Al-Qurtubi - Al-Insaan : 7
یُوْفُوْنَ بِالنَّذْرِ وَ یَخَافُوْنَ یَوْمًا كَانَ شَرُّهٗ مُسْتَطِیْرًا
يُوْفُوْنَ : وہ پوری کرتے ہیں بِالنَّذْرِ : (اپنی) نذریں وَيَخَافُوْنَ : اور وہ ڈر گئے يَوْمًا : اس دن سے كَانَ : ہوگی شَرُّهٗ : اس کی بُرائی مُسْتَطِيْرًا : پھیلی ہوئی
یہ لوگ نذریں پوری کرتے ہیں اور اس دن سے جس کی سختی پھیل رہی ہوگی خوف رکھتے ہیں
یوفون بالنذر۔۔۔ تا۔۔۔ ولاشکورا۔ یوفون بالنذر، جب وہ نذرمانتے ہیں تو اس کی خلاف ورزی نہیں کرتے۔ معمر نے قتادہ سے روایت نقل کی ہے اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی جانب سے فرض کی گئی نماز، زکوۃ، روزہ، حج، عمرہ، اور دوسرے فرائض ہیں۔ مجاہد اور عکرمہ نے کہا، جب وہ اللہ تعالیٰ کے حق میں نذر مانیں تو وہ اسے پورا کرتے ہیں فراء اور جرجانی نے کہا، کلام میں اضمار ہے یعنی وہ دنیا میں نذر پوری کیا کرتے تھے عرب اس مفہوم کو بیان کرنے کے لیے کبھی کان کا ذکر کرتے ہیں اور کبھی حذف کردیتے ہیں۔ نذر اس کی حقیقت ہے مکلف نے اپنے نفس پر کسی چیز کو اس لیے واجب کیا کہ وہ اسے بجالائے گا اگر تو چاہے تو اس کی تعریف میں یہ بھی کہہ سکتا ہے، نذر سے مراد مکلف کا طاعات میں سے کسی چیز کو اپنے اوپر واجب کرنا، اگر وہ اسے اپنے اوپر واجب نہ کرتا تو وہ چیز اس پر واجب نہ ہوتی، کلبی نے کہا، اس کا معنی ہے وہ اپنے وعدوں کو پورا کرتے ہیں دونوں کا معنی ایک ہی ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے، ثم الیقضوا تفثھم والیوفوا نذورھم۔ الحج 29 ) ۔ پھر وہ اپنی میل کو دور کردیں اور حج کے وہ اعمال جن کو انہوں نے حج کے احرام کی وجہ سے اپنے اوپر لازم کیا ہے ان کو پورا کریں، یہ قتادہ کا قول کو تقویت بہم پہنچاتا ہے کہ نذر میں وہ تمام چیزیں شامل ہیں جن کو انسان اپنے ایمان کی وجہ سے لازم کرتا ہے، جیسے اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت، یہ قشیری کا قول ہے، اشہب نے امام مالک سے وایت نقل کی ہے کہ نذر پوری کرنے سے مراد یہ ہے وہ غلام آزاد کرنے، روزے رکھنے اور نماز پڑھنے کی نذر کو پورا کرتے ہیں، ابوبکر بن عبدالعزیز نے ان سے روایت نقل کی ہے کہ امام مالک نے کہا، نذر سے مراد قسم ہے۔ ویخافون یوما کان شرہ مستطیرا۔ وہ قیامت کے دن سے ڈرتے ہیں جس کا شر غالب، چھاجانے والا اور عام ہے۔ لغت میں مستطیرا کا معنی پھیلا ہوا ہے، عرب کہتے ہیں استطار الصدع فی القارورۃ والزجاجۃ واستطال بوتل اور شیشے میں ٹوٹنے کی لکیر لمبی ہوگئی، اعمش نے کہا : وبانت وقد اسارت فی الفواد صدعا علی نابھا مستطیرا۔ وہ جدا ہوئی اس نے اپنی دوری کی وجہ سے دل میں لمبا شق چھوڑا۔ یہ جملہ بولا جاتا ہے، اسطار الحریق، آگ پھیل گئی، استطار الفجر روشنی پھیل گئی، حضرت حسان نے کہا، وھان علی سراۃ بنی لوی، حریق بالبویرۃ مستطیر۔ بویرہ کے مقام پر بنولوی کے سرداروں پر پھیل جانے والی آگ آسان ہوگئی۔ قتادہ کہا کرتے تھے : اللہ کی قسم ! اس دن کا شر پھیل جائے گا یہاں تک کہ وہ آسمانوں اور زمین بھردے گا۔ مقاتل نے کہا، اس کا شر آسمانوں میں پھیل گیا تو وہ پھٹ گئے ستاروں ٹوٹ گئے، فرشتے خوف زدہ ہوگئے زمین میں پہاڑ اڑ گئے اور پانی انتہائی گہرائی میں چلے گئے۔
Top