کہ وضو میں عدم ترتیب اور عدم تو الی فرض ہے اور جب حضور ﷺ نے ترتیب و تو الی کے ساتھ وضو کرنے کے بعد فرمایا کہ اس وضو کے بغیر اللہ نماز نہیں قبول فرماتا تو اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں امور فرض ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ بوجوہ ذیل استدلال غلط ہے (1) حضرت ابی بن کعب والی حدیث کی سند میں ایک راوی زید بن ابی الجواری ہے جس کو یحییٰ نے ہیچ اور ابو ذرعہ نے ضعیف الحدیث قرار دیا ہے اور اسی حدیث کی سند میں ایک راوی عبداللہ بن عراوہ ہے جو یحییٰ کے نزدیک ہیچ اور بخاری کے نزدیک منکر الحدیث ہے۔ دوسری حدیث حضرت ابن عمر ؓ کی ہے جس کی سند میں مسیب بن واضح ضعیف راوی ہے۔ (2) اگر ترتیب و تو الی کے وجوب پر استدلال بصورت مذکورہ قائم کیا جاتا ہے تو ہم بھی اس کے توڑ کے لئے اسی طرح کا استدلال قائم کر کے کہہ سکتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے وضو دائیں طرف سے کیا ہوگا یا بائیں طرف سے مسواک کی ہوگی یا نہ کی ہوگی ‘ ناک جھاڑی ہوگی یا نہ جھاڑی ہوگی ‘ بہرحال رسول اللہ ﷺ کا فعل یا یوں ہوگا یا یوں اور دونوں صورتیں وجوب کی ہیں تیامن یا عدم تیامن مسواک یا عدم مسواک ‘ ناک کی صفائی یا عدم صفائی دونوں میں سے کوئی امر واجب ہوجائے گا۔ (3) حدیث کی اصل مراد یہ ہے کہ ایک ایک مرتبہ وضو کرنا کافی ہے اس سے کم کا کوئی درجہ نہیں اگر ایسا بھی نہیں کیا جائے گا تو اللہ نماز قبول نہیں کرے گا۔ وجوب ترتیب پر حضرت عمرو بن عبسہ ؓ کی روایت سے بھی استدلال کیا جاتا ہے۔ حضرت عمر بن عنبسہ ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میں سے جو شخص برتن میں وضو کا پانی لے پھر کلی کرے اور ناک میں پانی ڈال کر ناک جھاڑے اس کے منہ اور ناک کے بانسہ کے گناہ پانی کے ساتھ جھڑ جائیں گے پھر وہ منہ دھوئے گا تو چہرہ کے گناہ پانی کے ساتھ داڑھی کے بالوں کی نوکوں کے ساتھ جھڑ جائیں گے ‘ پھر دونوں ہاتھ کہنیوں تک دھوئے گا تو دونوں ہاتھوں کے گناہ پوروں سے بہ کر پانی کے ساتھ جھڑ جائیں گے ‘ پھر اللہ کے حکم کے موافق سر پر مسح کرے گا تو سر کے گناہ بالوں کی نوکوں سے پانی کے ساتھ بہ جائیں گے۔ پھر حکم خدا کے مطابق دونوں ٹخنوں تک پاؤں دھوئے گا تو دونوں قدموں کے گناہ انگلیوں کی نوکوں سے پانی کے ساتھ بہ کر نکل جائیں گے۔ رواہ مسلم۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے بھی یہ حدیث لفظ۔ پھر کے ساتھ آئی ہے اور پھر کا لفظ ترتیب کے لئے ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ اس حدیث میں تو اس طریقہ کو بیان کرنا مقصود ہے جو وضو کرنے والا عام طور پر اختیار کرتا ہے اور مغفرت گناہ کی بشارت دینی مقصود ہے یہ نہیں ثابت ہوتا کہ اگر ترتیب وضو فوت ہوجائے تو ایسے وضو سے نماز ہی نہیں ہوتی بلکہ اس سے تو یہ بھی نہیں ثابت ہوتا کہ ترتیب فوت ہوجائے تو مغفرت بھی نہ ہوگی۔ توالی کو ضروری قرار دینے والوں نے ایک حدیث سے استدلال کیا ہے ایک شخص نے نماز کے لئے وضو کیا اور قدم کی پشت پر ناخن برابر جگہ دھونے سے رہ گئی رسول اللہ ﷺ نے دیکھ کر فرمایا دوبارہ جا کر اچھی طرح وضو کرو وہ شخص واپس گیا اور وضو کیا پھر نماز پڑھی۔ یہ حدیث امام احمد اور ابو داؤد نے حضرت انس ؓ کی روایت سے اور مسلم نے حضرت عمر ؓ بن خطاب کی روایت سے بیان کی ہے لیکن اس حدیث میں بھی کوئی ایسی چیز نہیں جس سے تو الی کا واجب ہونا معلوم ہوتا ہو ‘ کیونکہ اچھی طرح وضو کرنے سے مراد یہ ہے کہ جو جگہ دھونے سے رہ گئی ہے اس کو دھو کر وضو کی تکمیل کرلو۔ دوبارہ وضو کرنے کا حکم اس سے مستفاد نہیں ہوتا۔ باقی امام احمد کی روایت کے یہ الفاظ کہ حضرت عمر ؓ نے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے اس کو دوبارہ وضو کرنے کا حکم دیا۔ اس روایت کی سند میں ابن لہیعہ ضعیف راوی ہے۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ حضور ﷺ : کی بیبیوں میں سے کسی بی بی کا بیان ہے کہ ایک شخص نماز پڑھ رہا تھا لیکن اس کے قدم پشت پر درہم برابر خشک نشان تھا۔ جس پر پانی نہیں پہنچا تھا رسول اللہ ﷺ نے ملاحظہ فرما کر اس کو دوبارہ وضو کرنے کا حکم دیا۔ اس حدیث کی سند میں بھی ضعف ہے اس میں ایک راوی بقیہ ہے جو مدلس ہے جب تک کسی دوسرے کی تائید حاصل نہ ہو اس کی حدیث صحیح نہیں۔ تو الی ضروری نہ ہونے پر حضرت ام میمونہ ؓ : کا وہ بیان دلالت کرتا ہے جس میں ام المؤمنین نے رسول اللہ ﷺ کے غسل کی حالت بیان کرنے کے ذیل میں فرمایا پھر آپ ﷺ اپنی جگہ سے ہٹ گئے اور دونوں قدم دھوئے۔ رواہ البخاری۔ امام مالک (رح) نے نافع (رح) کی روایت سے بیان کیا ہے اور امام شافعی نے الام میں امام مالک کے حوالہ سے اس کو نقل کیا ہے کہ مدینہ کے بازار میں حضرت ابن عمر ؓ نے وضو کیا اتنے میں ایک جنازہ کی نماز کے لئے آپ کو بلایا گیا اس وقت آپ کے وضو (کی تکمیل) میں صرف دونوں قدموں کا فرض (مسح کرنا) باقی رہ گیا تھا آپ فوراً لوگوں کے ساتھ نماز کی جگہ پر چلے گئے پھر (وہاں پہنچ کر) دونوں موزوں پر مسح کیا یہ بھی روایت میں آیا ہے کہ (باقی اعضاء سے) وضو کا پانی خشک ہونے کے بعد حضرت ابن عمر ؓ نے پاؤں دھوئے تھے۔ مسئلہ : امام اعظم (رح) کے نزدیک وضو میں نیت ضروری نہیں۔ باقی تینوں اماموں کے نزدیک ضروری ہے کیونکہ باجماع علماء وضو عبادت ہے اور ہر عبادت کے لئے نیت شرط ہے اس پر اجماع ہے اور آیات و احادیث بھی اس پر دلالت کر رہی ہیں۔ اللہ نے فرمایا ہے : (وَمَا اُمِرُوْا الاَّ لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الَّدِیْن) َحدیث میں آیا ہے : (اِنَّمَا الْاَعْمَال بالنِّیَاتِ ۔ ) ہم کہتے ہیں وضو کی دو حیثیتیں ہیں ایک اعتبار سے وضو خود عبادت ہے اس سے گناہ معاف ہوتے ہیں اس وقت اس کے لئے نیت ضروری ہے کیونکہ ہر عبادت کے لئے نیت شرط ہے دوسرے اعتبار سے وضو ‘ نماز کی کنجی اور من جملہ دیگر شرائط کے نماز کی ایک شرط ہے اس لحاظ سے اس کے لئے نیت ضروری نہیں۔ ستر عورت طہارت لباس و بدن اور دوسری شرائط کے لئے جس طرح نیت شرط نہیں اسی طرح وضو کے لئے بھی نیت شرط نہیں۔ مسئلہجمہور کے نزدیک وضو کے لئے نہ بسم اللہ پڑھنی شرط ہے نہ کلی کرنی نہ ناک میں پانی ڈالنا۔ امام احمد (رح) کے نزدیک تینوں ضروری اور وضو کے رکن ہیں۔ بسم اللہ اس لئے واجب ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے بسم اللہ نہیں کہی اس کا وضو نہیں (ہوا) یہ حدیث امام احمد اور ائمہ حدیث کی ایک جماعت نے کثیر بن زید کی روایت سے بیان کی ہے اس کا سلسلہ اس طرح ہے کثیر بن زید از میح بن عبدالرحمن بن ابی سعید الخدری از عبدالرحمن پدر میح از حضرت ابو سعید خدری جدر میح۔ ترمذی اور بعض دوسرے اماموں نے یہ حدیث سعید بن زید کی روایت سے بیان کی ہے۔ اس کا سلسلہ اس طرح ہے سعید بن زید از عبدالرحمن بن حرملہ از ابی ثفال از رباح از جدۂ رباح از پدر جدۂ رباح۔ امام احمد اور اصحاب سنن نے یہ حدیث حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے بیان کی ہے اس کے سلسلے میں یعقوب بن سلمہ از سلمہ آیا ہے۔ دارقطنی نے حدیث کے یہ الفاظ نقل کئے ہیں جس نے وضو کیا اور بسم اللہ پڑھ لی اس نے اپنے پورے جسم کو پاک کرلیا اور جس نے بغیر بسم اللہ پڑھے وضو کیا اس نے صرف وضو کی جگہ (یعنی وضو کے اعضاء کو حد خاص تک) پاک کیا۔ (اس آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ کتابی یا آن لائن نسخے سے ملاحضہ فرمائیں۔ طوالت کے باعث اس سے زیادہ نقل نہیں کیا جا رہا)
Top