بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Baseerat-e-Quran - Al-Insaan : 1
هَلْ اَتٰى عَلَى الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ یَكُنْ شَیْئًا مَّذْكُوْرًا
هَلْ اَتٰى : یقیناً آیا (گزرا) عَلَي : پر الْاِنْسَانِ : انسان حِيْنٌ : ایک وقت مِّنَ الدَّهْرِ : زمانہ کا لَمْ يَكُنْ : اور نہ تھا شَيْئًا : کچھ مَّذْكُوْرًا : قابل ذکر
کیا انسان پر ایسا وقت نہیں آیا کہ جب وہ کوئی قابل ذکر چیز ہی نہ تھا ؟
لغات القرآن۔ الدھر۔ زمانہ۔ مذکور۔ قابل ذکر۔ امشاج۔ ملی جلی چیزں۔ اغلال۔ طوق۔ مستطیر۔ پھیلائی گئی۔ اسیر۔ قیدی۔ عبوس۔ بگڑے ہوئے چہرے۔ قمطریر۔ مصیبت والے۔ قطوف۔ پھل۔ قواریر۔ شیشے کے برتن۔ زنجبیل۔ کافور۔ ولدان۔ کم عمرلڑکے۔ مخلدون۔ ہمیشہ رہنے والے۔ لولو منثورا۔ بکھرے ہوئے موتی۔ سندس۔ باریک ریشم۔ خضر۔ سبز۔ استبرق۔ دبیز ریشم۔ حلوا۔ پہنائے جائیں گے۔ تشریح : کائنات میں جتنی بھی مخلوقات ہیں ان میں سب سے عمدہ، افضل اور بہترین سانچوں میں ڈھال کر جس مخلوق کو پیدا کیا گیا ہے وہ انسان ہے جس کو اشرف المخلوقات ہونے کا شرف حاصل ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے تمام نبیوں اور رسولوں کو انسانوں میں سے منتخب کرکے ان کے سروں پر نبوت کا تاج سجایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یاد دلایا ہے کہ انسان کو اپنی پیدائش اور وجود پر غور کرنا چاہیے کیونکہ ہر انسان پر ایک ایسا زمانہ بھی گزرا ہے جب اس دنیا میں اس کا نام و نشان نہ تھا اور کوئی قابل ذکر چیز بھی نہ تھا۔ پھر اللہ نے اس کو پیدا کرکے عظمت کی بلندیوں تک پہنچایا۔ اللہ ہی نے اس کو مخلوط نطفہ سے پیدا کرکے سننے اور دیکھنے کی طاقتوں سے نوازا ہے کہ اس کو آزمایا جاسکے کہ وہ اپنے حواس سے کام لے کر ایمان اور شکر کا راستہ اختیار کرتا ہے یا وہ دیکھتے بھالتے اللہ سے کفرو انکار اور ناشکری کرتا ہے۔ مخلوط نطفہ سے مراد یہ ہے کہ انسان کی پیدائش مرد اور عورت کے الگ الگ نطفوں سے نہیں ہوئی بلکہ عورت کا بیضہ (Ovum) اور مرد کا نطفہ (Sperm) جب یہ دونوں آپس میں مل جاتے ہیں تو اس وقت ماں کے رحم میں وہ چیز بننا شروع ہوجاتی ہے جو مختلف فطری مرحلوں سے گزر کر آخر کار ایک جیتے جاگتے انسان یا جاندار کی صورت شکل اختیار کرلیتی ہے۔ مفسرین نے اس پر بحث کی ہے کہ اس انسان سے مراد حضرت آدم (علیہ السلام) ہیں یا کائنات میں قدم رکھنے والا ہر انسان ہے ؟ حضرت عبد اللہ ابن عباس ؓ اور صحابہ کرام ؓ سے یہ روایات نقل کی گئی ہیں کہ یہاں انسان سے مراد کوئی خاص انسان نہیں ہے بلکہ اس سے مراد ” جنس انسانی “ ہے یعنی آج تک جتنے انسان آئے ہیں یا آئندہ آئیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق اور پیدائش کا مقصد یہ بیان کیا ہے کہ ” ہم سب کچھ دے کر انسان کو آزمانا اور جانچنا چاہتے ہیں “ کہ وہ یہ سب کچھ پا کر بہک جاتا ہے یا اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرکے جنت کی ابدی راحتوں کا مستحق بن جاتا ہے۔ اس سلسلہ میں اللہ کا اٹل قانون یہ ہے کہ جو بھی کفرو شرک اور ناشکری کا طریقہ اپنائے گا اس کو انتہائی سخت سزا دی جائے گی۔ اللہ نے ایسے ناشکرے لوگوں کے لئے ایسی زنجیریں تیار کررکھی ہیں جن میں باندھ کر ان کو گھسیٹا جائے گا۔ ان کی گردنوں میں طوق ڈال کر اور اس کو مضبوط باندھ کر ان کو جہنم کی بھڑکتی آگے میں جھونک دیا جائے گا۔ لیکن وہ لوگ جنہوں نے اللہ کی نعمتوں کی قدر کرکے ایمان اور شکر کا راستہ اختیار کیا ہوگا ان کو جنت کی تمام راحتیں اور نعمتیں عطا کی جائیں گے۔ وہاں ان کو ایسی بہترین اور مزید شراب پلائی جائے گی جس میں کافور کی آمیزش ہوگی۔ وہ بہتے ہوئے ایسے چشمے ہوں گے کہ اہل جنت جہاں جائیں گے وہ چشمے ان کے ساتھ ساتھ ہوں گے۔ حدیث میں آتا ہے کہ ان کے ہاتھوں میں سونے کی ایسی چھڑیاں ہوں گی کہ وہ ان چھڑیوں سے جس طرف اشارہ کردیں گے نہریں اسی طرف بہنا شروع ہوجائیں گی یہ کون لوگ ہوں گے ؟ اور ان کی خصوصیات کیا ہوں گی ؟ اس کی تفصیل یہ ہے۔ 1۔ پہلی خصوصیت یہ ہے کہ وہ جب بھی کوئی نذر یا منت مانتے ہیں تو وہ اس کو پورا کرتے ہیں۔ اصل میں نذر یا منت وہ چیز ہے جس کے کرنے کیلئے شریعت نے مجبور نہیں کیا کیونکہ ایک شخص اپنی مرضی سے ایک منت مانتا ہے اور اس کے پورا کرنے کو اپنے اوپر لازم کرلیتا ہے۔ ایسے لوگ جو خود سے ایک نیکی کا ارادہ کر کے اس کو پورا کرتے ہیں ان سے اس بات کی قوی امید ہوتی ہے کہ ایسے لوگوں پر اللہ نے جن باتوں کو فرض اور لازم کیا ہے وہ اس کو یقینا پورا کرنے والے ہوں گے لہٰذا یہ خصوصیت ان کو جنت کی راحتوں سے ہم کنار کردے گی۔ 2۔ دوسری خصوصیت یہ ہے کہ وہ ہر وقت قیامت کے اس دن سے ڈرتے ہیں جو مجرموں کے لئے بڑا ہولناک دن ہوگا اور اس دن کسی کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کی جائے گی۔ جس کا جیسا عمل ہوگا اسی کے مطابق اس کو جزا یا سز ادی جائے گی۔ 3۔ تیسری خصوصیت یہ ہے کہ ان کا ہر کام اور خدمت اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے ہوتی ہے ان کے کسی کام میں ریاکاری یا دکھاوا نہیں ہوتا محتاج اور حاجت مند کو کھانا کھلانا، یتیم بچوں پر شفقت و محبت اور کسی قیدی کو (مسلم ہو یا کافر) کھانا کھلانا۔ 4۔ چوتھی خصوصیت یہ ہے کہ وہ کوئی نیکی کرکے نہ تو اس کی تمنا رکھتے ہیں کہ کون ان کا شکریہ ادا کرے اور وہ کسی سے کسی بدلے کے طلب گار بھی نہیں ہوتے۔ ان کی زبانوں پر بس یہی ہوتا ہے کہ ہم جو کچھ کررہے ہیں وہ اپنے رب سے ڈرتے ہوئے کر رہے ہیں۔ اور ہم اس دن سے پناہ مانگتے ہیں جس دن مجرموں پر انتہائی ہیبت ناک اور سخت دن ہوگا۔ فرمایا کہ ایسے صبر وشکر، تحمل اور برداشت کرنے والوں کے لئے اللہ ان پر سختی کو بھی آسان فرما دے گا۔ ان کو تروتازگی، خوشی اور مسرت عطا فرمائے گا۔ ان کے صبر کے وجہ سے ان کو جنت کا ریشمی لباس پہنایاجائے گا۔ وہ شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ کے ساتھ خوبصورت ترین مسہریوں پر تکئیے لگائے بیٹھے ہوں گے۔ بڑا خوشگوار اور معتدل موسم ہوگا نہ اس میں گرمی کی تپش ہوگی اور نہ سردی کی شدت اور ٹھنڈک، ہرے بھرے درختوں کے سائے ان پر جھکے ہوئے ہوں گے جن درختوں کے ہر طرح کے پھل ان کے قبضے اور اختیار میں ہوں گے وہ جس قدر اور جیسے ان پھلوں کو کھانا چاہیں گے کھائیں گے، سونے چاندی کے کنگن، سونے چاندی کے برتن اور شیشے کی طرح چمکتے ہوئے جام پیش کیے جائیں گے جن کو خوب بھر بھر کردیا جائے گا یعنی کوئی کمی نہ ہوگی۔ ان کو ایسے جام پیش کئے جائیں گے جس شراب میں سونٹھ کی آمیزش ہوگی۔ وہ ایسے چشمے سے حاصل ہوگی جس کا نام سلسبیل ہوگا۔ ان جنتیوں کے اردگرد دوڑتے بھاگتے خدمت گزار لڑکے ہوں گے جو جنت میں موتیوں کی طرح بکھرے ہوئے ہوں گے اور ہمیشہ جوان ہی رہیں گے۔ نبی کریم ﷺ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ دیکھیں گے کہ جنت میں ہر طرف نعمتوں کے ڈھیر ہوں گے ۔ قدیم بادشاہوں کی طرح ان کو سونے چاندی کے کنگن پہنائے جائیں گے اور ایسا معلوم ہوگا جیسے اہل جنت ایک عظیم سلطنت کے مالک ہیں۔ ان کے اوپر کالباس باریک ریشم کے سبز کپڑے ہوں گے اور ان کو ان کے پروردگار کی طرف سے بہترین شراب پلائی جائے گی جو انتہائی پاکیزہ اور نفیس ہوگی۔ اللہ کی طرف سے یہ اعلان کردیا جائے گا کہ یہ ساری نعمتیں تمہارے لئے ہیں۔ یہ درحقیقت تمہاری ان نیکیوں کا صلہ اور اچھی کر ششوں کو بدلہ ہے جو تم نے دنیا میں کی تھیں اور اللہ نے ان کو قبول بھر کرلیا تھا۔
Top