بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tadabbur-e-Quran - Al-Insaan : 1
هَلْ اَتٰى عَلَى الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ یَكُنْ شَیْئًا مَّذْكُوْرًا
هَلْ اَتٰى : یقیناً آیا (گزرا) عَلَي : پر الْاِنْسَانِ : انسان حِيْنٌ : ایک وقت مِّنَ الدَّهْرِ : زمانہ کا لَمْ يَكُنْ : اور نہ تھا شَيْئًا : کچھ مَّذْكُوْرًا : قابل ذکر
کیا گزرا ہے انسان پر کوئی وقت ‘ زمانے میں ‘ ایسا جب وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا !
استفہامیہ اسلوب کی بلاغتیں: ’ہَلْ‘ کے معنی مفسرین نے استفہام کے بجائے عام طور پر ’قَدْ‘ کے لیے ہیں۔ لیکن کلام عرب میں اس معنی کے لیے مجھے کوئی نظیر نہیں ملی۔ بعض مثالیں جو اس معنی کی شہادت کے طور پر پیش کی گئی ہیں ان پر میں نے غور کر لیا ہے۔ میرے نزدیک ان میں بھی ’ہَلْ‘ استفہام ہی کے لیے ہے۔ البتہ استفہام جس طرح ہماری زبان میں مختلف معانی کے لیے آتا ہے اسی طرح عربی میں بھی اس کے مختلف مفہوم ہوتے ہیں۔ ان سب کی وضاحت کے لیے یہاں نہ گنجائش ہے نہ ضرورت۔ پچھلی سورتوں میں اس کے بعض پہلو زیربحث آ چکے ہیں اور بعض کے لیے آگے کی سورتوں میں موزوں مواقع آئیں گے۔ یہاں صرف اتنی بات یاد رکھیے کہ استفہام کا ایک بلیغ موقع استعمال وہ بھی ہے جب مخاطب سے کسی ایسی بات کا اقرار کرانا ہو جس کی نوعیت ہو تو ایک بدیہی حقیقت کی لیکن مخاطب اس کو تسلیم کرنے کے باوجود عملاً اس سے منحرف ہو۔ مثال سے یوں سمجھیے کہ کوئی ماں اپنے نافرمان بیٹے سے یوں کہے کہ ’کیا تجھے یاد نہیں کہ تو ایک مضغۂ گوشت کی صورت میں میری گود میں ڈالا گیا تھا، میں نے اپنا خون دودھ بنا کر تجھ کو پلایا اور پال پوس کر جوان کیا!‘ اس پر غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ یہ محض ایک سادہ خبریہ جملہ نہیں ہے بلکہ اس کے اندر بہت سے معانی مضمر ہیں۔ مثلاً o اس میں بیٹے کو ایک عظیم حق کی یاددہانی ہے جو اس پر عائد ہوتا ہے اور جس سے اس کے لیے انکار کی گنجائش نہیں ہے لیکن اس کا رویہ اس کے منافی ہے۔ o اس میں ملامت، غصہ، رنج اور اظہار حسرت کے بھی گوناگوں پہلو ہیں۔ o اس میں نہایت مبنی برحقیقت گلہ و شکوہ بھی ہے اور نہایت مؤثر اپیل بھی۔ یہ سارے مفہوم اس استفہام ہی سے پیدا ہوتے ہیں جو اس جملہ کے اندر ہے۔ اگر اس کو الگ کر کے جملہ کو سادہ خبریہ اسلوب میں کر دیجیے تو یہ تمام معانی ہوا ہو جائیں گے۔ بالکل یہی حال زیربحث آیت کا بھی ہے۔ اس میں جو ’ہَلْ‘ ہے اس کے اندر بہت سے معانی مضمر ہیں جو آگے مضمون کے تدریجی ارتقا سے کھلیں گے۔ اگر اس کو آپ ’قَدْ‘ سے بدل دیں تو یہ آیت ان مطالب کی تمہید کے لیے بالکل ناموزوں ہو جائے گی جو آگے آ رہے ہیں۔ معلقات کے ایک قصیدے کا مطلع ہے: ھل غمادر الشعراء من متردم ام ھل عرفت الدار بعد توھمٖ (کیا شاعروں نے شاعری میں کوئی خلا چھوڑ دیا تھا یا تجسس کے بعد تم نے منزل جاناں کا سراغ پا لیا ہے!!) یہ ایک بہترین مطلع ہے اور اس کا سارا حسن اس کے خاص قسم کے اسفہامیہ اسلوب میں مضمر ہے۔ اگر اس ’ہَلْ‘ کو ’قَدْ‘ سے بدل دیجیے تو یہ حسن بالکل غائب ہو جائے گا۔ شاعر خود اپنے آپ کو مخاطب کر کے پوچھ رہا ہے کہ آج یہ قصیدہ کہنے کا ولولہ دل میں کیوں ابھرا ہے؟ کیا شاعری میں خلا رہ گیا تھا جس کو آج بھر دینے کا ارادہ ہے یا منزل جاناں کے آثار نے آتش عشق بھڑکا دی ہے جس کا حق ادا کرنا ہے! مطلب یہ ہے کہ یہ دونوں باتیں ہیں۔ شاعری میں بھی ایک بہت بڑا خلا رہ گیا تھا جس کو اس قصیدے سے پورا کرنا ہے اور منزل جاناں کے سراغ کا مضمون بھی اب تک کے شاعروں کی ساری خوں فشانیوں اور مضمون آفرینیوں کے باوجود ہنوز تشنہ ہی تھا، آج اس کا بھی حق ادا کر دینا ہے۔ یہاں اس مطلع کے محاسن کی وضاحت مقصود نہیں ہے، دکھانا صرف یہ ہے کہ اسلوب اور اسلوب میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ باعتبار وزن تو یہ شعر لفظ ’قَدْ‘ سے بھی پورا ہو جاتا لیکن معنی کے اعتبار سے ظاہر ہے کہ اس کی کوئی قدر و قیمت باقی نہ رہ جاتی۔ آیت زیربحث کے مخاطب وہ لوگ ہیں جو قیامت اور جزا و سزا کے منکر تھے۔ ان کو مخاطب کر کے قرآن نے یہ سوال ان کے سامنے رکھا ہے کہ کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ ایک وقت انسان پر ایسا بھی گزرا ہے جب اس کا وجود کوئی قابل ذکر چیز نہیں تھا بلکہ وہ پانی، کیچڑ، مٹی کے اندر رینگنے والی ایک حقیر مخلوق تھا۔ لیکن اسی حقیر مخلوق کو قدرت نے مختلف مراحل سے گزارا اور اس کی صلاحیتوں کو تربیت دے کر ایسے مرتبہ پر پہنچا دیا کہ وہ تمام مخلوقات سے اعلیٰ و اشرف بن گیا! اس سوال سے مقصود انسان کی قوت فکر کو حرکت میں لانا ہے کہ وہ سوچے کہ آخر قدرت نے اس پر یہ اہتمام کیوں صرف فرمایا؟ اس کو ان اعلیٰ صلاحیتوں سے کیوں نوازا؟ کیا محض اس لیے کہ وہ کھائے پیے اور ایک دن ختم ہو جائے! کیا ان صلاحیتوں سے متعلق اس پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی؟ کیا جس نے اس اہتمام سے اس کو وجود بخشا اس کا کوئی حق اس پر قائم نہیں ہوتا؟ یہ سوالات اس شخص کے اندر پیدا ہونے چاہییں جو اپنے وجود پر غور کرے۔ اپنا وجود انسان سے سب سے زیادہ قریب بھی ہے اور اس کی ہر چیز انسان کو دعوت فکر بھی دیتی ہے۔ آیت کے استفہامیہ اسلوب نے اس حسن فکر کو بیدار کرنا چاہا ہے کہ انسان کی نظروں سے خدا اوجھل ہے تو اس کا اپنا وجود تو اوجھل نہیں ہے، وہ خود اپنے اندر خدا کی قدرت و حکمت اور اس کے عدل و رحمت کی نشانیاں دیکھ سکتا ہے۔ اسی طرح اگر وہ غور کرے تو یہ حقیقت بھی اس پر روشن ہو جائے گی کہ ہر چند اس نے قیامت ابھی دیکھی نہیں لیکن خود اس کے نفس کے اندر قیامت کے شواہد اور اس کے دلائل اتنے واضح ہیں کہ وہ ان کا انکار نہیں کر سکتا بشرطیکہ وہ بالکل ہٹ دھرم اور کج رو نہ ہو۔
Top