بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Asrar-ut-Tanzil - An-Nahl : 1
اَتٰۤى اَمْرُ اللّٰهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْهُ١ؕ سُبْحٰنَهٗ وَ تَعٰلٰى عَمَّا یُشْرِكُوْنَ
اَتٰٓى : آپہنچا اَمْرُ اللّٰهِ : اللہ کا حکم فَلَا تَسْتَعْجِلُوْهُ : سو اس کی جلدی نہ کرو سُبْحٰنَهٗ : وہ پاک وَتَعٰلٰى : اور برتر عَمَّا : اس سے جو يُشْرِكُوْنَ : وہ شریک بناتے ہیں
اللہ کا حکم (عذاب) آہی پہنچا تو (کافروں ! ) اس کے لئے جلدی نہ کرو لوگ جن کو اللہ کا شریک بناتے ہیں وہ ان سے پاک اور بلند تر ہے
(رکوع نمبر 1) اسرارومعارف اہل مکہ مذاق اڑاتے اور وقوع عذاب کی تردید میں کہتے کہ بھئی وہ عذاب کہاں ہے جس سے روزانہ ڈرایا جاتا ہے ارشاد ہوا کہ گھبراؤ مت اللہ جل جلالہ کا فیصلہ آپہنچا اور دنیا میں واقعی بہت تھوڑے عرصہ میں مسلمانوں کے ہاتھوں مسلسل شکستیں کھا کر ذلیل ہوئے کچھ قتل ہوگئے کچھ قید بنا لیے گئے اور پھر مکہ مکرمہ فتح ہوگیا اور سب غلام بن کر آپ ﷺ کی شفقتوں کے صدقے آزاد ہوئے حالانکہ اسباب دنیا کے لحاظ سے یہ سب ناممکن نظرآتا تھا اور ایسے ہی اگر دنیا کی عمر کے اعتبار سے دیکھا جائے تو قیام قیامت بھی آپہنچا ہے کہ اللہ کریم کا آخری نبی اور آخری کتاب آچکی اب جہان میں آخری امت ہی تو ہے کوئی نئی امت نہ آئے گی لہذا اب تو قیامت ہی آنے والی ہے لہذا فرمایا اللہ جل جلالہ کی گرفت تو سر پہ کھڑی ہے اگر چندے مہلت نصیب ہے تو جلدی نہ کرو اور ان لمحات کو غنیمت جانو کہ اللہ جل جلالہ ہر عیب سے پاک اور بلند ہے جب اس نے فرما دیا کہ قیامت قائم ہوگی تو یقینا ہوگی کہ اس کا ارشاد برحق ہے اور کوئی اس کا شریک نہیں نہ برابری کا دعوی کرسکتا ہے کہ اس کے فیصلوں پر اثر انداز ہو ، رہی یہ بات کہ بھلا ہم صاحب عزت ووقار بھی تھے اور ہمارے بال سفید نہیں آج تک لوگ بزرگوں کے پیچھے چلے ہیں اور ہم ایک ایسے نوجوان کی پیروی کیسے اختیار کریں جو ہمارے سامنے پیدا ہوا پلا بڑھا تو یہ اللہ جل جلالہ کی مرضی ہے کہ وہ کس کو مقتدا بناتا ہے ۔ (بزرگی و قیادت) قیادت کی اہلیت سن وسال سے نہیں بلکہ اللہ کریم کے عطا کردہ علم سے ہوتی ہے اور یہ اس کی مرضی کہ اس نے اپنی نبوت و رسالت کیلئے کس کو پسند فرما لیا اور اس پر وحی کا نزول فرمایا ایسے ہی ولایت کی سند عمر نہیں کہ ہر بوڑھا آدمی ہی ولی کامل ہو بلکہ اللہ جل جلالہ کا عطا کردہ نور ہے جس سینے میں وہ بھر دے ہاں وحی جب بھی اور جس پر بھی آئی اسی نے سب سے پہلے اللہ جل جلالہ کی توحید کی طرف دعوت دی اور یہ کتنی عجیب بات ہے کہ کم وبیش سوا لاکھ کے قریب بنی اور مختلف زبانوں اور مختلف خطہ ہائے زمین مبعوث ہوئے جو سب کے سب اپنے دور کے مانے ہوئے صاحب خرد لوگ تھے مگر سب ان دو باتوں ہی کی طرف بلاتے رہے اور پوری طرح ان باتوں پر متفق رہے کہ اللہ وحدہ لاشریک ہے اور معبود برحق ہے کوئی دوسرا عبادت کے لائق نہیں دوسرے اس کی نافرمانی سے ڈرتے رہو کہ تمہیں حساب دینا ہوگا تو کیا یہ عقلا محال نہیں کہ اتنے سارے لوگ کسی ایسی بات پر متفق ہوجائیں جو صحیح نہ ہو ، یہ بجائے خود بہت بڑی دلیل ہے ۔ پھر تم جن ہستیوں کو اس کا شریک قرار دیتے ہو وہ سب مخلوق ہیں اور زمین وآسمان اور اس کی ہر شے کا خالق تو اللہ جل جلالہ ہے جس نے بیشمار حکمتیں ان میں سمو دی ہیں بھلا مخلوق خالق کی شریک کیسے ہو سکتی ہے ، لہذا وہ ان سب باتوں سے پاک ہے جو تم نے گھڑ رکھی ہیں وہ ایسا قادر ہے کہ ایک ناپاک قطرے کو وجود انسانی کے لیے بیج کی حیثیت دے دی اور اسی کی تربیت فرما کر ایک پیکر حسن یعنی انسان پیدا فرماتا ہے عجیب بات نہیں کہ پھر یہ تخلیق اپنے خالق کی ذات وصفات میں زبان درازی کرتی ہے اور جھگڑتی ہے بھلا یہ کیا انسان کو زیب دیتا ہے ہرگز نہیں ۔ اسی نے تو چوپائے پیدا فرمائے جو تمہاری ضرورتیں پوری کرتے ہیں ان کے بال ، کھال اور ہڈیاں تک تمہارے استعمال میں آتی ہیں بعضے پال کر ان سے منافع کماتے ہو تو بعض کو اپنی غذا بناتے ہو بلکہ وہ تمہارا حسن ہیں ان کا صبح کو چرنے جانا اور پھر گھروں کو واپس آنا تمہاری شوکت بڑھاتا ہے آج کے جدید دور کا انسان بھی چوپاؤں اور قدرتی تخلیقات کا اتنا ہی محتاج ہے جتنے قدیم عرب تھے اور آج کی فارمنگ بھی اتنی نفع بخش اور باعث عزت ہے جتنی تب تھی ۔ بعض جانوروں کو بار برداری کے کام میں لاتے ہو اور مشکل مقامات پر تمہارے نقل وحمل کا کام کرتے ہیں جہاں خود تمہارے لیے چیزوں کا پہچاننا بہت دشوار ہوجاتا مگر تمہارا پروردگار کتنا کریم کس قدر شفقت والا اور کتنا ہی مہربان ہے اس نے تمہاری سواری کو گھوڑے خچر اور گدھے پیدا فرما دیئے جو ہر قسم کے راستوں پہ سفر کرتے ہیں اور تمہیں پہنچانے کا کام کرتے ہیں اور پھر اس پر پس نہیں تم نہیں جانتے کہ ابھی تمہاری سواری کو کیا کیا کچھ پیدا فرمائے گا کتاب اللہ کی یہ ایسی پیشگوئی ہے کہ آج تک کی سواری کی ساری ایجادات کے ساتھ آئندہ کی ایجادات کو بھی شامل ہے کہ ہر ایجاد محض چند چیزوں کی خصوصیات سے آگاہ ہو کر انہیں مختلف نسبتوں سے جوڑنے کا نام ہے جس کا شعور وہی ذات عظیم عطا کرتی ہے اور یہ سب دلائل ایک ہی سیدھے راستے کو روشن کر رہے ہیں جو اللہ کی اطاعت کا راستہ ہے مگر لوگوں نے اسے چھوڑ کر ٹیڑھے راستے اپنا لیے ہیں حالانکہ وہ قادر ہے چاہتا تو سب کو حکما ایک ہی راہ پر ڈال دیتا مگر یہ اس کی حکمت کا تقاضا نہ تھا لہذا راہ واضح کر کے اختیار کرنا یا نہ کرنا خود انسان پہ چھوڑ دیا ۔
Top