بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Maarif-ul-Quran - Al-Insaan : 1
هَلْ اَتٰى عَلَى الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ یَكُنْ شَیْئًا مَّذْكُوْرًا
هَلْ اَتٰى : یقیناً آیا (گزرا) عَلَي : پر الْاِنْسَانِ : انسان حِيْنٌ : ایک وقت مِّنَ الدَّهْرِ : زمانہ کا لَمْ يَكُنْ : اور نہ تھا شَيْئًا : کچھ مَّذْكُوْرًا : قابل ذکر
بیشک انسان پر زمانے میں ایک ایسا وقت بھی آچکا ہے کہ وہ کوئی چیز قابل ذکر نہ تھا
ابتداء ہستی انسان در عالم وعطأ صلاحیت برائے فرق درمیان حق و باطل مع ذکر انعامات ابرار ومتقین وتعذیب مجرمین : قال اللہ تعالیٰ : (آیت) ” ھل اتی علی الانسان حین ....... الی ....... سعیکم مشکورا “۔ (ربط) گزشتہ سورة قیامہ میں احوال قیامت کا ذکر تھا اور ان منکرین کا دلائل وحقائق کے ساتھ رد تھا جو روز آخرت کے بارے میں شکوک و شبہات اور اعتراضات کرتے تھے اب اس سورت میں قدرت خداوندی کا بیان ہے کہ وہ اپنی قدرت کاملہ سے ایک ناپاک قطرہ کو انسانی وجود بخشتا ہے انسان کا کتم عدم سے ہستی میں آجانا اللہ رب العزت کی عظیم تر دلیل ہے پھر یہ کہ اس انسان کے سامنے دونوں راستے ہدایت اور گمراہی کے واضح کرکے رکھ دیئے گئے اسکو ہوش و حواس شعور وادراک اور عقل کی صلاحیتیں پوری طرح عطا کردی گئیں اب اگر وہ حق وہدایت کا راستہ اختیار کریگا تو خدا کے عظیم انعامات کا مستحق ہوگا اور اگر عقل و فطرت کے تقاضوں کو فراموش کرکے گمراہی کا راستہ اختیار کریگا تو خدا کے عذاب کا مستحق ہوگا، ابرار ومتقین کی جزائیں اور انعامات کیا ہوں گے اور فساق وفجار اور مجرمین کیسی ذلت میں مبتلا ہوں گے ؟ آگے اسکی تفصیلات ہیں چناچہ ارشاد فرمایا۔ کیا نہیں گذرا ہے انسان پر ایک ایسا وقت زمانہ میں سے کہ وہ نہیں تھا ایسی چیز جو قابل ذکر ہو اس کا کوئی نام ونشان بھی نہ تھا بیشک ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے ایک قطرہ منی سے جو ملی ہوئی ہے عورت کی منی سے یا وہ مخلوط ہے مختلف قسم کی غذاؤں سے اور ان کا جوہر و خلاصہ ہے جس کو ہم لوٹاتے پلٹاتے رہے پھر ہم نے اسکو پیدا کیا اس حال میں کہ وہ سننے اور دیکھنے والا ہے بعد اس کے کہ نطفہ سے خون کا جماہوا ٹکڑا بنایا پھر اسکو گوشت کا لوتھڑا پھر اس کی شکل و صورت اور اعضاء کی ساخت کی اور اس میں جان ڈالی حس وحیات اور ادراک و شعور کی صلاحیتوں کے ساتھ پیدا کی اور اس بناء پر ہر انسان میں اللہ نے فطری استعداد اور صلاحیت کے علاوہ عقل وفکر کا مادہ رکھا ہے بیشک ہم نے انسان کو دکھا دیا راستہ حق اور ہدایت کا اب اس کے بعد یا تو وہ شکر گذار ہے اپنے پروردگار کا اور اس کا فرماں بردار یا ناشکری کرنے والا ہے۔ نیکی اور تقوی کا راستہ بتانے اور اسکو اختیار کرنے کے لئے عقل وفہم اور ادراک و شعور عطاء کرنے کا تقاضا تو یہ تھا کہ وہ اپنے رب کی اطاعت وفرماں برداری اور عطا کردہ نعمتوں کا شکر گزار ہوتا لیکن افسوس اس انسان کی بدنصیبی پر کہ ان فطری دواعی اور تقاضوں کو ٹھکرا کر خدا کا نافرمان اور ناشکر گذار رہا ظاہر ہے نافرمانوں اور مجرموں پر جرم کی سزا جاری کرنی چاہئے تو اس بناء پر بیشک ہم نے تیار کر رکھی ہیں نافرمانوں کے واسطے زنجیریں اور طوق اور دہکتی ہوئی آگ اور بلاشبہ ایسے نافرمان جنہوں نے رسم و رواج اور ادہام کی زنجیریں میں اپنے آپ کو جکڑے رکھا اور غیر اللہ کی پرستش کا طوق اپنی گردنوں میں ڈالا اور حق نیز حق پرستوں کے خلاف عداوت ودشمنی اور بغاوت وسرکشی کی آگ بھڑکاتے رہے وہ اسی کے مستحق ہیں کہ طوق وسلاسل میں جکڑے جائیں اور دہکتی ہوئی آگ میں ہمیشہ جلتے رہیں مگر انکے بالمقابل مطیعین وفرماں بردار اللہ کے انعامات اور اعزاز واکرام کے مستحق ہوں گے اس وجہ سے بیشک نیکوکار لوگ پیں گے ایسے جام سے جس کی ملاوٹ کافور ہوگی اور جنت کا یہ کافور نہایت ہی لذیذ وخوشگوار اور خوشبو سے مہکتا ہوگا یہ ایک خاص چشمہ ہوگا جس سے اللہ کے خاص برگزیدہ بندے پیتے ہوں گے اس طرح کہ وہ اللہ کے خاص بندے بہاتے ہوں گے اس چشمہ کو بہت سی نالیوں اور نہروں کی صورت میں کہ جہاں چاہیں گے اس شراب طہور کی نالیاں اور جو دل بہتے چلے جائیں گے، یہ اللہ کے برگزیدہ بندے وہ ہیں جو پورا کرتے ہیں اپنی نذر کو جو بھی اللہ کے لیے وہ نذر مان لیں کسی خیر کے حاصل ہونے پر یا کسی مصیبت اور تکلیف کے ٹلنے پر اور ان کے ایمان وتقوی کا یہ عالم ہے ڈرتے ہیں اس دن سے جس کی مصیبت اور برائی پھیلنے والی ہے کہ کوئی گنہگار اس کی تکلیف وشدت سے نہیں بچ سکتا اور کوئی بھی اس کی ہیبت و پریشانی سے مستثنی نہیں ہوسکتا جو آسمان و زمین کو محیط ہوگی ان لوگوں میں ایمان وتقوی اور فکرآخرت کے ساتھ ایثار وہمدردی کا یہ جذبہ ہے کہ کھلاتے ہیں کھانا اس کے محبوب۔ حاشیہ (آیت) ” علی حبہ “ کی ضمیر اکثر حضرات مفسرین کی رائے میں طعام کی طرف ہے اسی لحاظ سے یہ ترجمہ کیا گیا اور حب مصدر بمعنی محبوب بھی آتا ہے اس وجہ سے محبوب ہونے کے باوجود لفظ کی تصریح کردی اور ساتھ ہی لفظ مرعوب کا اضافہ کرکے یہ ظاہر کیا گیا کہ مراد یہ ہے کہ جس وقت انسان کو اس کھانے کی رغبت و ضرورت ہے یا وہ اس کا محتاج ہو اس وقت کھلانا اور زائد فضیلت اور کمال کی صفت ہے گویا یہ اس آیت کا مفہوم ہوگیا (آیت) ” ویؤثرون علی انفسم ولو کان بھم خصاصۃ “۔ حافظ ابن کثیر (رح) نے بروایت مجاہد (رح) یہ بیان کیا کہ ائمہ مفسرین نے اسی کو ترجیح دی ہے اور اسکی تصریح آیت مبارکہ (آیت) ” واتی المال علی حبہ “۔ اور ” لن تنالو البرحتی تنفقوا مماتحبون “۔ میں ہے۔ بعض مفسرین نے حبہ کی ضمیر اللہ کی طرف راجع کی ہے یعنی علی حب اللہ تعالیٰ جس سے اخلاص اور آخرت کے اجر وثواب کی غرض کی طرف اشارہ کیا گیا یعنی دنیا میں اسکا کوئی عوض نہیں چاہتے ہوں گے۔ و مرغوب ہونے باوجود ہر مسکین ویتیم اور قیدی کو جو کسی بھی مصیبت میں گرفتار ہو۔ حاشیہ 1 (لفظ اسیرا کے ترجمہ میں مصیبت میں گرفتار “ کا لفظ بڑھا کر یہ اشارہ کیا گیا کہ اس اسیر وقیدی سے صرف وہی قیدی مراد نہیں جو جیل خانہ میں قید ہو بلکہ عام ہے خواہ یہ ظاہری اور حسی قیدی ہو یا معنا قیدی ہو یعنی مصائب وآلام میں گرفتار ہو۔ سعید بن جبیر (رح) اور حسن بصری (رح) سے منقول ہے قیدی سے اہل اسلام مراد ہے لیکن ابن عباس ؓ کی روایت میں ہے قیدیوں سے مراد وہ قیدی بھی ہیں جو مشرکین میں سے مسلمانوں کی قید میں ہوں چناچہ اسکی تائید وہ روایت کرتی ہے جس میں یہ بیان کیا گیا کہ آنحضرت ﷺ نے بدر کے قیدیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی ہدایت فرمائی چناچہ اس حکم کی تعمیل میں حضرات صحابہ نے بدر کے قیدیوں کو بہتر سے بہتر کھانا کھلانا شروع کردیا اور بعض تو انکو اپنے ساتھ کھلاتے حالانکہ وہ مسلمان نہ تھے اسیر کے مفہوم میں مقروض بھی داخل ہیں کیونکہ وہ بھی ایک طرح قید ہیں۔ عکرمہ ؓ سے منقول ہے اس سے مراد غلام ہیں اور متعدد احادیث میں غلاموں کے ساتھ احسان کرنے کی تاکید فرمائی گئی) (تفسیر ابن کثیر) انتہائی مروت اور اخلاص کے جذبہ سے یہ سب کچھ کرتے ہیں ان غرباء مساکین اور یتامی کو کہہ دیتے ہیں اے لوگو ! ہم کھلاتے ہیں تم کو صرف اللہ کی خوشنودی کے لئے ہم نہیں چاہتے ہیں تم سے کسی قسم کے بدلہ کو تم ہمیں اس کا کوئی مالی بدلہ دو یا ہماری توقیر وتعظیم کرو اور ہم نہیں چاہتے ہیں تم سے شکر گذاری کہ تم ہمارا شکر یہ ادا کرو ہم تو اپنے رب سے ڈرتے ہیں اس دن کی سختی اور ہیبت سے جو سخت اداسی اور چہروں کی گھٹن کا سبب ہوگا اس طرح کہ انسان کا چہرہ اس کلفت اور کوفت سے بگڑا ہوا نظر آنے لگے پیشانی سکڑ کر اوپر ہوجائے اور انکھیں پھٹی ہوئی ہوں تو یہ مخلصین اپنی اس ہمداردی واعانت اور انفاق پر غرور تو کیا بلکہ ڈرتے ہوں گے ایسے ہیبت و جلال کے دن سے (جو ہر ایک انسان کو اس طرح مرعوب وبدحواس بنادینے والا ہوگا) معلوم نہیں ہمارا یہ عمل ہمارا یہ صدقہ قبول بھی ہوتا ہے یا نہیں۔ 2 حاشیہ (یہ تشریح گویا اس آیت مبارکہ کے مضمون کے مطابق ہوسکے گی جو ارشاد فرمایا (آیت) ” کانوا قلیلا من الیل مایھجعون وبالاسحار ھم یستغفرون “ کہ بہت کم رات کا حصہ ہوتا ہے کہ اس میں وہ لیٹیں پوری رات ہی انکے پہلو بستر سے جدا رہتے ہیں اور اس انہماک فی العبادۃ کے باوجود حالت یہ ہوتی ہے کہ جب سحر کا وقت ہونے لگتا ہے تو خدا سے معافی مانگتے ہوتے ہیں۔ 12) یقیناً ایسے لوگ خداوند عالم کی طرف سے بڑے ہی اعزاز واکرام کے مستحق ہیں جس کے باعث بس خدا نے انکو بچا دیا اس دن کی تکلیف و برائی سے اور یہ فیصلہ کردیا کہ عطا کردے گا انکو تازگی اور سرور جو انکے چہروں پر برس رہا ہوگا اور مسرت و خوشی سے انکے چہرے جگمگا رہے ہوں گے اور ان تمام نعمتوں اور کرامتوں کے علاوہ دیدار خداوندی سے شاداں وفرحاں ہوں گے اور بدلہ دے گا اللہ انکو اس وجہ سے کہ انہوں نے صبر کیا دنیا کی شدتیں برداشت کیں خواہشات نفس کو روکا اور شکر و قناعت کرتے ہوئے غرباء و مساکین پر ایثار کیا ایک وسیع باغ کا جس کے پھل اور رزق سے انکی زندگی عیش و راحت کی ہوگی اور ریشمی پوشاک کا کہ زندگی کے عیش و راحت اور ہر لذت کے ساتھ لباس کی یہ عظمت انکو اور زیادہ بلندی و تقرب کا مقام بخشنے والی ہوگی اطمینان و سکون کا یہ عالم ہوگا کہ تکیہ لگائے ہوں گے اپنی مسندوں پر جو مزین اور مرصع تخت ہوں گے وہاں آرام و راحت کی یہ شان ہوگی کہ ادنی کلفت اور تعب کا نام ونشان بھی نہ ہوگا چناچہ نہیں دیکھتے ہوں گے وہاں دھوپ اور گرمی نہ ہی شدید سردی بلکہ وہاں کا موسم معتدل ہوگا نہ دھوپ کی تمازت ہوگی اور نہ ٹھہر جس سے انسانی بدن کو تکلیف ہوا کرتی ہے اور آرام و راحت نیز نعمتوں کی فراوانی کا یہ عالم ہوگا جھکے ہوئے ہوں گے ان پر اس کے سائے اور نیچے کردیئے گئے ہوں گے اس کے خوشے لٹکا کر تاکہ جب بھی اہل جنت کسی پھل اور خوشہ کے لینے کا ارادہ کریں بلاتکلف ہاتھ بڑھا کرلے لیں اور گھمائے جاتے ہوں گے ان پر برتن چاندی کے اور آبخورے جو معلوم ہورہے ہوں گے شیشے چمک اور لطافت میں درحقیقت۔ 1 حاشیہ 1 (ترجمہ میں ان الفاظ کا اضافہ اس لیے کیا گیا کہ عریبت کی رو سے قواریر کے بعد دوسری دفعہ قواریر ما قبل سے بدل اور بمنزلہ بیان ہے۔ 12) وہ شیشے ہی ہوں گے چاندی کے جن کا اہل جنت اندازہ کریں گے اندازہ کرنا کہ جس قدر چاہیں گے ان آبخوروں اور جام میں شراب طہور سما جائے گی کم وزائد طبیعت کے تقاضا اور خواہش کے مطابق وہ بھر جاتے ہوں اور یہ اس لیے کہ اہل جنت کو کسی طرح بھی طبعی گرانی نہ ہو جیسا کہ انسان کو دنیا میں پیش آتی ہے مثلا پیاس کی زیادتی پر گلاس چھوٹا ہو اور طبعی خواہش پوری نہ ہونے پر ذہنی کوفت ہوتی ہے یا کسی وقت تھوڑی مقدار کی خواہش ہے لیکن منہ کے سامنے ایک بہت بڑا لبریز پیالہ آجائے تو اس طرح کی معمولی الجھنوں سے بھی وہ بےفکر ہوں گے جیسا چاہیں گے اور جتنا چاہیں گے وہ جام شراب طہور سے بھرے ہوں گے اور پلائے جائیں گے وہ لوگ ایک اور جام۔ 2 حاشیہ 2 (یہ لفظ اس بات کی طرف اشارہ ہے یہاں دوبارہ (آیت) ” کا سا “ نکرہ کی صورت میں استعمال کیا جانا غیر الاولی کی نوعیت سے ہے تو ایک قسم شراب طہور کی وہ ہوگی جس میں زنجبیل ہوگی اور کوئی تعجب نہیں کہ جنت کے کھانوں سے قبل جو شراب طہور دی جائے وہ کافور کی خوشبو اور تاثیر کے ساتھ کھانوں اور پھلوں کی خواہش کو پیدا کرنے والی ہو تاکہ بھوک اور اشتہاء کی حالت میں جنت کے اطعمہ کھاتے جائیں کیونکہ ہر لذیذ طعام اور پھل کی لذت خواہش اکل پر موقوف ہے۔ کھانے کی خواہش کے بغیر لذیذ کھانا بھی مرغوب نہیں ہوتا اور کھانوں سے فراغت کے بعد ضرورت ہے کہ معدہ سے غذا کا انہضام ہوتا کہ طبعیت پر گرانی واقع نہ ہو تو اس وجہ سے یہ بعد کی شراب طہور زنجبیل والی ہوگی سبحان اللہ کیسا عجیب تناسب رکھا گیا، اللہم اجعلنا منھم وارزقنا بفضلک وکرمک من نعماء الجنۃ واسقنا من کوثر وسلسبیل آمین یا رب العالمین، ) جس میں ملا ہوگا زنجبیل (سونٹھ) جو ایک چشمہ ہے جنت میں جس کا نام لیا جاتا ہوگا سلسبیل اہل جنت اس نام سے اس چشمہ کا ذکر کرتے ہوں گے اور اعزاز واکرام کا یہ عالم ہوگا کہ گشت کرتے ہوں گے انکے سامنے خدمت گزار لڑکے جو ہمیشہ اپنے حسن و جمال پر قائم رہیں گئے جو حسن و جمال اور لطافت وصفاتی میں ایسے خوش منظر ہوں گے کہ اے دیکھنے والے جب تو انکو دیکھے تو انکو یہ سمجھے کہ یہ تو زمین پر بکھرے ہوئے خوبصورت موتی ہیں اور جنت کا حال کیا بیان کیا جائے اللہ اکبر ! بس یہ ہے کہ جب تو وہاں نظر ڈالے تو دیکھے گا تو بہت ہی عظیم نعمتیں اور بڑا ہی عظیم الشان ملک ہے کہ ان نعمتوں کی خوبی کا اندازہ ہوسکتا ہے اور نہ وہاں کی اس سلطنت کی شان و شوکت کا کوئی تصور ہوسکتا ہے اور ان اہل جنت پر ریشمی لباس ہوں گے سبز رنگ کے نہایت ہی قمتی گاڑھے ریشمی کپڑے بھی مزید ہوں گے تاکہ باریک لطیف اور دبیرہر قسم کے لباس استعمال کریں جو انکی عظمت ووقار کو اور بلند کرنے والے ہوں گے اور پہنائے جائیں گے انکو کنگن چاندی کے۔ 1 حاشیہ (ایک آیت میں ہے کہ سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے جیسا کہ ارشاد ہے (آیت) ” یحلون فیھا من اس اور من ذھب ولؤلؤا “ ممکن ہے کہ اہل جنت کے درجات کے لحاظ سے بعض کو سونے کے اور بعض کو چاندی کے دیئے جائیں۔ 12) تاکہ ریشمی اور قیمتی لباس کی آرائش کے ساتھ زیور سے انکو مزین کردیا جائے اور یہ زیور جنت کی شان کے مناسب ہوگا اور اس وجہ سے کہ مردودں نے اللہ کے حکم کی اطاعت میں اس قسم کی آراستگی وزینت سے دنیا میں پرہیز کیا تھا اب اللہ تعالیٰ اس نوع کی تمام زینتیں جنت میں حسا بھی عطا فرمادے گا اور پلائے گا انکو انکا پروردگار ایک خاص جام شراب طہور کا جو دونوں قسم کے جام کے علاوہ ہوگا جن کا ذکر پہلے ہوچکا اور ہوسکتا ہے کہ تمام نعمتوں کے بعد یہ خاص جام محبوب حقیقی کی طرف سے ایک خاص اعزاز کے ساتھ عطا کیا جائے جو خوشبو اور لطافت ولذت کے ساتھ طہوریت کا وصف بھی رکھتا ہوگا اور یہ طہوریت ایسی کامل اور مؤثر ہوگی جو اپنے پینے والے کو بھی ہر گندگی اور کدورت سے پاک وصاف کردے اس کا گھونٹ پیتے ہی قلب وبدن پاک وصاف ہوجائے اور پسینہ نکلے جس کی مہک مشک کی خوشبو سے بھی بڑھ کر ہوگی اور اس جام طہور کا نوش کرنیو الا اس کی تاثیر سے (آیت) ” ونزعنا ما فی صدورھم من غل “۔ کا مصداق اکمل ہوجائے گا اہل جنت کے سامنے شراب طہور کو پیش کرتے ہوئے کہا جاتا ہوگا اے جنتیو ! بیشک یہ ہے بدلہ تمہارے ایمان و اعمال صالحہ کا اور تمہاری کوشش اور عملی جدوجہد قابل قبول ہوئی اور محنت کارآمد ہوئی اور تمہارے رب کی بارگارہ میں اس کو سراہا گیا۔ حاشیہ (یہ وہی مضمون ہے جو آیت مبارکہ (آیت) ” ونودوا ان تلکم الجنۃ اور ثتموھا بما کنتم تعملون “۔ صدق اللہ العظیم “ میں بیان فرمایا گیا۔ 12) جس کو سن کر جنتی اس قدر خوش ہوں گے کہ انکی یہ خوشی جنت کی لذت سے زیادہ خوشگوار ہوگی۔ نسل انسانی کا عدم سے وجود میں آنا : (آیت) ” ھل اتی علی الانسان حین من الدھر “۔ سے واضح طور پر یہ بیان فرمادیا گیا کہ نسل انسانی نہ اپنے مادہ کے لحاظ سے اور نہ ہی اپنی اس صورت وضعیہ کے ساتھ ہمیشہ سے تھی بلکہ اس پر ایک وقت گذرا ہے کہ اس کا کوئی وجود اور نام ونشان ہی نہ تھا اس کا سلسلہ پیدائش تخلیق آدم (علیہ السلام) سے شروع ہوا اسکے بعد نسل انسانی بصورت توالد وتناسل بڑھتی رہی جیسے کہ ارشاد فرمایا گیا (آیت) ” انا خلقنا کم من ذکر وانثی وجعلنا کم شعوبا وقبائل لتعارفوا “۔ اور فرما دیا (آیت) ” الذی خلقکم من نفس واحدۃ وخلق منھا زوجھا وبث منھما رجالا کثیرا ونسآء “۔ بہرکیف اس کی پیدائش کی یہ ابتداء ہے یہی عقیدہ جملہ اہل کتاب کا ہے اور بعض دیگر مذاہب بھی اسکے قاتل ہیں، حکماء یونان اور فلاسفہ نوع انسانی کو قدیم زمانی کہتے ہیں دہریہ بھی مادہ کے قدیم ہونے کا قول اختیار کرتے ہوئے اوضاع فلکیہ اور تاثیر نجوم سے تجردات و انقلابات کے قائل ہیں یہ تمام باتیں محض ادہام اور تخیلات ہیں جن کو فلسفیانہ رنگ دے کر بیان کیا گیا حقیقت بس وہی ہے جو خداوندعالم خالق کائنات نے بیان کردی۔ بہرکیف اس آیت شریفہ سے صاف طور پر واضح ہے کہ انسان کوئی ایسی ہستی نہیں کہ جس کی خلقت اور پیدائش کی ابتداء نہ ہو اور وہ ہمیشہ سے اسی طرح چلا آیا ہو جیسا کہ فلاسفہ کا قول ہے کہ انسانی ہستی کی کوئی ابتداء نہیں اور وہ ہمیشہ سے پیدا ہوتا چلا آرہا ہے یعنی یہ سلسلہ ہمیشہ سے ہے کہ نطفہ سے انسان اور انسان سے نطفہ پیدا ہوتا ہے اور اس سلسلہ کی نہ کوئی ابتداء ہے اور نہ کوئی انتہاء ہے اور نہ اس طریقہ کے خلاف پیدائش ہوسکتی ہے۔ حق جل شانہ نے اس آیت میں اور دیگر آیات قرآنیہ میں فلاسفہ کے اس قول کی تردید کی ہے اور یہ فرمایا ہے کہ ان کا یہ قول بالکل غلط ہے بلکہ ایک وقت ایسا تھا کہ انسان کا نام ونشان بھی نہ تھا ہم نے اپنی قدرت سے اس سلسلہ کا اس طرح آغاز فرمایا کہ سب سے پہلے آدم (علیہ السلام) کو (آیت) ” حما مسنون “۔ بجتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا پھر اس میں روح ڈالی اس کے بعد ان کے بائیں پہلو سے انکی بیوی حوا (علیہ السلام) کو پیدا کیا بعد ازاں ہم نے یہ سلسلہ جاری کردیا کہ ایک ناپاک اور گندے پانی یعنی قطرہ منی سے انسان کو پیدا کرتے ہیں یہ ہماری قدرت ہے ہمارے سوا کسی میں قدرت نہیں کہ پانی کے ایک ناپاک اور بدبودار قطرہ سے ایسی زیبا شکل بنا سکے کسی نے کیا خوب کہا ہے۔ دہد نطفہ راصورتے چوں پری کہ کر دست برآب صورت گری۔ غرض یہ کہ انسان ابتداء میں معدوم تھا اور اسکو کسی قسم کا عقلی یا حسی وجود حاصل نہ تھا پھر خدا ہی نے اسکو وجود کا خلعت پہنایا انسان خود بخود وجود میں نہیں آگیا جیسا کہ فلاسفہ اور دھریہ کہتے ہیں کہ نوع انسانی اور صورت انسانی کا ظہور مادہ اور نیچر (فطرت) اور اسکے حرکت کا رہن منت ہے مسلمان یہ کہتا ہے کہ مادہ تو ایک بےشعور چیز ہے جو علم اور ادراک اور ارادہ واختیار سے بالکل عاری اور کو را ہے اس کی غیر شعوری اور غیرارادی اور غیر اختیاری حرکت سے یہ ذی شعور اور ذی علم اور ذی عقل انسان کس طرح وجود میں آگیا اور ایک گونگے اور بہرے مادہ (ایتھر اور نیچر) سے سمیع وبصیر اور متکلم یعنی سننے والا اور دیکھنے والا اور بولنے والا کیسے پیدا ہوگیا جس کمال اور جمال کا وجود خود اس مادہ کی ذات میں نہیں وہ کمال و جمال دوسروں کو کیا دے سکتا ہے کیا ایک برہنہ اور نادار اور بھوکا فقیر بھی کسی کو امیر اور مالدار بنا سکتا ہے مادہ پرستوں کو بھی اس کا اقرار ہے کہ مادہ میں کسی قسم کا کمال نہیں اور کوئی فیلسوف اور کوئی حکیم آج تک اس بات کا قائل نظر نہیں آیا کہ جس نے مادہ اور عناصر میں علم اور ادراک اور ارادہ اور اختیار کو تسلیم کیا ہو بلکہ تمام مادیین اس بات کو مانتے چلے آتے ہیں کہ جو افعال اس سے سرزد ہوتے ہیں وہ بےشعور اور بےاختیار صادر ہوتے ہیں۔ اب غور تو کیجئے کہ رحم مادر میں جب نطفہ قرار پکڑتا ہے اور لڑکا یا لڑکی بنتا ہے تو ماں کو بھی خبر نہیں کہ میرے پیٹ میں کی صنعت گری ہو رہی ہے اور نقاش قدرت میرے شکم میں کیا کیا نقش ونگار کررہا ہے لڑکا بنا رہا ہے یا لڑکی اور ظاہر ہے وہ نطفہ تو ایک قطرہ آب ہے اسے تو کچھ بھی خبر نہیں اب حیرت کہ مجھ میں کیا تغیرات اور انقلابات ہورہے ہیں۔ معدے میں غذا ہضم ہورہی ہے اور کیا کیا ہورہا ہے مگر معدے کو کچھ خبر نہیں اب حیرت کا مقام ہے کہ انسان میں تو حسن و جمال بھی ہو اور فضل و کمال بھی ہو اور عقل وادراک بھی ہو اور وہ چیز یعنی مادہ جس کو منکرین خدا اس انسان کا بلکہ سارے عالم کا خالق سمجھتے ہیں اس میں یہ تمام صفات کمال بالکلیہ نیست ونابود ہوں کیا عقل سلیم اس امر کو تسلیم کرتی ہے کہ کوئی شخص دوسرے کو ایسی چیز عطا کردے جس کا خود اسکی ذات میں نام ونشان نہ ہو ہرگز نہیں معلوم ہوا کہ کسی زبردست اور بااختیار حکیم وعلیم نے انسان کو یہ کمالات عطاکئے ہیں وہی خدا اور واجب الوجود ہے اور وہی ذات بابرکات واہب الوجود ہے جس نے انسان کو وجود عطا کیا ہے اور وہی اس کے وجود کا رب اور مربی ہے جس کی عنایت اور رحمت کا ہر لمحہ اور ہر لحظہ یہ انسان محتاج ہے اسی کو ہم اللہ اور خدا کہتے ہیں۔ افسوس اور صدا افسوس ہے ان محرو میں عقل پر جواب بھی یہ سمجھیں کہ کوئی واجب الوجود اور واہب الوجود نہیں بلکہ اس بےشعور مادہ کے طبعی تاثیرات سے تمام کارخانہ عالم چل رہا ہے اس صورت حال پر بلاشبہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ جس طرح بت پرست بےجان پتھروں کے سامنے سرجھکائے ہوئے انکو معبود بنائے ہوئے ہیں اسی طرح یہ مادہ پرست ایک بےجان اور بےشعور مادہ کو اپنا صانع اور مدبر اور مربی سمجھے ہوتے ہیں کیا یہ رونے کا مقام نہیں۔ بریں عقل و دانش بباید گریست۔ اس لحاظ سے قرآن کریم میں جتنے مضامین بت پرستوں کے حق میں نازل ہوئے ہیں وہ سب ان دہریوں اور منکرین خدا پر صادق آتے ہیں۔ ڈارون کا عجیب و غریب نظریہ : انیسویں صدی عیسوی میں سرزمین مغرب میں ایک مادی فلسفی شخص گذرا ہے جس کا نام ڈارون تھا اس نے اپنی فلسفیانہ تحقیقات میں ایک یہ انکشاف کیا کہ انسان اصل میں بندر تھا بتدریج ارتقائی مراحل طے کرتے کرتے بالآخر انسان بن گیا۔ مغربیت سے مرعوب اذہان نے بلادلیل اور بغیر اسکے کہ اپنی عقل اور فکری صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں اس نظریہ کو قبول کرلیا اور اس کو پھیلانا شروع کردیا حالانکہ اس پر آج تک نہ کوئی دلیل عقلی پیش کی جاسکی اور نہ ہی کوئی دلیل تجربی۔ ہر صاحب عقل ادنی تعقل سے سمجھ سکتا ہے کہ یہ نظریہ صرف ایسا شخص ہی پیش کرسکتا ہے جو فاتر العقل ہو اور ایسا شخص ہی اسکو قبول بھی کرسکتا ہے، سمجھنے کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بیشمار انواع و اقسام کی مخلوقات پیدا کی ہیں جانوروں میں گدھا، کتا، خنزیر، سانپ، بچھو، کیڑے مکوڑے چرند، پرند غرض حیوانوں میں بروبحر اور فضاء کی یہ بیشمار مخلوقات میں ہر ایک کی طبیعت اور فطرت بالکل جدا ہے یہ کہنا کہ فلاں حیوان یعنی بندر ترقی کرکے انسان بن گیا ایسی ہی مہمل تخیل کو تھیوری کہنا اور بھی خلاف عقل بات ہے۔ کیا اس تھیوری کے قاتلین اس کا جواب دیں گے کہ یہ ارتقاء صرف ایک نوع حیوان میں کیوں ہوا دیگر حیوانات اس سے کیوں محروم رہے۔ پھر (2) یہ بھی بتائیں کہ نوع حیوان کے علاوہ نباتات و جمادات بھی ہیں ان میں یہ ارتقائی مراحل کیوں نہیں واقع ہوئے ایک نوع کا ارتقاء اسی کی حدود میں محدود رہتا ہے ایک گھاس کا تنکا ارتقاء کے بعد تناور درخت تو ہوسکتا ہے لیکن پہاڑ نہیں بن سکتا علی ھذا القیاس زمین کی سطح پر ابھرنے والا ٹیلا پہاڑ تو ہوجائے گا لیکن وہ کوئی اور نوع کی شکل اختیار کرکے اس میں تبدیل ہوجائے یہ ناممکن اور خلاف عقل ہے۔ پھر یہ نظریہ رکھنے والے یہ بتائیں بالفرض اگر بندر نے ارتقاء کرکے انسانی پیکر اور وضع اختیار کرلی تو یہ ارتقاء نوعی تھا یا ارتقاء فرد تھا ظاہر ہے کہ چند بندروں کے ارتقاء کا تو مسئلہ بھی نہیں نوع من حیث النوع کے ارتقاء کا دعوی ہے تو اصولا یہ بات ہے کہ کوئی بھی چیز تغیر وتبدل قبول کرنے کے بعد اپنی پہلی صورت کو چھوڑ دیتی ہے تو یہ کس قسم کا ارتقاء ہوا کہ دنیا میں بندر بھی موجود اور ارتقائی شکل اختیار کرنے والے انسان بھی موجود (تفصیل کی گنجائش نہیں) بلاشبہ کہا جاسکتا ہے کہ دنیا میں بہت سے مہمل اور خلاف عقل نظریات ظاہر ہوتے ہیں لیکن ایسا مہمل اور خلاف عقل اور مضحکہ خیز نظریہ کوئی بھی سننے میں نہیں آیا کہ اچھے خاصے عقل وفہم اور شعور و تدبر رکھنے والی اشرف المخلوق حسن و جمال اور کمالات و فضائل کے جوہر سے آراستہ انسانوں کو بندر کی اولاد تجویز کردیا جائے (بریں عقل و دانش بباید گریست) غرض عقل اور فطرت کا تقاضا یہی ہے کہ اسی پر ایمان لایاجائے جو رب العالمین نے انسانی تخلیق کے بارے میں فرما دیا کہ (آیت) ” خلقکم من نفس واحدۃ وخلق منھا زوجھا وبث منھما رجالا کثیرا ونسآء “۔ اور (آیت) ” انا خلقنا الانسان میں نطفۃ امشاج نیتلیہ “ صدق اللہ العظیم ونحن علی ذالک من الشاھدین ولموقنین وعلی ذالک آمنا وعلیہ نحی ون موت ونبعث عند رب العالمین “۔ عجب بات ہے کہ اس نظریہ کے قائلین ایک طرف تو بندر کے ترقی کرکے انسان بن جانے کو تسلیم کرتے ہیں دوسری طرف جب قرآن کریم میں بنی اسرائیل کے واقعات میں انکے نافرمان افراد کے مسخ کے واقعہ کا ذکر آتا ہے کہ انکو مسخ کرکے بندر بنادیا گیا تو اسکو خلاف فطرت اور خلاف عقل کہہ کر رد کردیتے ہیں ایسے لوگوں کو تو سہولت سے یہ بات تسلیم کرلینی چاہئے کہ جب بندر ترقی کرکے انسان بن سکتا ہے تو ضرور ایسا ہونا چاہئے کہ انسان تنزل کرکے بندر بن جائے بلکہ یہ شکل تو آسان ہے بہ نسبت پہلی صورت کے کیونکہ انکے قانون کے مطابق یہ صورت توکل شیء یرجع الی اصلہ کے تحت آسکتی ہے۔
Top