بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer Ibn-e-Kaseer - Al-Insaan : 1
هَلْ اَتٰى عَلَى الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ یَكُنْ شَیْئًا مَّذْكُوْرًا
هَلْ اَتٰى : یقیناً آیا (گزرا) عَلَي : پر الْاِنْسَانِ : انسان حِيْنٌ : ایک وقت مِّنَ الدَّهْرِ : زمانہ کا لَمْ يَكُنْ : اور نہ تھا شَيْئًا : کچھ مَّذْكُوْرًا : قابل ذکر
بےشک انسان پر زمانے میں ایک ایسا وقت بھی آچکا ہے کہ وہ کوئی چیز قابل ذکر نہ تھی
اے انسان اپنے فرائض پہچان اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ اس نے انسان کو پیدا کیا حالانکہ اس سے پہلے ہوا پانی حقارت اور ضعف کی وجہ سے ایسی چیز نہ تھا کہ ذکر کیا جائے، اسے مرد و عورت کے ملے جلے پانی سے پیدا کیا اور عجب عجب تبدیلیوں کے بعد یہ موجودہ شکل و صورت اور ہئیت پر آیا، اسے ہم آزما رہے ہیں، جیسے اور جگہ ہے آیت (لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا ۭوَهُوَ الْعَزِيْزُ الْغَفُوْرُ ۙ) 67۔ الملک :2) تاکہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے اچھے عمل کرنے والا کون ہے ؟ پس اس نے تمہیں کان اور آنکھیں عطا فرمائیں تاکہ اطاعت اور معصیت میں تمیز کرسکو۔ ہم نے اسے راہ دکھا دی خوب واضح اور صاف کر کے اپنا سیدھا راستہ اس پر کھول دیا، جیسے اور جگہ ہے آیت (وَاَمَّا ثَمُوْدُ فَهَدَيْنٰهُمْ فَاسْتَــحَبُّوا الْعَمٰى عَلَي الْهُدٰى فَاَخَذَتْهُمْ صٰعِقَةُ الْعَذَابِ الْهُوْنِ بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ 17ۚ) 41۔ فصلت :17) یعنی ثمودیوں کو ہم نے ہدایت کی لیکن انہوں نے اندھے پن کو ہدایت پر ترجیح دی اور جگہ ہے آیت (وَهَدَيْنٰهُ النَّجْدَيْنِ 10ۚ) 90۔ البلد :10) ہم نے انسان کو دونوں راہیں دکھا دیں، یعنی بھلائی برائی کی، اس آیت کی تفسیر میں مجاہد ابو صالح ضحاک اور سدی سے مروی ہے کہ اسے ہم نے راہ دکھائی یعنی ماں کے پیٹ سے باہر آنے کی، لیکن یہ قول غریب ہے اور صحیح قول پہلا ہی ہے اور جمہور سے یہی منقول ہے شاکراً اور کفوراً کا نصب حال کی وجہ سے ذوالحال لا کی ضمیر ہے جو آیت (اِنَّا هَدَيْنٰهُ السَّبِيْلَ اِمَّا شَاكِرًا وَّاِمَّا كَفُوْرًا) 76۔ الإنسان :3) میں ہے، یعنی وہ اس حالت میں یا تو شقی ہے یا سعید ہے، جیسے صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ ہر شخص صبح کے وقت اپنے نفس کی خریدوفروخت کرتا ہے یا تو اسے ہلاک کردیتا ہے یا آزاد کرا لیتا ہے، مسند احمد میں ہے کہ حضرت کعب بن عجرہ ؓ سے آپ نے فرمایا اللہ تجھے بیوقوفوں کی سرداری سے بچائے حضرت کعب نے کہا یا رسول اللہ ﷺ وہ کیا ہے ؟ فرمایا وہ میرے بعد کے سردار ہوں گے جو میری سنتوں پر نہ عمل کریں گے نہ میرے طریقوں پر چلیں گے پس جو لوگ ان کی جھوٹ کی تصدیق کریں اور ان کے ظلم کی امداد کریں وہ نہ میرے ہیں اور نہ میں ان کا ہوں یاد رکھو وہ میرے حوض کوثر پر بھی نہیں آسکتے اور جو ان کے جھوٹ کو سچا نہ کرے اور ان کے ظلموں میں ان کا مددگار نہ بنے وہ میرا ہے اور میں اس کا ہوں یہ لوگ میرے حوض کوثر پر مجھے ملیں گے اے کعب روزہ ڈھال ہے اور صدقہ خطاؤں کو مٹا دیتا ہے اور نماز قرب اللہ کا سبب ہے یا فرمایا کہ دلیل نجات ہے۔ اے کعب وہ گوشت پوست جنت میں نہیں جاسکتا وہ حرام سے پلا ہو وہ تو جہنم میں ہی جانے کے قابل ہے، اے کعب لوگ ہر صبح اپنے نفس کی خریدو فروخت کرتے ہیں کوئی تو اسے آزاد کرا لیتا ہے اور کوئی ہلاک کر گذرتا ہے، سورة روم کی آیت (فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ۭ لَا تَبْدِيْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْـقَيِّمُ ڎ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ 30؀ڎ) 30۔ الروم :30) کی تفسیر میں حضرت جابر کی روایت سے حضور ﷺ کا یہ فرمان بھی گذر چکا ہے کہ ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے یہاں تک کہ زبان چلنے لگتی ہے پھر یا تو شکر گذار بنتا ہے یا ناشکرا، مسند احمد کی اور حدیث میں ہے کہ جو نکلنے والا نکلتا ہے اس کے دروازے پر دو جھنڈے ہوتے ہیں ایک فرشتے کے ہاتھ میں دوسرا شیطان کے ہاتھ میں پس اگر وہ اس کام کے لئے نکلا جو اللہ کی مرضی کا ہے تو فرشتہ اپنا جھنڈا لئے ہوئے اس کے ساتھ ہو لیتا ہے اور یہ واپسی تک فرشتے کے جھنڈے تلے ہی رہتا ہے اور اگر اللہ کی ناراضگی کے کام کے لئے نکلا ہے تو شیطان اپنا جھنڈا لگائے اس کے ساتھ ہو لیتا ہے اور واپسی تک یہ شیطانی جھنڈے تلے رہتا ہے۔
Top