Tafseer-e-Haqqani - Al-Insaan : 7
یُوْفُوْنَ بِالنَّذْرِ وَ یَخَافُوْنَ یَوْمًا كَانَ شَرُّهٗ مُسْتَطِیْرًا
يُوْفُوْنَ : وہ پوری کرتے ہیں بِالنَّذْرِ : (اپنی) نذریں وَيَخَافُوْنَ : اور وہ ڈر گئے يَوْمًا : اس دن سے كَانَ : ہوگی شَرُّهٗ : اس کی بُرائی مُسْتَطِيْرًا : پھیلی ہوئی
(ابرار وہ ہیں) جو نذر پوری کرتے ہیں (رح) اور اس دن سے ڈرتے ہیں کہ جس کا شر پھیل پڑے گا
ترکیب : یوفون جملۃ مستانفۃ لبیان حال الابرار النذر فی اللغۃ الایجاب والمر ادھنا ما اوجب اللہ علی العباد اوما اوحب العبد و علی نفسہ من فعل الخیرات و ترک المنکرات والوفاء الاتیان بما اوجب۔ المستطیر اسم الفاعل من باب الاستفعال ماخوذ من الطیران العرب تقول استطار الحریق اذا انتشرویطمعون الجملۃ معطوفۃ علیٰ سابقۃ انما نطعمکم الخ الجملۃ فی محل النصب علی الحال بتقدیر القول ای قائلین انما الخ عبوساً تعبس وتکلح فیہ وجوہ الناس من شدتہ وھولہ فالمعنیٰ انہ ذوعبوس القمطریر اشد مایکون فی الایام واطولہ فی البلاء قال مجاہدان العبوس بالشفتین والقمطریر بالجہتہ والحاجبین۔ متکئین حال من ھم فی جزاہم والعامل جزیٰ الارائک جمع اریکۃ وھی بیت یزیّن بالثیاب والاسرۃ والستطور لایرون الجملۃ فی محل نصب علی الحال من مفعول جزاھم اومن الضمیر فی متکئین فعلی الاول حال متراوفۃ وعلی الثانی متداخلۃ۔ اوصفۃ اخریٰ الجنۃ۔ ودانیہ من الدنوبمعنی القرب قرء الجمہور بالنصب عطف علی ماقبلھا حال مثلھا اوصفۃ لمحذوف معطوف علی جنۃٍ ۔ وقریٔ بالرفع علی انہ خبرو المبتدء ظلالھا والجملۃ فی خیرالحال والمعنی لایرون فیہا شمسا ولازمہریرا والحال ان ظلالھا دانیۃ۔ وعلی تقدیر النصب ظلالھا مبتدء علیھم الخبرو ذللت الجملۃ حال من دانیۃ اومعطوفۃ علی دانیۃ وعلی تقدیر رفع دانیۃ علی جملۃ اسمیۃ والقطوف جمع قطف بالکسر وھوالعنقود۔ خوشہ۔ تفسیر : یہاں سے ان ابرار کے اوصاف و حالات بیان فرماتا ہے جن کے سبب وہ ابرار کئے گئے۔ (1) یوفون بالنذر کہ وہ نذر پوری کیا کرتے ہیں۔ نذر پیمان (ومنہ نذرت للہ کذا النذر بالضم والکسر) (صراح) وفا پورا کرنا۔ قتادہ و مجاہد کہتے ہیں اس کے معنی عبادت وطاعت کے ہیں لغوی اور شرعی معنی کے لحاظ سے اس میں مفسرین کے تین قول ہیں۔ (اول) نذرشرعی کہ بندہ کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کو اپنے اوپر واجب کرلے کہ میں اللہ کے لیے یوں کروں گا یا یہ کام نہ کروں گا۔ اب عام ہے کہ یہ نذر کسی آنے والی مراد کے حاصل ہونے یا بلا کے دفاع ہونے پر کی ہو جیسا کہ عام دستور ہے یا نہیں مگر اس قسم کی نذر کی بابت پیغمبر خدا ﷺ نے فرما دیا ہے۔ لاتنذروا فان النذر لاتغنی من القدر شیئا وانما یستخرج بہ من البخیل۔ (متفق علیہ) ۔ کہ نذر نہ مانا کرو کس لیے کہ تقدیرِ الٰہی کو نذر ماننا کچھ ٹال نہیں سکتا جو ہونا ہے ہو کر رہے گا، ہزار نذر مانا کرو بلکہ اس حیلہ سے بخیل کا مال خدا پاک باہر نکلوا دیتا ہے۔ مطلب یہ کہ جو بغیر نذر مانے کچھ بھی للہ نہ دیتا ہو اور وہ نذر کو تقدیرِ الٰہی کے پلٹنے کا وسیلہ بنائے۔ یہ اس بخیل کے مال صرف ہونے کا سبب ہے۔ نذرممنوع کاموں میں بھی جو اس کی قدرت نہ ہوں نہ ماننی چاہیے۔ کیونکہ مسلم نے نبی ﷺ سے روایت کی ہے کہ مصیبت میں اور جن کاموں کے کرنے کی قدرت نہیں رکھتا نذر کا پورا کرنا نہیں۔ امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں اس قسم کی نذر کو پورا نہ کرے مگر کفارہ لازم ہوگا کیونکہ ابودائود و ترمذی نے روایت کی ہے کہ لانذرفی معصیۃ اللہ و کفارتہ کفارۃ الیمین اور اسی طرح ابن ماجہ و ابودائود نے یہ جملہ بھی نقل کیا ہے، من نذر نذراً لایطیقہ فکفارتہ یمین 1 ؎۔ امام شافعی (رح) فرماتے ہیں یہ نذر دراصل نذر نہیں کفارہ واجب نہیں نہ اس کو پورا کرے۔ 1 ؎ یمین خدا کے نام یا صفات کی قسم کھانا کہ ایسا کروں گا یا نہ کروں گا اور نذر بغیر قسم کے کوئی کام واجب کرلینا کہ تین روزے اللہ کے لیے رکھوں گا یا صدقہ اس قدر کروں گا وغیرہ۔ اگر برے کاموں کی بابت یاغیرمقدور کی بابت نہیں تو وفا کرنا لازم ہے ورنہ گنہگار ہوگا۔ اور ترک میں کفارہ ہے دس مسکینوں کو کھانا یا کپڑا دینا یا بردہ آزاد کرنا ورنہ تین روزے رکھنا۔ 12 منہ باقی اور سب نذروں کا پورا کرنا واجب ہے کس لیے کہ اللہ تعالیٰ ابرار کی شان میں فرماتا ہے۔ یوفون بالنذر اور ایک جگہ یوں فرمایا ہے۔ ولیوفوا نذورھم کہ اپنی نذریں پوری کرو۔ پھر جو اپنی مانی نذر کے پورا کرنے میں آمادہ ہے وہ خدا پاک کے واجب کردہ احکام و عبادت پر بدرجہ اولیٰ سرگرم ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ آیت میں نذر سے مراد واجبات ہیں۔ عام ہے کہ ازخودبندہ نے اپنے اوپر واجب کرلیے ہوں یا خدا تعالیٰ نے واجب کئے۔ تیسرا قول کلبی کا ہے کہ نذر سے مراد عہد ہے عہد وفا کرنے کی قرآن میں تاکید ہے عام ہے کہ باہمی جائز عہد ہو یا خدا تعالیٰ کا عہد جو نبیوں کی معرفت بندھا ہے شریعت و احکام کی بجاآوری کا۔ (2) یخافون یوماً کان شرہ مستطیراً کہ وہ اس دن کے شر سے بھی ڈرا کرتے ہیں کہ جس کا شر پھیل پڑے گا۔ گرمی اور سردی کا جس طرح دنیا میں ایک عام اثر ہوتا ہے اسی طرح قیامت کا شر اور اس کا ہول اور دنیا کے زیروزبر ہونے کا حادثہ اور پھر نفخ صور اور اس کے بعد قبروں سے نکلنے کا حادثہ ایک عام وحشت انگیز حادثہ ہوگا۔ وہ ابرار اس دن کے حادثہ عظیمہ سے ڈرا کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اس دن کی تیاری میں نذریں پوری کرتے ہیں اور اپنے جان و مال کو انہوں نے دنیا میں نذر اللہ کردیا ہے اس لیے ویطمعون الطعام کھانا کھلاتے ہیں۔ علی حبہ محض اللہ ہی کی محبت سے نہ ریاکاری اور شہرت کے لیے یہ بھی معنی ہوسکتے ہیں کہ باوجودیکہ اس کھانے کی ان کو رغبت و محبت ہوتی اور حاجت دامن گیر ہوتی ہے اس پر بھی وہ کھلا دیتے ہیں کس کو ؟ مسکینا فقیر کو ویتیماً یتم کو واسیرا قیدی کو۔ اگلے زمانہ میں قیدیوں کو شاہی خزانہ سے کھانا نہیں ملتا تھا وہ اپنی محنت مزدوری کر کے کھاتے ہیں۔ اس میں ان پر سختی گزرتی تھی، فاقہ کشی پر فاقہ کشی ہوتی تھی اس لیے ان کا کھلانا بھی اس حالت بےکسی میں بڑا عمدہ کام تھا۔ بعض علماء کہتے ہیں اسیر سے مراد وہ بےبس لوگ ہیں جو خود کوئی کام نہیں کرسکتے یا وہ لڑکے اور عورتیں اور غلام ہیں جو ظالموں کے پنجے میں گرفتار ہیں اور ان کو پیٹ بھر کر کھانا نہیں ملتا۔ بیچارے ادھر ادھر بھٹکتے پھرتے ہیں۔ اس میں بےزبان جانور بھی داخل ہیں جو ایسے موذیوں کے ہاتھ میں گرفتار ہیں اور دانہ پانی نہیں ملتا اور ان پر اپنا کچھ احسان بھی نہیں جتلاتے بلکہ یہ کہتے ہیں انما نطعکم لوجہ اللہ لانرید منکم جزائً و لاشکورا کہ ہم تو خالص اللہ کے لیے تمہیں کھانا کھلاتے ہیں کہ وہ خوش ہوجائے اپنی مخلوق پر رحم کرنے سے نہ ہم کو تم سے اس کا بدلہ مقصود ہے نہ یہ کہ تم شکرگزاری کرو ہماری تعریف و مدح کرتے پھرو اور یہ بھی کہتے ہیں انانخاف من ربنا یوماً عبوساً قمطریرا کہ ہم اپنے رب سے ڈرتے ہیں اس دن کے عذاب سے جو نہایت سخت اور دشوار گزار ہوگا اس روز کے لیے یہ ذخیرہ جمع کرتے ہیں۔ یہ کچھ ضرور نہیں کہ اللہ کے نیک بندے یہ باتیں ہر مسکین و یتیم و اسیر کے سامنے زبان سے کہتے ہوں بلکہ ممکن ہے کہ زبان حال سے کہتے ہوں اور ان کے دل میں یہ مضمون ہو اور ان کی اس نیت اور حسن اخلاص کو خدا پاک ان کے قول سے تعبیر کرتا ہو اور ایسا ہوتا ہے اور یہی قول ہے۔ یوفون بالنذر سے لے کر یہاں تک کی آیات کے بارے میں ابن مردویہ نے ایک طویل قصہ نقل کیا ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے حسنین ؓ کی بیماری میں نذرمانی تھی کہ تین روزے رکھوں گا۔ جب صاحبزادوں کو شفا ہوئی اور روزے رکھنے شروع کئے اور کھانے کے لیے بہزار دقت شمعون خیبری یہودی غلہ فروش سے کچھ لا کر روٹیاں پکائیں، شام کو افطار کر کے جب کھانے بیٹھے اور آپ کے سامنے حضرت فاطمہ ؓ اور آپ کی لونڈی فضہ بھی روزہ دار تھیں تو ایک مسکین نے سوال کیا۔ پانچوں روٹی اس کو اٹھا دیں۔ اس پر یہ آیات ان کی مدح میں نازل ہوئیں۔ یہ ممکن ہے کس لیے کہ حضرت اہل بیت کرام ایسے ہی تھے مگر اول تو اس روایت کی صحت میں کلام ہے دوم اول سے آخر تک سلسلہ وار عموماً ہر انسان کی بابت کلام چلا آرہا ہے، تخصیص کسی کی نہیں۔ ہاں اس عموم میں حضرات اہل بیت کرام بدرجہ اولیٰ شریک ہیں۔ (تفسیر کبیر) ۔ اس کے بعد ان ابرار کی جزائے خیر کا ذکر کرتا ہے۔ فقال فوقھم اللہ شرذلک الیوم کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو اس روز کے شر سے محفوظ رکھے گا۔ ان پر کوئی مصیبت اور آفت اس روز نہ آئے گی۔ اور نہ صرف یہی بات کہ ان کو شر سے بچا کر نعمتوں سے محروم رکھے گا بلکہ ولقھم نضرۃ وسرورا ان کو فرحت اور خوشی عطا کرے گا اور دیدارِ الٰہی کی فرحت سے شادمان ہوں گے۔ یہ جنت روحانی تھی اس کے بعد جنت جسمانی کا ذکر کرتا ہے۔ وجزاھم بماصبرواجنۃً و حریراً کہ ان کے صبر کے بدلے میں جو نذر کے وفا کرنے اور اسیروں اور یتیموں اور فقیروں کے کھلانے میں تکالیف برداشت کرتے تھے جنت دے گا اور اس میں ریشمی لباس پہننے کو ملے گا۔ اور نہ یہی کہ صرف ایسے کپڑے اور خوشی ملے گی بلکہ ان کے رہنے کے لیے اور بیٹھنے اور سونے کے لیے متکئین فیہا علی الارائک چھپر کھٹ اور طلائی پلنگ ملیں گے جن پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے۔ لایرون فیہا شمساً ولازمہریرا جنت میں نہ دھوپ دیکھیں گے کس لیے کہ وہاں عرش کا سایہ ہوگا۔ آفتاب کی روشنی کی وہاں حاجت نہ ہوگی اور نہ وہاں سردی ہوگی ایک معتدل موسم ہوگا جو بہت ہی پربہار موسم ہوگا۔ نہ خزاں کا ڈر نہ برسات کی کیچڑ نہ مچھر نہ پسو، نہ گرمی نہ سردی۔ دنیا میں جو نہایت پربہار موسم باغوں میں ہوا کرتا ہے اور جو عمدہ ملکوں میں ہوتا ہے یہ وہاں کا ایک ادنیٰ نمونہ ہے۔ ودانیۃً علیہم ظلالہا اور جنت کے سائے ان پر جھکے ہوں گے گرچہ وہاں آفتاب نہ ہوگا اور نہ اس کی دھوپ مگر اور اجرام نورانیہ بھی پرتو افگن ہوتے ہیں کبھی طبیعت انسانی ہمیشہ یکساں حالت سے گھبرا جاتی ہے اس لیے کبھی اس کے تبدل و تغیر میں سرور پاتا ہے اس واسطے ان کے لیے بڑے دراز سائے ہوں گے جن کے نیچے تختوں پر تکیہ لگا کر بیٹھیں گے اور آپس میں باتیں کریں گے اور دنیا کے تذکرے بھی آئیں گے اور بےثمر درختوں کے سائے نہ ہوں گے بلکہ وذللت قطوفہا تذلیلا ان کے پھل ان کے بس میں ہوں گے۔ سایوں کے ساتھ پھل بھی جھکے ہوئے ہوں گے جن کے لینے اور توڑنے میں کوئی دقت نہ ہوگی۔ اصل یہ ہے کہ دنیا کی ہر ایک صفت نیک ان کے لیے ایک نعمت بن کر سامنے آئے گی۔ ان کی فرحت و خوشی ان کے دل غمناک اور اندوہگیں کے خوف و خطر کا نتیجہ ہے وہاں ان میں اس کے بدلے خوشی بھر دی جائے گی اور ان کے صبر کی تپش اور خدا کی راہ میں سختیاں اٹھانے کا ثمرہ جنت اور نرم لباس ہے اور وہ خود خدا کے آگے جھکے ہوئے تھے وہاں جنت میں درخت میوہ دار ان پر جھکے ہوئے ہوں گے اور یہ میوے ان کے اعمال صالحہ و معارفِ الٰہیہ اور اس کے شوق و مواعید ہیں۔
Top